بلدیاتی انتخابات کا اونٹ
بلدیاتی نظام کے نہ ہونے سے وہ اہم چھوٹے مسائل ہیں جو ایک عام آدمی کی گنتی میں آتے ہیں
ملک میں جمہوریت تسلسل سے اپنے دوسرے دور میں داخل ہو چکی ہے، ملکی تاریخ میں گزشتہ حکومت کے پانچ سال اور پھر مجموعی طور پر پرامن عام انتخابات کے بعد انتقال اقتدار نے اس بات کو واضح کر دیا ہے کہ اب جمہوریت پھل پھول رہی ہے لیکن بدقسمتی سے ان جمہوری ادوار میں جمہور کے لیے وہ خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھائے گئے جن کی عوام کو ان حکومتوں سے توقع تھی۔
ان ہی اقدامات میں سے ایک اہم اقدام مقامی حکومتوں کا نظام یعنی بلدیاتی نظام ہے۔ اسے عوام کی بدقسمتی کہیے یا ہمارے حکمرانوں کی نااہلی کہ چھ سال سے جمہوری دور کے باوجود اب تک ملک میں بلدیاتی انتخابات کو خوش اسلوبی سے کرانے کی نیت نظر نہیں آتی۔ آئینی لحاظ سے ملک میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد لازم ہے لیکن صوبائی حکومتوں کی طرف سے اس سلسلے میں مسلسل ٹال مٹول سے کام لیا جاتا رہا، کبھی امن و امان کا مسئلہ تو کبھی سیاسی چپقلش بلدیاتی انتخابات کی راہ میں رکاوٹ بنی رہی اور یہ مسلسل طول پکڑتے رہے۔ اس کے بعد بالآخر وہی ہوا جس کی امید کی جا سکتی تھی، سپریم کورٹ حرکت میں آئی اور عدالت عظمیٰ نے حکومتوں کو یہ احکام صادر فرمائے کہ ملک میں جلد از جلد بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ممکن بنایا جائے، جس کے بعد کہیں جا کر چاروں صوبائی حکومتوں نے بلدیاتی انتخابات کرانے کی حامی بھری۔ لیکن اس تمام تر صورت حال کے بعد بھی خاص طور پر صوبہ سندھ میں بلدیاتی انتخابات شیطان کی آنت بنے رہے۔
پیپلز پارٹی کی حکومت نے الیکشن کمیشن کو اپنی ہی دی ہوئی تاریخ پر بلدیاتی انتخابات کرانے سے انکار کر دیا اور وہ وہ مسائل سامنے لا کھڑے کر دیے جن کا تذکرہ اب کی بار ہی سننے میں آیا۔ مقناطیسی سیاہی تو کبھی ووٹر لسٹوں کا مکمل نہ ہونا اور بھی کئی مسئلوں کو حکومت نے الیکشن کمیشن کے سامنے رکھ دیا مگر الیکشن کمیشن سپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل پر کاربند تھا جس کے بعد سندھ میں 18 جنوری کو بلدیاتی انتخابات کرانے کی حتمی تاریخ دی گئی مگر سندھ حکومت نے تو اس پر بھی بس نہ کیا اور 18 جنوری کو بھی انتخابات کرانے سے معذوری ظاہر کر دی جس کے بعد حکومت اور ادارے کے درمیان تصادم کی فضا قائم ہوتی دکھائی دی، لیکن راتوں رات سندھ حکومت کی دانست میں نہ جانے یہ بات کس نے ڈال دی کہ یوں اداروں سے جھگڑے مول لینا کسی صورت بھی حکومت کے مفاد میں نہیں اور پھر شاہ صاحب کی حکومت 18 جنوری کو ہی صوبے میں بلدیاتی انتخابات کرانے پر رضامند بھی ہو گئی۔
سندھ حکومت کی رضامندی کے بعد مسلسل تنازعات سامنے آتے رہے، پہلے تو کراچی میں حلقہ بندیوں پر ہی نئی بحث چھڑ گئی، جس پر حکومت کی سابقہ ہم پیالہ ہم نوالہ جماعت ایم کیو ایم کی طرف سے حکومت کو سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور اب ایک نئے تنازعے نے جنم لے لیا اور یہ بھی جو سابقہ اتحادی اور موجودہ اپوزیشن ایم کیو ایم کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ شہر کراچی کو ہر