سلمان باسط کا ناسٹیلجیا
آپ بیتیوں میں مصنفین کے بچپنے کے دنوں کے بعد کا ذکر زیادہ دلچسپی اور طوالت کا حامل ہوتاہے۔
انگریزی زبان میں ناسٹیلجیا سے مراد عام طور پر یادِ ماضی یا گزری ہوئی باتوں، واقعات اور کرداروں کو کسی حوالے سے یاد کرنے اور اُن کی فضا میں پھر سے سانس لینے کی ایک صورتِ حال کو بیان کرتے ہیں یعنی یہ ایک خاص طرح کی ذہنی کیفیت کا نام ہے جس میں گزرا ہوا زمانہ آپ کے ساتھ ساتھ چلنا شروع کردیتا ہے۔
عزیزی سلمان باسط نے اپنی یادوں کے اس پہلے پڑائو کا عنوان ناسٹیلجیا کیوں رکھا ہے اس کے لیے آپ کو264 صفحات پر مشتمل اس کتاب کو صرف شروع کرنا پڑتا ہے کیونکہ اس کے بعد ایک طرف اس کی دلچسپ اور خوب صورت نثرآپ کو اپنے گھیرے میں لے لیتے ہیں اور دوسری طرف آپ پر اس ''راز'' کے اسرار بھی کھلتے چلے جاتے ہیں۔
میرے نزدیک اس آپ بیتی کی سب سے نمایاں اور مختلف خصوصیت یہ ہے کہ اس کا طویل بیانیہ مصنف کی زندگی کے پہلے صرف بیس بائیس برس کا احاطہ کر رہا ہے کہ عام طور پر آپ بیتیوں میں اس زمانے کو صرف ایک سرسری سے پس منظر کے طور پر شامل کیا جاتا ہے۔ سلمان کا ان یادداشتوں کا سلسلہ اُس کی عمر کے تیسرے برس سے شروع ہوتا ہے۔
اُس کے ننھیال اور ددھیال دونوں کھاریاں کے قریب واقع قصبہ ڈنگہ کے نواح میں قیام پذیر تھے اور اُس کی اپنی ابتدائی زندگی بھی گائوں کے ماحول میں گزری جس کی وجہ سے بعض کلچرل، دینی اور اخلاقی اقدار اُس کی شخصیت میں اس طرح سے داخل ہوئیں کہ خود اسے بھی اس عمل کی خبر بہت بعد میں اُس وقت ہوئی جب وہ بڑے قصبوں اور پھر شہروں کی زندگی سے ہم کنار ہوا اُس کے والد شعبہ تعلیم سے وابستہ تھے چنانچہ اس کے گھر میں تعلیم کی وہ فضیلت اور محبت شروع دن سے موجود تھی جو گائوں کے بچوں کو عام طور پر دیکھنے کو بھی کم کم ملتی تھی ۔
دیہاتی کلچر میں پلنے بڑھنے والے ایک عام سے بچے نے کس طرح سے اس سفر کو طے کیا اور گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے رول آف آنر یافتگان کی شاندار جماعت میں شامل ہوا۔ ''ناسٹیلجیا'' میں اس کی ساری کہانی زمانی ترتیب کے ساتھ بیان کی گئی ہے لیکن سلمان کا کمال یہ ہے کہ اس نے اس کہانی کے اُن حصوں کو بھی دلچسپ اور قابلِ مطالعہ بنا دیا ہے جن سے بظاہر پڑھنے والوں کو کوئی غرض نہیں ہوتی، گاؤں کے پرائمری اسکول سے جی سی یونیورسٹی سے ایم اے انگریزی کرنے کے ان مراحل کے دوران وہ کس طرح ایک اچھا طالب علم ،کامیاب مقّرر، بیڈمنٹن کا کھلاڑی، شاعر اور ''راوی'' کا ایڈیٹر بنا اور اس دوران میں وہ کن کن لوگوں سے کب کب ملا اور ان سے کیا کیا سیکھا۔
