یہ طالبان کون اور کہاں سے آئے

طالبان ہمارے اپنے مسلمان بھائی ہیں سوائے ان کے جو پاکستان دشمنی کا ایک موقع پا کر طالبان بن گئے ہیں


Abdul Qadir Hassan January 21, 2014
[email protected]

KARACHI: ہر سو اور سمت چھائے ہوئے طالبان نے مجھے خوفزدہ کر دیا ہے، معلوم نہیں آپ کا کیا حال ہے لیکن مجھے تو ہر وقت یوں لگتا ہے کہ کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی دھماکے میں اڑ جاؤں گا یا زخمی ہو کر بچ بھی گیا تو ہمیشہ کے لیے اپاہج ہو جاؤں گا جس سے موت بہر حال بہتر ہی ہے۔ یہ طالبان ہمارے اپنے مسلمان بھائی ہیں سوائے ان کے جو پاکستان دشمنی کا ایک موقع پا کر طالبان بن گئے ہیں۔ یہ طالبان نہیں ہمارے دشمنوں کے کارندے ہیں، ان میں کچھ تو پورا پس منظر اور سب کچھ جانتے ہوئے پاکستان کے اندر تخریب کاری کر رہے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جو کسی دھوکے میں ہیں یا پھر کچھ روپوں کی خاطر یہ کام کر رہے ہیں ۔ ایک نوجوان غربت کے مارے گھر والوں کے نام لکھ کر چھوڑ گیا کہ یہ بہت ساری رقم ہے، میں جا رہا ہوں اگر بچ گیا تو ملوں گا، نہیں تو خدا حافظ۔ گویا پاکستان کے اندر تخریب کاری بھی بیروز گاروں اور نادار نوجوانوں کے لیے ایک ذریعہ روز گار بن گیا ہے اگرچہ اس میں جان بھی جاتی ہے لیکن نوجوان ذہنوں کی مجبوریاں یہ سب کر گزرتی ہیں اور گھر والوں کو وہ دکھی نہیں دیکھ سکتے۔ طالبان ایک جنگجو معاشرے کی پیداوار ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ افغان یا جنگ لڑتا ہے یا جنگ کی تیاری کرتا ہے اور ہم نے بھی یہی دیکھا ہے۔

افغان ہمارے برعکس کبھی کسی غیر قوم کے غلام نہیں رہے۔ وہ آزاد منش قوم ہیں اور آزادی میں ہی زندگی بسر کرتے ہیں۔ انھیں یہی زندگی پسند ہے اور وہ اسی کے عادی ہیں۔ یہ سخت جان لوگ سخت مزاج بھی ہیں۔ یہ جدید تعلیم سے بے بہرہ ہیں اور پرانی طرز کے قدیم اسلامی مدرسوں کے طالب علم ہیں، یہیں سے انھوں نے 'طالبان' کا نام لیا ہے۔ پرانی طرز کے اسلامی مدرسے مفت تعلیم دیتے ہیں اور مفت رہائش اور کھانا بھی۔ ایسے مدرسے افغانستان میں ہوں، قبائلی علاقوں میں ہوں یا پاکستان کے کسی شہر میں ان میں مفت داخلہ ہوتا ہے، کھانا لنگر سے مفت ملتا ہے، تعلیم کی فیس کا کوئی تصور نہیں ہے اور کتابیں بھی مفت ملتی ہیں۔ مسلمانوں کے ہاں تعلیم کی یہ روائت بہت پرانی ہے، صدیوں پرانی اور ایک تسلسل کے ساتھ قائم چلی آ رہی ہے۔ ان مدرسوں کے طلبہ اپنے عقائد میں پختہ ہوتے ہیں اور ان کا تحفظ ان کے ایمان کا حصہ ہے۔ تعلیم کے بعد ذریعہ روز گار کے لیے ان طلبہ کو عموماً طب پڑھائی جاتی ہے اور اگر کوئی طالب علم کسی پیشہ ور خاندان سے ہو تو وہ فراغت کے بعد اپنا آبائی پیشہ اختیار کر لیتا ہے، اگر تعلیم میں بہت لائق و فائق اور کامیاب ہو تو وہ کسی مدرسے میں استاد بن جاتا ہے یا پھر خود ہی کہیں مدرسہ قائم کر لیتا ہے۔ یہ طالبان سیاسی مزاج کے ہوتے ہیں اور عموماً کسی نہ کسی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں۔

ہمارے جو علماء سیاست میں ہیں، ان کے پس منظر میں یہی مدرسے ہیں اور ان سیاستدان علماء کی وجہ سے ان کے مدرسے عموماً خوشحال ہوتے ہیں اور ان کے سیاسی علماء بھی اس میں حصہ دار ہوتے ہیں کیونکہ ان کا بھی بنیادی ذریعۂ روز گار یہی مدرسے ہوا کرتے ہیں، بعد میں سیاست بھی ان کی مدد کرتی ہے۔ مثلاً ایک ایسے ہی سیاستدان کو جو ایم این اے تھے، حکومت نے ووٹ کے لیے رشوت دینی چاہی تو اس نے جواب دیا کہ میرے مدرسے کے فنڈ میں جمع کرا دو۔ یہ طلبہ کسی آزاد پیشے سے ہی تعلق رکھتے ہیں اور پرانی طرز کی اسلامی سیاست کے پیرو کار ہوتے ہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ جدید طرز کے سیاستدانوں کے حلقے میں یہ لوگ شاذ و نادر ہی موجود ہوتے ہیں، وہ ان کے طرز سیاست کو پسند ہی نہیں کرتے اور جس سیاسی کلچر کی پیداوار یہ علماء ہوتے ہیں اس کو اختیار کرنا جدید ذہنوں کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے۔

