ایریل شیرون جنگی مجرم انسانیت کا قاتل
اسلامی مزاحمتی تحریک حماس نے شیرون کی موت کو ایک تاریخی لمحہ قرار دیا ہے
ایریل شیرون کے نام سے پوری دنیا اچھی طرح واقف ہے اور خاص طور پر اسرائیل کے قرب و جوار میں موجود عرب خطوں میں بسنے والے لوگ بہت زیادہ اچھی طرح واقفیت رکھتے ہیں کیونکہ فلسطینیوں اور عربوں کے لیے ایریل شیرون ایک انسان نہیں بلکہ انسانوں کو کاٹنے والا ایک خطرناک قصائی ہے کہ جس نے اپنی زندگی میں دسیوں ہزار معصوم انسانوں کو موت کی نیند سلایا ہے۔ ایریل شیرون جو کہ صیہونی ریاست اسرائیل کا وزیر اعظم بھی رہا اور اس سے قبل فوج میں اعلیٰ عہدوں پر کام کرتا رہا، آخرکار فوجی اور سیاسی زندگی کے ساتھ اس کی آخری سانس بھی 85 برس کی عمر میں، آٹھ برس تک کوما میں رہنے کے بعد 4 جنوری 2014 کو اس کے جسم سے نکل گئی اور اس طرح اس کی ظالمانہ سیاسی و فوجی زندگی کا بھی خاتمہ ہو گیا ہے۔
ایریل شیرون کی موت کے ساتھ ہی صیہونی ریاست اسرائیل شاید ایک وفادار اور دشمنوں کے لیے خوف کی علامت سے محروم ہو گئی ہے۔ اسرائیل کے موجودہ وزیر اعظم نیتن یاہو نے ایریل شیرون کی موت پر کہا کہ صیہونی ہمیشہ سابق وزیر اعظم کی خدمات کو یاد رکھیں گے۔ نیتن یاہو نے شیرون کو اسرائیلی ریاست کے قیام کا ایک مرکزی اور اہم کردار بیان کرتے ہوئے کہا کہ ایریل شیرون صیہونیوں کے دلوں میں زندہ رہے گا، اور اس موقعے پر انھوں نے اپنے دلی دکھ اور غم کا اظہار بھی کیا۔ نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ شیرون ایک بہادر سپاہی اور اسرائیلی افواج میں عظیم ترین رہنما تھا۔
دوسری طرف مقبوضہ فلسطینی علاقو ں میں بسنے والے فلسطینیوں نے اسرائیلی سیاست دانوں کے بیانات پر شدید غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایریل شیرون دسیوں ہزار معصوم انسانوں کا قاتل اور جنگی مجرم ہے۔ فلسطینی الفتح جماعت کے ایک رہنما صعید جبریل کہتے ہیں کہ شیرون ایک جنگی مجرم تھا کہ جس نے ہزاروں معصوم فلسطینی بچوں اور عوام کو قتل کیا اور فلسطینی صدر یاسر عرفات کے قتل میں ملوث تھا، ہم چاہتے تھے کہ ایریل شیرون کو عالمی عدالت انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے اور اس پر جنگی جرائم کا مقدمہ چلایا جائے۔
اسلامی مزاحمتی تحریک حماس نے شیرون کی موت کو ایک تاریخی لمحہ قرار دیا ہے اور کہا کہ یہ ایک ایسا خونخوار بھیڑیا تھا جو آخر کار اپنے منطقی انجام کو جا پہنچا ہے او ر اس بھیڑیے کے ذمے ہزاروں بے گناہوں کا خون ہے، جو اسے قیامت تک حساب دینا ہو گا۔
مشرق وسطیٰ میں انسانی حقوق کی ڈائریکٹر Sarah Leah Whitson کہتی ہیں کہ شیرون کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جانا چاہیے تھا کیونکہ مشرق وسطیٰ کے ہزاروں بے گناہوں کو انصاف ملے بغیر شیرون کی موت دراصل ہزاروں بے گناہوں کے دکھوں کا مداوا نہیں ہے، جب کہ ضروری تھا کہ شیرون جیسے خطرناک اور درندہ صفت قصائی کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جاتا اور جنگی جرائم کا مقدمہ چلایا جاتا۔ اسی طرح سوشل میڈیا پر بھی دنیا بھر میں شیرون کی موت پر آنے والے اسرائیلی بیانات پر شدید ردعمل کا اظہار کیا گیا ہے اور دنیا بھر میں جو مشترکہ نقطہ سامنے آیا ہے اس میں سب نے ایریل شیرون کو انسانیت کا دشمن اور جنگی مجرم قرار دیا ہے۔
شیرون کی فوجی تربیت کا آغاز 14 برس کی عمر میں 1942 میں فلسطین کے حوالے سے برطانوی مینڈیٹ سے قبل پولیس فورس میں شمولیت سے ہوا۔ برطانوی اور صیہونی گٹھ جوڑ سے کام کرنے والی دہشت گرد تنظیم ہگانہ کے ساتھ ایریل شیرون نے متعدد آپریشن اور دہشت گردانہ کارروائیوں میں بنفس نفیس شرکت کی، اور اسی طرح یوم نکبہ 1948 میں ہونے والی دہشت گردانہ کارروائیوں میں ہگانہ کے ساتھ ایریل شیرون در فہرست رہا۔ یاد رہے 15 مئی 1948 (یوم نکبہ) کو ہزاروں فلسطینیوں کو کشت و خون میں غلطاں کیا گیا تھا۔
1953 میں ایریل شیرون کو اسرائیلی فوج کے ایک نئے یونٹ 101 کا سربراہ مقرر کر دیا گیا۔ اس یونٹ نے ایریل شیرون کی سربراہی میں قبایہ میں درجنوں فلسطینیوں کو موت کی نیند سلایا، خود اسرائیلی تاریخ دانوں کے مطابق اس تباہی میں قتل و غارت کا نشانہ بننے میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی تھی۔ ایریل شیرون کا سب سے خطرناک جرم صبرا شاتیلا کے پناہ گزین کیمپوں میں وہ مظالم ہیں کہ جس میں ایک ہی وقت میں دو ہزار شہریوں کو موت کی نیند سلایا گیا تھا۔ یہ واقعہ 1982 میں لبنان پر اسرائیلی غاصبانہ تسلط کے وقت رونما ہوا تھا، ایریل شیرون کی جانب سے صبرا اور شاتیلا میں فلسطینی پناہ گزین کیمپ پر تین روز 16 ستمبر سے 18 ستمبر تک جارحیت جاری رکھی گئی اور معصوم انسانوں کا قتل عام جاری رہا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں اور متاثرہ خاندانوں نے مطالبہ کیا تھا کہ شیرون کے خلاف جنگی جرائم کا مقدمہ قائم کیا جائے کیونکہ شیرون ایک جنگی مجرم ہے۔ صبرا، شاتیلا میں انسانیت کے اس قتل عام کی تصویروں کو دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کس طرح اسرائیلی بھیڑیوں نے فلسطینی بچوں، خواتین اور مردوں کو بیدردی کے ساتھ قتل کیا، ذبح کیا اور بدترین ظلم کا نشانہ بنایا گیا۔
اسرائیلی انتظامیہ کی ایک اندرونی تحقیقاتی کمیٹی نے فیصلہ دیا کہ فلسطینی کیمپوں میں ہونے والے ظلم کا تعلق ایریل شیرون کی ذات سے ہے کیونکہ شیرون نے ذاتی طور پر یہ سارا عمل انجام دیا ہے۔