ہفتے دو ہفتے بعد تقسیم کر دیا جاتا ہے ہر گزرتے دن کے ساتھ نت نئے آرڈیننس کی شکلیں دکھائی دیتی ہیں، اب کی بار بھی ایم کیو ایم کا حکومت سے تنازعہ آرڈیننس جاری کرنے پر ہی ہوا ہے۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے سندھ لوکل گورنمنٹ کے ترمیمی آرڈیننس جاری کیے جانے پر ایم کیو ایم سخت ناراض نظر آتی ہے، آرڈیننس کے خلاف ایم کیو ایم اور سندھ اسمبلی میں موجود دیگر اپوزیشن جماعتوں نے ایکا کر لیا ہے اور پیپلز پارٹی کے خلاف محاذ کھول لیا ہے۔ ایم کیو ایم اس ترمیمی آرڈیننس کو مسترد کر چکی ہے اور ہر پلیٹ فارم پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرا رہی ہے جب کہ دیگر جماعتیں بھی اس کے شانہ بشانہ کھڑی نظر آتی ہیں۔
ابتدا میں پیپلز پارٹی بھی اس آرڈیننس کو لے کر بضد نظر آتی تھی مگر اب پی پی کی طرف سے کچھ نرم گوشہ اختیار کیا گیا ہے، اسپیکر سندھ اسمبلی سراج درانی نے ایم کیو ایم کے ساتھ بیٹھنے کی خواہش ظاہر کی ہے مگر یہاں مسئلہ صرف آرڈیننس کا ہی نہیں دو شہروں پر حکمرانی کا بھی ہے۔ کراچی اور حیدرآباد پر حکمرانی کا خواب دونوں ہی جماعتیں دیکھ بیٹھی ہیں اور پیپلز پارٹی کراچی میں جیالے میئر کو لانے کا اعلان کر چکی ہے جب کہ ایم کیو ایم نے سخت ردعمل دیتے ہوئے کراچی میں اپنا میئر لانے کا اعلان کیا ہے۔ سندھ کے دو اہم ترین شہروں پر سکہ جمانے کے لیے صوبے کی دو بڑی جماعتیں اب آمنے سامنے آ چکی ہیں، دونوں جماعتوں کے درمیان لفظی اور قانونی جنگ چھڑ گئی ہے لیکن اس جنگ میں نقصان صرف اور صرف عوام کا ہی ہے۔
مقامی حکومتوں کا نظام قائم نہ ہونے کی وجہ سے عوام کو بھی کئی طرح کی مشکلات کا سامنا ہے جن میں اگر چھوٹے مسائل کا ذکر کیا جائے تو ان میں نکاسی آب، شہر میں صفائی ستھرائی جیسے بنیادی مسائل سر اٹھائے کھڑے ہیں۔ جنرل مشرف کے دور میں بلدیاتی انتخابات کے بعد سابق سٹی ناظم مصطفیٰ کمال نے کراچی کا انتظام جس طرح چلایا اس سے عوام نے سکھ کا سانس لیا تھا اور ہر شخص بلدیاتی نظام سے مطمئن نظر آتا تھا لیکن جنرل مشرف کے بعد صورت حال یوں بگڑی کہ اب تک سنبھلنے میں نہ آ سکی۔ گزشتہ برسوں کے دوران شہر میں انتظامی امور پر کوئی حکمت عملی دیکھنے میں نہیں آئی، برسات کے بعد اہم شاہراہیں ندی نالوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں اور تو اور شہر کی سڑکوں پر کچرے کے ڈھیر نظر آتے ہیں، اس کے علاوہ سٹی ناظم کے دائرہ کار میں چلنے والے اداروں کی کارکردگی بھی نہایت ناقص نظر آتی ہے۔
بلدیاتی نظام کے نہ ہونے سے یہ وہ اہم چھوٹے مسائل ہیں جو ایک عام آدمی کی گنتی میں آتے ہیں لیکن بلدیاتی انتخابات نہ ہونے سے جو بڑے مسائل درپیش ہیں ان سے یہ حکومتیں اور سیاسی لوگ بخوبی آگاہ ہیں، لیکن نہ جانے کیوں حکومت نچلے طبقے تک اختیارات کی منتقلی کے لیے سنجیدہ نظر نہیں آتی۔ جب جب بلدیاتی انتخابات کا وقت قریب آتا ہے کوئی نہ کوئی مسائل کا پہاڑ سامنے کھڑا ہو جاتا ہے۔ اب کی بار 18 جنوری کو بلدیاتی انتخابات کا سورج طلوع ہونے کی امید کی جا رہی تھی لیکن سیاسی پارٹیوں کی سازشیں کامیاب ہوئیں اور یہ انتخاب آگے بڑھا دیے گئے۔
