دہشت گردی کی نئی لہر کا خدشہ

پاکستان کو اپنے معاشرے اور معیشت کو بچانے کے لیے جارحانہ اقدامات کی ضرورت ہے۔


Editorial June 25, 2021
پاکستان کو اپنے معاشرے اور معیشت کو بچانے کے لیے جارحانہ اقدامات کی ضرورت ہے۔ فوٹو:سوشل میڈیا

گزشتہ روز لاہور کے معروف رہائشی علاقے جوہر ٹاؤن میں ہونے والے ایک بم دھماکے کے نتیجے میں چار افراد جاں بحق جب کہ پولیس اہلکاروں سمیت چوبیس افراد زخمی ہوئے۔

جائے وقوعہ سے بال بیرنگ، لوہے کے ٹکڑے اور گاڑی کے پارٹس جمع کرلیے گئے، بارودی مواد کے کیمیکل ایگزامینیشن کے لیے سیمپل بھی اکٹھے کیے گئے ہیں۔ سیکیورٹی ادارے مختلف شہروں میں ٹارگٹیڈ کارروائی کررہے ہیں، کئی مشکوک افراد کو زیر حراست لے لیا گیا ہے۔

اسی تناظر میں وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے کہا ہے کہ پنجاب پولیس ملزمان کو جلد گرفتار کرنے میں کامیاب ہوجائے گی،پاکستان کبھی کسی دباؤ میں نہیں آئے گا ، جو لوگ ملک میں انتشارپھیلانا اور پاکستان کو انڈرپریشر لانا چاہتے ہیں وہ ناکام ہوں گے، جب کہ اس قبل آئی پنجاب نے کہا تھا کہ زیادہ تر دہشت گرد حملوں میں بیرونی عناصرملوث ہیں۔بلاشبہ پرامن لاہور میں اچانک بم دھماکے کا واقعہ ہونا، صورتحال کے الارمنگ ہونے کی نشاندہی کررہا ہے، دھماکے کی تحقیقات کا عمل جاری ہیں، مکمل تحقیقات اور ملزمان کی گرفتاری کے بعد حقیقی صورتحال سامنے آسکے گی۔

دوسری جانب وزیراعظم عمران خان نے آئی ایس آئی ہیڈکوارٹرز کا دورہ کیا اور ایک خصوصی اجلاس کی صدارت کی ، جس میں افغان امن عمل میں پاکستان کے کردار کا جائزہ لیا گیا، اور افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد ملک کو درپیش سیکیورٹی چیلنجز پر تفصیلی غورکیا گیا ۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پاکستان کے داخلی امن کو ایک بار پھر بدامنی کی طرف لے جانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

انتہا پسندوں اور ان کے سہولت کاروں کی بیخ کنی کے بغیر ملک میں امن کے قیام کا تصور خام خیالی ہے،ہم نے دنیا پریہ ثابت کرنا ہے کہ ہم ایک ایٹمی طاقت ہیں اوراپنا نظریاتی و جغرافیائی دفاع اور اثاثوں کا تحفظ کرنا جانتے ہیں۔ ملک میں دہشت گردی کے عوامل کا تعلق، پاکستان کے اندرونی اور بیرونی دشمنوں سے ہے جو مذہبی،لسانی اور نسلی گروہوں کے درمیان اختلافات کو بھڑکا کر اپنے مذموم مقاصدحاصل کر تے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ وہ ارض پاک کے خلاف مسلسل سازشوں میں مصروف ہیں اور شرپسندی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔کسی بھی ملک میں دہشت گردی معاشرے پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے،جس میں جانی، مالی، معاشی، اقتصادی اور تعلیمی نقصان شامل ہیں۔بیتی دو دہائیوں میں ملک وقوم کا بہت قیمتی سرمایہ دہشت گردی کی نذر ہو گیا ہے۔

