عمران خان لباس جنسی جرائم اور لبرل طبقہ

اکثر تحقیقاتی رپورٹس میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ عورتوں کے مختصر لباس پہننے کی وجہ سے جنسی حملے بڑھ رہے ہیں

عورتوں کے نامناسب لباس اور جنسی جرائم سے متعلق عمران خان کے بیان پر بہت تنقید ہورہی ہے۔ (فوٹو: فائل)

عمران خان نے چند دن قبل امریکی ٹی وی کو دیے جانے والے انٹرویو میں کہا کہ عورتوں کے مختصر لباس پہننے سے جنسی جرائم میں اضافہ ہوتا ہے۔ وزیراعظم کے اس بیان پر بڑی لے دے ہورہی ہے۔ مذہبی رجحان رکھنے والے لوگ اس بیان کی تحسین کر رہے ہیں جبکہ آزاد خیال لوگوں کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نے جنسی زیادتی کرنے والوں کا دفاع کیا ہے اور عورتوں کی توہین کی ہے۔

گزشتہ روز ٹی وی پر ہونے والی بحث میں ایک نامور اینکر نے عمران خان کے بیان کو جدید سماجی تحقیق کے صریحاً خلاف قرار دیا۔ اینکر کی بات سن کر میرے ذہن میں لباس اور جنسی جرائم کے باہمی تعلق پر مغربی سماج میں ہونے والی تحقیق کا جائزہ لینے کا خیال پیدا ہوا۔ صورت حال یہ ہے کہ مغربی معاشرے نے اس موضوع پر قابل ذکر تحقیق کی ہے۔ جو بیسیوں سائنسی مقالے میری نظر سے گزرے، ان میں وہی نتائج و نظریات سامنے آئے ہیں جن کا ذکر ہمارے وزیراعظم نے کیا ہے۔ قارئین کی دلچسپی کےلیے چند ایک کا خلاصہ یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔

فرانس میں ہونے والی ایک تحقیق میں دو خواتین کو مختلف لباس پہنائے گئے۔ پہلی خاتون کو انتہائی شارٹ اسکرٹ اور گہرے گلے والی بازوؤں کے بغیر شرٹ پہنائی گئی، جبکہ دوسری خاتون کو جسم ڈھانپنے والے کھلے کپڑے پہنائے گئے۔ ان عورتوں کو فرانسیسی مردوں کے پاس سے گزار کر سائنسی مشاہدہ کیا گیا۔ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ اکثر فرانسیسی مردوں نے مکمل لباس والی خاتون کے مقابلے میں مختصر لباس پہننے والی خاتون کا زیادہ پیچھا کیا، جبکہ مکمل لباس پہننے والی خاتون قدرے محفوظ رہی۔ تحقیق میں تجویز دی گئی کہ خواتین جنسی ہراسگی سے بچنے کےلیے لباس کا محتاط انتخاب کریں۔ یہ تحقیق 2011 میں ایک سائنسی جریدے سائیکولاجیکل رپورٹ میں شائع ہوئی۔

اسی طرح سے امریکا میں ایک تحقیق ہوئی۔ تحقیق کے پس منظر پر بات کرتے ہوئے ریسرچرز نے لکھا ہے کہ 1963 سے 1989 تک امریکا میں جنسی جرائم میں چار گنا اضافہ ہوا۔ ریسرچرز ان جرائم کی وجوہ تلاش کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے امریکا سے تعلق رکھنے والے 581 سائیکاٹرسٹ ڈاکٹرز کا انٹرویو کیا اور ان سے پوچھا کہ امریکا میں بڑھتے ہوئے جنسی جرائم کی وجوہ کیا ہیں اور اس کی کیسے روک تھام کی جاسکتی ہے؟ تحقیق کے نتائج میں یہ بات سامنے آئی کہ خواتین کے مختصر ہوتے ہوئے لباس جنسی جرائم کی اہم وجہ بن رہے ہیں۔ اس مقالے میں کہا گیا کہ بچیوں کے والدین کو لباس اور جنسی جرائم کے حوالے سے آگاہی دی جائے تاکہ وہ لباس کے انتخاب کے حوالے سے اپنے بچوں کی مدد کرسکیں۔ یہ تحقیق 1991 میں انٹرنیشنل جرنل آف افینڈر تھراپی اینڈ کمپیریٹو کرمنالوجی میں شائع ہوئی۔