دینی مدرسوں کے طلبہ کے ذہنوں میں شہادت یعنی اللہ کی راہ میں جان دینے کی آرزو بھی ہوا کرتی ہے اور اگر اس کا موقع نہ ہو تو یہ اس کے لیے کسی نہ کسی حد تک کوشاں ضرور رہتے ہیں۔ افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں کا ماحول ان طلبہ کا اپنا ہوتا ہے اور ان کو بہت راس آتا ہے، جدید زندگی سے وہ گھبراتے ہیں۔ یہ وہ طلبہ ہیں کہ اگر انھیں ان کی تعلیم کے مطابق عمل کا موقع مل جائے تو وہ اس پر فوراً تیار ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں جب ان مقاصد سے دوری اختیار کی گئی جو اس ملک کے قیام کی بنیاد بتائے گئے تھے اور ان کی جگہ امریکی اثر و رسوخ پھیلنے لگا تو جن لوگوں نے طلبہ کی توجہ اس طرف دلائی اور انھیں اسلام کے بنیادی مقاصد یاد دلائے تو وہ آسانی کے ساتھ ان کی تحریک میں شامل ہو گئے۔ یوں کہیں کہ ذہنی طور پر شامل تو وہ پہلے سے تھے انھیں عملاً شمولیت کا موقع اب ملا۔

اس خطے پر روس اور پھر امریکا اور نیٹو کے غلبے نے ان لوگوں کو نئے اسلحہ سے روشناس کرایا۔ پہلے ان کے پاس صرف ایک دیسی بندوق ہوا کرتی تھی، جدید اسلحہ انھیں اب ملا جو ان کے جنگجو مزاج کے لیے ایک نعمت تھا، اس پر ان کے ہر وقت آمادہ جنگ مزاج کو نئے اسلحہ کی شہہ ملی۔ یہ اسلحہ انھوں نے پہلے روسیوں سے چھینا اور اب امریکیوں سے۔ جو قوم اس جدید اسلحہ کے بغیر ہی اپنے اپنے وقت کی برطانوی اور روسی سپر پاورز کو شکست دے چکی تھی خود اندازہ کریں کہ وہ اس جدید اسلحہ کے بعد کیا بن گئی ہو گی جو اسے امریکا کی طرف سے روس کے خلاف ملا تھا، اس قوم کو کسی نے وجہ کچھ بھی ہو جب یاد دلایا کہ تمہارا ملک پاکستان اپنے اسلامی مقاصد سے روگردانی کر چکا ہے، اس کو بزور شمشیر درست کروتو وہ ایک لمحہ انتظار کیے بغیر تیار ہو گئے۔ خصوصاً جب امریکا کو بھی اس میں ملوث پایا۔

طالبان نے پاکستان میں ابھی کوئی کارروائی نہیں کی تھی کہ لاہور میں مقیم ایک صاحب دل صاحب کشف صوفی سید سرفراز شاہ صاحب نے ایک دن مجھ سے فرمایا کہ میں شمالی علاقوں سے آنے والے کچھ نوجوانوں کو دیکھ رہا ہوں جو پاکستان میں اسلامی نظام نافذ کرنے کے لیے مضبوط عزم لے کر آنے والے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی داڑھیوں والے یہ نوجوان پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے جہاد کریں گے۔ اس پیش گوئی کو میں نے اس وقت آپ تک پہنچا دیا تھا جس پر اس کے کوئی سال دو سال بعد عمل شروع ہو گیا۔ انھی دنوں مدینہ منورہ میں مقیم محترم و مکرم صوفی قدیر صاحب پاکستان تشریف لائے اور میں نے ان کے سامنے ملک کے بے چین حالات کا ذکر کیا تو انھوں نے کہا کہ میں جب کراچی اترا ہوں تو مجھے یہاں سے خون کی بو محسوس ہوئی ہے۔ پاکستان کے اس جنوبی شہر کی طرح مجھے ملک کے شمالی علاقوں میں بھی بے چینی دکھائی دیتی ہے۔

ان دو صوفیوں کی ان باتوں کو سن کر میں ایک اضطراب میں مبتلا ہو گیا۔ انھوں نے قریب قریب ایک ہی وقت میں یہ سب فرمایا تھا۔ کراچی میں اس کے بعد فساد شروع ہوا لیکن اس میں اسلامی پہلو نہ ہونے کے برابر تھا جب کہ شمالی علاقوں میں ایک واضح مقصد موجود تھا اور شروع میں مخلص لوگوں نے یہ کام شروع کیا جس میں بعد میں ہمارے دشمن بھی شامل ہو گئے اور مال کے لالچ میں کئی لوگ طالبان بن گئے۔ آج ہمیں ایک بے حد مشکل اور ان دیکھے دشمنوں سے واسطہ ہے اور ہمارا کردار اتنا مضبوط نہیں کہ ہم ان کا مقابلہ کر سکیں۔ صورت حال ہر روز بدل جاتی ہے اور بے چہر دشمن شیر ہوتا جا رہا ہے جب کہ ہم اس کے مقابلے میں بس وقت گزار رہے ہیں۔ اللہ مالک ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں