کیوں سب نے پاکستانی کشتی رانی کی ٹیم کو بھلا دیا
"کیا آپ جانتے ہیں کہ پاکستان کے کشتی رانوں نے 2013 کے اولمپک کوالیفائنگ ایونٹ میں اپنی جگہ بنالی ہے؟"
"کیا آپ جانتے ہیں کہ پاکستان کے کشتی رانوں نے 2013 میں اولمپک کوالیفائنگ ایونٹ میں اپنی جگہ بنالی؟"
میں چائے پیتے ہوئے اچانک اپنی دوست کے سوال پر زور دار قہقہہ لگایا۔ پھر ہوش سنبھالتے ہوئے میں نے اسے جواب دیا
"پاکستانی کشتی ران؟ اولمپک؟ ہمارے پاس کشتی ران نہیں ہیں، کم از کم بین الاقوامی سطح کے تو ہرگز نہیں! مذاق بند کرو اور سکون سے مجھے میری چائے پینے دو۔"
میری بات کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اس نے کہا:
"حیرت انگیز ہے کہ نہیں؟ لیکن یہ سچ ہے۔ اگر تمہیں مجھ پر یقین نہیں ہے تو اسے گوگل کرلو یہ آپ کو ہمارے ان نوجوان کشتی رانوں کی فہرست فراہم کرے گا جنہوں نے 2013 میں ازبکستان میں اپنی جگہ بنائی تھی۔"
تو میں نے "پاکستان میں کشتی رانی" کو گوگل کیا۔
مجھے نہ صرف ان کشتی رانوں کی ایک فہرست ملی جنہوں نے یوتھ اولمپک گیمز (وائی او جی) کوالیفائنگ ایونٹ 2013 میں اپنی جگہ بنائی تھی بلکہ مجھے اس بات کا بھی احساس ہوا کہ یہ کھیل کس قدر منظم اور مربوط انداز سے ہمارے ملک موجود ہے۔
مزید جاننے میں دلچسپی رکھتے ہوئے میں نے ارگرد موجود لوگوں سے پوچھا اور آخر کار مجھے ایک شخص مل ہی گیا جو اصل میں ایک ایسے نوجوان کو جانتا تھا جس نے کوالیفائنگ ایونٹ میں حصہ لیا تھا۔ خوشی کے عالم میں میں نے کراچی بوٹ کلب ( کے بی سی) میں اس کے ساتھ ایک ملاقات کا اہتمام کیا جہاں وہ دیگر کشتی رانوں کے ساتھ تربیت فراہم کرتا ہے۔
اس شام کے بی سی میں داخل ہوتے ہوئے میں بوڑھوں اور نوجوانوں کو چائنا کریک پر اپنی پرجوش انداز میں کشتی رانی کرتے ہوئے دیکھ کر حیرت میں تھی۔ اگرچہ میں اس سے قبل بھی ان کشتی رانوں کو دیکھ چکی تھی مگر مجھے یہ احساس نہیں ہوا تھا کہ وہ تفریح کےعلاوہ بھی کسی اور چیز کے لئے کشتی رانی کرتے ہیں۔
وہی بلبلے جن میں ہم رہتے ہیں، ہے نا؟
ایک نوجوان لڑکا میرے طرف آیا اور اس نے منوشہر صدیقی کے طور پر خود کو متعارف کروایا، مجھے احساس ہوا کہ میں ان لڑکوں میں سے ایک کو دیکھ رہی ہوں جنہوں نے ایونٹ میں جگہ بنائی تھی۔ جب ہم کریک کی ایک طرف بیٹھے تو اس نے مجھے خود کے محض 10 سال کی عمر میں کشتی رانی کی دنیا میں قدم رکھنے کے حوالے سے بتایا۔
2006 میں اس کا تبادلہ سینٹر فار ایڈوانس اسٹڈیز (سی اے ایس) میں ہوا اور اس نے کشتی رانی کے اسکول میں شمولیت اختیار کی۔ اس کے بعد سے اس نے ملک اور بیرون ملک دونوں جگہ متعدد کشتی رانوں کے مقابلوں میں شرکت کی جس میں بھارت سے لے کر فلپائن تک اور حالیہ سب سے زیادہ اہم سمرقند ازبکستان کے دورے شامل ہیں۔
جس انداز میں منوشہر اپنی مہم جوئی کا تذکرہ کیا اس سے ان کا سفر کرنے اور لوگوں سے ملنے سے محبت عیاں تھی۔
"ہمیں ہر کشتی رانی کے مقابلے سے پہلے میزبان ملک میں ایک ہفتے سے لے کر 14 دن تک کی تربیت کی مدت دی جاتی ہے۔ ساتھ رہنا، ساتھ کھانا، ایک دوسرے کی زبانیں اور ثقافت سکیھنا یہ مکمل طور پر نیا تجربہ تھا، شوشل میڈیا پر میرے بہت سے دوست ایسے ہیں جن سے میری ان دوروں کے دوران ملاقات ہوئی۔"
یہ سب کچھ تفریح لگا لیکن میں ان کے والدین کے ردعمل کے بارے میں فکرمند تھی، میں نے ان سے پوچھا کہ انہوں نے کیسے اسکول اور تربیت کے معاملات کو سنبھالا۔
انہوں نے جواب دیا،
"میرے والدین نے ہمیشہ میری کشتی رانی کی حمایت کی کیونکہ یہ میری زندگی میں نظم و ضبط لے کر آئی ہے۔ مجھے صبح 6 بجے کے بی سی میں پہنچنا ہوتا ہے، ہم ہفتے کے 6 دن صبح اور شام کے وقت تربیت فراہم حاصل کرتے ہیں۔ دونوں اوقات میں ایک گھنٹے کی وزن، خشک کشتی رانی اور ورزش ہر مشتمل زمینی تربیت اور 2 گھنٹے کی پانی کی تربیت ہوتی ہے۔"
"میں اتوار کو بھی صبح 6 بجے یہاں موجود ہوتا ہوں۔"
انہوں نے وضاحت کی کہ اسکول اسپیشل الاؤنسسز دیتا ہے اور ان کی کلاسسز اسکول کے باقاعدہ اوقات کے ایک گھنٹے بعد شروع ہوتی ہیں۔
ان کے مطابق اسکولوں میں کھیلوں کی حمایت اور اس کی بڑھتی ہوئی آگاہی نے ان کی کافی مدد کی۔ ایک بار پھر میں لاجواب ہوگئی جب انہوں نے مجھے کے بی سی سے ملحق رجسٹرڈ اسکولز کی فہرست بتائی جن میں کراچی گرامر اسکول( کے جی ایس)، سینٹر فار ایڈوانس اسٹیڈیز (سی اے ایس)، دی لائسیم، بے ویو یائی، سینٹ پیٹرک ہائی اسکول، بیکن ہاؤس اسکول سسٹم، حبیب پبلک اسکول، انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے)، انسٹی ٹیوٹ آف بزنس مینجمینٹ( آئی اہ بی ایم) اور فاطمہ جناح اسکول سمیت دیگر شامل ہیں۔
یہ ناقابل یقین تھا کہ یہ سب کچھ کھیل کے لئے کیا جارہا ہے اور یہاں میں اس بات سے مکمل طور پر بے خبر تھی کہ کشتی رانی اس ملک میں بھی موجود ہے۔
میں یہ بتا سکتی ہوں کہ وہ ازبکستان میں اپنے حالیہ کشتی رانی کے مقابلے کے بارے میں بات کرنے کے لئے بے چین تھا۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ ان تینوں (19 سال سے کم عمر) کشتی رانوں میں سے ایک تھا جنہیں پاکستان کی طرف سے منتخب کیا گیا تھا جب کہ دیگر میں کراچی سے حسن کریم بائے اور لاہور سے عبدالرحمان شامل تھے۔
وہ لاہور سے تعلق رکھنے والے کشتی رانی کے کوچ زوہیب ہاشمی کے ساتھ اکتوبر 2013 میں اولمپک کوالیفائنگ ایونٹ کے لئے سمرقمند گئے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ کراچی میں موجود چائنا کریک 750،1 میٹرز ہے اور یہ پہلی بار تھا جب انہوں نے 2 ہزار میٹر کی ریس میں حصہ لیا تھا۔ ایونٹ میں منصفانہ نتائج کو یقینی بنانے کے لیے سب کچھ الیکٹرونک تھا جس میں لاک بوٹ سے لے کر الیکٹرونک اسٹارٹ اور ویڈیو اختتام تک ۔ انہوں نے کہا کہ 2 ہزار میٹر کی کشتی رانی کا مقابلہ اب تک کا سب سے مشکل کام تھا جو انہوں نے آج تک کیا تھا اور اس وقت وہ صرف یہ سوچ سکتا تھا کہ،
" میں نے اپنے آپ کو اس میں کیوں شامل کیا؟"
ہنستے ہوئے انہوں نے کہا کہ زیادہ تر مقابلوں میں وہ اپنے آپ سے یہی سوال پوچھتا ہے، خاص طور پر اختتام پر جب اس کے بازو اور ٹانگیں دباؤ کی وجہ سے شل ہوجاتے ہیں۔ تاہم اختتام پر بلخصوص جیت کے بعد یہ احساس خالص خوشی میں تبدیل ہوجاتا ہے اور وہ سوچتا ہوں کہ
"یہی وجہ تھی کہ میں نے اپنے آپ کو اس کام میں ڈالا، اب مجھے پتا ہے کہ میں اس سے زیادہ کامیابی حاصل کرسکتا ہوں۔"
انہوں نے مسکراتے ہوئے چہرے کو دیکھتے ہوئے میں نے ان لڑکوں کی کامیابیوں پر فخر محسوس کیا۔ یہ احساس آپ تب محسوس کرتے ہیں جب پاکستانی کرکٹ ٹیم کوئی میچ جیتی ہے۔ ان لڑکے اپنے ملک کا نام روشن کر رہے تھے اور میں یہ بات سمجھنے سے قاصر رہی کہ کیوں مجھ جیسے لوگوں کو ان کی کامیابیوں کے بارے کوئی علم نہیں تھا۔
میں نے سوچا کہ شاید اس کے کوچ مسٹر اصغر اس سوال کا جواب دے سکیں تو میں نے ان سے بھی اس بارے میں بات کی۔ مسٹر اصغر خود ایک پرجوش سابق کشتی ران نکلے جو کہ اب کے بی سی میں کوچ کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ میں ان کے تاثرات سے بتا سکتی ہوں کہ انہیں کشتی رانی کے فروغ کے لیے کے بی سی کے کردار پر کتنا فخر تھا اور ان کے کتنے شکرگزار تھے لیکن انہی آنکھوں میں مایوسی اتر آئی جب انہوں نے پاکستان کشتی رانی فیڈریشن ( پی آر ایف) کے کردار کے بارے میں بتایا۔
پی آر ایف پاکستان میں کشتی رانی کی ترقی اور فروغ کے لئے قائم قومی گورنگ باڈی ہے لیکن بنیادی طور پر اس کے پنجاب میں ہونے کی وجہ سے اسی صوبے کے کلب اور کوچز کو ترجیح دی جاتی ہے۔ دراصل اولمپک تک رسائی کے حالیہ ایونٹ میں لاہور سے زوہیب ہاشمی کو ٹیم میں شامل کیا گیا جب کہ اصغر کو ٹیم کے ساتھ جانے سے منع کردیا گیا۔
میرے الجھے ہوئے تاثرات کو دیکھتے ہوئے انہوں نے وضاحت کی کہ کھلاڑیوں کے ساتھ صرف ایک کوچ جاسکتا ہے اور چونکہ پی آر ایف لاہور میں ہے تو کوچ جسے سفر کے لئے منتخب کیا گیا اسے بھی لاہور سے ہی لیا گیا، اس کے باوجود 3 میں سے 2 کھلاڑیوں کا تعلق کراچی سے تھا۔ اپنے کندھے اچکاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ،
"فیڈریشن کا تعلق پنجاب سے ہے وہی چیزیں ہوتی ہیں جو انہیں صحیح لگتی ہیں۔"
پی آر ایف کے بچکانہ پن پر میں ناراض ہوئی، خاص طور پر جب یہ ملک کے لئے سب سے اہم ایونٹ تھا۔
اور جو انہوں نے مجھے بعد میں بتایا وہ میرے بال کھنچنے کے لئے کافی تھا۔
بظاہر پہلی دو ریس میں لڑکوں نے آخری پوزیشن حاصل کی تھی اور لاہور کے کوچ وجہ تلاش کرنے میں ناکام رہے۔ یہ صرف اس وقت ہوا جب کے بی سی کی کشتی رانی کے سربراہ اکرام سمرقند پہنچے تو انہوں نے اس بات کو نوٹ کیا کہ ریس کی شروعات میں ہی لڑکے نے اپنی پوری طاقت لگا دیتے تھے اور اختتام تک ان کی ہمت ٹوٹ جاتی جو ان کی ناکامی کا نتیجہ بنتا۔
مثال کے طور پر کئی بار ایسا ہوا ہے کہ پاکستان نے کشتی رانی کے بین الاقوامی مقابلوں میں شرکت کی لیکن کراچی کو اس حوالے سے مطلع نہیں کیا گیا جیسا کہ مئی 2013 میں کوریا میں منعقد ہونے والی چیمپئن شپ تھی۔ پنجاب سے تعلق رکھنے والے کشتی رانوں کی ٹیم نے اس دورے میں شرکت کی۔
اور یہ تو صرف ایک چھوٹی سے مثال ہے، کشتی ران جو بین الاقوامی مقابلوں میں شرکت کرنا چاہتے ہیں انہیں اپنے سفر اور رہائش کے تمام اخراجات بھی خود برداشت کرنا ہوتے ہیں۔
انہوں نے مجھے مزید بتایا کہ صرف کراچی اس کھیل کی ترقی کے لئے کوششیں کررہا ہے۔ اگرچہ پنجاب کے پاس پاکستان آرمی، پاکستان ایئرفورس (پی اے ایف)، پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (پی آئی اے)، واٹر اینڈ پاور ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) جیسی ٹیمیں موجود ہیں مگر کشتوں اور سامان کے معیار کو بہتر بنانے کے لئے کوئی سرمایہ کاری نہیں کی جاتی۔ دوسری جانب کے بی سی اپنے ممبرز اور نان ممبرز دونوں کو سہولیات فراہم کرتا ہے۔ کشتی رانی کی رکنیت ساڑھے 4 ہزار روپے میں حاصل کی جاسکتی ہے جب کہ اس کے ماہانہ اخراجات 400 روپے فی شخص ہیں۔
کے بی سی کے پاس عالمی معیار کی 35 اطالوی اور چینی کشتیاں موجود ہیں جن کا ہلکا پن برقرار رکھنے کے لئے انہیں عالمی سطح پر بڑی ایسوسی ایشن میں استعمال ہونے والے کاربن فائبر اور گلاس فائبر سے بنایا گیا ہے۔ ان کشتیوں کا وزن پانی میں بمشکل چلائی جانے والی 35 کلوگرام کی لکڑی کی بنی ہوئی کشتیوں کے مقابلے میں 14.5 کلوگرام ہے۔ بھارت جیسے ممالک اب بھی ان بھاری "سزا دینے کی کشتیوں" کو استعمال کرتے ہیں۔ منوشہران بھاری کشیوں کو "سزا دینے کی کشتیوں" کا نام دیتے ہیں کیونکہ کوچز کی جانب سے ان کشتیوں کا استعمال اس وقت کیا جاتا ہے جب کوئی ٹیم نظم و ضبط خلاف ورزی کرتی ہے۔
ان بہترین کشتیوں کو دیکھتے ہوئے میں نےخود کو کشتی رانی کی رکنیت حاصل کرتا اور اس کھیل میں زورآزمائی کرتا محسوس کیا۔
انہیں الوداع کہتے ہوتے میں واقعی اپنے جذبات بیان نہیں کرسکتی تھی۔ مجھے فخر محسوس ہوا کہ ان لڑکوں نے اولمپک کوالیفکیشن ایونٹ تک رسائی حاصل کی اور اس کیٹیگری میں تیسری پوزیشن حاصل کی۔ تاہم مجھے اس بات پر بڑی اداسی بھی ہوئی کہ جس ملک میں وہ اتنا فخر کے لر آئے تھے اس نے ان کی کامیابیوں کو بھی تسلیم نہیں کیا۔
دیگر نوجوانوں کی طرح منوشہر پہلے ہی بیرون ملک یونیورسٹیوں سے کھیلوں کی اسکالرشپ کاانتظار کر رہے ہیں جس سے انہیں اپنی صلاحیتوں کو بہتر کرنے میں مدد ملے گی۔
ایسا محسوس ہوتا ہے اس جانب سے اپنی آنکھیں بند کرکے پاکستان ابھرتی ہوئی صلاحیتوں کو کھو دینے کے دہانے پر پہنچ گیا ہے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 300 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