پھر معاشی استحکام کیا ہوا
کوششیں کررہے ہیں غریب آدمی کوزیادہ سے زیادہ ریلیف دیا جائے، وزیر اعظم عمران خان
میڈیا کی اطلاع کے مطابق اگلے روز وفاقی کابینہ نے موٹر ویز اور ایئرپورٹس کو گروی رکھ کر قرضے لینے کی منظوری دیدی ہے ،اندرونی اور بیرونی قرضوں کے لیے سکوک بانڈز جاری کیے جائیں گے، وزیر اعظم کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں 17 نکاتی ایجنڈے پر غور کیا گیا۔
وفاقی کابینہ نے ملکی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے10لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کی بھی منظوری دی۔اجلاس میں اشیائے کی خورونوش کی قیمتوں پر وزیراعظم کو بریفنگ دی گئی، وزیراعظم عمران خان نے مہنگائی پر قابو پانے کے لیے اقدامات کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ کوششیں کررہے ہیں، غریب آدمی کوزیادہ سے زیادہ ریلیف دیا جائے۔
حالیہ بجٹ میں عوام کو ڈھیروں خوشخبریاں سنائی گئیں، معیشت کے استحکام کے دعوے کیے گئے اور ملکی ترقی وخوشحالی کی نوید سنائی گئی ، لیکن وفاقی بجٹ کی پرتیں اب کھلتی جارہی ہیں، تمام تر ٹیکس عوام پر منتقل کیے گئے ہیں اور اب کابینہ کی جانب سے موٹرویز اور ایئر پورٹس کو گروی رکھ مزید قرض لینے کی منظوری دینے سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ تحریک انصاف اقتدار میں آنے سے قبل سابق حکومت پر جو الزام عائد کرتی رہی ہے کہ اس نے ملکی اثاثے گروی رکھ کر بے پناہ غیرملکی قرضہ لیا ، کیا یہ محض انتخابات جیتنے کے لیے ایک پروپیگنڈہ تھا کہ کیونکہ ایک شئے جو گروی رکھی جاچکی ہو ، اسے دوبارہ گروی رکھ کر قرض حاصل نہیں کیا جاسکتا۔
نہ جانے کیوں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومتی وزراء کو زمینی حقائق کا کوئی ادراک نہیں ، وہ صرف بیان بازی پر اپناسارا زور صرف کرتے ہیں جیسے کہ دو روز قبل وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک نے قومی اسمبلی میں دوران خطاب عجیب منطق اپناتے ہوئے کہا کہ '' مہنگائی ہوگی تو ملک چلے گا ، کارخانے چلیں گے ، مہنگائی نہیں بڑھے گی تو ملک رک جائے گا ۔ خیبرپختون خوا میں کوئی کچا گھر دکھا دیں پھرمیںمان جاؤں گاکہ ملک پیچھے جارہا ہے ،میرے صوبے میں غریب ڈھونڈ کردکھائیں''ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے ہاتھوں عوام شدید پریشان ہیں۔
وزیر موصوف نے مہنگائی کے حوالے سے انتہائی بے حسی پر مبنی ریمارکس دیے ہیں ،اس امر کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ حکومتی وزراء کو مہنگائی سمیت کسی بھی شے کا کوئی ادارک نہیں، حد تو یہ ہے کہ وزیر دفاع، مہنگائی پر بات کررہے ہیں ۔ ایک اور وفاقی وزیر نے چند روز قبل یہ دعویٰ کیا کہ ''ملک میں مہنگائی بڑھنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی قوتِ خرید بھی بڑھی ہے'' یہ دعویٰ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ملک میں افراط زر کی شرح دس فیصد سے زیادہ ہے۔
وفاقی ادارہ شماریات نے مئی میں مہنگائی کی شرح 10.9 فیصد ہونے کا اعلان کیا تھا، دراصل حکومتی وزراء کا طرز تخاطب اور طرز کلام عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ دوسری جانب قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے وفاقی بجٹ میں عائد ٹیکسوں سے متعلق بزنس کمیونٹی کے تحفظات سے آگاہ کرنے کے لیے وفاقی وزیر خزانہ کو آج طلب کر لیا ہے، کمیٹی ارکان نے کہا ہے کہ ہماری سفارشات بھی اسمبلی میں نہیں پڑھی جاتیں ۔ بلاشبہ حکومت کو بزنس کمیونٹی کی بجٹ سے متعلق شکایات کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا چاہیے ۔
موجودہ مالی سال2021کے فنانس بل میں گندم کے چوکر پر جنرل سیلز ٹیکس کی شرح بڑھا کر 17فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ہے ، جس پر احتجاج کرتے ہوئے فلور ملز ملک میں ابتدائی طور پر علامتی ہڑتال کریں گی ، اور اگر مطالبات پھر بھی حل نہ ہوئے تو تیس جون کو ملک بھر میں مکمل ہڑتال کی جائے گی۔درحقیقت گندم کے چوکر کے زیادہ تر خریدار مال مویشی پالنے والے ہیں ،کیونکہ چوکر جانوروںکی غذا ہے، اس پرسیلز ٹیکس لگانا ایک غیرمنصفانہ اقدام ہوگا،جسے حکومت کو واپس لینا چاہیے ۔
جیسا کہ سب کے علم میں ہے کہ بجٹ کے اثرات سامنے آنے میں بہت زیادہ وقت درکار نہیں ہوتا، اس کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہوجائیں تو ہر آدمی کم از کم اپنے شعبے کی حد تک اس کی تفصیلات کی نہیں تو جزئیات کی سمجھ ضرور آنے لگتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک عام آدمی کے لیے بھی بجٹ اثرات سے متاثر ہونے پر آگاہی کی سادہ صورت مہنگائی میں اضافہ اور مختلف اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہے ۔
موجودہ حکومت نے بھی وہی پچھلی حکومتوں والی غلطی دہرائی اورحد سے زیادہ قرض لے لیا ہے۔ ان فیصلوں نے جہاں پاکستانی معیشت کی کمر توڑکر رکھ دی ہے، وہیں ملک میں بے روزگاری کی شرح بھی عروج پر پہنچ گئی۔ مہنگائی بڑھ گئی جب کہ لوگوں کی آمدنی خطرناک حد تک کم ہو گئی، یہ مسائل اگر چہ پہلے سے ہیں تاہم پچھلے کم از کم تین برس کے دوران صنعتی، معاشی اور انفرادی ترقی نہ ہونے کی وجہ سے یہ اندوختہ بڑھ گیا ہے۔
اکنامک سروے میں ایک طرف کہا جا رہا ہے کہ برآمدات کم اور درآمدات زیادہ ہوئیں ملکی صنعتی پیداوار نہیں بڑھ سکی بلکہ جمود کا شکار ہے۔ یعنی صنعتوں میں کام کم ہے تو بے روزگاری بڑھی ہے لیکن قوتِ خرید بھی بڑھی ہے۔ صنعت محض روز مرہ اشیائے صرف کی پیداوار تک محدود ہے اور صنعتی پیداوار ہر طرح کے خام مال سمیت درمیانی اشیاء کی درآمدات کی محتاج ہے۔ اس وقت ہماری برآمدات جی ڈی پی کے 8 فیصد کے برابر ہیں۔ برآمدات معاشی ترقی کی ضمانت ہیں، خاص طور پر ہمارے جیسے کثیر آبادی والے ممالک کے لیے معاشی بقا کا یہی ایک مناسب طریقہ ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ برآمدات کو بڑھایا کیسے جا سکتا ہے؟
