کراچی کے6 اضلاع میں بلدیاتی امور درہم برہمکچرے کے ڈھیر لگ گئے
صفائی ستھرائی کے کام مہینوں سے ٹھپ پڑے ہیں،شہری دستاویزات کی تصدیق کرانے کیلیے دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور
کراچی کے 6 اضلاع میں بلدیات کے اعلیٰ حکام کی غفلت سے بلدیاتی امور درہم برہم ہوگئے ہیں اور صفائی ستھرائی کے کام ٹھپ پڑے ہیں، سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، بلدیاتی اداروں اور واٹر بورڈ میں ہم آہنگی کے فقدان نے پانی وسیوریج کے مسائل پیدا کردیے ہیں علاقوں میں پانی کی قلت ہوگئی ہے اور گٹر ابل رہے ہیں۔
سینٹری ورکرز ڈیزل کی چوری کرکے کچرا لینڈفل سائٹ پر ڈالنے کے بجائے ندی نالوں اور خالی پلاٹوں پر ڈال رہے ہیں، ناظمین کے نظام کے خاتمے کے بعد بلدیاتی نظام پٹری سے اتر چکاہے، شہری اپنی دستاویزات کی تصدیق کیلیے بھی دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں، اراکین قومی وصوبائی اسمبلی بھی نام ونمود حاصل کرنے کیلیے نمائشی دورے کررہے ہیں، بلدیاتی اداروں میں صرف ٹرانسفر پوسٹنگ اور ٹھیکوں میں کمیشن کیلیے اعلیٰ حکام مصروف عمل ہیں، تفصیلات کے مطابق کراچی میں بلدیہ شرقی ، غربی، وسطی، جنوبی، کورنگی اور ملیر میں صفائی ستھرائی کے کام کئی مہینوں سے متاثر ہیں، تمام بلدیاتی اداروں میں ڈیزل کی چوری عام ہونے کی وجہ سے کچرا اٹھانے والی گاڑیاں کئی مہینوں سے بیشتر علاقوں سے کچرا نہیں اٹھارہی ہیں جن علاقوں سے کچرا اٹھایا جاتا ہے وہاں سے گاڑیاں لینڈ فل سائٹ کے بجائے لیاری ندی ، ملیر ندی اور نالوں پر کچرا ڈال رہی ہیں، ذرائع نے بتایا کہ ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشنز کے اعلیٰ حکام ٹھیکوں سے کمیشن کی مد میں ماہانہ کروڑوں روپے کمیشن وصول کررہے ہیں، پارکس اور کھیلوں کے میدان میں مٹی اور کھاد کے فنڈز میں بھی خرد برد کرکے بڑے پیمانے پر رشوت ستانی کی جاتی ہے ۔
جس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑتا ہے، ذرائع نے بتایا کہ اعلیٰ افسران کی کرپشن کے باعث نچلا اسٹاف بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے میں مصروف ہے، کچرا گاڑیوں کے ڈرائیور علاقوں سے کچرا اٹھاکر لینڈ فل سائٹ پر کچرا پھینکنے کے بجائے قریبی ویران مقامات یا برساتی نالوں میں کچرا ڈمپ کردیتے ہیں، لیاری ندی اور ملیر ندی میں بھی بڑے پیمانے پر کچرا پھینکا جارہا ہے ، بلدیاتی اداروں کی غفلت کے باعث علاقوں میں کچرے کے ڈھیر نہ صرف شاہراہوں، سڑکوں بلکہ مساجد کے آس پاس بھی لگ گئے ہیں، ناظمین کا نظام ختم ہوئے 4 سال گزرچکے ہیں اور بلدیاتی انتخابات بھی ابھی تک منعقد نہیں ہوئے ہیں، بلدیاتی منتخب نمائندوں کی عدم موجودگی کے باعث عوام کو اپنے مسائل کے حل میں سخت مشکلات کا سامنا ہے، اس وقت عوام کے لیے سب سے بڑا مسئلہ اپنے دستاویزات کی تصدیق ہے، ناظمین کے دور میں کاغذات کی تصدیق ایک آسان کام سمجھا جاتا تھا تاہم اراکین قومی وصوبائی اسمبلی کا حلقہ بڑا ہونے سے عوام کی ان تک رسائی بہت مشکل کام ہے، شہریوں کو کاغذات کی تصدیق کیلیے گریڈ سترہ کے افسران کی منت سماجت کرنی پڑتی ہے، شہر کے مخدوش حالات کے باعث سرکاری افسران اجنبی لوگوں کے کاغذات تصدیق کرنے سے احتراز کرتے ہیں۔