دیکھنا یہ ہے کہ سندھ حکومت پرامن اور شفاف بلدیاتی انتخابات کے انعقاد میں کتنی کامیاب ہوتی ہے اور اختیارات کی نچلے طبقے تک منتقلی کتنی خوش اسلوبی سے کی جاتی ہے۔ برسوں سے بلدیاتی انتخابات کی بازگشت تو سنائی دے رہی ہے مگر نہ جانے کب یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔
ان ہی اقدامات میں سے ایک اہم اقدام مقامی حکومتوں کا نظام یعنی بلدیاتی نظام ہے۔ اسے عوام کی بدقسمتی کہیے یا ہمارے حکمرانوں کی نااہلی کہ چھ سال سے جمہوری دور کے باوجود اب تک ملک میں بلدیاتی انتخابات کو خوش اسلوبی سے کرانے کی نیت نظر نہیں آتی۔ آئینی لحاظ سے ملک میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد لازم ہے لیکن صوبائی حکومتوں کی طرف سے اس سلسلے میں مسلسل ٹال مٹول سے کام لیا جاتا رہا، کبھی امن و امان کا مسئلہ تو کبھی سیاسی چپقلش بلدیاتی انتخابات کی راہ میں رکاوٹ بنی رہی اور یہ مسلسل طول پکڑتے رہے۔ اس کے بعد بالآخر وہی ہوا جس کی امید کی جا سکتی تھی، سپریم کورٹ حرکت میں آئی اور عدالت عظمیٰ نے حکومتوں کو یہ احکام صادر فرمائے کہ ملک میں جلد از جلد بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ممکن بنایا جائے، جس کے بعد کہیں جا کر چاروں صوبائی حکومتوں نے بلدیاتی انتخابات کرانے کی حامی بھری۔ لیکن اس تمام تر صورت حال کے بعد بھی خاص طور پر صوبہ سندھ میں بلدیاتی انتخابات شیطان کی آنت بنے رہے۔
پیپلز پارٹی کی حکومت نے الیکشن کمیشن کو اپنی ہی دی ہوئی تاریخ پر بلدیاتی انتخابات کرانے سے انکار کر دیا اور وہ وہ مسائل سامنے لا کھڑے کر دیے جن کا تذکرہ اب کی بار ہی سننے میں آیا۔ مقناطیسی سیاہی تو کبھی ووٹر لسٹوں کا مکمل نہ ہونا اور بھی کئی مسئلوں کو حکومت نے الیکشن کمیشن کے سامنے رکھ دیا مگر الیکشن کمیشن سپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل پر کاربند تھا جس کے بعد سندھ میں 18 جنوری کو بلدیاتی انتخابات کرانے کی حتمی تاریخ دی گئی مگر سندھ حکومت نے تو اس پر بھی بس نہ کیا اور 18 جنوری کو بھی انتخابات کرانے سے معذوری ظاہر کر دی جس کے بعد حکومت اور ادارے کے درمیان تصادم کی فضا قائم ہوتی دکھائی دی، لیکن راتوں رات سندھ حکومت کی دانست میں نہ جانے یہ بات کس نے ڈال دی کہ یوں اداروں سے جھگڑے مول لینا کسی صورت بھی حکومت کے مفاد میں نہیں اور پھر شاہ صاحب کی حکومت 18 جنوری کو ہی صوبے میں بلدیاتی انتخابات کرانے پر رضامند بھی ہو گئی۔
سندھ حکومت کی رضامندی کے بعد مسلسل تنازعات سامنے آتے رہے، پہلے تو کراچی میں حلقہ بندیوں پر ہی نئی بحث چھڑ گئی، جس پر حکومت کی سابقہ ہم پیالہ ہم نوالہ جماعت ایم کیو ایم کی طرف سے حکومت کو سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور اب ایک نئے تنازعے نے جنم لے لیا اور یہ بھی جو سابقہ اتحادی اور موجودہ اپوزیشن ایم کیو ایم کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ شہر کراچی کو ہر ہفتے دو ہفتے بعد تقسیم کر دیا جاتا ہے ہر گزرتے دن کے ساتھ نت نئے آرڈیننس کی شکلیں دکھائی دیتی ہیں، اب کی بار بھی ایم کیو ایم کا حکومت سے تنازعہ آرڈیننس جاری کرنے پر ہی ہوا ہے۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے سندھ لوکل گورنمنٹ کے ترمیمی آرڈیننس جاری کیے جانے پر ایم کیو ایم سخت ناراض نظر آتی ہے، آرڈیننس کے خلاف ایم کیو ایم اور سندھ اسمبلی میں موجود دیگر اپوزیشن جماعتوں نے ایکا کر لیا ہے اور پیپلز پارٹی کے خلاف محاذ کھول لیا ہے۔ ایم کیو ایم اس ترمیمی آرڈیننس کو مسترد کر چکی ہے اور ہر پلیٹ فارم پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرا رہی ہے جب کہ دیگر جماعتیں بھی اس کے شانہ بشانہ کھڑی نظر آتی ہیں۔