اب تک ہماری برآمدی صنعت کے شعبے ٹیکسٹائل اور چمڑے تک محدود ہیں یا پھر کچھ حصہ زرعی اجناس کا ہے اور زرعی پیداوار میں بھی اضافے کے بجائے کمی واقع ہو رہی ہے اور ہمیں اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے بہت سی اجناس درآمد کرنا پڑ رہی ہیں، جیسا کہ وفاقی کابینہ نے دس لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کی بھی منظوری دی ہے۔
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ایک وسیع زرخیز رقبہ ہونے کے باوجود ہم زرعی اجناس درآمد کرنے پر مجبور ہیں۔ مہنگائی میں اضافے اور روزگار کے ذرائع محدود ہونے کی وجہ سے عوام کی قوت خرید محدود ہوئی ہے، البتہ ایک خاص طبقے کی آمدنی یقینی طور پر بڑھی ہے ۔
ادارہ شماریات نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ کورونا وائرس کے لاک ڈاؤن کی وجہ سے پیدا ہونے والی معاشی سست روی کے باعث ملک میں دو کروڑ ستر لاکھ لوگ بے روزگار ہوئے، لاک ڈاون سے پہلے ملک میں ساڑھے پانچ کروڑ افراد کی ورک فورس تھی جو لاک ڈاؤن کی وجہ سے ساڑھے تین کروڑ رہ گئی ہے، تاہم معیشت میں بحالی کی وجہ سے بے روزگار ہونے والے افراد کی ایک بڑی اکثریت دوبارہ کام پر لوٹ چکی ہے اور اس وقت ان کی تعداد پانچ کروڑ بیس لاکھ تک ہے۔
دوسری طرف غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی کا اعتراف بھی کیا جا رہا ہے، اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ ملکی معیشت کا حجم بڑھ نہیں پایا اور پھر بھی معاشی ترقی کے دعوے سمجھ سے بالا ہیں۔ غریب مزید مشکلات کا شکار ہو رہا ہے، حکومت کا دعویٰ ہے کہ معاشی ترقی ہو رہی ہے، اگر ایسا ہے تو پھر عام آدمی کی حالت بہتر کیوں نہیں ہورہی ہے؟وسائل پر چند لوگوں کی اجارہ داری ہے، اس تمام عمل میں اگر کسی کا نقصان ہوتا ہے تو وہ عام آدمی یا عام شہری ہے۔
پاکستان کے عوام بیتے 73 برس سے ہر حکومت خواہ وہ فوجی ہو یا سویلین، ہر دور میں غریبوں کے نام پر امیروں کو مراعات ملتی چلی آ رہی ہیں۔ یہ بات عملی مشاہدے کی ہے کہ بجٹ کے اعلان کے بعد دو تین روز تک غریب خوش ہوتے ہیں اور پھر سارا سال امیر اور طاقتور لوگ خوش ہوتے ہیں۔
ویسے بھی معاشی خوشحالی کے بغیر بالکل نچلی سطح پر زندگی گزارنے والوں کو غربت کے دلدل سے نہیں نکالا جا سکتا ہے،تاہم عام آدمی کے لیے بجٹ کے حوالے سے اصل اہمیت اعداد و شمار، دعوؤں اور وعدوں کی نہیں، ان اثرات و نتائج کی ہوتی ہے جو بجٹ کے نفاذ سے ظہور میں آتے ہیں۔
روزگار کے مواقع بڑھیں، مہنگائی کم ہو، زندگی کی سہولتوں میں بہتری آئے، تعلیم اور علاج معالجہ آسان ہو، اہلیت کی بنیاد پر ترقی کے مواقع امیر و غریب سب کو یکساں طور پر فراہم کیے جائیں تو ایسا بجٹ عام آدمی کی نگاہ میں اچھا ہو گا بصورتِ دیگر اسے اچھا نہیں کہا جا سکے گا۔