اس سارے سفر کی کہانی ایک اچھے اسکرین پلے کی طرح کھلتی چلی جاتی ہے، اُس کی نثر اچھی اور بیانیہ بہت مضبوط ہے لیکن میرے نزدیک ا س کتاب کی سب سے اہم خوبی وہ کتابی چہرے اور خاکے ہیں جو صفحہ در صفحہ آپ کے سامنے آتے چلے جاتے ہیں اور یوں لگتا ہے جیسے آپ ان کے بارے میں پڑھ نہیں رہے بلکہ انھیں اپنی آنکھوں سے دیکھ اور کانوں سے سن رہے ہیں اور سلمان کا کمال یہ ہے کہ ان میں سے بیشتر خاکے بہت ہی عام لوگوں کے ہیں اوران میں سے کئی ایک ایسے بھی ہیں جنھیں عملی طور پر سلمان نے قدرے دُور سے اور بہت کم دیکھا ہے، اپنے مختلف اساتذہ سے متعلق اس خاکہ نگاری کے چند نمونے کچھ یوں ہیں۔
''میری شخصیت سازی میں اسی اسکول کے ایک محترم استاد نے ایسا کردار ادا کیا کہ اُن کے ذکر کے بغیر میری ہر داستان ادھوری رہتی ہے۔ یعقوب امجد صاحب ایک نا بغہِٗ روزگاراُستاد تھے، اپنے آبا سے جن اساتذہ کا تذکرہ سنتے آئے ہیں اور جن کے اخلاص اور اپنے پیشے سے سچی لگن کی کہانیاں ذہن پر نقش ہیں، یعقوب امجد صاحب ان کہانیوں کا ایک جیتا جاگتا اور متحرک کردار نظر آتے تھے۔میانہ قد، سانولی رنگت، جناح کیپ، چہرے پر بلا کا سکون ، غیر معمولی خوداعتمادی اور گونجتی ہوئی پاٹ دار آواز یعقوب امجد صاحب ان عناصر کے بغیر نامکمل تھے۔ اُردو اور عربی کے مضامین پڑھانا اُن کے فرائضِ منصبی میں شامل تھا۔
امجد صاحب اپنے وقت کو متاعِ عزیز سمجھ کر اس کی دل وجان سے قدر کیا کرتے۔میرؔ، غالبؔ، اور اقبالؔ امجد صاحب کے اندر دھڑکتے تھے ۔امجد صاحب بچوں کی نفسیات پر گہری نظر رکھتے تھے۔ حوصلہ افزائی ، تلقین ، پیار ، سرزنش کوئی ایسا گُر نہ تھا جو بچوں کی شخصیت سازی اور تعلیم و تربیت کے لیے نہ آزمائے۔ انھیں جب کسی پر پیار آتا تو مولانا کہہ کر مخاطب کرتے مجھے تقریر کی مشق کے لیے اکثر میری کلاس سے بلوالیا کرتے اور وہ جس بھی کلاس میں موجود ہوتے سب کے سامنے مجھے تقریرکرنے کو کہتے تاکہ مجمعے کا سامنا کرنے میں مجھے کوئی جھجھک نہ رہے''۔
مس نگہت نے ہمیں آٹھویں گریڈ تک انگلش پڑھائی، ان چند مہینوں میں اپنی ٹیچر کے کانونٹ والے تلفظ سے ادا ہوتی ہوئی انگلش زبان جیسے میرے کانوں میں جلترنگ بجاتی رہی ،کبھی کبھار مس نگہت ہمیں اپنی پسندیدہ انگریزی نظمیں سنایا کرتیں ۔اس کے ایک طویل عرصے بعدجب انگلستان جانے کا اتفاق ہوا تو مس نگہت کی سنائی ہوئی نظمیں میرے سامنے زندہ ہوگئیں''۔
کالم کی تنگیٔ داماں کی وجہ سے مجھے صرف دو مثالوں پر اکتفا کرنا پڑ رہا ہے بوجوہ مجھے مس نگہت کو دیکھنے اور سننے کا موقع تو نہیں مل سکا مگر اتفاق سے یعقوب امجد صاحب سے چونکہ مجھے بھی میٹرک میں مسلم ماڈل ہائی اسکول لاہور میں پڑھنے کا موقع مل چکا ہے، اس لیے میں بہت وثوق سے اُن کی سلمان باسط کی بنائی ہوئی اس قلمی تصویر کی تائید کرسکتا ہوں کہ اس کی بدولت مجھے بھی ناسٹیلجیا کی وادیوں میں گھومنے کا ایسا موقع مل گیا کہ درمیان کے ساٹھ برس جیسے کبھی گزرے ہی نہیں۔