وفاقی وزیرداخلہ شیخ رشید ، پاکستان میں دہشت گردی کی نئی لہر کے حوالے سے چند ماہ پہلے آگاہ کرچکے تھے، ان کے مطابق پشاور، لاہور، کراچی اور کوئٹہ میں دہشت گردی کی اطلاعات ہیں، جب کہ ہم نے سرگودھا ،اسلام آباد اور کراچی سے دہشت پکڑے ہیں۔ اقوام متحدہ نے عالمی سطح پر دہشت گردی کے حوالے سے ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ افغانستان میں ساڑھے 6 ہزار دہشت گرد اب بھی فعال ہیں جو پاکستان کے اندر دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی قیادت افغانستان سے پاکستان میں دہشت گرد کارروائیاں کراتی ہے اور افغانستان میں موجود دہشت گرد قیادت پاکستان میں متعدد حملوں کی ذمے داری بھی قبول کرچکی ہے۔ وزیرستان میں دہشت گردی کے واقعات اور سیکیورٹی فورسز پر حملوں میں اضافہ بھی خطرے کی گھنٹی ہے ۔افغان سرحد سے جڑے یہ علاقے دہشت گردوں کے محفوظ مقامات ہیں۔

پاکستان اور افغانستان کی 2500 ہزار کلومیٹر پھیلی ہوئی سرحد ابھی مکمل طور پر محفوظ نہیں بنائی جاسکی ہے چنانچہ یہی وجہ ہے کہ دہشت گرد پیچیدہ راستوں سے گزر کر پاکستانی علاقوں میں آاور جا سکتے ہیں ۔ پاکستان کی فوج، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں نے بہت حد تک دہشت گردوں اور اس سے وابستہ عناصر کا قلع قمع کر دیا ہے۔

بلوچستان میں پاکستان کے کوئلے اور قدرتی گیس کے کئی بہت بڑے ذخائر ہیں اور ان میں سے بعض میں چین کی مدد سے کانکنی ہورہی ہے ،یہاں دہشت گرد اور شرپسند تنظیمیں ایک عرصے سے پاکستان کی سیکیورٹی فورسز پر حملوں میں ملوث ہیں۔یہ صوبہ اربوں ڈالر کی لاگت والے منصوبے چین پاکستان اقتصادی کوریڈور(سی پیک) کا حصہ ہے۔ اس خطے میں تشدد پر قابو پانے اور اس کی سیکیورٹی کے لیے پاکستانی سیکیورٹی فورسز کے ہزاروں جوان تعینات ہیں۔

پاکستانی حکومت کا کہنا ہے کہ بھارت اس علاقے میں شدت پسندی کو ہوا دے رہا ہے اور شدت پسندوں کی مالی امداد کر رہا ہے جس کا مقصد ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری کو روکنے کی کوشش کرنا ہے۔ پاکستانی مل جل کر بھائی چارہ کی فضا میں رہتے ہیں مگر پھر بھی بیرونی دشمن کہیں نہ کہیں ان کے درمیان پھوٹ ڈال کر اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

پاکستانی عوام غربت کے لپیٹ میں ہیں۔غربت بذاتَ خود ایک سنگین مسئلہ ہے اور اس سے بہت سے مسائل جنم لیتے ہیں۔ہمارے ملک میںبہت سے لوگ غربت کے ہاتھوں تنگ آکر خود کشیاں کر رہے ہیں اور کچھ افراد پیسوں کے لالچ میں آکر غیر قانونی کام کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ ملک کی ترقی میں غربت ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔

شر پسند عناصر غربت کے مارے ہوئے لوگوں کو پیسے کا لالچ دے کر دہشت گردی جیسے گھناونے جرم پر اکسا رہے ہیں۔ہمارے ملک میں اس وقت بیروزگاری عام ہے اور بڑھتی ہوئی آبادی اس بے روزگاری میں مزید اضافہ کررہی ہے۔ بے روزگاری کی زد میں آئے ہوئے نو جوان سنگین سے سنگین جرم کا ارتکاب بھی کر لیتے ہیں جس سے جرائم کی شرح میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔مناسب روزگار کی عدم دستیابی کی صورت میں لوگ ناجائز ذرایع سے پیسہ کمانے کی اسکیمیں بنالیتے ہیں۔ دہشت گردی کی ایک اور وجہ تعلیم کی کمی ہے۔

پاکستان آج بھی ناخواندگی اور جہالت کے اندھیروں سے باہر نہیں آیا۔دہشت گردی کی ایک بڑی وجہ صوبائی تعصب اور تنگ نظری بھی ہے۔ہمارے ملک میں بعض سیاسی گروہ قومی مفاد کے بجائے صوبائی منافرت کی باتیں کرتے ہیں۔ چھوٹے صوبوں میں قوم پرستی کی آڑ میں بڑوں صوبوں پر اپنے حقوق غصب کرنے کے الزامات لگاتے ہیں تاکہ ان کی سیاست قائم رہے۔ بیرونی طاقتیں صوبائیت پرستی کو ہوا دے رہی ہیں تاکہ ملک میں انتشار پیدا ہو۔ اسی طرح پورے ملک میں فرقہ واریت کو ہوا دی جا رہی ہے ۔

پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات اور فرقہ واریت کے فروغ میں وہ قوتیں ملوث رہی ہیں جو ہماری ایٹمی پروگرام کو سبوتاژ کرنے کے درپے ہیں۔اپنے مذموم عناصر کے ذریعے اقوام عالم کو ہمیشہ یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کی محفوط پناہ گاہ ہے اور اس کا ایٹمی پروگرام محفوظ ہاتھوں میں نہیں۔ دہشت گردی کے خلاف انسداد دہشت گردی کے اداروں اور عوام نے یکساں موقف اختیار کرکے یہ ثابت کیا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عوام ملک دشمنوں کے خلاف ایک پیج پر ہی اور ملک کے خلاف کسی بیرونی یا اندرونی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے ۔

اس خطے کی بدلتی ہوئی جیواسٹرٹیجکل صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کے پالیسی سازوں کو شمال مغرب میں جاندار حکمت عملی اختیار کرنا ہو گی۔ یہ امر اطمینان کا باعث ہے کہ پاکستان نے افغانستان کے ساتھ سرحد پر 40فیصد کے قریب آہنی باڑ نصب کر دی ہے۔ اس اہم کام کو مسلسل جاری رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان کی شمال مغربی سرحدیں محفوظ بنائی جا سکیں۔ جیسا کہ کہا جا رہا ہے کہ امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد افغانستان میں حالات خراب ہوں گے اور اس کے نتیجے میں ایک بار پھر آبادی کا انخلا ہو گا۔

اس کا مطلب یہی ہے کہ افغانستان کے لوگ مہاجر بن کر پاکستان میں داخل ہونے کی کوشش کر یں گے۔ پاکستان کو پہلے سے ہی ایسی حکمت عملی تیار رکھنی چاہیے کہ اس بار افغانستان کے لوگوں کو سرحد پار کرنے سے روکا جا سکے۔ بہتر یہی ہے کہ افغانستان سے ملحق وسط ایشیائی ممالک جن میں ازبکستان'تاجکستان اور ایران اسلامی بھائی چارے کا مظاہرہ کرتے ہوئے افغانوں کے لیے اپنی سرحدیں نرم کر دیں۔ ویسے بھی افغانستان ثقافتی اورنسلی اعتبار سے وسط ایشیا اور ایران کے زیادہ قریب ہے۔

پاکستان کو اپنے معاشرے اور معیشت کو بچانے کے لیے جارحانہ اقدامات کی ضرورت ہے۔ پاکستان پر آبادی کے پہلے ہی بے پناہ بوجھ ہے' اس لیے یہاں مزید لوگوں کو لانا ملک اور قوم کے ساتھ دشمنی کے برابر ہے۔ اسی طرح ملکی معیشت بھی اس قابل نہیں ہے کہ وہ مزید مہاجرین کا بوجھ برداشت کر سکے۔ وقت کا تقاضا یہی ہے کہ پاکستان کے پالیسی ساز پاکستان کے مفادات کو سب سے پہلے محفوظ بنائیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں