سیاسی منظرنامہ
مہنگائی اور بے روزگاری نے ایسے زخم لگائے ہیں کہ عوام انھیں بھلا نہیں سکتے۔
FAISALABAD:
کچھ ہفتے پہلے اپوزیشن میں جو جوش و خروش پیدا ہوا تھا، اب وہ سرد پڑ گیا ہے ، لے دے کر شہباز شریف ہیں جو اپنے ساتھیوں کی طرف سے لمبی تقریریں کر رہے ہیں۔
مریم نواز کی گھن گرج بھی اب ختم ہوگئی ہے، وہ بہت کم میڈیا پر نظر آتی ہیں ، مولانا فضل الرحمن کبھی کبھی میڈیا پراپنا چہرہ دکھاتے ہیں لیکن ہیں وہ بھی خاموش ہی۔ اس کی بڑی وجہ حالات کا ناسازگار ہونا ہے ۔ عوام ابتدا میں پی ڈی ایم جلسے جلوس میں شریک ہوتے تھے، اپوزیشن کے غیر فعال ہونے کی وجہ سے وہاں بھی خاموشی ہے۔
سوات کے جلسے کا شورہو رہا ہے ، سوات کے عوام کے لیے جلسہ ایک دلچسپ ایکٹیویٹی ہے سو وہ جلسہ دیکھنے کے لیے جمع ہو سکتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ مہنگائی اور بے روزگاری نے ایسے زخم لگائے ہیں کہ عوام انھیں بھلا نہیں سکتے۔ ادھر اپوزیشن کی قیادت پر اب بھی کرپشن کے مقدمات ہیں اور وہ ان میں پھنسے ہوئے ہیں۔اربوں روپوں کی کرپشن کی داستانیں لوگوں کے ذہنوں کو تاحال متاثر کررہی ہیں اور حکمران اس کرپشن کے باب کو بند کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔
حکومت مسلسل اس پالیسی کو اختیار کیے ہوئے ہے کہ عوام اس وقت تک کسی جماعت کے ساتھ رہتی ہے جب تک انھیں یقین رہے کہ قیادت ایماندار ہے۔ جب قیادت پر عوام شک میں مبتلا ہو جاتے ہیں تو عوام مایوس ہوجاتے ہیں اور سیاست سے لاتعلقی اختیار کرلیتے ہیں۔ حکومت کی یہ پالیسی خاصی حد تک کامیاب جارہا ہے
وزیراعظم عمران خان بھی اب پہلے کی طرح عوام سے رابطے میں نہیں ہیں اور حیرت ہے کہ انھوں نے عوامی رابطہ توڑ دیا ہے۔ آج کل اپوزیشن کو کوئی ایشو نہیں مل رہا ہے تو اپوزیشن نے آئی ایم ایف کا سہارا لیا ہے۔ آئی ایم ایف ایک مالیاتی ادارہ ہے جو ضرورت مند ممالک کو قرض دیتا ہے ،کوئی ایسا پسماندہ ملک نہیں ہوگا جس نے آئی ایم ایف جیسے مالیاتی اداروں سے قرض نہ لیا ہو، لیکن اپوزیشن حکومت پر آئی ایم ایف جانے کے حوالے سے طنز کے تیر برسا رہی ہے یعنی ہم کریں تو ثواب حکومت کرے تو عذاب۔ حکومت اپوزیشن کے اس پروپیگنڈے کا توڑ نہیں کرسکی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہم دولت کی دنیا میں زندہ ہیں اور دولت سارے مسائل کا حل ہے لیکن عوام کو دولت کے ذریعے اپنا ہمدرد بنانا مشکل ہے۔ عوام اب سیانے ہو رہے ہیں، دولت کا حربہ شاید مشکل ہی سے چل سکے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت عوام کی بھلائی کے کام کرے اور اگر حکومت عوام کی بھلائی کے کام کرتی ہے تو اپوزیشن کو چاہیے کہ اس میں حکومت کا ہاتھ بٹائے، اگر ماحول اچھا ہو جاتا ہے تو الیکشن پرامن فضا میں ہوں گے اور جو شفاف الیکشن میں جیتے وہ حکومت بنائے ہیں ، یہی ایک تعمیری راستہ ہے ورنہ وہی کھینچا تانی جاری رہے گی جو تین سال سے جاری ہے۔
