دولت مند اور بااثرافراد عموماً اپنی غلطی تسلیم نہیں کرتے
سماجی نفسیات دانوں کے مطابق دولت مند افراد اپنی غلطی ماننے کی بجائے دوسروں پر تھوپ دیتے ہیں
نفسیاتی ماہرین نے کہا ہے کہ دولت مند اور بااثر افراد اکثر اپنی غلطی تسلیم نہیں کرتے اور اکثر اوقات اپنی غلطی دوسروں کے سر تھوپ دیتے ہیں۔
یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سان ڈیاگو کے ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ طاقتور، بااثر اور دولت مند افراد اپنی غلطیاں مشکل سے ہی مانتے ہیں اور اپنی غلطیوں کا ذمےداراپنےماتحتوں پر ڈال دیتےہیں۔
اگر ادارے میں عہدوں کی مناسبت سے ناانصافی ہورہی ہو تب بھی ان پر کوئی خاص اثر نہیں پڑتا۔ جامعہ کیلیفورنیا کے ریڈی اسکول آف مینجمنٹ کے نفسیات دانوں نے اس ضمن میں ایک رپورٹ شائع کرائی ہے۔ اس مقالے کے مطابق عہدہ اور قوت سے ایک طرح کا 'انتخابی طرزِ فکر' (چوائس مائنڈ سیٹ) جنم لیتا ہے۔ اگرچہ ان کے پاس بہت ساری چیزوں کی گنجائش ہوتی ہے لیکن وہ دوسروں کو سمجھتے ہیں کہ وہ زیادہ بااختیار ہیں۔ اس کا نتیجہ حسد کی صورت میں بھی برآمد ہوتا ہے اور ایک طرح سے دوسروں کو سزا دینے کی عادت سی بن جاتی ہے۔
اس تحقیق میں شامل پی ایچ ڈی اسکالر ییڈان یِن کہتے ہیں کہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ بہت سی مراعات والا 'چوائس مائنڈ سیٹ' کس طرح پیدا ہوتا ہے، یہ لوگ کس طرح سوچتے ہیں اور کس طرح کا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ ایسے لوگ کمزور لوگوں کی حدود کا لحاظ نہیں کرسکتے ہیں اور یہاں تک کہ اپنی غلطی بھی دوسروں پر ڈال دیتے ہیں۔ پھر وہ اس رویے کے جواز پیش کرنے کے بھی ماہر ہوتے ہیں۔
اس کے تحت تین مطالعے کئے گئے: اول 363 عام افراد بھرتی کئے گئے اور انہیں بتایا گیا کہ یہ ایک ہیومن ریسورس کا تجربہ ہے۔ ان سے کہا گیا کہ وہ اپنے ماتحت معاون کو وقت پر کام نہ کرنے پربونس دیں کیونکہ جو پروجیکٹ تھا اس میں کچھ مشکلات تھیں اور مفادات کا ٹکراؤ بھی تھا۔ جن افراد کو فرضی طور پر زیادہ اختیارات دیئے گئے تھے انہوں نے کوئی رعایت نہیں کی اور کہا کہ وہ کسی مدد کے منتظر نہیں ہیں۔
اسی طرح مزید 393 افراد کو لے کر انہیں افسرِ بالا اور ماتحت کے کردار دیئے گئے۔ یہاں بھی جن کے پاس طاقت تھی انہوں نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال بھی کیا۔ بلکہ کچھ نے تو اپنے ماتحتوں کو سزا بھی دی۔ عین یہی تجربہ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سان ڈیاگو کی تجربہ گاہ میں دوہرایا گیا اور وہاں بھی کیفیت مختلف نہ تھی۔
ماہرین نے کہا ہے کہ اس اہم نفسیاتی مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ کئی اداروں میں اختیارات کے بے جااستعمال کو روکنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس سے کام کرنے کے ماحول کو قدرے شفاف اور پرسکون بنایا جاسکے گا۔
یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سان ڈیاگو کے ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ طاقتور، بااثر اور دولت مند افراد اپنی غلطیاں مشکل سے ہی مانتے ہیں اور اپنی غلطیوں کا ذمےداراپنےماتحتوں پر ڈال دیتےہیں۔
اگر ادارے میں عہدوں کی مناسبت سے ناانصافی ہورہی ہو تب بھی ان پر کوئی خاص اثر نہیں پڑتا۔ جامعہ کیلیفورنیا کے ریڈی اسکول آف مینجمنٹ کے نفسیات دانوں نے اس ضمن میں ایک رپورٹ شائع کرائی ہے۔ اس مقالے کے مطابق عہدہ اور قوت سے ایک طرح کا 'انتخابی طرزِ فکر' (چوائس مائنڈ سیٹ) جنم لیتا ہے۔ اگرچہ ان کے پاس بہت ساری چیزوں کی گنجائش ہوتی ہے لیکن وہ دوسروں کو سمجھتے ہیں کہ وہ زیادہ بااختیار ہیں۔ اس کا نتیجہ حسد کی صورت میں بھی برآمد ہوتا ہے اور ایک طرح سے دوسروں کو سزا دینے کی عادت سی بن جاتی ہے۔
اس تحقیق میں شامل پی ایچ ڈی اسکالر ییڈان یِن کہتے ہیں کہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ بہت سی مراعات والا 'چوائس مائنڈ سیٹ' کس طرح پیدا ہوتا ہے، یہ لوگ کس طرح سوچتے ہیں اور کس طرح کا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ ایسے لوگ کمزور لوگوں کی حدود کا لحاظ نہیں کرسکتے ہیں اور یہاں تک کہ اپنی غلطی بھی دوسروں پر ڈال دیتے ہیں۔ پھر وہ اس رویے کے جواز پیش کرنے کے بھی ماہر ہوتے ہیں۔
اس کے تحت تین مطالعے کئے گئے: اول 363 عام افراد بھرتی کئے گئے اور انہیں بتایا گیا کہ یہ ایک ہیومن ریسورس کا تجربہ ہے۔ ان سے کہا گیا کہ وہ اپنے ماتحت معاون کو وقت پر کام نہ کرنے پربونس دیں کیونکہ جو پروجیکٹ تھا اس میں کچھ مشکلات تھیں اور مفادات کا ٹکراؤ بھی تھا۔ جن افراد کو فرضی طور پر زیادہ اختیارات دیئے گئے تھے انہوں نے کوئی رعایت نہیں کی اور کہا کہ وہ کسی مدد کے منتظر نہیں ہیں۔
اسی طرح مزید 393 افراد کو لے کر انہیں افسرِ بالا اور ماتحت کے کردار دیئے گئے۔ یہاں بھی جن کے پاس طاقت تھی انہوں نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال بھی کیا۔ بلکہ کچھ نے تو اپنے ماتحتوں کو سزا بھی دی۔ عین یہی تجربہ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سان ڈیاگو کی تجربہ گاہ میں دوہرایا گیا اور وہاں بھی کیفیت مختلف نہ تھی۔
ماہرین نے کہا ہے کہ اس اہم نفسیاتی مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ کئی اداروں میں اختیارات کے بے جااستعمال کو روکنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس سے کام کرنے کے ماحول کو قدرے شفاف اور پرسکون بنایا جاسکے گا۔