افغانستان دوراہے پر
اگر افغانستان کی قیادت اپنے ملک کے ساتھ مخلص ہو تو پاکستان اس کا بہترین دوست ثابت ہو سکتا ہے۔
امریکی فوج افغانستان میں دودہائیوں تک براہ راست تباہی برپا کرنے کے بعد واپس امریکا سدھار رہی ہے۔
ان بیس برسوں میں دنیا کی واحد اورمسلمہ سپر پاور امریکا نے جدید ترین جنگی ہتھیاروں سے افغانستان کو تباہ و برباد کیا اورآج کی جدید دنیا میں افغانوں کو بلا مبالغہ پتھر کے دور میں واپس پہنچا دیا لیکن سلام ہے نڈر ، بہادر اوربے خوف افغان قوم کو جس نے اپنی روایات کے تحت حملہ آور کی بالادستی کو قبول کرنے سے ہمیشہ انکار کیا اور مزاحمت کی نئی تاریخ رقم کر دی۔
امریکا ماضی میں روس افغان جنگ میں افغانیوں کا سب سے بڑا اتحادی تھا اور امریکی فوجی افغانوں کے ساتھ مل کر اللہ اکبر کے نعرے بلند کرتے تھے ۔روسی فوجوں کو اپنے زخم چاٹنے پر مجبور کر کے انھی افغانوں نے دریائے آمو کے اس پار واپس دھکیل دیا تھا لیکن پھر تاریخ نے پلٹا کھایا اور امریکا نے جانتے بوجھتے بھی اپنے فوجیوں کو افغانستان کی جنگ میں جھونک دیا اور اب اپنی بے پناہ طاقت کی دہشت کے باوجود ناکام ہو کر افغانستان سے واپس سات سمندر پار امریکا سدھار رہا ہے۔
امریکا نے افغانستان میں قیام کے دوران ہر ممکن کوشش کی کہ وہ افغانیوں پر اپنا قبضہ اور حکمرانی مضبوط کر سکے لیکن گوریلا جنگ کے ماہر افغان جنگی حکمت عملی کے تحت وقتی طور پر تو پسپا ہوتے رہے لیکن وہ بالآخر اپنی سر زمین سے غیر ملکیوں کو نکالنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
یہ کہا جاتا ہے کہ دنیا کے ہر ملک کا ردعمل امریکا کے کسی عمل سے پیدا ہوتا ہے اور پھر وہ امریکا کے وائٹ ہاؤس کی طرف دیکھتا ہے کہ اس کے کسی عمل کو قبولیت کا شرف عطا ہوا ہے یا نہیں ۔ امریکا کی یہ شوکت و عظمت ہمیں ماضی کی کئی ایسی ہی طاقتوں کی یاد دلاتی ہے جو اپنے اپنے وقت میں اسی طرح دنیا پر چھائی ہوئی تھیں ۔ اس لیے انسانی تاریخ میں صرف امریکا ہی اس بلند مقام تک نہیں پہنچا بلکہ اس سے پہلے بھی کئی قوموں پر یہ بہار گزر چکی ہے۔ ابھی زیادہ پرانی بات نہیں ہے کہ برطانیہ عظمیٰ ایک عظیم سلطنت تھی ۔
اس کی وسعت اتنی زیادہ تھی کہ دنیا کہتی تھی کہ اس کی مملکت پر سورج غروب نہیں ہوتا ۔ لیکن ماضی کی یہ سلطنت آج سمٹ کر ایک جزیرے تک محدود ہو گئی ہے اور جہاں عملاً لوگ سورج کی ایک ایک کرن کو ترستے رہتے ہیں۔خلیفہ ہارون الرشید کھلی فضاء میں ماحول سے لطف اندوز ہو رہے تھے آسمان پر بادل کا ایک آوارہ ٹکڑا جب بن برسے دور جانے لگا تو خلیفہ نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ جاؤ کتنی دور جاؤ گے بالآخر برسو گے تو میری ہی سلطنت کے کسی حصے پر۔ لیکن پھر کیا ہوا کہ اسی خلیفہ کے ایک وارث کو منگول جارحیت کا سامنا کرنا پڑ گیا۔
دنیا دو حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے ایک گروہ امریکا کی طرف دیکھ رہا ہے تو دوسرا گروہ چین کی معیشت سے متاثر ہے اور اس اہم وقت میںامریکا افغانیوں کو ایک بار پھر جنگجوؤں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر واپسی کا سفر اختیار کر رہا ہے اور یہ سفر زیادہ تر براستہ پاکستان ہے کہ بھاری بھرکم جنگی سازو سامان کی واپسی پاکستانی کی بندرگاہ کے ذریعے ہی ممکن ہے وہی گرم پانیوں والی بندر گاہ جس تک پہنچنے کی خواہش میں سوویت یونین ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔ امریکا اسی بندر گاہ سے افغانستان میں داخل ہوا تھا اور یہیں سے واپسی کا سفر ہے ۔
