خواجہ معین الدین چشتی غریب نواز اجمیریؒ
خواجہ معین الدین چشتی المعروف غریب نواز اجمیری نے اپنی ساری زندگی عام لوگوں کے لیے دین اسلام کا سچا علم دیا۔
MILAN:
14 رجب المرجب 531 ھ بروز پیر بمطابق 25 اپریل 1136ء کو ایران کے صوبہ سیستان کے شہر اصفہان کے ایک چھوٹے سے علاقے سنجر میں حضرت خواجہ معین الدین چشتی پیدا ہوئے ، آپ کے والد کا نام سید غیاث الدین۔ شاید اکثر لوگ آپ کا پورا نام نہیں جانتے، حضرت خواجہ حاجی حافظ قادری معین الدین چشتی سنجری ہے۔
آپ کا سلسلہ نسب امیر المومنین حضرت علی ابن طالب سے ملتا ہے ۔ آپ کے والد سید غیاث الدین اپنے وقت کے مشہور عالم دین تھے۔ یہی وجہ ہے آپؒ نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی۔ جب آپؒ کی عمر 15 برس ہوئی تو آپ کے والدین اس دنیا سے کوچ کرگئے۔ حضرت معین الدینؒ کو ورثہ میں ایک باغ اور ایک پن چکی ملی۔
ایک روز ایک بزرگ کا گزر ہوا جن کا نام حضرت ابراہیم کندوزی تھا جوکہ اپنے زمانے کے عالم دین اور عشق الٰہی میں ڈوبے ہوئے ایک ولی اللہ تھے جب باغ میں پہنچے تو حضرت خواجہ معین الدین چشتی نے نہایت عزت واحترام سے سلام کیا ، ان کی مہمان نوازی کی جب کہ وہ حضرت ابراہیم کندوزی کو نہیں جانتے تھے۔ آپؒ کا یہ انداز اور مہمان نوازی اس قدر اچھی لگی کہ حضرت ابراہیم کندوزی نے آپؒ کو اپنی جھولی سے سوکھی ہوئی روٹی کا ایک ٹکڑا دیا۔
حضرت معین الدینؒ نے اس روٹی کے ٹکڑے کو بسم اللہ پڑھ کرکھا لیا۔ روٹی کھانے کے بعد آپؒ کی حالت قلب تبدیل اور دل نور الٰہی سے منور ہو گیا۔ آپؒ کا دل دنیاوی معاملات سے دین کی طرف بڑھ گیا۔ آپ نے باغ اور پن چکی کو فروخت کرکے تمام رقوم غریب و مساکین میں تقسیم کردی۔ بعدازاں آپ سنجر سے ہجرت کرتے ہوئے ثمرقند پہنچے وہاں آپؒ نے قرآن مجید کا علم حاصل کیا اور قرآن حفظ کر لیا۔ ثمرقند سے بخارہ دین کا مزید علم حاصل کرنے پہنچے، بخارہ میں آپ کی ملاقات مشہور عالم دین مولانا احسام الدین بخاری کے ساتھ ہوئی۔
خواجہ معین الدین چشتیؒ نے دین کا علم حاصل کرنا شروع کردیا۔ جب آپ کو روحانی علم حاصل کرنے کا قصد ہوا تو بخارہ سے عراق پہنچے وہاں ملاقات شیخ نجم الدین اکبر سے ہوئی آپؒ نے حضرت سے علم حاصل کیا۔ بعدازاں نجف گئے وہاں امیرالمومنین حضرت علی ابن طالبؒ کے روضے پر حاضری دی۔ نجف سے کربلا حضرت امام حسینؑ کے روضے کی زیارت کی۔ کربلا سے سامرا، سامرا سے کاظمین پھر کاظمین سے اپنے مرشد کے پاس بغداد پہنچے اس وقت آپ کی عمر تقریباً 32 برس ہو چکی تھی۔
بغداد کے قصبہ ہارون میں ملاقات مرشد حضرت خواجہ عثمان ہروی کے پاس پہنچے ان کے مرشد نے وضو کے بعد دو رکعت نماز پڑھنے کو کہا، پھر 21 بار درود پاک پڑھنے کو ہدایت دی۔ حضرت خواجہ عثمان ہروی نے آپؒ کا ہاتھ پکڑ کے کہا ''معین الدین! میں نے تجھے اللہ تک پہنچا دیا اس کی بارگاہ میں برگزیدہ بندہ بنا دیا'' آپؒ نے اپنے مرشد سے روحانی علم حاصل کیا۔
حضرت معین الدین چشتی نے اپنے مرشد کے ساتھ مختلف علاقوں کا سفرکیا۔ اس سفر کے دوران اپنے زمانے کے مشہور ولی اللہ سے ملاقاتیں ہوئیں جن کے نام ہیں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی، حضرت شیخ نجیب الدین، حضرت شیخ ابو سعید ہرمزی، حضرت عبدالشیخ واحد غزنوی اور حضرت بہاؤالدین ، بختیار ادشی ان کے علاوہ اور بھی مشہور ولی اللہ کی ملاقات حضرت خواجہ معین الدین چشتی سے ہوئی۔ اپنے مرشد حضرت عثمان ہروی کے ساتھ حجاز جا کر حج کیا وہاں سے مدینہ آئے روضہ رسول پر اپنا سلام پیش کیا۔