امریکا میں ہونے والی ایک اور تحقیق میں نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو تین گروپوں میں تقسیم کیا گیا اور ہر گروپ کو ایک ہی ماڈل گرل کی تین مختلف تصویریں الگ الگ دکھائی گئیں۔ ایک تصویر میں بہت زیادہ میک اپ دکھایا گیا تھا، دوسری میں قدرے کم اور تیسری تصویر میک اپ کے بغیر تھی۔ تصویریں دکھا کر نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں سے پوچھا گیا کہ آپ کے خیال میں ماڈل کو جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے کتنے فیصد امکانات ہیں۔ جس گروپ کو بہت زیادہ میک اپ والی تصویر دکھائی گئی ان کا خیال تھا کہ ماڈل کو جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے بہت زیادہ امکانات نہیں ہیں۔ البتہ جس گروپ کو بغیر میک اپ والی تصویر دکھائی گئی تھی ان کی رائے میں ماڈل کو ہراساں کیے جانے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس تحقیق سے ریسرچر واضح کرنا چاہتا تھا کہ امریکی معاشرہ میک اپ کو کیسے دیکھتا ہے اور میک اپ کا جنسی ہراسگی میں کیا کردار ہے۔ تجویز کیا گیا کہ محتاط میک اپ جنسی ہراسگی کے رسک کو کم کرسکتا ہے۔ یہ تحقیق 1991 میں ایک سائنسی جرنل سیکس رولز میں شایع ہوئی۔

امریکا میں ہی ایک دوسری تحقیق ہوئی جس میں مردوں اور عورتوں کو دو الگ الگ تصاویر دکھائی گئیں۔ ایک تصویر میں خاتون نے مختصر جبکہ دوسری میں پورا لباس پہنا ہوا تھا۔ تصویریں دکھا کر ان مرد و خواتین سے پوچھا گیا کہ کس عورت کو جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کا زیادہ امکان ہے۔ امریکی مرد و خواتین کی اکثریت نے جواب دیا کہ مختصر کپڑوں والی خاتون کو جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کا زیادہ امکان ہے۔ تحقیق میں پورے لباس کو جنسی ہراسگی سے بچنے کا ایک ذریعہ قرار دیا گیا۔ یہ تحقیق ہوم اکنامکس ریسرچ جرنل میں 1992 میں شایع ہوئی۔


ایک دوسری تحقیق میں 352 امریکی لڑکیوں اور لڑکوں کو دو الگ الگ تصویریں دکھائی گئیں۔ ایک تصویر میں عورت نے مختصر جبکہ دوسری میں پورا لباس پہنا ہوا تھا۔ نوجوانوں کی بتایا گیا کہ اس عورت کے ساتھ جنسی زیادتی ہوئی ہے۔ جنسی زیادتی کا واقعہ بتانے اور جنسی زیادتی کا شکار ہونے والی عورت کی تصویر دکھانے کے بعد نوجوانوں سے پوچھا گیا کہ ذمے داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ مختصر لباس والی عورت کے بارے میں نوجوانوں کا خیال تھا کہ عورت پر زیادہ ذمے داری عائد ہوتی ہے، جبکہ پورا لباس پہننے والی عورت کے بارے میں نوجوانوں کا خیال تھا کہ قصور زیادتی کرنے والے کا ہے۔ اس تحقیق سے یہ نتیجہ نکالا گیا کہ پورا لباس پہن کر چلنے والی عورت کے بارے میں معاشرہ زیادہ محفوظ رویہ اختیار کرتا ہے۔ یہ تحقیق ایک سائنسی جرنل اڈولیسنٹ میں 1995 میں شایع ہوئی۔

اسی طرح کی ایک دوسری تحقیق میں جو 1999 میں سائنسی جرنل اڈولیسنٹ میں شائع ہوئی، اکثریتی امریکیوں نے رائے دی کہ عورتوں کے مختصر لباس پہننے کی وجہ سے جنسی حملے بڑھ رہے ہیں۔

اس سے ملتی جلتی تحقیق 2013 میں ہوئی جس میں امریکا، برطانیہ اور اٹلی کے سماجی سائنسدانوں نے حصہ لیا۔ اس تحقیق میں بھی امریکیوں کو مختصر اور پورے لباس والی خواتین کی تصویریں دکھا کر پوچھا گیا کہ جنسی حملے کی ذمے داری کس پر عائد ہوتی ہے۔ امریکی خواتین و حضرات کی اکثریت نے رائے دی کہ جنسی حملے کی زیادہ تر ذمے داری مختصر لباس پہننے والی عورت پر ہی عائد ہوتی ہے۔ یہ تحقیق ایک سائنسی جرنل سائیکالوجی آف وومن کواٹرلی میں شائع ہوئی۔ اسی طرح کی ایک تحقیق بیلجیم میں ہوئی جہاں بیلجیم کے خواتین و حضرات نے جنسی حملہ کرنے والے مرد کی نسبت مختصر لباس والی عورت پر جنسی حملے کی زیادہ ذمے داری ڈالی۔ یہ تحقیق سیکس رولز میں 2015 میں شایع ہوئی۔

یہاں میں نے چند تحقیقات کا ذکر کیا ہے۔ ورنہ مغربی معاشرے پر ہونے والی سیکڑوں تحقیقات ہیں جو اسی طرح کے نتائج پیش کرتی ہیں، جیسا کہ درج بالا تحقیقات میں پیش کیے گئے ہیں۔

میرا خیال ہے ان تحقیقات کو دیکھنے کے بعد آزاد خیال طبقے کو عمران خان کے بیان پر ردعمل دینے کے بجائے اس پر نہایت سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔

 

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story