امریکا جو فرانس کے ایک سابق صدر کے بقول دنیا کے ہر ملک کا پڑوسی ہے اس نے افغانستان میں اپنی جنگی حکمت عملی میں ناکامی کے بعد اپنی معصوم خواہش کا اظہار کیا ہے کہ اسے پاکستان میںفوجی اڈے بنانے کی اجازت دی جائے جن کا بظاہر یہی مقصد ہے کہ امریکا افغانستان پر نہیں بلکہ پاکستان پر پاکستان کے اندر رہ کر نظر رکھنا چاہتا ہے اور یہ بد نظر پاکستان کے ایٹم بم پر ہو گی۔ مجھے خوشی ہے کہ ایک امریکی ٹی وی کو انٹرویو میں پاکستان کے وزیر اعظم نے دو ٹوک الفاظ میں ایسی کسی تجویز کو سختی سے رد کر دیا ہے جس میں امریکا پاکستان میں اپنے اڈے قائم کر سکے۔
عام امریکیوں کی فرعونیت کا بھی یہ عالم ہے کہ انٹرویو نگار بھی ہمارے وزیر اعظم کے واضح موقف کوان کی غیر سنجیدگی سمجھ بیٹھا اور حیرانگی کے عالم میں اپنے سوال کو دہراتے ہوئے کہا کہ کیا آپ سنجیدگی سے یہ بات کہہ رہے ہیں جس کے جواب میں وزیر اعظم کو یہ کہنا پڑا کہ وہ قطعاً اس کی اجازت نہیں دیں گے۔ بہر حال اس نازک وقت کو امریکا سے بہتر کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ افغانستان کو دوبارہ سے طالبان اور متحارب جنگجو گروہوں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر جانے کے بجائے افغان انخلا سے قبل سیاسی بصیرت اورحکمت عملی کو بروئے کار لاتے ہوئے اس کاسیاسی حل تلاش کرنا نہایت ضروی ہے۔
ایک ایسا حل جس میں تمام فریقین افغانستان کی تعمیر و ترقی کے لیے متفق ہوں اگر ایسا نہ کیا جاسکا تو دو دہائیوں تک جو تباہی امریکا نے مچائی اس کا اس سرے سے آغازہو جائے گا جہاں سے وہ چھوڑ کر جا رہا ہے اور جن طاقتوں کے خلاف امریکا نے افغان جنگ شروع کی تھی وہی طاقتیں دوبارہ خانہ جنگی کے ذریعے کابل پر قابض ہو جائیں گی۔
افغانستان ایک مرتبہ پھر دوراہے پر کھڑا ہے اگر افغانستان کی قیادت اپنے ملک کے ساتھ مخلص ہو تو پاکستان اس کا بہترین دوست ثابت ہو سکتا ہے لیکن اس کے لیے دور اندیش قیادت کی ضرورت ہے جو فی الوقت نظر نہیں آرہی۔
ان بیس برسوں میں دنیا کی واحد اورمسلمہ سپر پاور امریکا نے جدید ترین جنگی ہتھیاروں سے افغانستان کو تباہ و برباد کیا اورآج کی جدید دنیا میں افغانوں کو بلا مبالغہ پتھر کے دور میں واپس پہنچا دیا لیکن سلام ہے نڈر ، بہادر اوربے خوف افغان قوم کو جس نے اپنی روایات کے تحت حملہ آور کی بالادستی کو قبول کرنے سے ہمیشہ انکار کیا اور مزاحمت کی نئی تاریخ رقم کر دی۔
امریکا ماضی میں روس افغان جنگ میں افغانیوں کا سب سے بڑا اتحادی تھا اور امریکی فوجی افغانوں کے ساتھ مل کر اللہ اکبر کے نعرے بلند کرتے تھے ۔روسی فوجوں کو اپنے زخم چاٹنے پر مجبور کر کے انھی افغانوں نے دریائے آمو کے اس پار واپس دھکیل دیا تھا لیکن پھر تاریخ نے پلٹا کھایا اور امریکا نے جانتے بوجھتے بھی اپنے فوجیوں کو افغانستان کی جنگ میں جھونک دیا اور اب اپنی بے پناہ طاقت کی دہشت کے باوجود ناکام ہو کر افغانستان سے واپس سات سمندر پار امریکا سدھار رہا ہے۔
امریکا نے افغانستان میں قیام کے دوران ہر ممکن کوشش کی کہ وہ افغانیوں پر اپنا قبضہ اور حکمرانی مضبوط کر سکے لیکن گوریلا جنگ کے ماہر افغان جنگی حکمت عملی کے تحت وقتی طور پر تو پسپا ہوتے رہے لیکن وہ بالآخر اپنی سر زمین سے غیر ملکیوں کو نکالنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
یہ کہا جاتا ہے کہ دنیا کے ہر ملک کا ردعمل امریکا کے کسی عمل سے پیدا ہوتا ہے اور پھر وہ امریکا کے وائٹ ہاؤس کی طرف دیکھتا ہے کہ اس کے کسی عمل کو قبولیت کا شرف عطا ہوا ہے یا نہیں ۔ امریکا کی یہ شوکت و عظمت ہمیں ماضی کی کئی ایسی ہی طاقتوں کی یاد دلاتی ہے جو اپنے اپنے وقت میں اسی طرح دنیا پر چھائی ہوئی تھیں ۔ اس لیے انسانی تاریخ میں صرف امریکا ہی اس بلند مقام تک نہیں پہنچا بلکہ اس سے پہلے بھی کئی قوموں پر یہ بہار گزر چکی ہے۔ ابھی زیادہ پرانی بات نہیں ہے کہ برطانیہ عظمیٰ ایک عظیم سلطنت تھی ۔
