عبادات کو دنیاوی تجارت مت بنائیے۔۔۔۔۔
جب کوئی کام دنیا میں بدلے کے لیے کیا جائے تو پھر وہ تجارت بن جاتا ہے، اور عبادت و تجارت کے مقاصد بالکل الگ ہیں۔
ایک انسان کی اپنے خالق و مالک سے جو نسبت ہے، اس میں سب سے اہم نسبت عبدیت اور بندگی کی ہے۔ انسان عبد ہے اور اﷲ تعالیٰ معبود ہیں۔ انسان بندہ ہے اور اﷲ کی ذات بندگی کی مستحق ہے۔
انسان غلام ہے اور اﷲ اس کے آقا ہیں۔ یہ غلامی کی نسبت انسان کے لیے تحقیر نہیں ہے، بل کہ اِس میں اس کی توقیر اور اعزاز و اکرام ہے۔ اسی لیے واقعۂ معراج کا تذکرہ کرتے ہوئے اﷲ تعالیٰ نے رسول اﷲ ﷺ کا ذکر اپنے بندے کے لفظ سے کیا ہے۔ کسی بندے کے لیے اس سے بڑھ کر اعزاز نہیں ہوسکتا کہ خود کائنات کا خالق و مالک اسے ''بندہ'' کہہ کر اپنے آپ سے اس کی نسبت کو ظاہر کرے۔
انسان اپنی بندگی کا اپنے عمل کے ذریعے اقرار کرے، اسی کو ''عبادت'' کہتے ہیں اور اﷲ نے انسان و جنّات کی یہ بستی اس لیے بسائی ہے کہ یہ سب خدا کی عبادت کریں۔ ہر نبیؑ نے اپنی تعلیمات میں انسانیت کو اﷲ کی عبادت کی طرف دعوت دی ہے اور اس کے طریقے بتائے ہیں۔ رسول اﷲ ﷺ کی شریعت نے عبدیت کو اس کے اوج کمال پر پہنچا دیا۔ عبادات کی مقدار بھی بڑھائی گئی اور عبادت کی کیفیت میں بھی اضافہ کیا گیا نیز جس تفصیل سے عبادت کا طریقہ و سلیقہ اور اس کے آداب و احکام، شریعت محمدیؐ میں بتا ئے گئے، کسی دوسرے مذہب میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ ہر عبادت بندگی اور نیاز مندی کا مظہر، جھکاؤ اور بچھاؤ کی کیفیت سے معمور، اﷲ سے مانگنے اور ہاتھ پھیلانے کی کوشش اور انسانی زندگی کے لیے دروسِ عبرت سے معمور ہے۔
عبادت کے اصل معنی اﷲ کے سامنے اپنی ذلت اور کم تری کے اظہار کے ساتھ بے حد جھکاؤ اور آخری درجے کی تواضع اختیار کرنے کے ہیں۔ اس لیے عام طور پر عربی لغت کے ماہرین نے اس کا ترجمہ خضوع اور ذلّ سے کیا ہے۔
(بہ حوالہ: مفردات القرآن: صحاح للجوہری: لسان العرب)
علامہ مناوی نے لکھا ہے کہ عبادت ایسے افعال کا نام ہے کہ جس سے آخری درجہ معبود کے سامنے اپنی کم تری، عاجزی، جھکاؤ اور نیاز مندی کا اظہار ہو کہ اس عمل سے بڑھ کر کسی اور عمل سے اس جذبے کا اظہار ممکن نہ ہو۔ عبادت میں جہاں اﷲ کے سامنے عجز کا اظہار ضروری ہے، وہیں اﷲ سے حد درجے محبّت اور دل میں اﷲ کی غیر معمولی چاہت کا احساس بھی ضروری ہے۔ اسی لیے علامہ ابن القیمؒ فرماتے ہیں کہ عبادت ایسے عمل کا نام ہے، جس میں آخری درجے کی محبّت بھی ہو اور آخری درجے کا جھکاؤ بھی۔ لہٰذا وہ اعمال عبادت میں شامل ہیں جو خالصتاً اﷲ کے لیے ہی کیے جاتے ہیں، جس عمل کو کسی بندے کے لیے نہیں کیا جاسکتا، جیسے: نماز، روزہ، زکوۃ، حج، قربانی، سجدہ، تلاوت، دعا، نذر وغیرہ۔ جو افعال اﷲ کے لیے بھی کیے جاسکتے ہیں اور انسانوں کے لیے بھی، اگر ان کو بہتر نیّت سے کیا جائے، اﷲ کی رضا اور رسول اﷲ ﷺ کی اتباع مقصود ہو تو ان شاء اﷲ وہ بھی اجر و ثواب کا باعث ہوگا۔ لیکن وہ اصل میں طاعت ہے، حقیقی معنوں میں وہ عبادت نہیں ہے۔ عربی زبان کے ایک ماہر علامہ ابوہلال عسکری نے لکھا ہے کہ عبادت اور طاعت کے درمیان بنیادی فرق یہی ہے کہ عبادت صرف اﷲ ہی کی کی جاسکتی ہے، لیکن طاعت اﷲ کے لیے مخصوص نہیں ہے۔ ( الفروق فی اللغۃ )
