آزاد کشمیر انتخابات دھاندلی کیسے ہوتی ہے
آزاد کشمیر انتخابات میں وفاقی حکومت کی مداخلت نئی بات نہیں۔ ہر انتخاب سے قبل ریاستی قیادت کی ہمدردیاں خریدی جاتی ہیں
دفتر سے چھٹی تھی۔ ہفتہ وار تعطیل کے باعث گاؤں اور آزاد کشمیر سے احباب و رشتے داروں سے ٹیلی فونک رابطے ہوئے۔ ژالہ باری کے باعث فروٹس کی تباہی، مکئی، لوبیا اور سبزیوں کے نقصانات پر تبادلہ خیال ہوا۔ 25 جولائی کو ہونے والے قانون ساز اسمبلی کے انتخابات پر بات چیت ہوئی۔
آزاد کشمیر کابینہ نے تاریخ میں پہلی بار ریاست کا بجٹ منظور نہیں کیا۔ قانون ساز اسمبلی کا اجلاس بجٹ پیش کیے بغیر ملتوی ہوگیا۔ اس کے ساتھ ساتھ اسمبلی انتخابات سے متعلق بھی گفتگو ہوئی۔ مسلم لیگ (ن) کے کچھ پنچھی تحریک انصاف میں اڑان بھر رہے تھے، کئی الیکٹیبلز آشیانے بدل رہے ہیں۔ وفاقی حکومت پانی کی اسکیمیں، پگڈنڈیوں کی پختگی اور رابطہ سڑکوں کےلیے فنڈز جاری کررہی ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ وزیر امور کشمیر علی امین گنڈا پور تو بلدیاتی سطح پر فنڈز کی برسات کر رہے ہیں۔
ان خبروں اور افواہوں کی تصدیق کےلیے آزاد کشمیر میں موجود صحافیوں، بیوروکریٹس سمیت کئی انتظامی افسران سے رابطے کے بعد معلوم ہوا کہ وفاقی حکومت آزاد کشمیر اسمبلی الیکشن میں قبل از انتخابات دھاندلی کے پرانے ریکارڈ توڑ رہی ہے۔
آزاد کشمیر میں دھاندلی کیسے ہوتی ہے؟ وفاق میں برسر اقتدار سیاسی جماعت قانون ساز اسمبلی انتخابات میں کامیاب کیسے ہوجاتی ہے؟ دھاندلی کا راستہ روکنے کےلیے اقدامات کیوں نہیں کیے جاتے؟ قانون ساز اسمبلی میں ریاست کا سالانہ بجٹ پیش کیوں نہیں ہوا؟ ان تمام سوالات کے جواب جاننے کےلیے آزاد کشمیر انتخابات اور بجٹ کے معاملات کو سمجھنا ضروری ہے۔
آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کے انتخابات 25 جولائی کو ہوں گے۔ ریاست کے 45 حلقوں میں 28 لاکھ 17 ہزار 90 ووٹرز اپنی رائے کا اظہار کریں گے۔ 33 ممبران اسمبلی کا انتخابات آزاد کشمیر کے شہری کریں گے جبکہ مہاجرین جموں و کشمیر مقیم پاکستان کے چار لاکھ دو ہزار چار سو اکتالیس ووٹرز 12 ممبران قانون ساز اسمبلی کا انتخاب کرتے ہیں۔ انتخابات میں مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور مسلم کانفرنس نے امیدواروں کے نام کا اعلان کردیا ہے۔ الیکشن سے قبل ہی ریاستی انتخابات میں وفاق کی مداخلت پر تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ریاست جموں و کشمیر کی تاریخ میں پہلی بار ریاستی کابینہ نے بجٹ کی منظوری نہیں دی۔ بلکہ قانون ساز اسمبلی کا اجلاس بلانے کے باوجود بجٹ پیش نہیں کیا گیا۔