مقبوضہ فلسطین میں بھی شیرون ایک قاتل کے نام سے جانا جاتا تھا، شیرون ہی وہ خطر ناک دہشت گرد تھا کہ جس نے فلسطینیوں کے دوسرے انتفادہ کو اس وقت اکسایا جب 2000 میں مسجد اقصیٰ میں داخل ہوا اور مسجد اقصیٰ کے تقدس کو پامال کیا گیا۔ شیرون نے یہ حرکت عین اس وقت کی جب فلسطینی صبرا شاتیلا کے ہزاروں معصوم انسانوں کی شہادت پر اٹھارویں برسی منا رہے تھے، اس موقع پر شیرون اعلان کرتا ہوا کہ مسجد اقصیٰ میں داخل ہونا اس کا حق ہے اور مسجد اقصیٰ کی طرف مارچ کرتا ہوا چلا آیا۔ ا س کے نتیجے میں فلسطینی نوجوان سخت ناراض ہوئے اور انھوں نے شیرون کی طرف پتھر پھینکنا شروع کیے۔ یہی وہ موقع تھا کہ جب شیرون کے حکم پر غاصب اسرائیلیوں نے ایک مرتبہ پھر فلسطینیوں پر اندھا دھند گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔
ہزاروں انسانوں کو قتل کرنے والا ٹھیک دوسرے انتفاضہ کے ایک ماہ بعد ہی 2001 مارچ میں وزیر اعظم ہاؤس پہنچ گیا، شیرون کی افواج نے فلسطینی عوام پر امریکی اپاچی ہیلی کاپٹروں کی مدد سے موت برسائی اور ظلم اور بربریت کی نا ختم ہونے والی داستانیں رقم کیں۔ اس کے اگلے ہی برس 2002 میں سیکڑوں فلسطینیوں کو قتل کیا گیا۔ اپریل 2012 میں اسرائیلی فوج نے جنین کیمپ کا محاصرہ کر لیا اور بتایا گیا کہ اس علاقے میں بڑی تعداد میں خودکش بمبار موجود ہیں، اس بہانے کے ساتھ اسرائیلی افواج نے بھاری توپ خانے اور جدید ہتھیاروں کے ساتھ علاقے پر چڑھائی کر دی۔ اس قتل عام کو انسانی حقوق نے بین الاقوامی قوانین کی شدید خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے جنگی جرائم قرار دیا تھا۔
انسانی حقوق کے ادارے نے شیرون کی جانب سے انجام دیے جانے والے جنگی جرائم کی لمبی فہرست تیار کی اور رپورٹ میں بتایا گیا کہ صیہونی افواج نے فلسطینی جوانوں، بچوں، خواتین اور بزرگوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا ہے۔ اسرائیلی محاصرے میں 350 عمارتیں تباہ ہوئیں، 4000 افراد گھروں سے بے گھر ہو گئے۔
ایریل شیرون کو اس کی وزارت عظمیٰ کے آخری وقت 2005تک خراج تحسین پیش کیا جاتا رہا اور اسرائیل میں ایک ہیرو بنا کر پیش کیا گیا، ایک ایسے قاتل اور قصائی کو کہ جس کو انسانی حقوق کے اداروں نے بھی جنگی مجرم قرار دیا تھا، آج 6 دہائیاں گزر جانے کے بعد بھی دنیا کی بڑی اکثریت شیرون کو ایک قاتل، دہشت گرد، جنگی مجرم اور قصائی سمیت انسانیت کا قاتل تصور کرتی ہے، کیونکہ شیرون کے مظالم کا نشانہ بننے والے درجنوں، سیکڑوں میں نہیں بلکہ دسیوں ہزار خاندان موجود ہیں جو اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ شیرون پر جنگی جرائم کا مقدمہ چلایا جانا چاہیے تھا۔ لبنان میں ہمیشہ شیرون کو ''بیروت کا قصائی'' کے لقب سے یاد رکھا جائے گا اور معاف نہیں کیا جائے گا۔