لاہور میں کوتوالوں نے امن و امان کی ذمہ داری سنبھال لی
بعض شہریوں کی جانب سے کوتوالوں کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے۔
دہلی دروازے سے شروع ہونیوالی شاہی گزرگاہ میں امن وامان اورنگہبانی کی ذمہ داری برسوں بعد خاکی وردی اوراونچے شملے والی پگڑی پہنے کوتوالوں نے سنبھال لی ہے۔
خاکی وردی، اونچے شملے والی پگڑی، گھٹنوں تک اونچی پتلون اورہاتھ میں ڈانڈا۔۔۔ مونچھوں کوتاؤ دیتے ہیں یہ ہیں لاہورکے دہلی دروازہ کے نئے کوتوال مدثرفاروق، ان کاکام ہے اندرون لاہورکی تاریخی شاہی گزرگاہ پرگشت کرنا ہے،یہ اورانکے ساتھی ہاتھوں میں ڈنڈاپکڑے شاہی گزرگاہ میں گھومتے اورماحول پرنظررکھتے ہیں۔
مدثر فاروق کہتے ہیں کوتوال کے روپ میں انہیں بہت زیادہ پذیرائی مل رہی ہے، یہاں دہلی گیٹ کے قریب پولیس اہلکاربھی تعینات ہیں لوگ ان کی بجائے مجھے زیادہ غورسے دیکھتے اورمیرے ساتھ سیلفیاں بناتے ہیں، ہماراکام تجاوزات اورغیرقانونی پارکنگ کوروکنا، والڈسٹی آف لاہوراتھارٹی کے سیکیورٹی گارڈزکی مانیٹرنگ اورامن وامان پرنظررکھناہے۔
مدثرفاروق کے مطابق پرانے وقتوں کے کوتوال کے پاس توبڑے اختیارات ہوتے تھے، ہم توڈمی ہیں، لوگوں سے ریکویسٹ کرتے ہیں اگرکوئی مان لے توٹھیک ورنہ ایوری تھنگ ازاوکے۔
ان کوتوالوں کا پیدل گشت دہلی دروازہ سے شروع ہو کر پرانی کوتوالی پر ختم ہوتا ہے۔ ڈیڑھ کلومیٹر طویل اس شاہی گزرگاہ پر مسجد وزیر خان، شاہی حمام اور سنہری مسجد سمیت کئی اہم تاریخی عمارتیں قائم ہیں، مقامی لوگ اوریہاں آنیوالے سیاح برطانوی اورمغلیہ دورکے ان کرداروں کوحیرت سے دیکھتے ہیں۔
مقامی خاتون سیاح زرغونہ سحر کہتی ہیں والڈسٹی آف لاہوراتھارٹی نے اندرون شہر کے حقیقی اورپرانے کلچرکوبحال کرنے میں لگی ہے، چندبرسوں میں یہاں بہت کچھ تبدیل ہوگیاہے، باہرسے جیسے ہی آپ اندرون شہرمیں داخل ہوتے ہیں خاص طورپردہلی دروازہ عبورکرتے ہیں توایسے لگتاہے جیسے ایک لمحے میں آپ کئی سال پیچھے کے دورمیں چلے گئے ہیں۔ یہ کوتوال بھی ایک اچھااضافہ ہیں لیکن قدیم شہرکی درودیوار دیکھ کرلگتاہے جیسے یہ کوتوال شروع سے ہی یہاں ہیں ،یہ اس کلچر،یہاں کے درودیوارمیں رچ بس گئے ہیں۔
والدسٹی آف لاہوراتھارٹی نے اندورن شہرکے قدیم ثقافت کی بحالی منصوبے کے تحت کوتوال کے کردارفعال کئے گئے ہیں، حکام کے مطابق دہلی دروازہ اورشاہی گزرگاہ سیاحوں کی دلچسپی کامرکزہیں یہاں کے حقیقی ماضی کوبحال کرناہمارامقصدہے۔
والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی کی طرف سے تعینات ٹوورسٹ آفیسرمحمدجاوید نے ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے کہا برصغیرپاک وہند میں پولیس کے نظام سے قبل کوتوال ہی امن وامان اورقانون کامحافظ ہوتاتھا، دہلی کے پہلے کوتوال ملک الامرا فخرالدین تھے وہ 1237 میں 40 سال کی عمر میں کوتوال بنے تھے اپنی ایمان داری کے سبب وہ تین سلطانوں کے دور میں طویل عرصہ تک اس عہدہ پر رہے۔ اسی طرح مغل بادشاہ شاہ جہاں نے 1648 میں دہلی کو اپنا دارالحکومت بنایاتوغضنفر خان نامی شخص کو نئے شہر شاہجہان آباد کا پہلا کوتوال مقرر کیا تھا۔ غضنفر خان کو بعد میں کوتوال کے ساتھ ہی چیف آف آرٹیلری بھی بنا دیا گیا۔سال 1857 کی جنگ آزادی کے بعد انگریزوں نے دہلی پر قبضہ کر لیا اور اسی کے ساتھ کوتوال کانظام بھی ختم ہو گیا اور باقاعدہ پولیس کا نظام متعارف کروایا گیا، آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے دور میں اس وقت پنڈت جواہر لال نہرو کے دادا پنڈت گنگا دھر نہرو دہلی کے آخری کوتوال تھے۔
محمدجاوید نے یہ بھی بتایا کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے عہد میں لاہور کے آخری کوتوال سردار جے مل سنگھ تھے، انگریز دور میں لاہور کے پہلے کوتوال خدا بخش تھے۔ وہ ککے زئی قوم کے تھے۔ انھیں انگریزسپاہیوں سے شاہی قلعہ کے توشہ خانہ سے چوری شدہ قیمتی اشیا برآمد کرنے پر پانچ ہزار روپے اور 50 تولہ سونا انعام میں دیئے گئے۔
والڈسٹی آف لاہوراتھارٹی کی ڈائریکٹرنوشین زیدی نے بتایا والڈ سٹی آف لاہوراتھارٹی نےقدیم روایات کو زندہ کرنے کے لئےتاریخی عہدیدار کوتوال کوگلیوں کی رونقوں کا حصہ بنا دیا ہے۔ خاکی وردی میں ملبوس کوتوال ہر دیکھنے والے کو ماضی کی یاد دلاتا ہے۔ لاہور کے دہلی گیٹ پر کوتوال نظر آنے لگے ہیں۔پرانے وقتوں میں لاہورکے بارہ دروازے اورایک موری تھی جہاں کوتوال تعینات ہوتاتھا تاہم ہم نے ابھی صرف دہلی دروازہ میں ہی کوتوال متعارف کروائے ہیں کیونکہ یہ ہمارے پاس ایک ماڈل ہے اوریہ علاقہ سیاحت کے حوالے سے ایک مرکزہے۔ یہاں ہمارے پاس دس سیکیورٹی گارڈہیں جن پرایک کوتوال ہے۔ کوتوال ان سیکیورٹی گارڈز کی نگرانی کرتے ہیں، تجاوزات کودیکھتے ہیں۔ ٹریفک کے معاملات پرنظررکھتے ہیں اورسب سے بڑھ کریہ کہ یہ سیاحوں کی توجہ کامرکزبنے ہوئے ہیں۔
بعض شہریوں کی طرف سے کوتوال کے کردار کوانگریزدورکی غلامی کی یادگارکے طورپرتنقیدکانشانہ بھی بنایاجارہا ہے تاہم والڈسٹی آف لاہوراتھارٹی کے حکام کاکہنا ہے اگراس تناظر میں دیکھیں توپھرآدھالاہور غلام دورکی یادگارہے، مال روڈپربڑی بڑی شانداراورقدیم عمارتیں توکیاان سب کوختم کردیں؟ ایسا نہیں ہوتاہے۔یہ ہمارے کلچراورثقافت کی نشانیاں ہیں جن کوبچانے اوربحال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
