تبدیلی کی کوشش
انسانی تاریخ کے تمام ادوار میں ایسے لوگ رہے ہیں جو ماضی سے چمٹے رہتے ہیں۔۔۔
لیوس گراسک گبن کی دوران جنگ لکھی گئی تین جلدوں پر مشتمل کتاب "A scots Quair"میں 4ہزار سال پرانے پتھروں کو امنڈتے ہوئے بادلوں کے خلاف کھڑا ہوا دکھایا گیا ہے۔ یہ منظر مرکزی کردار کرائسٹ گتھری کو وقت کی فطرت اور تبدیلی کی بابت سوچنے پر ابھارتا ہے۔ ایک وقت وہ تھا جب بادلوں کو دیوتا سمجھ کر ان کی پرستش کی جاتی تھی لیکن اب وہ اپنے دل میں سوچتی ہے کہ وہ محض بادل ہیں جو آ کر گزر جاتے اور ختم ہو جاتے ہیں، ہوا میں تحلیل ہونے کے بعد ان کا قصہ ختم ہو جاتا ہے، کوئی چیز باقی نہیں رہتی البتہ فطرت کا جویا اور ہمیشہ قائم رہنے والی پہاڑیاں رہ جاتی ہیں۔ گبن بذات خود اشتراکی تھا، فلسفی کی حیثیت سے وہ جانتا تھا کہ سدا قائم رہنے والی پہاڑیاں بھی باقی نہیں رہیں گی، کوئی چیز دائمی اور بے پایاں نہیں ہے، پہاڑ، جزیرے، سمندر، نباتات، سیارے اور شمسی نظام وجود میں آتے تبدیلی کا شکار ہوتے اور آخرکار غائب ہو جاتے ہیں۔ فطرت میں تبدیلیوں کو ہزار سالہ دورانیہ سے ناپا جاتا ہے جب کہ انسانی معاشرہ مقابلتاً خطرناک رفتار سے نشو و نما پاتا ہے اس کے باوجود ہم لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنتے ہیں ''یہ ہی طریقہ ہمیشہ اسی طرح ہوتا آیا ہے، چیزوں کو بدلنے کی کوشش کرنا بیکار ہے''۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری زندگی کا دورانیہ مختصر ہے۔ ہم بڑی تصویر کو دیکھنے میں اکثر دشواری محسوس کرتے ہیں، ہم سو چتے ہیں کہ غربت، افلاس، انتہا پسندی، رجعت پسندی، جاگیرداری، سرمایہ داری، دائم رہنے والی ہے کیونکہ یہ کئی سو سال سے موجود ہے، اگر اسے انسانی زندگی کی لاکھوں برسوں سے موجودگی کے مقابلے میں دیکھا جائے تو یہ پلک جھپکنے کی بات لگتی ہے۔ از منہ وسطیٰ میں اگر کوئی شخص غاروں میں رہنے والوں کو یہ بتاتا کہ ایک دن ہم بڑے بڑے شہروں میں رہائش پذیر ہونگے، جن کی گلیوں میں روشنی کا انتظام، کاروں کی ریل پیل، ہوائی جہاز، بحری جہاز، ٹیلی فون، فریج، ائیر کنڈیشنر، پنکھے کی بھرمار ہو گی، تو وہ ایسی بات سنانے والے کا مذاق اڑاتے اور اسے پاگل قرار دے دیتے۔ جب 2000 سال قبل روم میں اسپارٹیکس کی زیر قیادت غلاموں نے بغاوت کی تو بعض عقل سلیم رکھنے والوں نے اس سے کہا تھا کہ وہ محض اپنا وقت ضایع کر رہا ہے، اسے ہوش کے ناخن لینے چاہیں، غلامی ہمیشہ سے چلی آئی ہے، غلام رکھنا اور غلاموں کا مالک ہونا انسانی فطرت میں داخل ہے۔ آپ انسان کی فطرت کو نہیں بدل سکتے۔