عبادت کا ایک بنیادی حکم یہ ہے کہ وہ اجر کے لیے کی جاتی ہے نہ کہ اجرت کے لیے، اس کا بدلہ آخرت ہی میں دیا جاسکتا ہے، دنیا کے بدلے کے لیے اس عمل کو نہیں کیا جاسکتا۔ انبیائے کرامؑ اپنی خاص حیثیت کے اعتبار سے ہر کام اﷲ کے لیے کرتے تھے اور اﷲ کے حکم سے ہی کرتے تھے، اسی لیے قرآن نے مختلف انبیاء کی زبان سے کہلایا: ''میرا اجر صرف اﷲ ہی پر ہے۔'' جب کوئی کام دنیا میں بدلے کے لیے کیا جائے تو پھر وہ تجارت بن جاتا ہے، اور عبادت و تجارت کے مقاصد بالکل الگ ہیں۔ اسی لیے عبادت کے لیے مخصوص جگہ پر تجارت سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔ مسجدیں اﷲ کا گھر ہیں اور اﷲ کی عبادت کے لیے ہی بنائی گئی ہیں، چناں چہ مسجد میں خرید و فروخت اور کاروباری گفت گو سے منع کیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ آپ ﷺ نے اس کو بھی پسند نہیں فرمایا کہ کسی کی کوئی چیز گم ہوئی ہو تو وہ مسجد میں اس کا اعلان کرے۔
اسی لیے فقہائے کرام کا عمومی نقطۂ نظریہ ہے کہ جو افعال مسلمانوں کے لیے مخصوص ہیں، جیسے: نماز، روزہ، حج، تلاوت قرآن، جہاد، ان پر اجرت لینا جائز نہیں۔ حضرت عبادہ بن صامتؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے اہل صفہ میں سے کچھ لوگوں کو قرآن پڑھنا اور لکھنا سکھایا، مجھے پڑھنے والوں میں سے ایک نے ایک کمان تحفے میں دی۔ میں نے سوچا کہ یہ خاص مال تو ہے نہیں، میں اسے جہاد میں استعمال کروں گا۔ میں نے رسول اﷲ ﷺ سے ذکر کیا تو آپؐ نے فرمایا، مفہوم: ''اگر تمہیں یہ بات پسند آتی ہو کہ اﷲ تمہیں آگ کی کمان پہنائے تب قبول کرلو۔'' (بہ حوالہ: ابوداؤد مع عون المعبود)
حضرت عبدالرحمن بن بشر انصاریؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اﷲ ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ قرآن مجید پڑھو، مگر اس میں غلو نہ کرو اور نہ اس کو کھانے اور دولت میں اضافے کا ذریعہ بناؤ۔ ( فیض القدیر بہ حوالہ مسند احمد )
یہ اور بات ہے کہ عبادت سے متعلق بعض افعال ایسے ہیں، جن میں عمل کے ساتھ وقت کی بھی ضرورت ہے، جیسے نماز کہیں بھی پڑھی جاسکتی ہے، اتفاق سے اگر کسی نے کہیں نماز کی امامت کردی اور ایک جماعت نے اس کے پیچھے نماز ادا کرلی تو اس میں کچھ زیادہ وقت کی ضرورت نہیں، لیکن اگر کسی کو خاص مسجد میں امام مقرر کیا جائے تو وہ اس وقت کا پابند ہوجاتا ہے، بل کہ بعض اوقات پانچ وقت کی امامت میں انسان کا پورا وقت صَرف ہوجاتا ہے، اسی طرح ایک صورت تو یہ ہے کہ اتفاقاً کوئی آئے اور آپ کے پاس قرآن کی کوئی آیت پڑھ لے، یا اپنے پڑوسی کو چند آیات پڑھا دیں تو اس میں انسان کا وقت اس طرح صَرف نہیں ہوتا کہ وہ کسب ِ معاش کا کوئی اور ذریعہ اختیار نہ کرسکے، اس لیے ایسے اعمال پر اجرت لینا جائز نہیں ہے۔
