کچھ تو ادھر بھی
وزیراعظم اپنے وعدوں کا پاس کریں، ایسا نہ ہو کہ عوام سیاسی رہنماؤں کے اعلانات پر یقین کرنا ہی چھوڑ دیں
وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ انھیں الیکشن سے پہلے ملک میں کسی جماعت کی واضح اکثریت نظر نہیں آ رہی تھی لیکن عوام اور نوجوانوں کے ووٹوں سے کامیاب ہو کر تیسری مرتبہ وزیر اعظم بننے پر حیرت ہوئی۔ ہم قوم اور نوجوانوں کو مایوس نہیں کریں گے۔ انھوں نے یہ بھی اعتراف کیا کہ تیسری بار وزیر اعظم بننے کا اعزاز حاصل کرنے میں ان کا کوئی کمال نہیں بلکہ یہ قوم اور نوجوانوں کا مجھ پر اعتماد تھا۔
وزیر اعظم نے سو فیصد سچ کہا، کیونکہ 11 مئی کے الیکشن کے موقعے پر سیاسی صورت حال ہی ایسی تھی جس میں واضح اکثریت تو کیا کسی پارٹی کی سادہ اکثریت لے کر حکومت بنانے کا امکان بھی معدوم تھا اور صدر آصف علی زرداری مطمئن تھے کہ پنجاب جیسے بڑے صوبے کے ووٹ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف میں تقسیم ہوجائیں گے اور پیپلز پارٹی ماضی کی طرح ووٹ تقسیم ہو جانے سے سادہ اکثریت لے کر دوبارہ حکومت بنالے گی۔ (ن) لیگ اور پی ٹی آئی نے پنجاب ہی میں اپنی مہم زور و شور سے چلائی تھی ایک دوسرے پر سنگین الزامات عاید کیے تھے۔ (ن) لیگ اور پی پی عوام کی آزمائی ہوئی سیاسی پارٹیاں تھیں۔ (ن) لیگ نے دو بار اور پیپلز پارٹی نے تین بار حکومتیں بنا کر عوام کو مایوس کیا تھا۔
پی پی کی تیسری حکومت کرپشن اور اقربا پروری میں بدنام رہی تو میاں نواز شریف کی 1999 میں ختم کی جانے والی حکومت میں بھی عوام دکھی اور مایوس تھے اور انھوں نے جنرل پرویز کے اقتدار سنبھالنے پر نواز شریف کی حمایت میں کوئی مظاہرہ نہیں تھا اور نواز شریف قدم بڑھاؤ ہم تمہارے ساتھ ہیں کے نعرے لگانے والے غائب اور میاں صاحب فوجی حکومت کے قیدی بن چکے تھے۔
میاں صاحب کو ہتھکڑی سمیت باندھ کر جہاز سے کراچی لایا گیا تھا اور جلاوطنی اور پھر وطن واپسی کے متعلق میاں نواز شریف کے بیانات کا تضاد ظاہر ہو چکا تھا اور تحریک انصاف کے مقابلے میں (ن) لیگ پریشان اور سادہ اکثریت حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھی مگر عوام نے انتخابی مہم میں ایک بار پھر میاں برادران پر اعتماد کیا کہ عمران خان کے مقابلے میں نواز شریف تجربے کار تھے اور جنرل پرویز کے مظالم بھی انھوں نے برداشت کیے تھے۔ اپنی انتخابی مہم میں دونوں بھائیوں نے بڑے بلند بانگ دعوے کیے تھے اور عوام کو اچھے دنوں کے سنہری خواب دکھائے تھے۔ شہباز شریف نے لوڈشیڈنگ ختم کر دینے کی جذبات میں آ کر تین مختلف تاریخیں دی تھیں اور عوام خصوصاً پنجاب کے عوام نے دونوں بھائیوں پر اتنا اعتماد کیا تھا کہ انتخابی نتائج پر ہونے والی حیرت کا اعتراف تو وزیر اعظم نے خود ہی کیا ہے۔
نواز شریف کو تو سندھ اور بلوچستان میں انتخابی مہم چلانے کی فرصت بھی نہیں ملی تھی اور انھوں نے خیبرپختونخوا کے شہروں کے بھی محدود انتخابی دورے کیے تھے پھر بھی پنجاب کے بعد انھیں باقی تین صوبوں سے بھی قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں نمایندگی حاصل ہو گئی تھی اور صدر آصف علی زرداری کے خواب چکنا چور ہو کر پیپلز پارٹی صرف سندھ میں اکثریت حاصل کر پائی تھی اور تحریک انصاف نے بھی تین صوبوں میں کچھ کامیابی حاصل کر کے خیبرپختونخوا میں اپنی حکومت بنالی تھی۔
وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت اپنے اقتدار کے دو سو دن مکمل کر رہی ہے اور ساڑھے سات ماہ میں میاں نواز شریف اپنا کوئی وعدہ پورا کرتے، ان کی حکومت نے تو اقتدار سنبھالتے ہی عوام پر مہنگائی کے بم گرانا شروع کر دیے اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ گرمیوں میں کوئی خاص کم ہوئی اور نہ سوئی گیس کے معاملات میں بہتری آئی اور سردیوں میں حکومت نے عوام اور سی این جی والوں کو تگنی کا ناچ نچا دیا اور 7ماہ میں وہ کچھ کر دکھایا جو پی پی حکومت نے اپنے 5سال میں بھی نہیں کیا تھا۔
گزشتہ حکومتیں صرف عیدالفطر پر نئے نوٹ چھاپ کر عوام کو دیتی تھیں اور عوام کو پھر بھی نئے نوٹ ملنے کی شکایات رہتی تھیں جب کہ موجودہ حکومت نے عیدالفطر کے بعد عید الاضحی پر بھی نئے نوٹ چھاپنے کا ریکارڈ قائم کیا اور عوام نے نئے نوٹوں میں دلچسپی نہیں لی، البتہ بہت بڑی تعداد میں نئے نوٹ چھاپے جانے سے روپیہ مزید ڈی ویلیو ہوا اور ڈالر 107 روپے تک پہنچ کر وزیر خزانہ کا خواب پورا کرنے پر تیار نہیں ہے۔
قومی اسمبلی میں بھاری اکثریت سے منتخب ہو کر وزیر اعظم کو قومی اسمبلی ہی یاد نہیں تو وہ سینیٹ میں کیوں جائیں جہاں ان کی اکثریت ہی نہیں ہے۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کہہ رہے ہیں کہ وزیر اعظم قومی اسمبلی آ جائیں انھیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔ اہم حکومتی عہدے خالی پڑے ہیں، جہاں سربراہی کے لیے حکومت کو من پسند افسر نہیں مل رہے۔ اپنے ناپسندیدہ افسروں کو حکومت ہٹاتی ہے تو وہ عدلیہ سے بحال ہو کر واپس آ جاتے ہیں۔ بعض اہم عہدوں پر من پسند تقرریاں تو کر لی گئیں باقی اہم جگہوں پر قائم مقاموں سے کام چلایا جا رہا ہے۔
سپریم کورٹ اور ہائی کورٹوں سے حکومت کو ایسے ہی ریمارکس سننے کو مل رہے ہیں جیسے پی پی دور میں ملتے تھے۔ 6 ماہ کی اپنی کابینہ کی غیر تسلی بخش کارکردگی کے باوجود وزیر اعظم نے کابینہ میں رد و بدل نہیں کیا۔ اکثر وزیر اپنے محکموں سے خوش نہیں اور کابینہ کے سلسلے میں وزیر اعظم اپنے اعلان پر بھی عمل نہیں کر پائے۔ صرف داخلہ، خزانہ اور ریلوے کے وزیر ہی کچھ کرتے نظر آ رہے ہیں۔ وزیر ریلوے کی کارکردگی سب سے بہتر ہے اور انھوں نے مسافروں کو ضرور کچھ دیا ہے جب کہ وزیر خزانہ بولنے میں کم مگر مہنگائی بڑھانے اور عوام کو (ن) لیگ کو ووٹ دینے کی سزا دینے میں سب سے زیادہ تیز ہیں اور وزیر داخلہ کا کام صرف طالبان کے معاملات تک محدود نظر آتا ہے۔محترم وزیر اعظم یقینی طور پر باعلم ہیں کہ ان کے دو سو دنوں میں عوام کی کیا حالت کر دی گئی ہے۔ عوام کو حکومت سے ریلیف تو کیا ملنا تھا، مہنگائی پہ مہنگائی کے تحفے مل رہے ہیں۔ پرانے کشکول چھوٹے پڑ گئے ہیں اور جلد ہی ملک میں پیدا ہونے والا ہر بچہ ایک لاکھ روپے تک مقروض پیدا ہو گا۔ دور آمریت میں مہنگائی کم تھی جس کے بعد سابق پی پی دور میں مہنگائی بڑھی اور موجودہ دور میں تو مہنگائی کا نیا ریکارڈ قائم ہوا ہے مگر بھاری مینڈیٹ لے کر حکومت بنانے والوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی اور عوام عذاب میں مبتلا ہیں۔