اس وقت قوم یہ توقع کر رہی ہے کہ حکومت عوام کو تکلیف نہیں ریلیف دینے کی بات کرے لیکن یہ ریلیف صرف نعروں سے نہیں، عملی اقدامات سے مل سکتا ہے۔ اس وقت باہر سے ڈالروں کی قرضوں اور ترسیلاتِ زر کی صورت میں بارش ہو رہی ہے اور ہمارے حکمران بغلیں بجا رہے ہیں لیکن مستقبل میں کیا یونہی معاملات چلتے رہیں۔
وفاقی کابینہ نے ملکی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے10لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کی بھی منظوری دی۔اجلاس میں اشیائے کی خورونوش کی قیمتوں پر وزیراعظم کو بریفنگ دی گئی، وزیراعظم عمران خان نے مہنگائی پر قابو پانے کے لیے اقدامات کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ کوششیں کررہے ہیں، غریب آدمی کوزیادہ سے زیادہ ریلیف دیا جائے۔
حالیہ بجٹ میں عوام کو ڈھیروں خوشخبریاں سنائی گئیں، معیشت کے استحکام کے دعوے کیے گئے اور ملکی ترقی وخوشحالی کی نوید سنائی گئی ، لیکن وفاقی بجٹ کی پرتیں اب کھلتی جارہی ہیں، تمام تر ٹیکس عوام پر منتقل کیے گئے ہیں اور اب کابینہ کی جانب سے موٹرویز اور ایئر پورٹس کو گروی رکھ مزید قرض لینے کی منظوری دینے سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ تحریک انصاف اقتدار میں آنے سے قبل سابق حکومت پر جو الزام عائد کرتی رہی ہے کہ اس نے ملکی اثاثے گروی رکھ کر بے پناہ غیرملکی قرضہ لیا ، کیا یہ محض انتخابات جیتنے کے لیے ایک پروپیگنڈہ تھا کہ کیونکہ ایک شئے جو گروی رکھی جاچکی ہو ، اسے دوبارہ گروی رکھ کر قرض حاصل نہیں کیا جاسکتا۔
نہ جانے کیوں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومتی وزراء کو زمینی حقائق کا کوئی ادراک نہیں ، وہ صرف بیان بازی پر اپناسارا زور صرف کرتے ہیں جیسے کہ دو روز قبل وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک نے قومی اسمبلی میں دوران خطاب عجیب منطق اپناتے ہوئے کہا کہ '' مہنگائی ہوگی تو ملک چلے گا ، کارخانے چلیں گے ، مہنگائی نہیں بڑھے گی تو ملک رک جائے گا ۔ خیبرپختون خوا میں کوئی کچا گھر دکھا دیں پھرمیںمان جاؤں گاکہ ملک پیچھے جارہا ہے ،میرے صوبے میں غریب ڈھونڈ کردکھائیں''ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے ہاتھوں عوام شدید پریشان ہیں۔
وزیر موصوف نے مہنگائی کے حوالے سے انتہائی بے حسی پر مبنی ریمارکس دیے ہیں ،اس امر کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ حکومتی وزراء کو مہنگائی سمیت کسی بھی شے کا کوئی ادارک نہیں، حد تو یہ ہے کہ وزیر دفاع، مہنگائی پر بات کررہے ہیں ۔ ایک اور وفاقی وزیر نے چند روز قبل یہ دعویٰ کیا کہ ''ملک میں مہنگائی بڑھنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی قوتِ خرید بھی بڑھی ہے'' یہ دعویٰ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ملک میں افراط زر کی شرح دس فیصد سے زیادہ ہے۔
وفاقی ادارہ شماریات نے مئی میں مہنگائی کی شرح 10.9 فیصد ہونے کا اعلان کیا تھا، دراصل حکومتی وزراء کا طرز تخاطب اور طرز کلام عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ دوسری جانب قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے وفاقی بجٹ میں عائد ٹیکسوں سے متعلق بزنس کمیونٹی کے تحفظات سے آگاہ کرنے کے لیے وفاقی وزیر خزانہ کو آج طلب کر لیا ہے، کمیٹی ارکان نے کہا ہے کہ ہماری سفارشات بھی اسمبلی میں نہیں پڑھی جاتیں ۔ بلاشبہ حکومت کو بزنس کمیونٹی کی بجٹ سے متعلق شکایات کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا چاہیے ۔
موجودہ مالی سال2021کے فنانس بل میں گندم کے چوکر پر جنرل سیلز ٹیکس کی شرح بڑھا کر 17فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ہے ، جس پر احتجاج کرتے ہوئے فلور ملز ملک میں ابتدائی طور پر علامتی ہڑتال کریں گی ، اور اگر مطالبات پھر بھی حل نہ ہوئے تو تیس جون کو ملک بھر میں مکمل ہڑتال کی جائے گی۔درحقیقت گندم کے چوکر کے زیادہ تر خریدار مال مویشی پالنے والے ہیں ،کیونکہ چوکر جانوروںکی غذا ہے، اس پرسیلز ٹیکس لگانا ایک غیرمنصفانہ اقدام ہوگا،جسے حکومت کو واپس لینا چاہیے ۔
جیسا کہ سب کے علم میں ہے کہ بجٹ کے اثرات سامنے آنے میں بہت زیادہ وقت درکار نہیں ہوتا، اس کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہوجائیں تو ہر آدمی کم از کم اپنے شعبے کی حد تک اس کی تفصیلات کی نہیں تو جزئیات کی سمجھ ضرور آنے لگتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک عام آدمی کے لیے بھی بجٹ اثرات سے متاثر ہونے پر آگاہی کی سادہ صورت مہنگائی میں اضافہ اور مختلف اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہے ۔
موجودہ حکومت نے بھی وہی پچھلی حکومتوں والی غلطی دہرائی اورحد سے زیادہ قرض لے لیا ہے۔ ان فیصلوں نے جہاں پاکستانی معیشت کی کمر توڑکر رکھ دی ہے، وہیں ملک میں بے روزگاری کی شرح بھی عروج پر پہنچ گئی۔ مہنگائی بڑھ گئی جب کہ لوگوں کی آمدنی خطرناک حد تک کم ہو گئی، یہ مسائل اگر چہ پہلے سے ہیں تاہم پچھلے کم از کم تین برس کے دوران صنعتی، معاشی اور انفرادی ترقی نہ ہونے کی وجہ سے یہ اندوختہ بڑھ گیا ہے۔
اکنامک سروے میں ایک طرف کہا جا رہا ہے کہ برآمدات کم اور درآمدات زیادہ ہوئیں ملکی صنعتی پیداوار نہیں بڑھ سکی بلکہ جمود کا شکار ہے۔ یعنی صنعتوں میں کام کم ہے تو بے روزگاری بڑھی ہے لیکن قوتِ خرید بھی بڑھی ہے۔ صنعت محض روز مرہ اشیائے صرف کی پیداوار تک محدود ہے اور صنعتی پیداوار ہر طرح کے خام مال سمیت درمیانی اشیاء کی درآمدات کی محتاج ہے۔ اس وقت ہماری برآمدات جی ڈی پی کے 8 فیصد کے برابر ہیں۔ برآمدات معاشی ترقی کی ضمانت ہیں، خاص طور پر ہمارے جیسے کثیر آبادی والے ممالک کے لیے معاشی بقا کا یہی ایک مناسب طریقہ ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ برآمدات کو بڑھایا کیسے جا سکتا ہے؟