لیکن اگر کوئی شخص مستقل طور پر ایک مدرّس کی حیثیت سے قرآن اور اسلامی علوم کی تعلیم دے، اور مقررہ وقت اس میں لگایا کرے، جس کی پابندی اس پر لازم ہو تو پھر اس کا وقت اس عمل کی وجہ سے مشغول ہوجاتا ہے، اس لیے ایسی صورت میں علمائے اہل سنّت میں سے امام مالکؒ و امام شافعیؒ نے اجرت لینے کی اجازت دی ہے اور جب حکومتوں کی طرف سے ائمہ اور معلّمین کا انتظام باقی نہ رہا اور صورتِ حال یہ ہوگئی کہ ہر وقت امامت کی صلاحیت کے حامل ائمہ کا ملنا دشوار ہوگیا، مسلمان بچے اور بڑے قرآن کی تعلیم سے محروم ہونے لگے تو فقہاء احناف اور حنابلہ میں سے بعد کے لوگوں نے ان کاموں پر اجرت لینے کی اجازت دے دی۔ کیوں کہ یہ کام کی اجرت نہیں ہے، وقت کی اجرت ہے، اور وقت کی اجرت لینا جائز ہے۔
اسی طرح فقہاء نے حج پر اجرت لینے یا جہاد پر اجرت لینے کو منع کیا ہے۔ کیوں کہ یہ سب عبادت ہے اور عبادت خالصتاً لوجہ اﷲ ہونی چاہیے۔ رسول اﷲ ﷺ کے زمانے میں ہجرت بھی اہم عبادت تھی اور آپؐ نے صاف اعلان کردیا کہ جو اﷲ اور رسولؐ کے لیے ہجرت کرے گا، اس کا یہ عمل باعث اجر بنے گا اور جو کسی اور مقصد کے لیے ترکِ وطن کرے گا، وہ ہجرت کے ثواب سے محروم رہے گا۔ کیوں کہ اس کا یہ وطن چھوڑنا اﷲ اور رسولؐ کے لیے نہیں ہے۔ امام بخاریؒ نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب بخاری شریف کا آغاز اسی حدیث سے کیا ہے، غرض کہ عبادت پر عبادت کا رنگ باقی رہنا چاہیے، خود عبادت کرنے والوں کا بھی یہی رویہ ہونا چاہیے اور دوسرے مسلمانوں کا بھی۔
بدقسمتی کی بات ہے کہ اس وقت مسلمانوں میں ایک خاص رجحان عبادات سے تجارتی فوائد اٹھانے کا بنتا جارہا ہے۔ ایصالِ ثواب کا درست ہونا حدیث سے ثابت ہے اور سوائے بعض اہل علم کے علماء اہل سنت کا اتفاق ہے کہ تلاوتِ قرآن کے ذریعے بھی ایصال ثواب کیا جاسکتا ہے، مگر اس پر اجرت کا لینا جائز نہیں۔ مشہور حنفی عالم علامہ شامیؒ نے خوب لکھا ہے کہ اگر تلاوتِ قرآن اجرت کے عوض ہوتو اس عمل میں اخلاص باقی نہیں رہا اور جو عمل اخلاص سے خالی ہو وہ کار ثواب نہیں ہوسکتا، تو جب یہ عمل خود لائق ثواب نہیں رہا تو دوسروں کو اس کا ثواب پہنچایا کس طرح جاسکتا ہے؟ اس لیے ایصال ثواب کے لیے تلاوتِ قرآن پر اجرت لینا جائز نہیں، مگر صورتِ حال یہ ہے کہ آج کل مسلم معاشرے میں اس کی اجرت متعین کی جاتی ہے اور کہیں تو اس کے لیے گروپ بنے ہوئے ہیں اور وہ باضابطہ بھاؤ تاؤ کرتے ہیں، یہ واضح طور پر عبادت کو تجارت کی شکل دینا ہے۔