سوال یہ ہے کہ ریاستی کابینہ نے بجٹ کی منظوری کیوں نہیں دی؟ بجٹ میں ایسے کون سے معاملات تھے جو منظوری میں رکاوٹ بنے؟ سوال تو یہ بھی ہے کہ انتخابات میں دھاندلی کون کررہا ہے؟ دھاندلی کےلیے کون سے طریقے اختیار کیے جارہے ہیں؟ انتخابات پر سیاسی جماعتیں تحفظات کا اظہار کیوں کررہی ہیں؟
وفاق اور ریاست جموں و کشمیر میں تنازعے کی تین بڑی وجوہ ہیں۔ پہلی وجہ، فنانس بل ہے۔ وفاقی حکومت نے ریاست میں چلنے والی کمپنیز پر ٹیکس کی شرح ایک فیصد مختص کرکے آزاد کشمیر حکومت کے اختیارات چھین لیے ہیں۔ آزاد کشمیر حکومت کمپنیز پر تین فیصد ٹیکس عائد کرنا چاہتی تھی۔ لیکن وفاقی حکومت نے انتظامی معاملات میں مداخلت کرتے ہوئے ریاست سے ریونیو جنریشن کا ذریعہ چھین لیا۔ ذرائع کے مطابق صرف کوہالہ ہائیڈل پاور منصوبے سے ریاست کو 21 ارب ریونیو حاصل ہونا تھا، لیکن وفاقی حکومت نے کمپنی سے براہ راست ڈیل کرکے ریاستی حکومت کو 14 ارب کا نقصان پہنچا دیا۔ یہی نہیں ایسے درجنوں منصوبے ہیں جہاں آزاد کشمیر حکومت کی عملداری ختم کردی ہے۔
آزاد کشمیر میں وفاقی حکومت کے تحت چلنے والے منصوبوں کی نگرانی کا انتظام آئینی طور پر وفاق اور آزاد حکومت مل کر کرتی تھیں، لیکن وفاق کی جانب سے ایک مراسلے کے بعد آزاد کشمیر کے افسران کو کسی بھی منصوبے کے جائزے اور نگرانی سے روک دیا گیا۔ باوجود اس کے کہ ریاست جموں و کشمیر کا ٹیکس کولیکشن کا الگ سے ادارہ سینٹرل بورڈ آف ریونیو موجود ہے۔ جس کی کوششوں کے باعث ریاست گزشتہ چار برس کے دوران انتظامی اخراجات میں خود کفیل ہوچکی ہے۔ لیکن درجنوں منصوبوں میں اربوں روپے کا ٹیکس ریلیف دے کر جہاں اپنے لوگوں پر نوازشات کی جارہی ہیں، وہیں آزاد کشمیر کو ٹیکس کولیکشن میں نقصان پہنچایا جارہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ وفاقی حکومت نجی اداروں کے ساتھ براہ راست ڈیل کیوں کررہی ہے؟ کون سے افراد پر نوازشات کی جارہی ہیں؟
آزاد کشمیر حکومت اور وفاق کے درمیان اختلافات کی دوسری بڑی وجہ 5 ارب کے فنڈز ہیں۔ یہ فنڈز وفاقی حکومت آزاد حکومت کی مشاورت سے خرچ کرتی ہے۔ اس بار وزارت امور کشمیر نے ریاستی حکومت سے یہ پانچ ارب کے فنڈز اپنے امیدواران برائے قانون ساز اسمبلی کو دینے کا مطالبہ کیا، جسے قانون ساز اسمبلی اور کابینہ نے مسترد کردیا۔ وفاقی حکومت کی خواہش تھی کہ ان کے امیدواروں کو 5،5 کروڑ روپے ملیں اور وہ اپنی انتخابی مہم کے دوران ووٹ حاصل کرنے کےلیے انہیں خرچ کرسکیں۔ ماضی میں وفاقی حکومت یہ فنڈز کشمیر کونسل کے ذریعے سے خرچ کرتی تھی، لیکن 13 ویں ترمیم کے بعد کشمیر کونسل سے یہ اختیار چھین لیا گیا۔ ذرائع کے مطابق آزاد حکومت کی جانب سے پابندی کے باوجود وزارت امور کشمیر اپنے امیدواران کے ذریعے بلدیاتی سطح پر 10 سے 15 لاکھ کے چھوٹے چھوٹے منصوبے شروع کررہی ہے۔ ان منصوبوں کے ذریعے چھوٹی آبادیوں سے ووٹ اور ہمدردیاں سمیٹی جارہی ہیں۔ چونکہ وزارت امور کشمیر نہ تو آزاد حکومت اور نہ ہی الیکشن کمیشن آزاد کشمیر کو جواب دہ ہے، اس لیے ان فنڈز پر دونوں ادارے سوال نہیں اٹھا سکتے۔
آزاد کشمیر حکومت کو وفاقی حکومت پر تیسرا بڑا اعتراض انتخابات میں براہ راست مداخلت پر ہے۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم پاکستان آزاد کشمیر انتخابات کی براہ راست نگرانی کررہے ہیں۔ انہوں نے متعدد مواقع پر اپنی پارٹی قیادت کو انتخابات میں کامیابی کےلیے تمام دستیاب وسائل استعمال کرنے کی ہدایت دی اور ہر صورت میں الیکشن جیتنے کا ٹارگٹ بھی دے رکھا ہے۔ اسی حوالے سے تحریک انصاف کی مرکزی اور آزاد کشمیر قیادت الیکٹیبلز کی ہمدردیاں خریدنے کی کوشش کررہی ہے۔ اس حوالے سے الیکشن فنڈز، ترقیاتی منصوبے اور اہم وزارتوں کی پیشکش بھی کی جارہی ہے۔ ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ مسلم لیگ ن سے وابستہ اہم ٹکٹ ہولڈرز جبکہ پیپلز پارٹی کے امیدواروں سے بھی رابطے کیے جارہے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ تحریک انصاف مائیکرو لیولز پر بھی الیکشن مینیج کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔
دریں اثنا پاکستان میں مقیم کشمیری مہاجرین کی 12 نشستوں پر بھی صوبائی حکومتوں کے ذریعے دھاندلی عروج پر ہے۔ کشمیری قیادت نے الزام عائد کیا ہے کہ وفاقی وزیر داخلہ نادرا کے ساتھ مل کر کشمیری مہاجرین کے ووٹ کم کر رہے ہیں۔ مہاجرین کے حلقوں میں پولنگ اسٹیشن دور دراز قائم کرکے ووٹرز کو انتخابی عمل سے دور بھی کیا جارہا ہے۔ آزاد کشمیر کی سیاسی قیادت نادرا اور وزارت داخلہ کی مداخلت پر بارہا اپنے تحفظات کا اظہار کر رہی ہے۔
آزاد کشمیر انتخابات میں وفاقی حکومت کی مداخلت کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہر انتخاب سے قبل ریاستی قیادت کی ہمدردیاں خریدی جاتی ہیں۔ چند مخصوص خاندانوں پر نوازشات کی جاتی ہیں اور پھر اپنی مرضی کی حکومت تیار کی جاتی ہے۔ پاکستان میں مقیم مہاجرین کی نشستیں دھاندلی کا بنیادی عنصر ہیں۔ وفاقی حکومت مہاجرین کی نشستوں پر اپنے نمائندے منتخب کروا کر اپنے ایجنڈے کی تکمیل کی جارہی ہے۔ آزاد کشمیر میں کوئی بھی ایسا قائد نہیں ہے، جس نے گزشتہ دو دہائیوں کے دوران اپنی سیاسی ہمدردیاں تبدیل نہ کی ہوں۔
