دودھیل گائے کو پالنے کے بجائے ذبح کیا جا رہا ہے
خاک وآگ کی چپقلش محض کہانی نہیں ہے اور نہ ہی قدیم واقعہ ہے بلکہ یہ اس کائنات میں جاری و ساری ایک ازلی و ابدی حقیقت ہے
ISLAMABAD:
بدقسمتی سے ہمارا تعلق بنیادی طور پر زراعت سے ہے۔ ''بدقسمتی'' کا لفظ استعمال کرنے پر معذرت خواہ ہوں کیونکہ اس سے بڑا کوئی لفظ اردو میں موجود نہیں ہے البتہ پشتو میں ایک لفظ موجود ہے جس کا ترجمہ ''خدا مارا'' کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں زمین اور زمین زادوں کے لیے ''بدقسمت'' کا لفظ استعمال کرنا ایسا ہے جیسے آپ کسی کو تھوڑا سا علیل بتائیں جب کہ وہ نہ صرف مر چکا ہوتا ہے بلکہ اس کا گوشت بھی گدھ نوچ چکے ہوں گے اور ہڈیوں پر کتوں کی چھینا جھپٹی چل رہی ہو، دنیا میں اس وقت پاکستان کے سوا تمام ملکوں اور خاص طور پر ملٹی نیشنل کمپنیوں اور سرمایہ داروں کو یہ احساس ہو چکا ہے کہ سرمائے کا یہ سارا تام جھام، یہ بینک، کرنسیاں، یہ سونا چاندی اور زر و جواہرات صرف ایک مایا جال ہے اور اصل چیز جو انسانی زندگی کے لیے ضروری ہے، وہ خوراک ہے اور خوراک صرف زمین اور زمین زادوں کی رہین منت ہے، اگر یہ ساری دنیا نوٹوں سے بھر جائے، پہاڑ سونے اور چاندی کے ہو جائیں، صنعت اور حرفت آسمان کو چھو جائیں تو انسان کو مرنے سے نہیں بچا سکتے، جب تک زمین سے اگی ہوئی خوراک اسے نہ ملے۔
انسان آسمان پر کمند بھی ڈالے گا تو تب جب اس کا پیٹ زمینی اجناس سے بھرا ہو گا۔ امریکا کا صدر دنیا کا طاقت ور ترین انسان ہے، وہ ایک جنبش لب سے ساری دنیا میں تھرتھلی مچا سکتا ہے، ہر ملک کا ناطقہ بند کر سکتا ہے، اس طرح بل گیٹس سے لے کر ملٹی نیشنل کمپنیوں اور بینکوں کے مالک بھی اس وقت تک حرکت نہیں کر سکتے جب تک ان کے پیٹ میں زمین کی دی ہوئی بھیک موجود نہ ہو، کیونکہ انسانی بھوک نہ نوٹوں سے مٹتی ہے نہ بینکوں سے نہ کرنسیوں سے نہ مشینوں سے نہ آلات سے اور نہ ایٹم اور بارود سے، اس کے لیے صرف اور صرف دانہ گندم کی ضرورت ہوتی ہے، قصہ آدم میں خاکی اور ناری کا قصہ دراصل بنی نوع انسان کا یہی قصہ ہے۔ ناری کو محض وہم تھا کہ وہ طاقت ور ہے کیونکہ اس کے نزدیک طاقت تباہی کا نام تھا لیکن وہ یہ بھول گیا تھا کہ آگ درحقیقت کچھ بھی نہیں ہے کیونکہ زمین اگر ایندھن دینا بند کر دے تو آگ ایک سیکنڈ بھی زندہ نہیں رہ سکتی ہے کیونکہ آگ کوئی قائم بالذات چیز نہیں ہے بلکہ خاک ہی کی دی ہوئی خیرات کا ایک عارضی اور کیمیائی عمل ہے۔