تراویح کی نماز میں قرآن مجید کا ختم کرنا واجب نہیں، سنّت ہے، اب حفاظ کرام کی تعداد اتنی بڑھ گئی ہے کہ بڑی آسانی سے شہر سے گاؤں تک حفاظ میسر آجاتے ہیں، اگر تراویح پڑھانے والے کی طرف سے اجرت کا مطالبہ نہ ہو، بل کہ انکار ہو اور اس کی نیّت ایسی خالص ہو کر اگر اس کو کوئی اجرت نہیں ملے، تب بھی وہ نماز پڑھائے گا، اس کے باوجود لوگ اپنی طرف سے ایک حافظ قرآن کی خدمت کی نیّت سے ہدیہ پیش کردیں تو پیش کرنے والوں کے لیے سعادت اور اس حافظ کا قبول کرنا جائز ہے۔ لیکن حافظ کی طرف سے اس کا مطالبہ کرنا اور دونوں فریقوں کا مل کر اجرتِ تراویح طے کرنا یہ یقینا عبادت کو تجارت کے درجے میں لے آنا ہے اور قرآن مجید کے احترام کے منافی ہے۔
رمضان المبارک میں عام طور پر پھلوں کا استعمال بڑھ جاتا ہے اور اس کے تاجروں میں بڑی تعداد مسلمانوں کی ہے، ان کا روزہ داروں کے ہاتھ پھل بیچنا اور اس پر مناسب منافع لینا جائز ہے لیکن عملی صورتِ حال یہ ہے کہ اس میں روزہ داروں کا استحصال کیا جاتا ہے۔ یہی حال بقر عید کا ہے، جانوروں کے مسلمان تاجر عیدالاضحی کے کچھ پہلے سے قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ کردیتے ہیں۔ قصاب حضرات قربانی کے دنوں میں دگنا اور تین گنا پیسا وصول کرتے ہیں۔ بعض حضرات نے تو اجر و ثواب کے اس موسم کو تجارت اور سرمایہ کاری کا سنہرا موقع بنا لیا ہے۔ دو ہفتے کے لیے سرمایہ لگاتے ہیں اور کئی گنا نفع حاصل کرتے ہیں۔
حج کے معاملے میں مسلم ٹورسٹ اور ٹریول کمپنیوں کا رویہ سب سے زیادہ خراب ہے، انہیں اس نیّت سے کام کرنا چاہیے تھا کہ حاجیوں کو راحت پہنچائیں اور تھوڑا بہت نفع ان کو مل جائے لیکن صورتِ حال یہ ہے کہ اَوّلاً تو حاجیوں سے ایسے وعدے کیے جاتے ہیں، جو حرمین شریفین پہنچنے کے بعد دن کا خواب معلوم ہوتا ہے، جو سہولتیں نہیں پہنچا سکتے، ان کا وہ اعلان کرتے ہیں، خود حجاج میں عبادت میں مشقت اٹھانے اور اﷲ کا مہمان ہونے کے جذبے کے بہ جائے کمپنی کے مہمان ہونے کا احساس پیدا ہوجاتا ہے، اور وہ سہولت پسندی کے جذبے کے ساتھ وہاں پہنچتے ہیں، جب وہاں شکایتیں پیدا ہوتی ہیں تو ٹریول ایجینٹس کا رویہ نہایت خراب اور بہت کڑوا ہوتا ہے، یہ سب کچھ اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ سبز باغ دکھا کر عازمین سے زیادہ سے زیادہ پیسے وصول کیے جائیں۔ افسوس! بالائے افسوس یہ ہے کہ اب حج میں رشوت کا بھی سلسلہ شروع ہوگیا ہے، لوگ رشوت دے کر حج کے ویزے خریدتے ہیں، جو قطعاً ناجائز ہے۔
ان سب کی بنیاد یہ ہے کہ مسلمانوں کے ایک طبقے میں مال و متاع کی حرص اور مادیت اس قدر پیدا ہوگئی ہے کہ وہ ہر کام میں اور ہر قیمت پر زیادہ سے زیادہ پیسے حاصل کرنا چاہتے ہیں، انہوں نے عبادتوں کے انجام دینے اور اس کے وسائل فراہم کرنے میں اجر و ثواب کے جذبے کو بالکل پس پشت ڈال دیا ہے اور وہ ایسے مقدس کاموں کو بھی خالصتاً تجارتی مقصد کے تحت انجام دیتے ہیں، نیز لوگوں کے سامنے اپنی تصویر کچھ اس طرح کی پیش کرتے ہیں کہ گویا وہ دین کے خدمت گذار اور اپنے مسلمان بھائیوں کے پکے بہی خواہ ہیں، اس سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے، ضرورت تو یہ تھی کہ ہم اپنی تجارت کو عبادت بنا لیتے، یعنی اس میں اﷲ کی رضا کا جذبہ شامل رکھتے، کم نفع لیتے، لوگوں کو سہولتیں بہم پہنچاتے، کچھ اجرت حاصل کرتے اور کچھ اجر کے امیدوار رہتے، نہ یہ کہ ہم عبادت کو تجارت کا رنگ دے دیں اور حصولِ اجر و ثواب کے مواقع کو کسبِ معاد کے بہ جائے خالص کسب معاش کا ذریعہ بنالیں۔