اس کی وسعت اتنی زیادہ تھی کہ دنیا کہتی تھی کہ اس کی مملکت پر سورج غروب نہیں ہوتا ۔ لیکن ماضی کی یہ سلطنت آج سمٹ کر ایک جزیرے تک محدود ہو گئی ہے اور جہاں عملاً لوگ سورج کی ایک ایک کرن کو ترستے رہتے ہیں۔خلیفہ ہارون الرشید کھلی فضاء میں ماحول سے لطف اندوز ہو رہے تھے آسمان پر بادل کا ایک آوارہ ٹکڑا جب بن برسے دور جانے لگا تو خلیفہ نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ جاؤ کتنی دور جاؤ گے بالآخر برسو گے تو میری ہی سلطنت کے کسی حصے پر۔ لیکن پھر کیا ہوا کہ اسی خلیفہ کے ایک وارث کو منگول جارحیت کا سامنا کرنا پڑ گیا۔
دنیا دو حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے ایک گروہ امریکا کی طرف دیکھ رہا ہے تو دوسرا گروہ چین کی معیشت سے متاثر ہے اور اس اہم وقت میںامریکا افغانیوں کو ایک بار پھر جنگجوؤں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر واپسی کا سفر اختیار کر رہا ہے اور یہ سفر زیادہ تر براستہ پاکستان ہے کہ بھاری بھرکم جنگی سازو سامان کی واپسی پاکستانی کی بندرگاہ کے ذریعے ہی ممکن ہے وہی گرم پانیوں والی بندر گاہ جس تک پہنچنے کی خواہش میں سوویت یونین ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔ امریکا اسی بندر گاہ سے افغانستان میں داخل ہوا تھا اور یہیں سے واپسی کا سفر ہے ۔
امریکا جو فرانس کے ایک سابق صدر کے بقول دنیا کے ہر ملک کا پڑوسی ہے اس نے افغانستان میں اپنی جنگی حکمت عملی میں ناکامی کے بعد اپنی معصوم خواہش کا اظہار کیا ہے کہ اسے پاکستان میںفوجی اڈے بنانے کی اجازت دی جائے جن کا بظاہر یہی مقصد ہے کہ امریکا افغانستان پر نہیں بلکہ پاکستان پر پاکستان کے اندر رہ کر نظر رکھنا چاہتا ہے اور یہ بد نظر پاکستان کے ایٹم بم پر ہو گی۔ مجھے خوشی ہے کہ ایک امریکی ٹی وی کو انٹرویو میں پاکستان کے وزیر اعظم نے دو ٹوک الفاظ میں ایسی کسی تجویز کو سختی سے رد کر دیا ہے جس میں امریکا پاکستان میں اپنے اڈے قائم کر سکے۔
عام امریکیوں کی فرعونیت کا بھی یہ عالم ہے کہ انٹرویو نگار بھی ہمارے وزیر اعظم کے واضح موقف کوان کی غیر سنجیدگی سمجھ بیٹھا اور حیرانگی کے عالم میں اپنے سوال کو دہراتے ہوئے کہا کہ کیا آپ سنجیدگی سے یہ بات کہہ رہے ہیں جس کے جواب میں وزیر اعظم کو یہ کہنا پڑا کہ وہ قطعاً اس کی اجازت نہیں دیں گے۔ بہر حال اس نازک وقت کو امریکا سے بہتر کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ افغانستان کو دوبارہ سے طالبان اور متحارب جنگجو گروہوں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر جانے کے بجائے افغان انخلا سے قبل سیاسی بصیرت اورحکمت عملی کو بروئے کار لاتے ہوئے اس کاسیاسی حل تلاش کرنا نہایت ضروی ہے۔
ایک ایسا حل جس میں تمام فریقین افغانستان کی تعمیر و ترقی کے لیے متفق ہوں اگر ایسا نہ کیا جاسکا تو دو دہائیوں تک جو تباہی امریکا نے مچائی اس کا اس سرے سے آغازہو جائے گا جہاں سے وہ چھوڑ کر جا رہا ہے اور جن طاقتوں کے خلاف امریکا نے افغان جنگ شروع کی تھی وہی طاقتیں دوبارہ خانہ جنگی کے ذریعے کابل پر قابض ہو جائیں گی۔
افغانستان ایک مرتبہ پھر دوراہے پر کھڑا ہے اگر افغانستان کی قیادت اپنے ملک کے ساتھ مخلص ہو تو پاکستان اس کا بہترین دوست ثابت ہو سکتا ہے لیکن اس کے لیے دور اندیش قیادت کی ضرورت ہے جو فی الوقت نظر نہیں آرہی۔