سچ کی راہیں
آج بھی انسان خریدے اور بیچے جاتے ہیں، انھیں زنجیروں میں جکڑ کر رکھا جاتا ہے، کھیتوں میں کام کروایا جاتا ہے۔
سچ کی راہیں کبھی ویران نہیں ہوں گی۔ ان راہوں پر چلنے والوں کے قدموں سے چراغ جلتے رہیں گے، اُجالے پھیلتے رہیں گے، اگرچہ ان راہوں میں بڑی مشکلات ہیں، قدم قدم پر کانٹے بچھے ہیں، زہر بھرے پیالے ہیں، پھانسی گھاٹ ہیں، قتل و غارت گری کے سامان ہیں، خون آلود ہتھیار ہیں، اڑتی گردنیں ہیں، نیزوں پر سجے سر ہیں، مگر یہ راہیں کبھی سنسان نہیں ہوئیں۔ آبلہ پا ادھر آتے رہے، کبھی آگ کے دریا، کبھی آگ کے الاؤ، کبھی کھولتے تیل کے کڑا، آزمائشیں۔
تاریخ نے سب کچھ دیکھا ہے، گورے رنگ والے کالے رنگ والوں کو خرید کر لاتے اور بحری جہازوں کو سمندروں میں رواں دواں رکھنے کے لیے کالوں کی ننگی پیٹھوں پر کوڑے برساتے، کالوں کو زنجیروں میں جکڑ کر رکھا جاتا، یہ سب سیاہ کاریاں ماضی میں ہوتی رہیں۔بس ہوتی رہیں،انسان، انسانیت سسکتے رہے۔
کانٹوں بھری سیج کی راہوں میں قلم کار بھی آبلہ پا آتے رہے، منصور حلاج، قرۃ العین طاہرہ، ابوالقاسم لاہوتی، بابلو نرودا، ناظم حکمت،محمود درویش، مایا کوفسکی، قاضی نذرالاسلام، ایران میں قاچاری اور پہلوی دور کے شعرا حق سچ کہنے پر جن کے جسم میں جلتی موم بتیاں گاڑھی گئیں، زندانوں میں ڈالے گئے اور وہ شعر پڑھتے رہے:
یک دست جامِ بادہ و یک دست زلفِ یار
رقص چنیں میانہ میدا نم آرزو است!
اے جوش آں عاشقِ سرمست کہ دریائے حبیب
سر و دستار نداند کہ کدام اندازد!
ماضی کی داستان صدیوں پر محیط داستان۔ اور ظلم کی اس داستان کا انت نہ ہو سکا۔ آج بھی دنیا میں وہی سب کچھ ہو رہا ہے جو صدیوں سے ہوتا چلا آیا ہے۔ صدیوں پہلے بھی دنیا علوم و فضائل سے بھری پڑی تھی، تب بھی آزادی سے جینے کا حق سب سے بڑا جرم تھا اور یہی جرم آج بھی روا ہے۔ ذرا سوچیں، ذرا آنکھیں کھول کے دیکھیں کل جو انسانیت سوز واقعات ہو رہے تھے ایسا کون سا واقعہ ہے جو آج نہیں ہو رہا؟ آج بھی دنیا کے امیر ترین، طاقتور ترین (اور بھی جتنے ترین ہیں، سب لگالیں) ملک امریکا میں کالے جارج کی گردن پر گورا اپنا گھٹنا رکھ دیتا ہے، جارج کہتا ہے ''اپنا گھٹنا ہٹاؤ میرا دم گھٹ رہا ہے'' مگر گورے کا گھٹنا تبھی ہٹتا ہے کہ جب جارج کا دم گھٹ جاتا ہے۔ جارج کی قیمت۔۔۔۔چند دن کا احتجاج۔ جارج کے بیوی بچوں کے لیے چند ڈالر۔۔۔۔اور کہانی ختم۔
ابھی کل کی بات ہے، نیوزی لینڈ پر امن ملک، خوبصورت لوگ، خوبصورت ملک وہاں بھی ایک وحشی، ایک درندہ، ایک عبادت گاہ (مسجد) پر اندھا دھند فائرنگ کرکے پچاس سے زیادہ انسانوں کو مار دیتا ہے۔ ابھی چند دن پہلے کینیڈا میں ایک خاندان پر ٹرک چڑھا دیا جاتا ہے اور پانچ انسان مار دیے جاتے ہیں۔ فرانس، ڈنمارک کروڑوں انسانوں کے دل دکھا رہے ہیں۔
کیا دنیا نے یہی ترقی کی ہے؟یہ تہذیب نو '' دیکھو! آج بھی صدیوں پیچھے یہاں کا ہے انسان''۔ ''جیو اور جینے دو'' آج کے فرعون، شداد، نمرود اسے نہیں مانتے۔ کل بھی دنیاوی خداؤں کا یہی کہنا تھا کہ ''جیو! مگر جیسے ہم کہیں'' اور آج بھی آج کے خداؤں کا یہی چلن ہے۔ بدلا تو کچھ بھی نہیں! ہمارے اپنے ملک پاکستان میں آج بھی وہی کچھ ہو رہا ہے۔
آج بھی انسان خریدے اور بیچے جاتے ہیں، انھیں زنجیروں میں جکڑ کر رکھا جاتا ہے، کھیتوں میں کام کروایا جاتا ہے، مگر پاؤں میں زنجیر ہوتی ہے، رات کو ذاتی جیل خانوں میں بند کیا جاتا ہے۔ غریب، کمی کی ذرا سی خطا، لغزش پر ان پر خونخوار کتے چھوڑ دیے جاتے ہیں، ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیے جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ ہمارے پاکستان میں ہو رہا ہے اور آج بھی ''حرفِ آخر ہے بات چند لوگوں کی /دن ہے چند لوگوں کا ' رات چند لوگوں کی۔
سچ کی راہوں کا ایک راہی پاکستان میں مستقل رہا، اس نے بہت دکھ جھیلے، بڑی آزمائشوں سے گزرا، اور سرخرو رہا۔ کوٹ لکھپت لاہور جیل میں اس نے لکھا:
گھر میں بھی کہاں چین سے سوئے تھے کبھی ہم
جو رات ہے زنداں میں وہی رات وہاں تھی
حبیب جالب کے لیے گھر اور جیل ایک ہی جیسے تھے۔ جنرل ایوب کو للکارا ''میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا'' نتیجہ جیل یاترا۔ جنرل یحییٰ آئے اس نے کہا ''تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشین تھا/ اس کو بھی اپنے خدا ہونے پر اتنا ہی یقین تھا/نتیجہ جیل یاترا۔ 1976 (بھٹو صاحب کا دور حکومت) گرفتاری اور حیدر آباد سندھ جیل۔ وہاں عدالت جیل کے اندر لگتی تھی۔ وہاں یہ غزل ہوئی۔ جالب نے عدالت کے روبرو پڑھا۔ ہوا یوں کہ جب حبیب جالب کٹہرے میں آئے، ان پر فرد جرم عائد کی گئی تو انھوں نے ماننے سے انکار کردیا۔ عدالت میں بیٹھے لوگوں نے شاعر سے کہا ''شعر سنائیں، شعر سنائیں'' تو جالب صاحب بولے، شاعر سامنے آئے، تو لوگ شعر کی فرمائش کرتے ہیں۔ ویسے ہی جیسے لوگ آپ سے انصاف چاہتے ہیں، پھر اشعار سنائے:
یہ منصف بھی تو قیدی ہیں' ہمیں انصاف کیا دیں گے
لکھا ہے ان کے چہروں پر جو ہم کو فیصلہ دیں گے
اٹھائیں لاکھ دیواریں طلوع سحر تو ہوگا
یہ شب کے پاسباں کب تک نہ ہم کو راستہ دیں گے
ہمیں تو شوق ہے اہل جنوں کے ساتھ چلنے کا
نہیں پرواہ ہمیں یہ اہل دانش کیا سزا دیں گے
ہمارے ذہن میں آزاد مستقل کا نقشہ ہے
زمین کے ذرے ذرے کا مقدر جگمگا دیں گے
جالب لکھتے ہیں ''میکسیم گورکھی کا ناول ''ماں'' پڑھا تھا، اس میں ججوں کی جو تصویر گورکھی نے بیان کی ہے وہی چہرے مجھے عدالت میں نظر آئے، مجھے لگا جیسے یہ قیدی ہیں، یہ مجرم ہیں، ہم مجرم نہیں ہیں، اور میں نے کہا تھا:
ہمارے قتل پر جو آج ہیں خاموش کل جالب
بہت آنسو بہائیں گے' بہت دادِ وفا دیں گے
(ماخوذ: جالب بیتی صفحہ نمبر 142)
جنرل ضیا الحق آئے تو جالب بولے:
ظلمت کو ضیا' صر صر کو صبا' بندے کو خدا کیا لکھنا
نتیجہ میانوالی جیل۔
اور یہ چلن آخری سانس تک جاری رہا۔