انسان غلام ہے اور اﷲ اس کے آقا ہیں۔ یہ غلامی کی نسبت انسان کے لیے تحقیر نہیں ہے، بل کہ اِس میں اس کی توقیر اور اعزاز و اکرام ہے۔ اسی لیے واقعۂ معراج کا تذکرہ کرتے ہوئے اﷲ تعالیٰ نے رسول اﷲ ﷺ کا ذکر اپنے بندے کے لفظ سے کیا ہے۔ کسی بندے کے لیے اس سے بڑھ کر اعزاز نہیں ہوسکتا کہ خود کائنات کا خالق و مالک اسے ''بندہ'' کہہ کر اپنے آپ سے اس کی نسبت کو ظاہر کرے۔
انسان اپنی بندگی کا اپنے عمل کے ذریعے اقرار کرے، اسی کو ''عبادت'' کہتے ہیں اور اﷲ نے انسان و جنّات کی یہ بستی اس لیے بسائی ہے کہ یہ سب خدا کی عبادت کریں۔ ہر نبیؑ نے اپنی تعلیمات میں انسانیت کو اﷲ کی عبادت کی طرف دعوت دی ہے اور اس کے طریقے بتائے ہیں۔ رسول اﷲ ﷺ کی شریعت نے عبدیت کو اس کے اوج کمال پر پہنچا دیا۔ عبادات کی مقدار بھی بڑھائی گئی اور عبادت کی کیفیت میں بھی اضافہ کیا گیا نیز جس تفصیل سے عبادت کا طریقہ و سلیقہ اور اس کے آداب و احکام، شریعت محمدیؐ میں بتا ئے گئے، کسی دوسرے مذہب میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ ہر عبادت بندگی اور نیاز مندی کا مظہر، جھکاؤ اور بچھاؤ کی کیفیت سے معمور، اﷲ سے مانگنے اور ہاتھ پھیلانے کی کوشش اور انسانی زندگی کے لیے دروسِ عبرت سے معمور ہے۔
عبادت کے اصل معنی اﷲ کے سامنے اپنی ذلت اور کم تری کے اظہار کے ساتھ بے حد جھکاؤ اور آخری درجے کی تواضع اختیار کرنے کے ہیں۔ اس لیے عام طور پر عربی لغت کے ماہرین نے اس کا ترجمہ خضوع اور ذلّ سے کیا ہے۔
(بہ حوالہ: مفردات القرآن: صحاح للجوہری: لسان العرب)
علامہ مناوی نے لکھا ہے کہ عبادت ایسے افعال کا نام ہے کہ جس سے آخری درجہ معبود کے سامنے اپنی کم تری، عاجزی، جھکاؤ اور نیاز مندی کا اظہار ہو کہ اس عمل سے بڑھ کر کسی اور عمل سے اس جذبے کا اظہار ممکن نہ ہو۔ عبادت میں جہاں اﷲ کے سامنے عجز کا اظہار ضروری ہے، وہیں اﷲ سے حد درجے محبّت اور دل میں اﷲ کی غیر معمولی چاہت کا احساس بھی ضروری ہے۔ اسی لیے علامہ ابن القیمؒ فرماتے ہیں کہ عبادت ایسے عمل کا نام ہے، جس میں آخری درجے کی محبّت بھی ہو اور آخری درجے کا جھکاؤ بھی۔ لہٰذا وہ اعمال عبادت میں شامل ہیں جو خالصتاً اﷲ کے لیے ہی کیے جاتے ہیں، جس عمل کو کسی بندے کے لیے نہیں کیا جاسکتا، جیسے: نماز، روزہ، زکوۃ، حج، قربانی، سجدہ، تلاوت، دعا، نذر وغیرہ۔ جو افعال اﷲ کے لیے بھی کیے جاسکتے ہیں اور انسانوں کے لیے بھی، اگر ان کو بہتر نیّت سے کیا جائے، اﷲ کی رضا اور رسول اﷲ ﷺ کی اتباع مقصود ہو تو ان شاء اﷲ وہ بھی اجر و ثواب کا باعث ہوگا۔ لیکن وہ اصل میں طاعت ہے، حقیقی معنوں میں وہ عبادت نہیں ہے۔ عربی زبان کے ایک ماہر علامہ ابوہلال عسکری نے لکھا ہے کہ عبادت اور طاعت کے درمیان بنیادی فرق یہی ہے کہ عبادت صرف اﷲ ہی کی کی جاسکتی ہے، لیکن طاعت اﷲ کے لیے مخصوص نہیں ہے۔ ( الفروق فی اللغۃ )
عبادت کا ایک بنیادی حکم یہ ہے کہ وہ اجر کے لیے کی جاتی ہے نہ کہ اجرت کے لیے، اس کا بدلہ آخرت ہی میں دیا جاسکتا ہے، دنیا کے بدلے کے لیے اس عمل کو نہیں کیا جاسکتا۔ انبیائے کرامؑ اپنی خاص حیثیت کے اعتبار سے ہر کام اﷲ کے لیے کرتے تھے اور اﷲ کے حکم سے ہی کرتے تھے، اسی لیے قرآن نے مختلف انبیاء کی زبان سے کہلایا: ''میرا اجر صرف اﷲ ہی پر ہے۔'' جب کوئی کام دنیا میں بدلے کے لیے کیا جائے تو پھر وہ تجارت بن جاتا ہے، اور عبادت و تجارت کے مقاصد بالکل الگ ہیں۔ اسی لیے عبادت کے لیے مخصوص جگہ پر تجارت سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔ مسجدیں اﷲ کا گھر ہیں اور اﷲ کی عبادت کے لیے ہی بنائی گئی ہیں، چناں چہ مسجد میں خرید و فروخت اور کاروباری گفت گو سے منع کیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ آپ ﷺ نے اس کو بھی پسند نہیں فرمایا کہ کسی کی کوئی چیز گم ہوئی ہو تو وہ مسجد میں اس کا اعلان کرے۔
اسی لیے فقہائے کرام کا عمومی نقطۂ نظریہ ہے کہ جو افعال مسلمانوں کے لیے مخصوص ہیں، جیسے: نماز، روزہ، حج، تلاوت قرآن، جہاد، ان پر اجرت لینا جائز نہیں۔ حضرت عبادہ بن صامتؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے اہل صفہ میں سے کچھ لوگوں کو قرآن پڑھنا اور لکھنا سکھایا، مجھے پڑھنے والوں میں سے ایک نے ایک کمان تحفے میں دی۔ میں نے سوچا کہ یہ خاص مال تو ہے نہیں، میں اسے جہاد میں استعمال کروں گا۔ میں نے رسول اﷲ ﷺ سے ذکر کیا تو آپؐ نے فرمایا، مفہوم: ''اگر تمہیں یہ بات پسند آتی ہو کہ اﷲ تمہیں آگ کی کمان پہنائے تب قبول کرلو۔'' (بہ حوالہ: ابوداؤد مع عون المعبود)
حضرت عبدالرحمن بن بشر انصاریؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اﷲ ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ قرآن مجید پڑھو، مگر اس میں غلو نہ کرو اور نہ اس کو کھانے اور دولت میں اضافے کا ذریعہ بناؤ۔ ( فیض القدیر بہ حوالہ مسند احمد )
یہ اور بات ہے کہ عبادت سے متعلق بعض افعال ایسے ہیں، جن میں عمل کے ساتھ وقت کی بھی ضرورت ہے، جیسے نماز کہیں بھی پڑھی جاسکتی ہے، اتفاق سے اگر کسی نے کہیں نماز کی امامت کردی اور ایک جماعت نے اس کے پیچھے نماز ادا کرلی تو اس میں کچھ زیادہ وقت کی ضرورت نہیں، لیکن اگر کسی کو خاص مسجد میں امام مقرر کیا جائے تو وہ اس وقت کا پابند ہوجاتا ہے، بل کہ بعض اوقات پانچ وقت کی امامت میں انسان کا پورا وقت صَرف ہوجاتا ہے، اسی طرح ایک صورت تو یہ ہے کہ اتفاقاً کوئی آئے اور آپ کے پاس قرآن کی کوئی آیت پڑھ لے، یا اپنے پڑوسی کو چند آیات پڑھا دیں تو اس میں انسان کا وقت اس طرح صَرف نہیں ہوتا کہ وہ کسب ِ معاش کا کوئی اور ذریعہ اختیار نہ کرسکے، اس لیے ایسے اعمال پر اجرت لینا جائز نہیں ہے۔