کتاب کے آغاز میں برادرسعود عثمانی کا دیباچہ نما مضمون ''تحریر ، تصویر، تاثیر'' کے عنوان سے درج کیا گیا ہے جب کہ دوسراتعارفی مضمون ''بازگشت'' کے عنوان سے محترمہ شاہین کاظمی کا ہے، دونوں مضامین بہت محبت، گہرے مطالعے اور خوش اسلوبی سے لکھے گئے ہیں اور قارئین کو کتاب اور صاحبِ کتاب کے بارے میں قیمتی اور اہم معلومات فراہم کرتے ہیں۔
''ناسٹیلجیا'' عملی طور پر ابھی ایک نامکمل کتاب ہے کہ اس میں سلمان باسط آخری منظر میں ایم اے انگلش کا آخری پرچہ دینے کے بعد ہوسٹل کے کمرہ نمبر 154 سے اپنا پہلے سے بندھا ہو سامان اُٹھا تا نظر آتا ہے جب کہ جس سلمان باسط کو ہم جانتے ہیں وہ پاکستان، سعودی عرب اور امریکا میں انگریزی پڑھانے اور چار بچوں کا باپ بننے کے بعد اب دوبارہ سے اپنے اسلام آباد والے گھر میں واپس آکر ائیریونیورسٹی میں تدریسی فرائض سر انجام دے رہا ہے اور اپنی نسل کا ایک مضبوط اہم اور توانا شاعر بھی ہے۔
دیکھا گیا ہے کہ عام طور پر آپ بیتیوں میں مصنفین کے بچپنے کے دنوں کے بعد کا ذکر زیادہ دلچسپی اور طوالت کا حامل ہوتاہے کہ عملی زندگی میں داخلے کے بعد دنیا پہلے سے بڑی اور تجربات زیادہ با معنی ا ور نتیجہ خیز ہوجاتے ہیں، اس حوالے سے دیکھا جائے تو بہت یقین اور اعتماد سے کہا جاسکتاہے کہ اس سلسلے کی آیندہ تحریریں اور بھی زیادہ دلچسپ اور دل کوچھو نے والی ہوں گی ۔
عزیزی سلمان باسط نے اپنی یادوں کے اس پہلے پڑائو کا عنوان ناسٹیلجیا کیوں رکھا ہے اس کے لیے آپ کو264 صفحات پر مشتمل اس کتاب کو صرف شروع کرنا پڑتا ہے کیونکہ اس کے بعد ایک طرف اس کی دلچسپ اور خوب صورت نثرآپ کو اپنے گھیرے میں لے لیتے ہیں اور دوسری طرف آپ پر اس ''راز'' کے اسرار بھی کھلتے چلے جاتے ہیں۔
میرے نزدیک اس آپ بیتی کی سب سے نمایاں اور مختلف خصوصیت یہ ہے کہ اس کا طویل بیانیہ مصنف کی زندگی کے پہلے صرف بیس بائیس برس کا احاطہ کر رہا ہے کہ عام طور پر آپ بیتیوں میں اس زمانے کو صرف ایک سرسری سے پس منظر کے طور پر شامل کیا جاتا ہے۔ سلمان کا ان یادداشتوں کا سلسلہ اُس کی عمر کے تیسرے برس سے شروع ہوتا ہے۔
اُس کے ننھیال اور ددھیال دونوں کھاریاں کے قریب واقع قصبہ ڈنگہ کے نواح میں قیام پذیر تھے اور اُس کی اپنی ابتدائی زندگی بھی گائوں کے ماحول میں گزری جس کی وجہ سے بعض کلچرل، دینی اور اخلاقی اقدار اُس کی شخصیت میں اس طرح سے داخل ہوئیں کہ خود اسے بھی اس عمل کی خبر بہت بعد میں اُس وقت ہوئی جب وہ بڑے قصبوں اور پھر شہروں کی زندگی سے ہم کنار ہوا اُس کے والد شعبہ تعلیم سے وابستہ تھے چنانچہ اس کے گھر میں تعلیم کی وہ فضیلت اور محبت شروع دن سے موجود تھی جو گائوں کے بچوں کو عام طور پر دیکھنے کو بھی کم کم ملتی تھی ۔
دیہاتی کلچر میں پلنے بڑھنے والے ایک عام سے بچے نے کس طرح سے اس سفر کو طے کیا اور گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے رول آف آنر یافتگان کی شاندار جماعت میں شامل ہوا۔ ''ناسٹیلجیا'' میں اس کی ساری کہانی زمانی ترتیب کے ساتھ بیان کی گئی ہے لیکن سلمان کا کمال یہ ہے کہ اس نے اس کہانی کے اُن حصوں کو بھی دلچسپ اور قابلِ مطالعہ بنا دیا ہے جن سے بظاہر پڑھنے والوں کو کوئی غرض نہیں ہوتی، گاؤں کے پرائمری اسکول سے جی سی یونیورسٹی سے ایم اے انگریزی کرنے کے ان مراحل کے دوران وہ کس طرح ایک اچھا طالب علم ،کامیاب مقّرر، بیڈمنٹن کا کھلاڑی، شاعر اور ''راوی'' کا ایڈیٹر بنا اور اس دوران میں وہ کن کن لوگوں سے کب کب ملا اور ان سے کیا کیا سیکھا۔
اس سارے سفر کی کہانی ایک اچھے اسکرین پلے کی طرح کھلتی چلی جاتی ہے، اُس کی نثر اچھی اور بیانیہ بہت مضبوط ہے لیکن میرے نزدیک ا س کتاب کی سب سے اہم خوبی وہ کتابی چہرے اور خاکے ہیں جو صفحہ در صفحہ آپ کے سامنے آتے چلے جاتے ہیں اور یوں لگتا ہے جیسے آپ ان کے بارے میں پڑھ نہیں رہے بلکہ انھیں اپنی آنکھوں سے دیکھ اور کانوں سے سن رہے ہیں اور سلمان کا کمال یہ ہے کہ ان میں سے بیشتر خاکے بہت ہی عام لوگوں کے ہیں اوران میں سے کئی ایک ایسے بھی ہیں جنھیں عملی طور پر سلمان نے قدرے دُور سے اور بہت کم دیکھا ہے، اپنے مختلف اساتذہ سے متعلق اس خاکہ نگاری کے چند نمونے کچھ یوں ہیں۔
''میری شخصیت سازی میں اسی اسکول کے ایک محترم استاد نے ایسا کردار ادا کیا کہ اُن کے ذکر کے بغیر میری ہر داستان ادھوری رہتی ہے۔ یعقوب امجد صاحب ایک نا بغہِٗ روزگاراُستاد تھے، اپنے آبا سے جن اساتذہ کا تذکرہ سنتے آئے ہیں اور جن کے اخلاص اور اپنے پیشے سے سچی لگن کی کہانیاں ذہن پر نقش ہیں، یعقوب امجد صاحب ان کہانیوں کا ایک جیتا جاگتا اور متحرک کردار نظر آتے تھے۔میانہ قد، سانولی رنگت، جناح کیپ، چہرے پر بلا کا سکون ، غیر معمولی خوداعتمادی اور گونجتی ہوئی پاٹ دار آواز یعقوب امجد صاحب ان عناصر کے بغیر نامکمل تھے۔ اُردو اور عربی کے مضامین پڑھانا اُن کے فرائضِ منصبی میں شامل تھا۔
امجد صاحب اپنے وقت کو متاعِ عزیز سمجھ کر اس کی دل وجان سے قدر کیا کرتے۔میرؔ، غالبؔ، اور اقبالؔ امجد صاحب کے اندر دھڑکتے تھے ۔امجد صاحب بچوں کی نفسیات پر گہری نظر رکھتے تھے۔ حوصلہ افزائی ، تلقین ، پیار ، سرزنش کوئی ایسا گُر نہ تھا جو بچوں کی شخصیت سازی اور تعلیم و تربیت کے لیے نہ آزمائے۔ انھیں جب کسی پر پیار آتا تو مولانا کہہ کر مخاطب کرتے مجھے تقریر کی مشق کے لیے اکثر میری کلاس سے بلوالیا کرتے اور وہ جس بھی کلاس میں موجود ہوتے سب کے سامنے مجھے تقریرکرنے کو کہتے تاکہ مجمعے کا سامنا کرنے میں مجھے کوئی جھجھک نہ رہے''۔
مس نگہت نے ہمیں آٹھویں گریڈ تک انگلش پڑھائی، ان چند مہینوں میں اپنی ٹیچر کے کانونٹ والے تلفظ سے ادا ہوتی ہوئی انگلش زبان جیسے میرے کانوں میں جلترنگ بجاتی رہی ،کبھی کبھار مس نگہت ہمیں اپنی پسندیدہ انگریزی نظمیں سنایا کرتیں ۔اس کے ایک طویل عرصے بعدجب انگلستان جانے کا اتفاق ہوا تو مس نگہت کی سنائی ہوئی نظمیں میرے سامنے زندہ ہوگئیں''۔
کالم کی تنگیٔ داماں کی وجہ سے مجھے صرف دو مثالوں پر اکتفا کرنا پڑ رہا ہے بوجوہ مجھے مس نگہت کو دیکھنے اور سننے کا موقع تو نہیں مل سکا مگر اتفاق سے یعقوب امجد صاحب سے چونکہ مجھے بھی میٹرک میں مسلم ماڈل ہائی اسکول لاہور میں پڑھنے کا موقع مل چکا ہے، اس لیے میں بہت وثوق سے اُن کی سلمان باسط کی بنائی ہوئی اس قلمی تصویر کی تائید کرسکتا ہوں کہ اس کی بدولت مجھے بھی ناسٹیلجیا کی وادیوں میں گھومنے کا ایسا موقع مل گیا کہ درمیان کے ساٹھ برس جیسے کبھی گزرے ہی نہیں۔
کتاب کے آغاز میں برادرسعود عثمانی کا دیباچہ نما مضمون ''تحریر ، تصویر، تاثیر'' کے عنوان سے درج کیا گیا ہے جب کہ دوسراتعارفی مضمون ''بازگشت'' کے عنوان سے محترمہ شاہین کاظمی کا ہے، دونوں مضامین بہت محبت، گہرے مطالعے اور خوش اسلوبی سے لکھے گئے ہیں اور قارئین کو کتاب اور صاحبِ کتاب کے بارے میں قیمتی اور اہم معلومات فراہم کرتے ہیں۔
''ناسٹیلجیا'' عملی طور پر ابھی ایک نامکمل کتاب ہے کہ اس میں سلمان باسط آخری منظر میں ایم اے انگلش کا آخری پرچہ دینے کے بعد ہوسٹل کے کمرہ نمبر 154 سے اپنا پہلے سے بندھا ہو سامان اُٹھا تا نظر آتا ہے جب کہ جس سلمان باسط کو ہم جانتے ہیں وہ پاکستان، سعودی عرب اور امریکا میں انگریزی پڑھانے اور چار بچوں کا باپ بننے کے بعد اب دوبارہ سے اپنے اسلام آباد والے گھر میں واپس آکر ائیریونیورسٹی میں تدریسی فرائض سر انجام دے رہا ہے اور اپنی نسل کا ایک مضبوط اہم اور توانا شاعر بھی ہے۔
دیکھا گیا ہے کہ عام طور پر آپ بیتیوں میں مصنفین کے بچپنے کے دنوں کے بعد کا ذکر زیادہ دلچسپی اور طوالت کا حامل ہوتاہے کہ عملی زندگی میں داخلے کے بعد دنیا پہلے سے بڑی اور تجربات زیادہ با معنی ا ور نتیجہ خیز ہوجاتے ہیں، اس حوالے سے دیکھا جائے تو بہت یقین اور اعتماد سے کہا جاسکتاہے کہ اس سلسلے کی آیندہ تحریریں اور بھی زیادہ دلچسپ اور دل کوچھو نے والی ہوں گی ۔