خاکی وردی، اونچے شملے والی پگڑی، گھٹنوں تک اونچی پتلون اورہاتھ میں ڈانڈا۔۔۔ مونچھوں کوتاؤ دیتے ہیں یہ ہیں لاہورکے دہلی دروازہ کے نئے کوتوال مدثرفاروق، ان کاکام ہے اندرون لاہورکی تاریخی شاہی گزرگاہ پرگشت کرنا ہے،یہ اورانکے ساتھی ہاتھوں میں ڈنڈاپکڑے شاہی گزرگاہ میں گھومتے اورماحول پرنظررکھتے ہیں۔
مدثر فاروق کہتے ہیں کوتوال کے روپ میں انہیں بہت زیادہ پذیرائی مل رہی ہے، یہاں دہلی گیٹ کے قریب پولیس اہلکاربھی تعینات ہیں لوگ ان کی بجائے مجھے زیادہ غورسے دیکھتے اورمیرے ساتھ سیلفیاں بناتے ہیں، ہماراکام تجاوزات اورغیرقانونی پارکنگ کوروکنا، والڈسٹی آف لاہوراتھارٹی کے سیکیورٹی گارڈزکی مانیٹرنگ اورامن وامان پرنظررکھناہے۔
مدثرفاروق کے مطابق پرانے وقتوں کے کوتوال کے پاس توبڑے اختیارات ہوتے تھے، ہم توڈمی ہیں، لوگوں سے ریکویسٹ کرتے ہیں اگرکوئی مان لے توٹھیک ورنہ ایوری تھنگ ازاوکے۔
ان کوتوالوں کا پیدل گشت دہلی دروازہ سے شروع ہو کر پرانی کوتوالی پر ختم ہوتا ہے۔ ڈیڑھ کلومیٹر طویل اس شاہی گزرگاہ پر مسجد وزیر خان، شاہی حمام اور سنہری مسجد سمیت کئی اہم تاریخی عمارتیں قائم ہیں، مقامی لوگ اوریہاں آنیوالے سیاح برطانوی اورمغلیہ دورکے ان کرداروں کوحیرت سے دیکھتے ہیں۔
مقامی خاتون سیاح زرغونہ سحر کہتی ہیں والڈسٹی آف لاہوراتھارٹی نے اندرون شہر کے حقیقی اورپرانے کلچرکوبحال کرنے میں لگی ہے، چندبرسوں میں یہاں بہت کچھ تبدیل ہوگیاہے، باہرسے جیسے ہی آپ اندرون شہرمیں داخل ہوتے ہیں خاص طورپردہلی دروازہ عبورکرتے ہیں توایسے لگتاہے جیسے ایک لمحے میں آپ کئی سال پیچھے کے دورمیں چلے گئے ہیں۔ یہ کوتوال بھی ایک اچھااضافہ ہیں لیکن قدیم شہرکی درودیوار دیکھ کرلگتاہے جیسے یہ کوتوال شروع سے ہی یہاں ہیں ،یہ اس کلچر،یہاں کے درودیوارمیں رچ بس گئے ہیں۔
والدسٹی آف لاہوراتھارٹی نے اندورن شہرکے قدیم ثقافت کی بحالی منصوبے کے تحت کوتوال کے کردارفعال کئے گئے ہیں، حکام کے مطابق دہلی دروازہ اورشاہی گزرگاہ سیاحوں کی دلچسپی کامرکزہیں یہاں کے حقیقی ماضی کوبحال کرناہمارامقصدہے۔
والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی کی طرف سے تعینات ٹوورسٹ آفیسرمحمدجاوید نے ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے کہا برصغیرپاک وہند میں پولیس کے نظام سے قبل کوتوال ہی امن وامان اورقانون کامحافظ ہوتاتھا، دہلی کے پہلے کوتوال ملک الامرا فخرالدین تھے وہ 1237 میں 40 سال کی عمر میں کوتوال بنے تھے اپنی ایمان داری کے سبب وہ تین سلطانوں کے دور میں طویل عرصہ تک اس عہدہ پر رہے۔ اسی طرح مغل بادشاہ شاہ جہاں نے 1648 میں دہلی کو اپنا دارالحکومت بنایاتوغضنفر خان نامی شخص کو نئے شہر شاہجہان آباد کا پہلا کوتوال مقرر کیا تھا۔ غضنفر خان کو بعد میں کوتوال کے ساتھ ہی چیف آف آرٹیلری بھی بنا دیا گیا۔سال 1857 کی جنگ آزادی کے بعد انگریزوں نے دہلی پر قبضہ کر لیا اور اسی کے ساتھ کوتوال کانظام بھی ختم ہو گیا اور باقاعدہ پولیس کا نظام متعارف کروایا گیا، آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے دور میں اس وقت پنڈت جواہر لال نہرو کے دادا پنڈت گنگا دھر نہرو دہلی کے آخری کوتوال تھے۔
محمدجاوید نے یہ بھی بتایا کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے عہد میں لاہور کے آخری کوتوال سردار جے مل سنگھ تھے، انگریز دور میں لاہور کے پہلے کوتوال خدا بخش تھے۔ وہ ککے زئی قوم کے تھے۔ انھیں انگریزسپاہیوں سے شاہی قلعہ کے توشہ خانہ سے چوری شدہ قیمتی اشیا برآمد کرنے پر پانچ ہزار روپے اور 50 تولہ سونا انعام میں دیئے گئے۔
والڈسٹی آف لاہوراتھارٹی کی ڈائریکٹرنوشین زیدی نے بتایا والڈ سٹی آف لاہوراتھارٹی نےقدیم روایات کو زندہ کرنے کے لئےتاریخی عہدیدار کوتوال کوگلیوں کی رونقوں کا حصہ بنا دیا ہے۔ خاکی وردی میں ملبوس کوتوال ہر دیکھنے والے کو ماضی کی یاد دلاتا ہے۔ لاہور کے دہلی گیٹ پر کوتوال نظر آنے لگے ہیں۔پرانے وقتوں میں لاہورکے بارہ دروازے اورایک موری تھی جہاں کوتوال تعینات ہوتاتھا تاہم ہم نے ابھی صرف دہلی دروازہ میں ہی کوتوال متعارف کروائے ہیں کیونکہ یہ ہمارے پاس ایک ماڈل ہے اوریہ علاقہ سیاحت کے حوالے سے ایک مرکزہے۔ یہاں ہمارے پاس دس سیکیورٹی گارڈہیں جن پرایک کوتوال ہے۔ کوتوال ان سیکیورٹی گارڈز کی نگرانی کرتے ہیں، تجاوزات کودیکھتے ہیں۔ ٹریفک کے معاملات پرنظررکھتے ہیں اورسب سے بڑھ کریہ کہ یہ سیاحوں کی توجہ کامرکزبنے ہوئے ہیں۔
بعض شہریوں کی طرف سے کوتوال کے کردار کوانگریزدورکی غلامی کی یادگارکے طورپرتنقیدکانشانہ بھی بنایاجارہا ہے تاہم والڈسٹی آف لاہوراتھارٹی کے حکام کاکہنا ہے اگراس تناظر میں دیکھیں توپھرآدھالاہور غلام دورکی یادگارہے، مال روڈپربڑی بڑی شانداراورقدیم عمارتیں توکیاان سب کوختم کردیں؟ ایسا نہیں ہوتاہے۔یہ ہمارے کلچراورثقافت کی نشانیاں ہیں جن کوبچانے اوربحال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