خاک اور آگ کی چپقلش محض کہانی نہیں ہے اور نہ ہی ایک قدیم واقعہ ہے بلکہ یہ اس کائنات میں جاری و ساری ایک ازلی و ابدی حقیقت ہے۔ منفی و مثبت کا استعارہ ہے۔ آگ جس کا رخ اوپر ہوتا ہے اور خود کو برتر سمجھتی ہے لیکن حقیقت میں کچھ بھی نہیں ہے اور مٹی جو خاکساری، فروتنی اور خدمت کا نمونہ ہے خود کو کم تر سمجھتی ہے لیکن سب کچھ ہے، یہ ایک بہت ہی لمبی کہانی ہے کہ اس لمحے کے بعد جب آگ نے مٹی کو کم تر اور خود کو برتر کہہ کر سرکشی کا اظہار کیا تھا اور اس کے بعد از آدم تا ایں دم یعنی تب سے اب تک اپنے دیے ہوئے چیلنج کے مطابق زمین زادوں کے درپے ہے، قدم قدم پر آتش مزاج سرشت نے مٹی کے فرزندوں کو ہر ہر قدم پر دبانے اور استحصال کا نشانہ رکھا ہے، خیر اور شر کے یہ دونوں نمایندے انسانوں ہی میں موجود ہوتے ہیں ۔
آتش مزاج مفت خور 15 فیصد ہونے کے باوجود پچاسی فیصد زمین زادوں کا استحصال کرتے ہیں، ان دونوں خیر و شر کے نمایندوں کی پہچان ہر دور میں صاف معلوم ہوتی ہے، باقاعدہ دونوں کے شجر ہائے نسب ہیں اور شناخت ہیں، آدم و ابلیس کے استعارے کے بعد دونوں گروہ زرعی اور خانہ بدوش میں دکھائی دیتے ہیں، پھر صحرائی اور شہری میں بدلتے ہیں کیونکہ زراعت کے لیے ایک جگہ ٹھہرنا اور بستیاں بسانا ناگزیر ہوتا ہے جب کہ مویشی پال خانہ بدوش مسلسل یہاں سے وہاں اور یہاں سے وہاں آتے جاتے ہیں، پھر ہم دیکھتے ہیں کہ صحرائی مویشی چرانے سے ڈاکا زن بنتے ہیں، ہتھیار لے کر پرامن شہریوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور تباہیاں چھوڑ کر چلے جاتے ہیں، کچھ عرصے کے بعد ہتھیار بدست لوگ آنے کے بعد جانے کے بجائے اسی تلوار کے زور سے حکمرانی کرنے لگتے ہیں اور اس سلسلے میں آخری کڑی شہری اور دیہاتی یا حکمران اور رعیت کی شکل میں موجود ہے، لیکن اس میں جو بات ہمیشہ سے پہچان کا ذریعہ رہی ہے وہ یہ ہے کہ اس وقت بھی برتری کی بنیاد آگ تھی جب غاروں میں کچھ لوگ آگ پر قابض اور پجاری تھے اور آج بھی ان کا ہتھیار اور برتری کی بنیاد آگ پر ہے۔
اس وقت چقماق پتھر اس کے ہاتھ تھا اور آج اس کی انگلی آتشیں ہتھیاروں اور ایٹم کی ٹیکنالوجی پر ہے یعنی ابتداء بھی آگ اور انتہاء بھی آگ ۔۔۔ زمین زادے اس وقت بھی استحصال کا شکار تھے اور آج بھی ہیں، ہتھیار والے اس وقت بھی مفت کی کھاتے تھے اور آج بھی کھاتے ہیں، زمین زادے اس وقت بھی پچاسی فیصد ہونے کے باوجود بھوکے تھے آج بھی بھوکے ہیں حالانکہ اس وقت بھی زمین زادے سب کچھ پیدا کرتے اور آج بھی وہی انسان کو پال رہے ہیں لیکن برتری والے اس وقت بھی مفت خور تھے اور آج بھی ہیں حالانکہ کچھ بھی نہیں کرتے بلکہ سب کچھ تباہ کرتے ہیں لیکن ارتقا میں دونوں ساتھ ساتھ چل رہے ہیں، سردار قبیلہ سے لے کر آج کے جمہوری حکمران تک بہت کچھ بدل چکا ہے اور استحصالیوں نے کئی ہتھیار بدلے ہیں لیکن تمام ہتھیار استعمال کرنے کے باوجود آج جمہوریت اور سرمائے کے ہتھیاروں پر آ کر اسے احساس ہوا ہے کہ طاقت ور اور بدتر ہونے کے باوجود وہ زمین اور زمین زادے کا محتاج ہے ۔
جس طرح آگ کی خوراک یعنی ایندھن زمین کی رہن منت ہے، اسی طرح حکم ران اور برتر طبقہ ہر ہتھیار کا مالک ہونے کے باوجود زمین زادے کو مکمل طور پر زیر نہیں کر سکا ہے، اس کے پاس مارنے کا ہتھیار ضرور ہے لیکن اگر زمین زادے کو مار دیا یا زمین زادے اپنا کام بند کر دیا تو آتش زادے کے سارے ہتھیار بے فائدہ رہ جائیں گے، یہ چمکدار لیکن ناکام جمہوریت یہ سرمائے کی عالمی فتح ، یہ آگ سے چلنے والے آلات اور اسلحہ جات، کرنسیاں، سیم زدہ لعل و گوہر سب مٹی کے برابر ہو جائیں گے اگر زمین اور زمین زادے نے کام کرنا چھوڑ دیا یا اسے مٹا دیا گیا۔ ابلیس نے جب اپنی آتشی برتری کے زغم میں یہ دعویٰ کیا کہ وہ خاکی آدم کو کبھی چین لینے نہیں دیگا تو اسے اپنی طاقت پر بھروسہ تھا لیکن مٹی کی طاقت اور زمین زادے کی قوت برداشت سے بے خبر تھا، رحمن بابا نے اس مضمون کو انتہائی سادگی کے ساتھ بے مثال طریقے سے بیان کیا ہے، فرماتے ہیں
پہ خہ خوئی د بد خواہانو بے پروایم
پہ نر مئی لکہ او بہ د اور سزایم
یعنی میں اپنی نیک خوئی سے بدخواہوں کی کوئی پروا نہیں کرتا ہوں کیونکہ میں ''پانی'' کی طرح اپنی نرمی کے ذریعے آگ کی سزا ہوں، مٹی اور پانی دونوں ایک ہی ہیں اور دونوں ہی سرکشی کے بجائے نیچے کی طرف جانے والے ہیں، اور یہ بات آج اگر عام انسانوں کی سمجھ میں نہ آئی ہو خاص طور پر پاکستان جیسے ممالک میں تو بالکل بھی کسی کی سمجھ میں نہ آئی ہو خاص طور پر اس زمین کے اوپر اور آسمان کے نیچے کوئی مستقل طاقت ہے تو وہ مٹی ہے اور خاکی آدم یا زراعت کار زمین زادہ ہی اصل حکمران اور برتر ہے، چنانچہ عالمی سرمایہ داری (جو شاید اس کا آخری ہتھیار ہے) نے محسوس کر لیا ہے کہ اگر زمین اور زمین زادہ نہ رہا تو سب کچھ بے کار ہے اس لیے دنیا میں زمین و زراعت کی اہمیت بڑھ رہی ہے اور سرمایہ دار کمپنیاں چاہتی ہیں کہ کسی نہ کسی طرح یہ بھی اس کے قبضے میں آ جائیں اس لیے وہ ہر ممکن کوشش کر کے زمین و زراعت پر توجہ دے رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہ دودھ دینے والی گائے زندہ رہے اور زیادہ سے زیادہ دودھ دیتی رہے ظاہر ہے گائے سے زیادہ دودھ لینے کے لیے اسے اچھی طرح پالنا پوسنا ضروری ہے لیکن ہم تو اس کے بجائے اپنی گائے ذبح کر رہے ہیں ہاتھ پیر تو باندھے جا چکے ہیں صرف چھری پھیرنا باقی ہے۔
(جاری ہے)