لیکن اگر کوئی شخص مستقل طور پر ایک مدرّس کی حیثیت سے قرآن اور اسلامی علوم کی تعلیم دے، اور مقررہ وقت اس میں لگایا کرے، جس کی پابندی اس پر لازم ہو تو پھر اس کا وقت اس عمل کی وجہ سے مشغول ہوجاتا ہے، اس لیے ایسی صورت میں علمائے اہل سنّت میں سے امام مالکؒ و امام شافعیؒ نے اجرت لینے کی اجازت دی ہے اور جب حکومتوں کی طرف سے ائمہ اور معلّمین کا انتظام باقی نہ رہا اور صورتِ حال یہ ہوگئی کہ ہر وقت امامت کی صلاحیت کے حامل ائمہ کا ملنا دشوار ہوگیا، مسلمان بچے اور بڑے قرآن کی تعلیم سے محروم ہونے لگے تو فقہاء احناف اور حنابلہ میں سے بعد کے لوگوں نے ان کاموں پر اجرت لینے کی اجازت دے دی۔ کیوں کہ یہ کام کی اجرت نہیں ہے، وقت کی اجرت ہے، اور وقت کی اجرت لینا جائز ہے۔
اسی طرح فقہاء نے حج پر اجرت لینے یا جہاد پر اجرت لینے کو منع کیا ہے۔ کیوں کہ یہ سب عبادت ہے اور عبادت خالصتاً لوجہ اﷲ ہونی چاہیے۔ رسول اﷲ ﷺ کے زمانے میں ہجرت بھی اہم عبادت تھی اور آپؐ نے صاف اعلان کردیا کہ جو اﷲ اور رسولؐ کے لیے ہجرت کرے گا، اس کا یہ عمل باعث اجر بنے گا اور جو کسی اور مقصد کے لیے ترکِ وطن کرے گا، وہ ہجرت کے ثواب سے محروم رہے گا۔ کیوں کہ اس کا یہ وطن چھوڑنا اﷲ اور رسولؐ کے لیے نہیں ہے۔ امام بخاریؒ نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب بخاری شریف کا آغاز اسی حدیث سے کیا ہے، غرض کہ عبادت پر عبادت کا رنگ باقی رہنا چاہیے، خود عبادت کرنے والوں کا بھی یہی رویہ ہونا چاہیے اور دوسرے مسلمانوں کا بھی۔
بدقسمتی کی بات ہے کہ اس وقت مسلمانوں میں ایک خاص رجحان عبادات سے تجارتی فوائد اٹھانے کا بنتا جارہا ہے۔ ایصالِ ثواب کا درست ہونا حدیث سے ثابت ہے اور سوائے بعض اہل علم کے علماء اہل سنت کا اتفاق ہے کہ تلاوتِ قرآن کے ذریعے بھی ایصال ثواب کیا جاسکتا ہے، مگر اس پر اجرت کا لینا جائز نہیں۔ مشہور حنفی عالم علامہ شامیؒ نے خوب لکھا ہے کہ اگر تلاوتِ قرآن اجرت کے عوض ہوتو اس عمل میں اخلاص باقی نہیں رہا اور جو عمل اخلاص سے خالی ہو وہ کار ثواب نہیں ہوسکتا، تو جب یہ عمل خود لائق ثواب نہیں رہا تو دوسروں کو اس کا ثواب پہنچایا کس طرح جاسکتا ہے؟ اس لیے ایصال ثواب کے لیے تلاوتِ قرآن پر اجرت لینا جائز نہیں، مگر صورتِ حال یہ ہے کہ آج کل مسلم معاشرے میں اس کی اجرت متعین کی جاتی ہے اور کہیں تو اس کے لیے گروپ بنے ہوئے ہیں اور وہ باضابطہ بھاؤ تاؤ کرتے ہیں، یہ واضح طور پر عبادت کو تجارت کی شکل دینا ہے۔
تراویح کی نماز میں قرآن مجید کا ختم کرنا واجب نہیں، سنّت ہے، اب حفاظ کرام کی تعداد اتنی بڑھ گئی ہے کہ بڑی آسانی سے شہر سے گاؤں تک حفاظ میسر آجاتے ہیں، اگر تراویح پڑھانے والے کی طرف سے اجرت کا مطالبہ نہ ہو، بل کہ انکار ہو اور اس کی نیّت ایسی خالص ہو کر اگر اس کو کوئی اجرت نہیں ملے، تب بھی وہ نماز پڑھائے گا، اس کے باوجود لوگ اپنی طرف سے ایک حافظ قرآن کی خدمت کی نیّت سے ہدیہ پیش کردیں تو پیش کرنے والوں کے لیے سعادت اور اس حافظ کا قبول کرنا جائز ہے۔ لیکن حافظ کی طرف سے اس کا مطالبہ کرنا اور دونوں فریقوں کا مل کر اجرتِ تراویح طے کرنا یہ یقینا عبادت کو تجارت کے درجے میں لے آنا ہے اور قرآن مجید کے احترام کے منافی ہے۔
رمضان المبارک میں عام طور پر پھلوں کا استعمال بڑھ جاتا ہے اور اس کے تاجروں میں بڑی تعداد مسلمانوں کی ہے، ان کا روزہ داروں کے ہاتھ پھل بیچنا اور اس پر مناسب منافع لینا جائز ہے لیکن عملی صورتِ حال یہ ہے کہ اس میں روزہ داروں کا استحصال کیا جاتا ہے۔ یہی حال بقر عید کا ہے، جانوروں کے مسلمان تاجر عیدالاضحی کے کچھ پہلے سے قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ کردیتے ہیں۔ قصاب حضرات قربانی کے دنوں میں دگنا اور تین گنا پیسا وصول کرتے ہیں۔ بعض حضرات نے تو اجر و ثواب کے اس موسم کو تجارت اور سرمایہ کاری کا سنہرا موقع بنا لیا ہے۔ دو ہفتے کے لیے سرمایہ لگاتے ہیں اور کئی گنا نفع حاصل کرتے ہیں۔
حج کے معاملے میں مسلم ٹورسٹ اور ٹریول کمپنیوں کا رویہ سب سے زیادہ خراب ہے، انہیں اس نیّت سے کام کرنا چاہیے تھا کہ حاجیوں کو راحت پہنچائیں اور تھوڑا بہت نفع ان کو مل جائے لیکن صورتِ حال یہ ہے کہ اَوّلاً تو حاجیوں سے ایسے وعدے کیے جاتے ہیں، جو حرمین شریفین پہنچنے کے بعد دن کا خواب معلوم ہوتا ہے، جو سہولتیں نہیں پہنچا سکتے، ان کا وہ اعلان کرتے ہیں، خود حجاج میں عبادت میں مشقت اٹھانے اور اﷲ کا مہمان ہونے کے جذبے کے بہ جائے کمپنی کے مہمان ہونے کا احساس پیدا ہوجاتا ہے، اور وہ سہولت پسندی کے جذبے کے ساتھ وہاں پہنچتے ہیں، جب وہاں شکایتیں پیدا ہوتی ہیں تو ٹریول ایجینٹس کا رویہ نہایت خراب اور بہت کڑوا ہوتا ہے، یہ سب کچھ اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ سبز باغ دکھا کر عازمین سے زیادہ سے زیادہ پیسے وصول کیے جائیں۔ افسوس! بالائے افسوس یہ ہے کہ اب حج میں رشوت کا بھی سلسلہ شروع ہوگیا ہے، لوگ رشوت دے کر حج کے ویزے خریدتے ہیں، جو قطعاً ناجائز ہے۔
ان سب کی بنیاد یہ ہے کہ مسلمانوں کے ایک طبقے میں مال و متاع کی حرص اور مادیت اس قدر پیدا ہوگئی ہے کہ وہ ہر کام میں اور ہر قیمت پر زیادہ سے زیادہ پیسے حاصل کرنا چاہتے ہیں، انہوں نے عبادتوں کے انجام دینے اور اس کے وسائل فراہم کرنے میں اجر و ثواب کے جذبے کو بالکل پس پشت ڈال دیا ہے اور وہ ایسے مقدس کاموں کو بھی خالصتاً تجارتی مقصد کے تحت انجام دیتے ہیں، نیز لوگوں کے سامنے اپنی تصویر کچھ اس طرح کی پیش کرتے ہیں کہ گویا وہ دین کے خدمت گذار اور اپنے مسلمان بھائیوں کے پکے بہی خواہ ہیں، اس سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے، ضرورت تو یہ تھی کہ ہم اپنی تجارت کو عبادت بنا لیتے، یعنی اس میں اﷲ کی رضا کا جذبہ شامل رکھتے، کم نفع لیتے، لوگوں کو سہولتیں بہم پہنچاتے، کچھ اجرت حاصل کرتے اور کچھ اجر کے امیدوار رہتے، نہ یہ کہ ہم عبادت کو تجارت کا رنگ دے دیں اور حصولِ اجر و ثواب کے مواقع کو کسبِ معاد کے بہ جائے خالص کسب معاش کا ذریعہ بنالیں۔