ایک بات سمجھ سے باہر ہے کہ حکومت اور اپوزیشن ایک طرف جمہوریت کی بات کرتی ہیں تو دوسری طرف اپنے گندے کپڑے بیچ بازار کے دھو ر ہے ہیں۔حزب اقتدار اور اپوزیشن سمجھ دار اور تجربہ کار ہیں، انھیں اندازہ ہوگا کہ اگر بات حد سے بڑھتی ہے تو پھر ڈنڈا گھوم جاتا ہے اور جب ڈنڈا گھوم جاتا ہے تو لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں، الیکشن اور اقتدار دورافتادہ باتیں بن جاتے ہیں۔ایک طرف افغانستان ہے دوسری طرف بھارت ہے۔
درمیان میں پاکستان ہے، پھر بنگلہ دیش کا کردار ہے۔ ان حالات میں حکومت اوراپوزیشن کو سوچنا چاہیے کہ کیا اب اقتدار ، اقتدار کھیلنے کا وقت ہے یا ملک کے معاشی حالت کو سدھارنے کے کام کو ترجیح حاصل ہے۔ جب تک اقتدار کی بھوک ٹھنڈی نہیں ہوتی ملک نارمل صورتحال پر نہیں آسکتا اور جب تک ملک نارمل صورتحال میں نہیں آئے گا ، ترقی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
ادھر پی ڈی ایم کا مطلب بھی صرف مسلم لیگ رہ گیا ہے اور مسلم لیگ میں بھی قیادت کے لیے رسی کشی کی افواہیں منظر عام پر ہیں۔ ایسے حالات میں پی ڈی ایم کیا کرسکتی ہے ، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ آج کل تمام سیاسی پارٹیوں اور حکومت نے اپنے ترجمان رکھ چھوڑے ہیں اور یہ ترجمان جو کچھ کہہ رہے ہیں،وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ اب شہباز شریف تنہا ہیں، وہ قومی اسمبلی میں مسلسل تقریر کرکے اپوزیشن کی لاج رکھ رہے ہیں لیکن اس طرح بات نہیں بن سکتی۔ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاسی ابال کو ختم کیا جائے اور آرگنائزیشن کا کام کیا جائے۔ یہ ایک بہترین وقت ہے اس وقت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ورکرز کو آرگنائز کیا جائے۔
کچھ ہفتے پہلے اپوزیشن میں جو جوش و خروش پیدا ہوا تھا، اب وہ سرد پڑ گیا ہے ، لے دے کر شہباز شریف ہیں جو اپنے ساتھیوں کی طرف سے لمبی تقریریں کر رہے ہیں۔
مریم نواز کی گھن گرج بھی اب ختم ہوگئی ہے، وہ بہت کم میڈیا پر نظر آتی ہیں ، مولانا فضل الرحمن کبھی کبھی میڈیا پراپنا چہرہ دکھاتے ہیں لیکن ہیں وہ بھی خاموش ہی۔ اس کی بڑی وجہ حالات کا ناسازگار ہونا ہے ۔ عوام ابتدا میں پی ڈی ایم جلسے جلوس میں شریک ہوتے تھے، اپوزیشن کے غیر فعال ہونے کی وجہ سے وہاں بھی خاموشی ہے۔
سوات کے جلسے کا شورہو رہا ہے ، سوات کے عوام کے لیے جلسہ ایک دلچسپ ایکٹیویٹی ہے سو وہ جلسہ دیکھنے کے لیے جمع ہو سکتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ مہنگائی اور بے روزگاری نے ایسے زخم لگائے ہیں کہ عوام انھیں بھلا نہیں سکتے۔ ادھر اپوزیشن کی قیادت پر اب بھی کرپشن کے مقدمات ہیں اور وہ ان میں پھنسے ہوئے ہیں۔اربوں روپوں کی کرپشن کی داستانیں لوگوں کے ذہنوں کو تاحال متاثر کررہی ہیں اور حکمران اس کرپشن کے باب کو بند کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔
حکومت مسلسل اس پالیسی کو اختیار کیے ہوئے ہے کہ عوام اس وقت تک کسی جماعت کے ساتھ رہتی ہے جب تک انھیں یقین رہے کہ قیادت ایماندار ہے۔ جب قیادت پر عوام شک میں مبتلا ہو جاتے ہیں تو عوام مایوس ہوجاتے ہیں اور سیاست سے لاتعلقی اختیار کرلیتے ہیں۔ حکومت کی یہ پالیسی خاصی حد تک کامیاب جارہا ہے
وزیراعظم عمران خان بھی اب پہلے کی طرح عوام سے رابطے میں نہیں ہیں اور حیرت ہے کہ انھوں نے عوامی رابطہ توڑ دیا ہے۔ آج کل اپوزیشن کو کوئی ایشو نہیں مل رہا ہے تو اپوزیشن نے آئی ایم ایف کا سہارا لیا ہے۔ آئی ایم ایف ایک مالیاتی ادارہ ہے جو ضرورت مند ممالک کو قرض دیتا ہے ،کوئی ایسا پسماندہ ملک نہیں ہوگا جس نے آئی ایم ایف جیسے مالیاتی اداروں سے قرض نہ لیا ہو، لیکن اپوزیشن حکومت پر آئی ایم ایف جانے کے حوالے سے طنز کے تیر برسا رہی ہے یعنی ہم کریں تو ثواب حکومت کرے تو عذاب۔ حکومت اپوزیشن کے اس پروپیگنڈے کا توڑ نہیں کرسکی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہم دولت کی دنیا میں زندہ ہیں اور دولت سارے مسائل کا حل ہے لیکن عوام کو دولت کے ذریعے اپنا ہمدرد بنانا مشکل ہے۔ عوام اب سیانے ہو رہے ہیں، دولت کا حربہ شاید مشکل ہی سے چل سکے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت عوام کی بھلائی کے کام کرے اور اگر حکومت عوام کی بھلائی کے کام کرتی ہے تو اپوزیشن کو چاہیے کہ اس میں حکومت کا ہاتھ بٹائے، اگر ماحول اچھا ہو جاتا ہے تو الیکشن پرامن فضا میں ہوں گے اور جو شفاف الیکشن میں جیتے وہ حکومت بنائے ہیں ، یہی ایک تعمیری راستہ ہے ورنہ وہی کھینچا تانی جاری رہے گی جو تین سال سے جاری ہے۔
ایک بات سمجھ سے باہر ہے کہ حکومت اور اپوزیشن ایک طرف جمہوریت کی بات کرتی ہیں تو دوسری طرف اپنے گندے کپڑے بیچ بازار کے دھو ر ہے ہیں۔حزب اقتدار اور اپوزیشن سمجھ دار اور تجربہ کار ہیں، انھیں اندازہ ہوگا کہ اگر بات حد سے بڑھتی ہے تو پھر ڈنڈا گھوم جاتا ہے اور جب ڈنڈا گھوم جاتا ہے تو لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں، الیکشن اور اقتدار دورافتادہ باتیں بن جاتے ہیں۔ایک طرف افغانستان ہے دوسری طرف بھارت ہے۔
درمیان میں پاکستان ہے، پھر بنگلہ دیش کا کردار ہے۔ ان حالات میں حکومت اوراپوزیشن کو سوچنا چاہیے کہ کیا اب اقتدار ، اقتدار کھیلنے کا وقت ہے یا ملک کے معاشی حالت کو سدھارنے کے کام کو ترجیح حاصل ہے۔ جب تک اقتدار کی بھوک ٹھنڈی نہیں ہوتی ملک نارمل صورتحال پر نہیں آسکتا اور جب تک ملک نارمل صورتحال میں نہیں آئے گا ، ترقی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
ادھر پی ڈی ایم کا مطلب بھی صرف مسلم لیگ رہ گیا ہے اور مسلم لیگ میں بھی قیادت کے لیے رسی کشی کی افواہیں منظر عام پر ہیں۔ ایسے حالات میں پی ڈی ایم کیا کرسکتی ہے ، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ آج کل تمام سیاسی پارٹیوں اور حکومت نے اپنے ترجمان رکھ چھوڑے ہیں اور یہ ترجمان جو کچھ کہہ رہے ہیں،وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ اب شہباز شریف تنہا ہیں، وہ قومی اسمبلی میں مسلسل تقریر کرکے اپوزیشن کی لاج رکھ رہے ہیں لیکن اس طرح بات نہیں بن سکتی۔ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاسی ابال کو ختم کیا جائے اور آرگنائزیشن کا کام کیا جائے۔ یہ ایک بہترین وقت ہے اس وقت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ورکرز کو آرگنائز کیا جائے۔