وزیر اعظم کچھ اس طرف بھی توجہ دیں اور اپنے وعدوں کا پاس کریں، ایسا نہ ہو کہ عوام سیاسی رہنماؤں کے اعلانات پر یقین کرنا ہی چھوڑ دیں اور موجودہ حکومت کو بھی آیندہ ہمیشہ کے لیے مسترد کر دیں۔
وزیر اعظم نے سو فیصد سچ کہا، کیونکہ 11 مئی کے الیکشن کے موقعے پر سیاسی صورت حال ہی ایسی تھی جس میں واضح اکثریت تو کیا کسی پارٹی کی سادہ اکثریت لے کر حکومت بنانے کا امکان بھی معدوم تھا اور صدر آصف علی زرداری مطمئن تھے کہ پنجاب جیسے بڑے صوبے کے ووٹ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف میں تقسیم ہوجائیں گے اور پیپلز پارٹی ماضی کی طرح ووٹ تقسیم ہو جانے سے سادہ اکثریت لے کر دوبارہ حکومت بنالے گی۔ (ن) لیگ اور پی ٹی آئی نے پنجاب ہی میں اپنی مہم زور و شور سے چلائی تھی ایک دوسرے پر سنگین الزامات عاید کیے تھے۔ (ن) لیگ اور پی پی عوام کی آزمائی ہوئی سیاسی پارٹیاں تھیں۔ (ن) لیگ نے دو بار اور پیپلز پارٹی نے تین بار حکومتیں بنا کر عوام کو مایوس کیا تھا۔
پی پی کی تیسری حکومت کرپشن اور اقربا پروری میں بدنام رہی تو میاں نواز شریف کی 1999 میں ختم کی جانے والی حکومت میں بھی عوام دکھی اور مایوس تھے اور انھوں نے جنرل پرویز کے اقتدار سنبھالنے پر نواز شریف کی حمایت میں کوئی مظاہرہ نہیں تھا اور نواز شریف قدم بڑھاؤ ہم تمہارے ساتھ ہیں کے نعرے لگانے والے غائب اور میاں صاحب فوجی حکومت کے قیدی بن چکے تھے۔
میاں صاحب کو ہتھکڑی سمیت باندھ کر جہاز سے کراچی لایا گیا تھا اور جلاوطنی اور پھر وطن واپسی کے متعلق میاں نواز شریف کے بیانات کا تضاد ظاہر ہو چکا تھا اور تحریک انصاف کے مقابلے میں (ن) لیگ پریشان اور سادہ اکثریت حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھی مگر عوام نے انتخابی مہم میں ایک بار پھر میاں برادران پر اعتماد کیا کہ عمران خان کے مقابلے میں نواز شریف تجربے کار تھے اور جنرل پرویز کے مظالم بھی انھوں نے برداشت کیے تھے۔ اپنی انتخابی مہم میں دونوں بھائیوں نے بڑے بلند بانگ دعوے کیے تھے اور عوام کو اچھے دنوں کے سنہری خواب دکھائے تھے۔ شہباز شریف نے لوڈشیڈنگ ختم کر دینے کی جذبات میں آ کر تین مختلف تاریخیں دی تھیں اور عوام خصوصاً پنجاب کے عوام نے دونوں بھائیوں پر اتنا اعتماد کیا تھا کہ انتخابی نتائج پر ہونے والی حیرت کا اعتراف تو وزیر اعظم نے خود ہی کیا ہے۔
نواز شریف کو تو سندھ اور بلوچستان میں انتخابی مہم چلانے کی فرصت بھی نہیں ملی تھی اور انھوں نے خیبرپختونخوا کے شہروں کے بھی محدود انتخابی دورے کیے تھے پھر بھی پنجاب کے بعد انھیں باقی تین صوبوں سے بھی قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں نمایندگی حاصل ہو گئی تھی اور صدر آصف علی زرداری کے خواب چکنا چور ہو کر پیپلز پارٹی صرف سندھ میں اکثریت حاصل کر پائی تھی اور تحریک انصاف نے بھی تین صوبوں میں کچھ کامیابی حاصل کر کے خیبرپختونخوا میں اپنی حکومت بنالی تھی۔
وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت اپنے اقتدار کے دو سو دن مکمل کر رہی ہے اور ساڑھے سات ماہ میں میاں نواز شریف اپنا کوئی وعدہ پورا کرتے، ان کی حکومت نے تو اقتدار سنبھالتے ہی عوام پر مہنگائی کے بم گرانا شروع کر دیے اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ گرمیوں میں کوئی خاص کم ہوئی اور نہ سوئی گیس کے معاملات میں بہتری آئی اور سردیوں میں حکومت نے عوام اور سی این جی والوں کو تگنی کا ناچ نچا دیا اور 7ماہ میں وہ کچھ کر دکھایا جو پی پی حکومت نے اپنے 5سال میں بھی نہیں کیا تھا۔
گزشتہ حکومتیں صرف عیدالفطر پر نئے نوٹ چھاپ کر عوام کو دیتی تھیں اور عوام کو پھر بھی نئے نوٹ ملنے کی شکایات رہتی تھیں جب کہ موجودہ حکومت نے عیدالفطر کے بعد عید الاضحی پر بھی نئے نوٹ چھاپنے کا ریکارڈ قائم کیا اور عوام نے نئے نوٹوں میں دلچسپی نہیں لی، البتہ بہت بڑی تعداد میں نئے نوٹ چھاپے جانے سے روپیہ مزید ڈی ویلیو ہوا اور ڈالر 107 روپے تک پہنچ کر وزیر خزانہ کا خواب پورا کرنے پر تیار نہیں ہے۔
قومی اسمبلی میں بھاری اکثریت سے منتخب ہو کر وزیر اعظم کو قومی اسمبلی ہی یاد نہیں تو وہ سینیٹ میں کیوں جائیں جہاں ان کی اکثریت ہی نہیں ہے۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کہہ رہے ہیں کہ وزیر اعظم قومی اسمبلی آ جائیں انھیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔ اہم حکومتی عہدے خالی پڑے ہیں، جہاں سربراہی کے لیے حکومت کو من پسند افسر نہیں مل رہے۔ اپنے ناپسندیدہ افسروں کو حکومت ہٹاتی ہے تو وہ عدلیہ سے بحال ہو کر واپس آ جاتے ہیں۔ بعض اہم عہدوں پر من پسند تقرریاں تو کر لی گئیں باقی اہم جگہوں پر قائم مقاموں سے کام چلایا جا رہا ہے۔
سپریم کورٹ اور ہائی کورٹوں سے حکومت کو ایسے ہی ریمارکس سننے کو مل رہے ہیں جیسے پی پی دور میں ملتے تھے۔ 6 ماہ کی اپنی کابینہ کی غیر تسلی بخش کارکردگی کے باوجود وزیر اعظم نے کابینہ میں رد و بدل نہیں کیا۔ اکثر وزیر اپنے محکموں سے خوش نہیں اور کابینہ کے سلسلے میں وزیر اعظم اپنے اعلان پر بھی عمل نہیں کر پائے۔ صرف داخلہ، خزانہ اور ریلوے کے وزیر ہی کچھ کرتے نظر آ رہے ہیں۔ وزیر ریلوے کی کارکردگی سب سے بہتر ہے اور انھوں نے مسافروں کو ضرور کچھ دیا ہے جب کہ وزیر خزانہ بولنے میں کم مگر مہنگائی بڑھانے اور عوام کو (ن) لیگ کو ووٹ دینے کی سزا دینے میں سب سے زیادہ تیز ہیں اور وزیر داخلہ کا کام صرف طالبان کے معاملات تک محدود نظر آتا ہے۔محترم وزیر اعظم یقینی طور پر باعلم ہیں کہ ان کے دو سو دنوں میں عوام کی کیا حالت کر دی گئی ہے۔ عوام کو حکومت سے ریلیف تو کیا ملنا تھا، مہنگائی پہ مہنگائی کے تحفے مل رہے ہیں۔ پرانے کشکول چھوٹے پڑ گئے ہیں اور جلد ہی ملک میں پیدا ہونے والا ہر بچہ ایک لاکھ روپے تک مقروض پیدا ہو گا۔ دور آمریت میں مہنگائی کم تھی جس کے بعد سابق پی پی دور میں مہنگائی بڑھی اور موجودہ دور میں تو مہنگائی کا نیا ریکارڈ قائم ہوا ہے مگر بھاری مینڈیٹ لے کر حکومت بنانے والوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی اور عوام عذاب میں مبتلا ہیں۔
وزیر اعظم کچھ اس طرف بھی توجہ دیں اور اپنے وعدوں کا پاس کریں، ایسا نہ ہو کہ عوام سیاسی رہنماؤں کے اعلانات پر یقین کرنا ہی چھوڑ دیں اور موجودہ حکومت کو بھی آیندہ ہمیشہ کے لیے مسترد کر دیں۔