سینٹری ورکرز ڈیزل کی چوری کرکے کچرا لینڈفل سائٹ پر ڈالنے کے بجائے ندی نالوں اور خالی پلاٹوں پر ڈال رہے ہیں، ناظمین کے نظام کے خاتمے کے بعد بلدیاتی نظام پٹری سے اتر چکاہے، شہری اپنی دستاویزات کی تصدیق کیلیے بھی دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں، اراکین قومی وصوبائی اسمبلی بھی نام ونمود حاصل کرنے کیلیے نمائشی دورے کررہے ہیں، بلدیاتی اداروں میں صرف ٹرانسفر پوسٹنگ اور ٹھیکوں میں کمیشن کیلیے اعلیٰ حکام مصروف عمل ہیں، تفصیلات کے مطابق کراچی میں بلدیہ شرقی ، غربی، وسطی، جنوبی، کورنگی اور ملیر میں صفائی ستھرائی کے کام کئی مہینوں سے متاثر ہیں، تمام بلدیاتی اداروں میں ڈیزل کی چوری عام ہونے کی وجہ سے کچرا اٹھانے والی گاڑیاں کئی مہینوں سے بیشتر علاقوں سے کچرا نہیں اٹھارہی ہیں جن علاقوں سے کچرا اٹھایا جاتا ہے وہاں سے گاڑیاں لینڈ فل سائٹ کے بجائے لیاری ندی ، ملیر ندی اور نالوں پر کچرا ڈال رہی ہیں، ذرائع نے بتایا کہ ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشنز کے اعلیٰ حکام ٹھیکوں سے کمیشن کی مد میں ماہانہ کروڑوں روپے کمیشن وصول کررہے ہیں، پارکس اور کھیلوں کے میدان میں مٹی اور کھاد کے فنڈز میں بھی خرد برد کرکے بڑے پیمانے پر رشوت ستانی کی جاتی ہے ۔
جس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑتا ہے، ذرائع نے بتایا کہ اعلیٰ افسران کی کرپشن کے باعث نچلا اسٹاف بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے میں مصروف ہے، کچرا گاڑیوں کے ڈرائیور علاقوں سے کچرا اٹھاکر لینڈ فل سائٹ پر کچرا پھینکنے کے بجائے قریبی ویران مقامات یا برساتی نالوں میں کچرا ڈمپ کردیتے ہیں، لیاری ندی اور ملیر ندی میں بھی بڑے پیمانے پر کچرا پھینکا جارہا ہے ، بلدیاتی اداروں کی غفلت کے باعث علاقوں میں کچرے کے ڈھیر نہ صرف شاہراہوں، سڑکوں بلکہ مساجد کے آس پاس بھی لگ گئے ہیں، ناظمین کا نظام ختم ہوئے 4 سال گزرچکے ہیں اور بلدیاتی انتخابات بھی ابھی تک منعقد نہیں ہوئے ہیں، بلدیاتی منتخب نمائندوں کی عدم موجودگی کے باعث عوام کو اپنے مسائل کے حل میں سخت مشکلات کا سامنا ہے، اس وقت عوام کے لیے سب سے بڑا مسئلہ اپنے دستاویزات کی تصدیق ہے، ناظمین کے دور میں کاغذات کی تصدیق ایک آسان کام سمجھا جاتا تھا تاہم اراکین قومی وصوبائی اسمبلی کا حلقہ بڑا ہونے سے عوام کی ان تک رسائی بہت مشکل کام ہے، شہریوں کو کاغذات کی تصدیق کیلیے گریڈ سترہ کے افسران کی منت سماجت کرنی پڑتی ہے، شہر کے مخدوش حالات کے باعث سرکاری افسران اجنبی لوگوں کے کاغذات تصدیق کرنے سے احتراز کرتے ہیں۔