انسانی تاریخ کے تمام ادوار میں ایسے لوگ رہے ہیں جو ماضی سے چمٹے رہتے ہیں، عام طور پر سارے ہی دولت مند اور بااختیار لوگ ہوتے ہیں جو تبدیلی سے ڈرتے اور ترقی کی مزاحمت کرتے ہیں، جب انھیں نئے اور نامانوس نظریات سے سابقہ پڑتا ہے تو غصے کے مارے آپے سے باہر ہو جاتے ہیں۔ دوسری قسم کے لوگ وہ ہوتے ہیں جو تبدیلی کو خوش آمدید کہتے ہیں، وہ ماضی یا حال میں زندگی گزارنے کے بجائے مستقبل میں جیتے ہیں۔ وہ روایت کی قربان گاہ کے سامنے سجدہ ریز ہونے سے انکار کر دیتے ہیں، وہ حالات کو چیلنج کرتے ہیں اور اصولوں کو توڑنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ کوپرنیکس نے علم ہیئت کے اصول دوبارہ قلم بند کیے تو یورپ کے ہر منبر و محراب سے اس کی مذمت کی گئی، کیونکہ اس نے عالمگیر سطح پر مسلمہ اس حقیقت کو چیلنج کرنے کی جسارت کی تھی کہ زمین کائنات کا مرکز ہے اور ہر چیز اس کے گرد گھومتی ہے۔ بیتھوون نے موسیقی کے قواعد از سر نو مرتب کیے، شیکسپیئر نے ادب بلکہ اخلاقیات کے اصول نئے سرے سے مدون کیے، نپولین نے جنگ و جدل کے قوانین کو دوبارہ لکھا، اسی طرح پکاسو نے آرٹ، ڈارون نے بائیولوجی اور نیوٹن نے فزکس کے اصول نئی شکل میں مرتب کیے۔
جرمن فلاسفر آرتھر شوپنہار نے کہا تھا کہ تمام سچائی تین درجوں میں سے گزرتی ہے، سب سے پہلے اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے پھر اس کی سختی سے مخالفت کی جاتی ہے اور آخر میں اسے خود آشکار کی صورت میں مان لیا جاتا ہے۔ عظیم امریکی صدر ابراہم لنکن کا بچپن کا واقعہ ہے۔ ایک روز لنکن کے والد سے ملنے ان کے ایک دوست گھر تشریف لائے، لنکن کی عمر اس وقت 6 سال تھی اور وہ اپنے گھر کے آنگن میں کھیل رہے تھے، ان کے والد کے دوست نے ان سے پوچھا، بیٹے تم بڑے ہو کر کیا بنو گے؟ میں بڑا ہو کر امریکا کا صدر بنوں گا۔ لنکن نے جواب دیا، وہ لنکن کا جواب سن کر بہت ہنسے اور بولے یہ تو بہت مشکل کام ہے، اس کے لیے تو بہت محنت اور جدوجہد کی ضرورت ہے۔ لنکن نے ان کی بات کا جواب دیتے ہوئے کہا، انکل آدھا کام تو ہو گیا ہے اور آدھا کام کرنا باقی ہے۔ ان کے والد کے دوست نے پوچھا کہ کون سا آدھا کام ہو گیا ہے اور کون سا آدھا کام کرنا باقی ہے۔ لنکن نے جواب میں کہا، میں امریکا کا صدر بننے کے لیے راضی ہو گیا ہوں، اس لیے آدھا کام تو ہو گیا، باقی آدھا کام مجھے امریکی عوام کو راضی کرنا ہے۔ پھر لنکن نے باقی آدھا کام آگے چل کر امریکی عوام کو راضی کر کے پورا کر دیا اور وہ امریکا کے صدر منتخب ہو گئے۔
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں تبدیلی نہیں آ سکتی، وہ دراصل احمقوں کی دنیا میں رہتے ہیں۔ دنیا میں ہر جگہ تبدیلی آئی ہے، آج کی دنیا ایک تبدیل شدہ دنیا ہے، دنیا کے دیگر ممالک میں ہم سے زیادہ خرابیاں اور برائیاں موجود تھیں، ہم سے زیادہ حالات خراب تھے لیکن جب ان کے عوام اپنے حالات تبدیل کرنے پر راضی ہو گئے تو انھوں نے اپنی دنیا کو یکسر تبدیل کر دیا۔ جب آپ تبدیلی کا سوچ لیتے ہیں تو آدھی تبدیلی تو اسی وقت آ چکی ہوتی ہے باقی آدھی تبدیلی محنت، لگن سے خود بخود آ جاتی ہے۔ اصل بات اپنے آپ کو راضی کرنا ہوتا ہے۔ ایک آدمی غبارے بیچ کر روزی کماتا تھا، اس کے پاس لال، پیلے، نیلے، ہرے ہر رنگ کے غبارے ہوتے تھے، جب بھی کام مندا ہوتا وہ گیس سے بھرا ایک غبارہ اڑا دیتا، جب بچے غبارے کو اڑتا ہوا دیکھتے تو اس کی طرف متوجہ ہو جاتے اور ان میں غبارہ خریدنے کی خواہش ابھرتی، وہ آ کر غبارے والے سے غبارے خریدتے اور یوں اس کا مندا ختم ہو جاتا، دن بھر میں جب بھی کام مندا ہوتا، غبارے والا اسی طرح ایک غبارہ اڑا دیتا۔
ایک دن کسی نے غبارے والے کی قمیض پیچھے سے کھینچی، اس نے مڑ کر دیکھا، وہ ایک چھوٹا سا لڑکا تھا، لڑکے نے پوچھا اگر تم کالے رنگ کے غبارے کو اڑاؤ تو کیا وہ اڑے گا؟ غبارے والے نے جواب دیا، بیٹا غبارے رنگ کی وجہ سے نہیں بلکہ اس میں موجود گیس کی وجہ سے اڑتے ہیں۔ یہ ہی اصول ہماری زندگیوں پر بھی صادق آتا ہے، جو کچھ اندر ہے وہی اہم ہے اور ہمارے اندر موجود ہمیں بلندی پر لے جا نے والی شے ہے ہمارا رحجان اور سوچ۔ ولیم جیمز نے کہا تھا میری نسل کی عظیم ترین دریافت یہ ہے کہ انسان اپنے ذہنی رحجان کو بدل کر اپنی زندگیوں کو تبدیل کر سکتے ہیں، تمہارا منتخب کیا ہوا شعبہ کوئی بھی ہو کا میابی کی اساس رحجان ہے۔ تبدیلی سے خوفزدہ اور ڈرے ہوئے لوگ بزدلی اور مایوسی کی باتیں کرتے ہیں اور دوسروں کو بیوقوف بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ تبدیلی ایک نیچرل عمل کا نام ہے، جب خرابیاں اور برائیاں حد سے زیادہ بڑھ جاتی ہیں تو تبدیلی کا عمل خود بخود شروع ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں تبدیلی کے عمل کا آغاز ہو چکا ہے۔ عوام راضی ہو چکے ہیں اس لیے آدھا کام ہو گیا ہے اور آدھا کام ہونا باقی ہے۔ قتل و غارت، بھتہ خوری، نفرت انگیز سیاست و سماجی رویوں، بد امنی اور کرپشن کے ناسور کو بالآخر دفن ہونا ہے لہٰذا پاکستان میں تبدیلی ہر صورت آنی ہی آنی ہے اور تبدیلی کو روکنا ناممکن ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری زندگی کا دورانیہ مختصر ہے۔ ہم بڑی تصویر کو دیکھنے میں اکثر دشواری محسوس کرتے ہیں، ہم سو چتے ہیں کہ غربت، افلاس، انتہا پسندی، رجعت پسندی، جاگیرداری، سرمایہ داری، دائم رہنے والی ہے کیونکہ یہ کئی سو سال سے موجود ہے، اگر اسے انسانی زندگی کی لاکھوں برسوں سے موجودگی کے مقابلے میں دیکھا جائے تو یہ پلک جھپکنے کی بات لگتی ہے۔ از منہ وسطیٰ میں اگر کوئی شخص غاروں میں رہنے والوں کو یہ بتاتا کہ ایک دن ہم بڑے بڑے شہروں میں رہائش پذیر ہونگے، جن کی گلیوں میں روشنی کا انتظام، کاروں کی ریل پیل، ہوائی جہاز، بحری جہاز، ٹیلی فون، فریج، ائیر کنڈیشنر، پنکھے کی بھرمار ہو گی، تو وہ ایسی بات سنانے والے کا مذاق اڑاتے اور اسے پاگل قرار دے دیتے۔ جب 2000 سال قبل روم میں اسپارٹیکس کی زیر قیادت غلاموں نے بغاوت کی تو بعض عقل سلیم رکھنے والوں نے اس سے کہا تھا کہ وہ محض اپنا وقت ضایع کر رہا ہے، اسے ہوش کے ناخن لینے چاہیں، غلامی ہمیشہ سے چلی آئی ہے، غلام رکھنا اور غلاموں کا مالک ہونا انسانی فطرت میں داخل ہے۔ آپ انسان کی فطرت کو نہیں بدل سکتے۔
انسانی تاریخ کے تمام ادوار میں ایسے لوگ رہے ہیں جو ماضی سے چمٹے رہتے ہیں، عام طور پر سارے ہی دولت مند اور بااختیار لوگ ہوتے ہیں جو تبدیلی سے ڈرتے اور ترقی کی مزاحمت کرتے ہیں، جب انھیں نئے اور نامانوس نظریات سے سابقہ پڑتا ہے تو غصے کے مارے آپے سے باہر ہو جاتے ہیں۔ دوسری قسم کے لوگ وہ ہوتے ہیں جو تبدیلی کو خوش آمدید کہتے ہیں، وہ ماضی یا حال میں زندگی گزارنے کے بجائے مستقبل میں جیتے ہیں۔ وہ روایت کی قربان گاہ کے سامنے سجدہ ریز ہونے سے انکار کر دیتے ہیں، وہ حالات کو چیلنج کرتے ہیں اور اصولوں کو توڑنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ کوپرنیکس نے علم ہیئت کے اصول دوبارہ قلم بند کیے تو یورپ کے ہر منبر و محراب سے اس کی مذمت کی گئی، کیونکہ اس نے عالمگیر سطح پر مسلمہ اس حقیقت کو چیلنج کرنے کی جسارت کی تھی کہ زمین کائنات کا مرکز ہے اور ہر چیز اس کے گرد گھومتی ہے۔ بیتھوون نے موسیقی کے قواعد از سر نو مرتب کیے، شیکسپیئر نے ادب بلکہ اخلاقیات کے اصول نئے سرے سے مدون کیے، نپولین نے جنگ و جدل کے قوانین کو دوبارہ لکھا، اسی طرح پکاسو نے آرٹ، ڈارون نے بائیولوجی اور نیوٹن نے فزکس کے اصول نئی شکل میں مرتب کیے۔
جرمن فلاسفر آرتھر شوپنہار نے کہا تھا کہ تمام سچائی تین درجوں میں سے گزرتی ہے، سب سے پہلے اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے پھر اس کی سختی سے مخالفت کی جاتی ہے اور آخر میں اسے خود آشکار کی صورت میں مان لیا جاتا ہے۔ عظیم امریکی صدر ابراہم لنکن کا بچپن کا واقعہ ہے۔ ایک روز لنکن کے والد سے ملنے ان کے ایک دوست گھر تشریف لائے، لنکن کی عمر اس وقت 6 سال تھی اور وہ اپنے گھر کے آنگن میں کھیل رہے تھے، ان کے والد کے دوست نے ان سے پوچھا، بیٹے تم بڑے ہو کر کیا بنو گے؟ میں بڑا ہو کر امریکا کا صدر بنوں گا۔ لنکن نے جواب دیا، وہ لنکن کا جواب سن کر بہت ہنسے اور بولے یہ تو بہت مشکل کام ہے، اس کے لیے تو بہت محنت اور جدوجہد کی ضرورت ہے۔ لنکن نے ان کی بات کا جواب دیتے ہوئے کہا، انکل آدھا کام تو ہو گیا ہے اور آدھا کام کرنا باقی ہے۔ ان کے والد کے دوست نے پوچھا کہ کون سا آدھا کام ہو گیا ہے اور کون سا آدھا کام کرنا باقی ہے۔ لنکن نے جواب میں کہا، میں امریکا کا صدر بننے کے لیے راضی ہو گیا ہوں، اس لیے آدھا کام تو ہو گیا، باقی آدھا کام مجھے امریکی عوام کو راضی کرنا ہے۔ پھر لنکن نے باقی آدھا کام آگے چل کر امریکی عوام کو راضی کر کے پورا کر دیا اور وہ امریکا کے صدر منتخب ہو گئے۔
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں تبدیلی نہیں آ سکتی، وہ دراصل احمقوں کی دنیا میں رہتے ہیں۔ دنیا میں ہر جگہ تبدیلی آئی ہے، آج کی دنیا ایک تبدیل شدہ دنیا ہے، دنیا کے دیگر ممالک میں ہم سے زیادہ خرابیاں اور برائیاں موجود تھیں، ہم سے زیادہ حالات خراب تھے لیکن جب ان کے عوام اپنے حالات تبدیل کرنے پر راضی ہو گئے تو انھوں نے اپنی دنیا کو یکسر تبدیل کر دیا۔ جب آپ تبدیلی کا سوچ لیتے ہیں تو آدھی تبدیلی تو اسی وقت آ چکی ہوتی ہے باقی آدھی تبدیلی محنت، لگن سے خود بخود آ جاتی ہے۔ اصل بات اپنے آپ کو راضی کرنا ہوتا ہے۔ ایک آدمی غبارے بیچ کر روزی کماتا تھا، اس کے پاس لال، پیلے، نیلے، ہرے ہر رنگ کے غبارے ہوتے تھے، جب بھی کام مندا ہوتا وہ گیس سے بھرا ایک غبارہ اڑا دیتا، جب بچے غبارے کو اڑتا ہوا دیکھتے تو اس کی طرف متوجہ ہو جاتے اور ان میں غبارہ خریدنے کی خواہش ابھرتی، وہ آ کر غبارے والے سے غبارے خریدتے اور یوں اس کا مندا ختم ہو جاتا، دن بھر میں جب بھی کام مندا ہوتا، غبارے والا اسی طرح ایک غبارہ اڑا دیتا۔
ایک دن کسی نے غبارے والے کی قمیض پیچھے سے کھینچی، اس نے مڑ کر دیکھا، وہ ایک چھوٹا سا لڑکا تھا، لڑکے نے پوچھا اگر تم کالے رنگ کے غبارے کو اڑاؤ تو کیا وہ اڑے گا؟ غبارے والے نے جواب دیا، بیٹا غبارے رنگ کی وجہ سے نہیں بلکہ اس میں موجود گیس کی وجہ سے اڑتے ہیں۔ یہ ہی اصول ہماری زندگیوں پر بھی صادق آتا ہے، جو کچھ اندر ہے وہی اہم ہے اور ہمارے اندر موجود ہمیں بلندی پر لے جا نے والی شے ہے ہمارا رحجان اور سوچ۔ ولیم جیمز نے کہا تھا میری نسل کی عظیم ترین دریافت یہ ہے کہ انسان اپنے ذہنی رحجان کو بدل کر اپنی زندگیوں کو تبدیل کر سکتے ہیں، تمہارا منتخب کیا ہوا شعبہ کوئی بھی ہو کا میابی کی اساس رحجان ہے۔ تبدیلی سے خوفزدہ اور ڈرے ہوئے لوگ بزدلی اور مایوسی کی باتیں کرتے ہیں اور دوسروں کو بیوقوف بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ تبدیلی ایک نیچرل عمل کا نام ہے، جب خرابیاں اور برائیاں حد سے زیادہ بڑھ جاتی ہیں تو تبدیلی کا عمل خود بخود شروع ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں تبدیلی کے عمل کا آغاز ہو چکا ہے۔ عوام راضی ہو چکے ہیں اس لیے آدھا کام ہو گیا ہے اور آدھا کام ہونا باقی ہے۔ قتل و غارت، بھتہ خوری، نفرت انگیز سیاست و سماجی رویوں، بد امنی اور کرپشن کے ناسور کو بالآخر دفن ہونا ہے لہٰذا پاکستان میں تبدیلی ہر صورت آنی ہی آنی ہے اور تبدیلی کو روکنا ناممکن ہے۔