حضرت خواجہ عثمان ہروی نے حضرت خواجہ معین الدین چشتی کو اپنا خلیفہ مقرر کرلیا۔ تقریباً دس برس تک اپنے مرشد کے پاس قیام کیا اور روحانی علم مزید حاصل کرنے کے بعد اپنے شہر اصفہان، سنجر پہنچے تھوڑا ہی عرصہ اپنے آبائی علاقے میں رہے۔ دوبارہ حج کے لیے حجاز آئے حج کے فرائض کی ادائیگی کے بعد مدینہ منورہ آئے، کئی دنوں تک روضہ رسول پر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے رہے۔
ایک دن عبادت میں مصروف تھے تو کانوں میں ایک آواز آئی'' ہم نے تمہیں ہندوستان کی ولایت عطا کی ، جاؤ اجمیر میں جاکے قیام کرو، تمہارے وہاں جانے سے کفر کا اندھیرا دور ہوگا اور اسلام کی روشنی پھیلے گی۔'' خواجہ معین الدین چشتی خواجہ قطب الدین بختیار کاکی، خواجہ فخر الدین اور اپنے دیگر چالیس مریدین کے ساتھ بغداد پہنچے، بغداد سے ملتان، ملتان سے لاہور، لاہور سے پٹیالہ، پٹیالہ سے دہلی اور دہلی سے اجمیر پہنچے۔ اجمیر پر راجہ پرتھوی راج چوہان کی حکومت تھی۔
خواجہ معین الدین چشتی اپنے تمام مریدین کے ساتھ اجمیر کی آبادی سے دور ایک درخت کے نیچے جا کر بیٹھ گئے۔ بعدازاں آپؒ '' آنا ساگر '' کے پاس والی پہاڑی پر اپنے مریدین کے ساتھ جا کر بیٹھ گئے۔ راجہ پرتھوی راج کو آپؒ سے ڈر تھا لہٰذا وہ چاہتا تھا کہ آپؒ یہاں سے چلے جائیں وہ مختلف ہتھکنڈے استعمال کرتا رہا۔ بڑے جادوگر جے پال کو بھیجا وہ بھی مسلمان ہو گیا۔ مختلف کوشش کرتا رہا ہر کوشش میں ناکام رہا۔
''آنا ساگر'' کے کنارے بے شمار مندر تھے جن میں 300 پجاری رہتے تھے۔ ان مندروں میں دیے جلنے میں ساڑھے تین سو من تیل روز راجہ پرتھوی راج بھیجتا تھا۔ خواجہ معین الدین چشتی اور ان کے مریدین '' آنا ساگر'' کے پانی سے جاکر وضو کرتے، اس پر ان ہندوؤں کو اعتراض تھا۔ اس کی شکایت راجہ کو کی لیکن اس میں بھی ناکامی ہوئی۔ وہ مسلمانوں کو برا بھلا کہتے ، ہندو کہتے مسلمان آ کر ہمارا پانی ناپاک کر جاتے ہیں ہمارا دھرم نشت ہوتا ہے ، لیکن وہ کچھ نہ کر سکے۔
سلطان شہاب الدین غوری کو خواب میں ایک ولی کہنے لگا '' جا کر اجمیر کے راجہ پرتھوی راج چوہان سے جنگ کرو، جلد وہ تمہارے ہاتھوں قید ہوگا'' شہاب الدین غوری افغانستان سے اپنی فوجوں کے ساتھ راجستھان پہنچ گیا۔ راجہ پرتھوی راج چوہان کو شکست ہوئی۔ مسلمان شہاب الدین غوری جب خواجہ معین الدین چشتیؒ سے ملے تو وہ بول اٹھے'' بے شک اللہ کے ولی ، آپ تھے جس نے خواب میں مجھ کو راجہ پرتھوی راج چوہان سے جنگ کرنے کو کہا تھا'' وہ آپ کا مرید ہوگیا۔
خواجہ معین الدین چشتی المعروف غریب نواز اجمیری نے اپنی ساری زندگی عام لوگوں کے لیے دین اسلام کا سچا علم دیا۔ ہندوستان کے دیگر صوبوں اور شہروں سے مسلمان ہوئے ان کے مریدین کی تعداد بڑھتی رہی بہت زیادہ ہندو مسلمان ہوئے۔چھ رجب المرجب 633 بمطابق 22 مارچ 1336 کو حضرت خواجہ معین الدین چشتی غریب نواز اجمیری ہندوستان کے صوبہ راجستھان کے شہر اجمیر میں پردہ فرما گئے۔ آپ کا مزار راجستھان کے شہر اجمیر میں موجود ہے جہاں روزانہ سیکڑوں معتقدین آکر حاضری دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو نیک اعمال پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)