ابتدا میں پیپلز پارٹی بھی اس آرڈیننس کو لے کر بضد نظر آتی تھی مگر اب پی پی کی طرف سے کچھ نرم گوشہ اختیار کیا گیا ہے، اسپیکر سندھ اسمبلی سراج درانی نے ایم کیو ایم کے ساتھ بیٹھنے کی خواہش ظاہر کی ہے مگر یہاں مسئلہ صرف آرڈیننس کا ہی نہیں دو شہروں پر حکمرانی کا بھی ہے۔ کراچی اور حیدرآباد پر حکمرانی کا خواب دونوں ہی جماعتیں دیکھ بیٹھی ہیں اور پیپلز پارٹی کراچی میں جیالے میئر کو لانے کا اعلان کر چکی ہے جب کہ ایم کیو ایم نے سخت ردعمل دیتے ہوئے کراچی میں اپنا میئر لانے کا اعلان کیا ہے۔ سندھ کے دو اہم ترین شہروں پر سکہ جمانے کے لیے صوبے کی دو بڑی جماعتیں اب آمنے سامنے آ چکی ہیں، دونوں جماعتوں کے درمیان لفظی اور قانونی جنگ چھڑ گئی ہے لیکن اس جنگ میں نقصان صرف اور صرف عوام کا ہی ہے۔
مقامی حکومتوں کا نظام قائم نہ ہونے کی وجہ سے عوام کو بھی کئی طرح کی مشکلات کا سامنا ہے جن میں اگر چھوٹے مسائل کا ذکر کیا جائے تو ان میں نکاسی آب، شہر میں صفائی ستھرائی جیسے بنیادی مسائل سر اٹھائے کھڑے ہیں۔ جنرل مشرف کے دور میں بلدیاتی انتخابات کے بعد سابق سٹی ناظم مصطفیٰ کمال نے کراچی کا انتظام جس طرح چلایا اس سے عوام نے سکھ کا سانس لیا تھا اور ہر شخص بلدیاتی نظام سے مطمئن نظر آتا تھا لیکن جنرل مشرف کے بعد صورت حال یوں بگڑی کہ اب تک سنبھلنے میں نہ آ سکی۔ گزشتہ برسوں کے دوران شہر میں انتظامی امور پر کوئی حکمت عملی دیکھنے میں نہیں آئی، برسات کے بعد اہم شاہراہیں ندی نالوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں اور تو اور شہر کی سڑکوں پر کچرے کے ڈھیر نظر آتے ہیں، اس کے علاوہ سٹی ناظم کے دائرہ کار میں چلنے والے اداروں کی کارکردگی بھی نہایت ناقص نظر آتی ہے۔
بلدیاتی نظام کے نہ ہونے سے یہ وہ اہم چھوٹے مسائل ہیں جو ایک عام آدمی کی گنتی میں آتے ہیں لیکن بلدیاتی انتخابات نہ ہونے سے جو بڑے مسائل درپیش ہیں ان سے یہ حکومتیں اور سیاسی لوگ بخوبی آگاہ ہیں، لیکن نہ جانے کیوں حکومت نچلے طبقے تک اختیارات کی منتقلی کے لیے سنجیدہ نظر نہیں آتی۔ جب جب بلدیاتی انتخابات کا وقت قریب آتا ہے کوئی نہ کوئی مسائل کا پہاڑ سامنے کھڑا ہو جاتا ہے۔ اب کی بار 18 جنوری کو بلدیاتی انتخابات کا سورج طلوع ہونے کی امید کی جا رہی تھی لیکن سیاسی پارٹیوں کی سازشیں کامیاب ہوئیں اور یہ انتخاب آگے بڑھا دیے گئے۔
دیکھنا یہ ہے کہ سندھ حکومت پرامن اور شفاف بلدیاتی انتخابات کے انعقاد میں کتنی کامیاب ہوتی ہے اور اختیارات کی نچلے طبقے تک منتقلی کتنی خوش اسلوبی سے کی جاتی ہے۔ برسوں سے بلدیاتی انتخابات کی بازگشت تو سنائی دے رہی ہے مگر نہ جانے کب یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