ضرورت اس امر کی ہے پاکستانی قیادت اور سیاسی جماعتیں آزاد کشمیر انتخابات میں اپنی مداخلت ختم کریں۔ عوامی نمائندوں کی خریدو فروخت کے بجائے عوامی فیصلے کا انتظار کریں، تاکہ غیر جانبدار الیکشن کا انعقاد منعقد ہوسکے۔ وگرنہ الیکشن ایک پتلی تماشا بن جائے گا اور کٹھ پتلی حکومتیں ایسے ہی آپ کے اشاروں پر ناچتی رہیں گی اور پاکستان کا مقدمہ کمزور ہوتا جائے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
آزاد کشمیر کابینہ نے تاریخ میں پہلی بار ریاست کا بجٹ منظور نہیں کیا۔ قانون ساز اسمبلی کا اجلاس بجٹ پیش کیے بغیر ملتوی ہوگیا۔ اس کے ساتھ ساتھ اسمبلی انتخابات سے متعلق بھی گفتگو ہوئی۔ مسلم لیگ (ن) کے کچھ پنچھی تحریک انصاف میں اڑان بھر رہے تھے، کئی الیکٹیبلز آشیانے بدل رہے ہیں۔ وفاقی حکومت پانی کی اسکیمیں، پگڈنڈیوں کی پختگی اور رابطہ سڑکوں کےلیے فنڈز جاری کررہی ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ وزیر امور کشمیر علی امین گنڈا پور تو بلدیاتی سطح پر فنڈز کی برسات کر رہے ہیں۔
ان خبروں اور افواہوں کی تصدیق کےلیے آزاد کشمیر میں موجود صحافیوں، بیوروکریٹس سمیت کئی انتظامی افسران سے رابطے کے بعد معلوم ہوا کہ وفاقی حکومت آزاد کشمیر اسمبلی الیکشن میں قبل از انتخابات دھاندلی کے پرانے ریکارڈ توڑ رہی ہے۔
آزاد کشمیر میں دھاندلی کیسے ہوتی ہے؟ وفاق میں برسر اقتدار سیاسی جماعت قانون ساز اسمبلی انتخابات میں کامیاب کیسے ہوجاتی ہے؟ دھاندلی کا راستہ روکنے کےلیے اقدامات کیوں نہیں کیے جاتے؟ قانون ساز اسمبلی میں ریاست کا سالانہ بجٹ پیش کیوں نہیں ہوا؟ ان تمام سوالات کے جواب جاننے کےلیے آزاد کشمیر انتخابات اور بجٹ کے معاملات کو سمجھنا ضروری ہے۔
آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کے انتخابات 25 جولائی کو ہوں گے۔ ریاست کے 45 حلقوں میں 28 لاکھ 17 ہزار 90 ووٹرز اپنی رائے کا اظہار کریں گے۔ 33 ممبران اسمبلی کا انتخابات آزاد کشمیر کے شہری کریں گے جبکہ مہاجرین جموں و کشمیر مقیم پاکستان کے چار لاکھ دو ہزار چار سو اکتالیس ووٹرز 12 ممبران قانون ساز اسمبلی کا انتخاب کرتے ہیں۔ انتخابات میں مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور مسلم کانفرنس نے امیدواروں کے نام کا اعلان کردیا ہے۔ الیکشن سے قبل ہی ریاستی انتخابات میں وفاق کی مداخلت پر تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ریاست جموں و کشمیر کی تاریخ میں پہلی بار ریاستی کابینہ نے بجٹ کی منظوری نہیں دی۔ بلکہ قانون ساز اسمبلی کا اجلاس بلانے کے باوجود بجٹ پیش نہیں کیا گیا۔
سوال یہ ہے کہ ریاستی کابینہ نے بجٹ کی منظوری کیوں نہیں دی؟ بجٹ میں ایسے کون سے معاملات تھے جو منظوری میں رکاوٹ بنے؟ سوال تو یہ بھی ہے کہ انتخابات میں دھاندلی کون کررہا ہے؟ دھاندلی کےلیے کون سے طریقے اختیار کیے جارہے ہیں؟ انتخابات پر سیاسی جماعتیں تحفظات کا اظہار کیوں کررہی ہیں؟
وفاق اور ریاست جموں و کشمیر میں تنازعے کی تین بڑی وجوہ ہیں۔ پہلی وجہ، فنانس بل ہے۔ وفاقی حکومت نے ریاست میں چلنے والی کمپنیز پر ٹیکس کی شرح ایک فیصد مختص کرکے آزاد کشمیر حکومت کے اختیارات چھین لیے ہیں۔ آزاد کشمیر حکومت کمپنیز پر تین فیصد ٹیکس عائد کرنا چاہتی تھی۔ لیکن وفاقی حکومت نے انتظامی معاملات میں مداخلت کرتے ہوئے ریاست سے ریونیو جنریشن کا ذریعہ چھین لیا۔ ذرائع کے مطابق صرف کوہالہ ہائیڈل پاور منصوبے سے ریاست کو 21 ارب ریونیو حاصل ہونا تھا، لیکن وفاقی حکومت نے کمپنی سے براہ راست ڈیل کرکے ریاستی حکومت کو 14 ارب کا نقصان پہنچا دیا۔ یہی نہیں ایسے درجنوں منصوبے ہیں جہاں آزاد کشمیر حکومت کی عملداری ختم کردی ہے۔
آزاد کشمیر میں وفاقی حکومت کے تحت چلنے والے منصوبوں کی نگرانی کا انتظام آئینی طور پر وفاق اور آزاد حکومت مل کر کرتی تھیں، لیکن وفاق کی جانب سے ایک مراسلے کے بعد آزاد کشمیر کے افسران کو کسی بھی منصوبے کے جائزے اور نگرانی سے روک دیا گیا۔ باوجود اس کے کہ ریاست جموں و کشمیر کا ٹیکس کولیکشن کا الگ سے ادارہ سینٹرل بورڈ آف ریونیو موجود ہے۔ جس کی کوششوں کے باعث ریاست گزشتہ چار برس کے دوران انتظامی اخراجات میں خود کفیل ہوچکی ہے۔ لیکن درجنوں منصوبوں میں اربوں روپے کا ٹیکس ریلیف دے کر جہاں اپنے لوگوں پر نوازشات کی جارہی ہیں، وہیں آزاد کشمیر کو ٹیکس کولیکشن میں نقصان پہنچایا جارہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ وفاقی حکومت نجی اداروں کے ساتھ براہ راست ڈیل کیوں کررہی ہے؟ کون سے افراد پر نوازشات کی جارہی ہیں؟
آزاد کشمیر حکومت اور وفاق کے درمیان اختلافات کی دوسری بڑی وجہ 5 ارب کے فنڈز ہیں۔ یہ فنڈز وفاقی حکومت آزاد حکومت کی مشاورت سے خرچ کرتی ہے۔ اس بار وزارت امور کشمیر نے ریاستی حکومت سے یہ پانچ ارب کے فنڈز اپنے امیدواران برائے قانون ساز اسمبلی کو دینے کا مطالبہ کیا، جسے قانون ساز اسمبلی اور کابینہ نے مسترد کردیا۔ وفاقی حکومت کی خواہش تھی کہ ان کے امیدواروں کو 5،5 کروڑ روپے ملیں اور وہ اپنی انتخابی مہم کے دوران ووٹ حاصل کرنے کےلیے انہیں خرچ کرسکیں۔ ماضی میں وفاقی حکومت یہ فنڈز کشمیر کونسل کے ذریعے سے خرچ کرتی تھی، لیکن 13 ویں ترمیم کے بعد کشمیر کونسل سے یہ اختیار چھین لیا گیا۔ ذرائع کے مطابق آزاد حکومت کی جانب سے پابندی کے باوجود وزارت امور کشمیر اپنے امیدواران کے ذریعے بلدیاتی سطح پر 10 سے 15 لاکھ کے چھوٹے چھوٹے منصوبے شروع کررہی ہے۔ ان منصوبوں کے ذریعے چھوٹی آبادیوں سے ووٹ اور ہمدردیاں سمیٹی جارہی ہیں۔ چونکہ وزارت امور کشمیر نہ تو آزاد حکومت اور نہ ہی الیکشن کمیشن آزاد کشمیر کو جواب دہ ہے، اس لیے ان فنڈز پر دونوں ادارے سوال نہیں اٹھا سکتے۔
