تنقید سے آگے بڑھیے
اس بات کو یقینی بنائیے کہ مجرم کو اسلامی قوانین کی روشنی میں قرار واقعی سزا دی جائے
گئے وقتوں کی بات ہے کہ ایک مدرسے میں چوری ہوگئی۔ کسی نے کہا کہ مدارس والے بھی چور ہوگئے۔ اہل علم و عقل نے جواب دیا کہ نہیں چور مدارس میں آگئے۔
یہ واقعہ ان لوگوں کےلیے ایک مثال ہے جو ایک غیر معروف عالم دین کے بدبودار عمل کو بنیاد بنا کر مدارس کے خلاف اپنی گندی ذہنیت کا اظہار کر رہے ہیں اور دین کی خدمت کے لبادے میں دین کو بدنام کرنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم سماجی رابطے کی ویب سائٹس کو استعمال کرتے ہوئے حکومت کی توجہ اس امر کی طرف مبذول کرواتے کہ کم ازکم اس معاملے میں تو اسلامی سزاؤں پر من و عن عمل کیا جائے، تاکہ وطن عزیز کو اس طرح کے غلیظ جرائم سے پاک کیا جاسکے۔ کیونکہ آج یہ ایک بچے کے ساتھ ہوا ہے تو کل کسی دوسرے بچے کے ساتھ کوئی مجرم ذہنیت کا شخص روحانی باپ کے لبادے میں اخلاق سوز جرم کا ارتکاب کرسکتا ہے۔ اس لیے ایسے واقعات کا جڑ سے خاتمہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔
اور میرے وہ دوست جو اس واقعے کی آڑ میں مدارس پر کیچڑ اچھال رہے ہیں، ان کی خدمت میں انتہائی ادب سے عرض ہے کہ 1970 کی دہائی میں پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالتے ہی وطن عزیز میں اکھاڑ پچھاڑ شروع کردی۔ شاید ہی کوئی شعبہ ہو جو بچ پایا ہو، سوائے مدارس کے۔ بھٹو کے اقدامات کے نتیجے میں لکھ پتی ککھ پتی ہوگئے، ملک کی ہیئت بدل گئی، مگر مدارس سے چھیڑ چھاڑ کی جرأت بھٹو بھی نہ کرسکا۔
گزرتے وقت کے ساتھ مدارس کی شان و شوکت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ قیام پاکستان کے وقت مدارس کی کل تعداد 250 کے قریب تھی، جو اب 2021 میں 30000 تک پہنچ چکی ہے۔ مدارس میں لاکھوں طلبا زیر تعلیم ہیں۔
بلاشبہ ہمارے مدارس احیائے دین کا فریضہ بطریق احسن سر انجام دے رہے ہیں۔ اس لیے ایسے ناسمجھ بھائیوں سے عرض ہے کہ مدارس کو تنقید کا نشانہ بناکر اگر وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ اس طرح وہ عوام کو مدارس سے بدظن کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے، یقینی طور پر یہ ان کی غلط فہمی ہے۔ کیونکہ جرم کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ اگر ایسا ہوتا تو آج دنیا کے ترقی یافتہ ممالک جرائم سے پاک ہوتے۔ دنیا کا کوئی مذہب جرائم کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا۔ دنیا کے کسی مذہب میں جرم کی اجازت نہیں ہے۔ اگر کوئی جرم کرتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ مذہب کو عملی طور پر تسلیم نہیں کررہا۔ البتہ یہ واقعہ مدارس کی اصلاح احوال کا تقاضا ضرور کرتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ تمام مشہور و معروف علما جو اس واقعے پر تنقید کررہے ہیں، اس کی مذمت کررہے ہیں، ان کی خدمت میں انتہائی ادب سے عرض ہے کہ تنقید سے آگے نکلیے۔ اس بات کو یقینی بنائیے کہ مجرم کو اسلامی قوانین کی روشنی میں قرار واقعی سزا دی جائے، تاکہ آئندہ کسی کو بھی ان مقدس اداروں، جن پر عوام کا اندھا اعتماد ہوتا ہے، کو اپنے مذموم مقاصد کےلیے استعمال کرنے کی جرأت نہ ہوسکے۔
اور آخر میں مدارس کی انتظامیہ کی خدمت میں عرض ہے کہ براہِ کرم جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے ایسے واقعات کا سو فیصد قلع قمع کریں، بصورت دیگر کہیں ایسا نہ ہو مدارس کے دشمن کامیاب ہوجائیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
یہ واقعہ ان لوگوں کےلیے ایک مثال ہے جو ایک غیر معروف عالم دین کے بدبودار عمل کو بنیاد بنا کر مدارس کے خلاف اپنی گندی ذہنیت کا اظہار کر رہے ہیں اور دین کی خدمت کے لبادے میں دین کو بدنام کرنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم سماجی رابطے کی ویب سائٹس کو استعمال کرتے ہوئے حکومت کی توجہ اس امر کی طرف مبذول کرواتے کہ کم ازکم اس معاملے میں تو اسلامی سزاؤں پر من و عن عمل کیا جائے، تاکہ وطن عزیز کو اس طرح کے غلیظ جرائم سے پاک کیا جاسکے۔ کیونکہ آج یہ ایک بچے کے ساتھ ہوا ہے تو کل کسی دوسرے بچے کے ساتھ کوئی مجرم ذہنیت کا شخص روحانی باپ کے لبادے میں اخلاق سوز جرم کا ارتکاب کرسکتا ہے۔ اس لیے ایسے واقعات کا جڑ سے خاتمہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔
اور میرے وہ دوست جو اس واقعے کی آڑ میں مدارس پر کیچڑ اچھال رہے ہیں، ان کی خدمت میں انتہائی ادب سے عرض ہے کہ 1970 کی دہائی میں پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالتے ہی وطن عزیز میں اکھاڑ پچھاڑ شروع کردی۔ شاید ہی کوئی شعبہ ہو جو بچ پایا ہو، سوائے مدارس کے۔ بھٹو کے اقدامات کے نتیجے میں لکھ پتی ککھ پتی ہوگئے، ملک کی ہیئت بدل گئی، مگر مدارس سے چھیڑ چھاڑ کی جرأت بھٹو بھی نہ کرسکا۔
گزرتے وقت کے ساتھ مدارس کی شان و شوکت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ قیام پاکستان کے وقت مدارس کی کل تعداد 250 کے قریب تھی، جو اب 2021 میں 30000 تک پہنچ چکی ہے۔ مدارس میں لاکھوں طلبا زیر تعلیم ہیں۔
بلاشبہ ہمارے مدارس احیائے دین کا فریضہ بطریق احسن سر انجام دے رہے ہیں۔ اس لیے ایسے ناسمجھ بھائیوں سے عرض ہے کہ مدارس کو تنقید کا نشانہ بناکر اگر وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ اس طرح وہ عوام کو مدارس سے بدظن کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے، یقینی طور پر یہ ان کی غلط فہمی ہے۔ کیونکہ جرم کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ اگر ایسا ہوتا تو آج دنیا کے ترقی یافتہ ممالک جرائم سے پاک ہوتے۔ دنیا کا کوئی مذہب جرائم کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا۔ دنیا کے کسی مذہب میں جرم کی اجازت نہیں ہے۔ اگر کوئی جرم کرتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ مذہب کو عملی طور پر تسلیم نہیں کررہا۔ البتہ یہ واقعہ مدارس کی اصلاح احوال کا تقاضا ضرور کرتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ تمام مشہور و معروف علما جو اس واقعے پر تنقید کررہے ہیں، اس کی مذمت کررہے ہیں، ان کی خدمت میں انتہائی ادب سے عرض ہے کہ تنقید سے آگے نکلیے۔ اس بات کو یقینی بنائیے کہ مجرم کو اسلامی قوانین کی روشنی میں قرار واقعی سزا دی جائے، تاکہ آئندہ کسی کو بھی ان مقدس اداروں، جن پر عوام کا اندھا اعتماد ہوتا ہے، کو اپنے مذموم مقاصد کےلیے استعمال کرنے کی جرأت نہ ہوسکے۔
اور آخر میں مدارس کی انتظامیہ کی خدمت میں عرض ہے کہ براہِ کرم جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے ایسے واقعات کا سو فیصد قلع قمع کریں، بصورت دیگر کہیں ایسا نہ ہو مدارس کے دشمن کامیاب ہوجائیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