اب تک ہماری برآمدی صنعت کے شعبے ٹیکسٹائل اور چمڑے تک محدود ہیں یا پھر کچھ حصہ زرعی اجناس کا ہے اور زرعی پیداوار میں بھی اضافے کے بجائے کمی واقع ہو رہی ہے اور ہمیں اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے بہت سی اجناس درآمد کرنا پڑ رہی ہیں، جیسا کہ وفاقی کابینہ نے دس لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کی بھی منظوری دی ہے۔
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ایک وسیع زرخیز رقبہ ہونے کے باوجود ہم زرعی اجناس درآمد کرنے پر مجبور ہیں۔ مہنگائی میں اضافے اور روزگار کے ذرائع محدود ہونے کی وجہ سے عوام کی قوت خرید محدود ہوئی ہے، البتہ ایک خاص طبقے کی آمدنی یقینی طور پر بڑھی ہے ۔
ادارہ شماریات نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ کورونا وائرس کے لاک ڈاؤن کی وجہ سے پیدا ہونے والی معاشی سست روی کے باعث ملک میں دو کروڑ ستر لاکھ لوگ بے روزگار ہوئے، لاک ڈاون سے پہلے ملک میں ساڑھے پانچ کروڑ افراد کی ورک فورس تھی جو لاک ڈاؤن کی وجہ سے ساڑھے تین کروڑ رہ گئی ہے، تاہم معیشت میں بحالی کی وجہ سے بے روزگار ہونے والے افراد کی ایک بڑی اکثریت دوبارہ کام پر لوٹ چکی ہے اور اس وقت ان کی تعداد پانچ کروڑ بیس لاکھ تک ہے۔
دوسری طرف غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی کا اعتراف بھی کیا جا رہا ہے، اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ ملکی معیشت کا حجم بڑھ نہیں پایا اور پھر بھی معاشی ترقی کے دعوے سمجھ سے بالا ہیں۔ غریب مزید مشکلات کا شکار ہو رہا ہے، حکومت کا دعویٰ ہے کہ معاشی ترقی ہو رہی ہے، اگر ایسا ہے تو پھر عام آدمی کی حالت بہتر کیوں نہیں ہورہی ہے؟وسائل پر چند لوگوں کی اجارہ داری ہے، اس تمام عمل میں اگر کسی کا نقصان ہوتا ہے تو وہ عام آدمی یا عام شہری ہے۔
پاکستان کے عوام بیتے 73 برس سے ہر حکومت خواہ وہ فوجی ہو یا سویلین، ہر دور میں غریبوں کے نام پر امیروں کو مراعات ملتی چلی آ رہی ہیں۔ یہ بات عملی مشاہدے کی ہے کہ بجٹ کے اعلان کے بعد دو تین روز تک غریب خوش ہوتے ہیں اور پھر سارا سال امیر اور طاقتور لوگ خوش ہوتے ہیں۔
ویسے بھی معاشی خوشحالی کے بغیر بالکل نچلی سطح پر زندگی گزارنے والوں کو غربت کے دلدل سے نہیں نکالا جا سکتا ہے،تاہم عام آدمی کے لیے بجٹ کے حوالے سے اصل اہمیت اعداد و شمار، دعوؤں اور وعدوں کی نہیں، ان اثرات و نتائج کی ہوتی ہے جو بجٹ کے نفاذ سے ظہور میں آتے ہیں۔
روزگار کے مواقع بڑھیں، مہنگائی کم ہو، زندگی کی سہولتوں میں بہتری آئے، تعلیم اور علاج معالجہ آسان ہو، اہلیت کی بنیاد پر ترقی کے مواقع امیر و غریب سب کو یکساں طور پر فراہم کیے جائیں تو ایسا بجٹ عام آدمی کی نگاہ میں اچھا ہو گا بصورتِ دیگر اسے اچھا نہیں کہا جا سکے گا۔
اس وقت قوم یہ توقع کر رہی ہے کہ حکومت عوام کو تکلیف نہیں ریلیف دینے کی بات کرے لیکن یہ ریلیف صرف نعروں سے نہیں، عملی اقدامات سے مل سکتا ہے۔ اس وقت باہر سے ڈالروں کی قرضوں اور ترسیلاتِ زر کی صورت میں بارش ہو رہی ہے اور ہمارے حکمران بغلیں بجا رہے ہیں لیکن مستقبل میں کیا یونہی معاملات چلتے رہیں۔