آزاد کشمیر حکومت کو وفاقی حکومت پر تیسرا بڑا اعتراض انتخابات میں براہ راست مداخلت پر ہے۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم پاکستان آزاد کشمیر انتخابات کی براہ راست نگرانی کررہے ہیں۔ انہوں نے متعدد مواقع پر اپنی پارٹی قیادت کو انتخابات میں کامیابی کےلیے تمام دستیاب وسائل استعمال کرنے کی ہدایت دی اور ہر صورت میں الیکشن جیتنے کا ٹارگٹ بھی دے رکھا ہے۔ اسی حوالے سے تحریک انصاف کی مرکزی اور آزاد کشمیر قیادت الیکٹیبلز کی ہمدردیاں خریدنے کی کوشش کررہی ہے۔ اس حوالے سے الیکشن فنڈز، ترقیاتی منصوبے اور اہم وزارتوں کی پیشکش بھی کی جارہی ہے۔ ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ مسلم لیگ ن سے وابستہ اہم ٹکٹ ہولڈرز جبکہ پیپلز پارٹی کے امیدواروں سے بھی رابطے کیے جارہے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ تحریک انصاف مائیکرو لیولز پر بھی الیکشن مینیج کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔
دریں اثنا پاکستان میں مقیم کشمیری مہاجرین کی 12 نشستوں پر بھی صوبائی حکومتوں کے ذریعے دھاندلی عروج پر ہے۔ کشمیری قیادت نے الزام عائد کیا ہے کہ وفاقی وزیر داخلہ نادرا کے ساتھ مل کر کشمیری مہاجرین کے ووٹ کم کر رہے ہیں۔ مہاجرین کے حلقوں میں پولنگ اسٹیشن دور دراز قائم کرکے ووٹرز کو انتخابی عمل سے دور بھی کیا جارہا ہے۔ آزاد کشمیر کی سیاسی قیادت نادرا اور وزارت داخلہ کی مداخلت پر بارہا اپنے تحفظات کا اظہار کر رہی ہے۔
آزاد کشمیر انتخابات میں وفاقی حکومت کی مداخلت کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہر انتخاب سے قبل ریاستی قیادت کی ہمدردیاں خریدی جاتی ہیں۔ چند مخصوص خاندانوں پر نوازشات کی جاتی ہیں اور پھر اپنی مرضی کی حکومت تیار کی جاتی ہے۔ پاکستان میں مقیم مہاجرین کی نشستیں دھاندلی کا بنیادی عنصر ہیں۔ وفاقی حکومت مہاجرین کی نشستوں پر اپنے نمائندے منتخب کروا کر اپنے ایجنڈے کی تکمیل کی جارہی ہے۔ آزاد کشمیر میں کوئی بھی ایسا قائد نہیں ہے، جس نے گزشتہ دو دہائیوں کے دوران اپنی سیاسی ہمدردیاں تبدیل نہ کی ہوں۔
ضرورت اس امر کی ہے پاکستانی قیادت اور سیاسی جماعتیں آزاد کشمیر انتخابات میں اپنی مداخلت ختم کریں۔ عوامی نمائندوں کی خریدو فروخت کے بجائے عوامی فیصلے کا انتظار کریں، تاکہ غیر جانبدار الیکشن کا انعقاد منعقد ہوسکے۔ وگرنہ الیکشن ایک پتلی تماشا بن جائے گا اور کٹھ پتلی حکومتیں ایسے ہی آپ کے اشاروں پر ناچتی رہیں گی اور پاکستان کا مقدمہ کمزور ہوتا جائے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