سیاست کی دُھونی
حکمران طبقہ یہ سادہ سا نکتہ سمجھ لے کہ سدا بادشاہی صرف رب کائنات کی ہے، باقی ہر ایک نے جانا ہے
سیاست کی دھونی کے کمال کا سارا زمانہ معترف ہے مگر اس کا دو آتشہ مرحلہ اس وقت شروع ہوتا ہے جب سیاست کی دھونی کو حکمرانی کے ''تڑکے'' کا وسیلہ میسر آ جائے، حکومت سنبھالنے اور خود ''سنبھلنے'' کے بعد سیاست کی تلوار کی حشر سامانیاں قوم کے سامنے ہیں۔ سنبھلنے کے ساتھ ہی سیاست کی تلوار سے طارق ملک کو شکار کرنے کی کوشش کی گئی لیکن انصاف کے ''وار'' نے اہل سیاست کی تلوار کند کر دی۔ انصاف کی فراہمی کی بدولت بچ جانے کے باوجود مگر حالات سے بددل طارق ملک استعفیٰ دینے میں ہی عافیت سمجھ بیٹھے اور گھر کی راہ ہو لیے۔ ابھی اس بھگدڑ کی دھول بیٹھی ہی نہیں اور اے جی طاہر محمود کے ساتھ ''جبرا جبری'' کا کھیل کھیلا گیا۔ کچھ ایسا ہی قصہ پی پی کے کھلم کھلا حامی اور حکمران جماعت میں ''ففٹی ففٹی'' سمجھے جانے والے چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ کا ہوا۔ حکومتی دھکم پیل کے بعد عدالت عالیہ نے انھیں بھی اپنے عہدے پر بحال کر دیا ہے۔ گھڑی کو ذرا سا ماضی کی جانب ''چابی'' دے دیں، بس! گزشتہ حکومتوں کے ادوار کا گماں ہی ہوتا ہے۔
مان لیتے ہیں کہ بادشاہی کے اونٹ کی نکیل آپ کے ہاتھوں میں ہے، جسے چاہیں آپ ''مصاحب'' کا رتبہ عطا کر دیں، لیکن سرکاری عہدوں پر تعینات کام کرنے والے اہل افراد کے ساتھ بے تکا اور قانون سے بالا بالا سلوک کچھ اچھا تاثر قائم نہیں کر رہا۔ آناً فاناً ''فتح کرو اور قبضہ کرو'' جیسے حکومتی اقدامات نے ''سابقین'' پر بھی تنقید کے در وا کر دیے تھے۔ اگر قانون پسندی کی لہروں کے سہارے اقتدار میں آنے کے بعد جمہوریت کے برعکس ''شاہانہ'' قسم کے فیصلے اب بھی کیے جائیں، پھر کہانی میں وہی ''موڑ'' آئے گا جس ''موڑ'' کے آنے کے بعد عوام جیتا اور حکمران ہار جایا کرتے ہیں۔ اوپری سطح کی افسر شاہی میں عوامی خدمت کے حوالے سے ''ادھر ادھر'' کرنے کی روش اپنانی ہے تو میرٹ پر فیصلے کرنے ہوں گے، صرف سیاست اور من پسندی کی ''دھونی'' کی مہک کو عام کرنے کے لیے سرکاری افسران اور ملازمین کے ساتھ اکھاڑ پچھاڑ کا سلوک لاحاصل مقصد کے سوا کوئی نتیجہ نہیں دے سکتا۔ صرف جی حضوری کو ''بہت ضروری'' بنانے کے لیے قومی اداروں کے سربراہوں، افسران اور اہل کاروں پر دھونس جمانے کی روش حکمرانوں کی مقبولیت کا گراف تیزی سے نیچے گرانے کا سبب بنے گی۔
اس امر سے چنداں انکار نہیں کہ اپنے حکومتی مقاصد کے حصول کے لیے اچھے لوگوں کو کلیدی عہدوں پر تعیناتی کا اختیار حکومتی زعما کو حاصل ہے لیکن جو حکومتی افسران اور اہلکار حکومتی اہداف کے حصول میں پہلے ہی جتے ہیں، ان کو ان کے عہدوں پر کام کرنے دیا جائے۔ اندرون خانہ حالات یہ ہیں کہ موجودہ حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد افسر شاہی سے درجہ چہارم تک کے تمام ملازمین سر بہ گریباں ہیں۔ اس سراسیمگی نے سرکاری اہل کاروں کے پیشہ وارانہ فرائض کی صلاحیت کو شل کر دیا ہے۔ ''کیا ہو گا، کیا ہونے والا ہے'' جیسی کیفیات نے تمام کے تمام سرکاری مشنیری کو عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ خاص طور پر اس بے یقینی اور کرب کی صورت حال کا شکار وہ سرکاری اہل کار ہیں جو ''واسطوں'' کے لحاظ سے سیاسی یتیم ہیں۔ جہاں تک ''جی حضوری'' اور سیاسی پشت پناہی کے حامل افسران و اہل کار ہیں وہ کل بھی ''بہار'' کی چھاؤں کے مزے لوٹ رہے تھے اور آج بھی انھی کے وارے نیارے ہیں، مرضی کا عہدہ، مرضی کا شہر اور اپنی ''خوئے دلبرانہ'' کے مطابق فرائض کی ادائیگی... ان کے تمام تر کمالات میں کسی بھی ''کمال'' میں ذرہ بھر ''تنزلی'' واقع نہیں ہوئی۔ طارق ملک کے سیاسی تعلق اور رشتے کو نظر انداز کر کے اس کے پیشہ ورانہ ہنر کاری کو دیکھ کر اگر حکومتی دماغ فیصلہ کرتے، کیا اس میں حکومت کی نیک نامی اور عوامی مفاد نہ ہوتا؟
دراصل ہر سیاسی جماعت کا بنیادی نعرہ ''عوام کی خدمت'' ہی تو ہوا کرتا ہے۔ اگر عوامی خدمت کے ترازو میں طارق ملک اپنی خدمات ڈال رہے تھے پھر ان کے ساتھ ایسا بے توقیری والا سلوک کیوں کیا گیا؟ تکلیف دہ امر یہ ہے کہ سیاست کو عبادت کہنے والے جب اسی عبادت کے صدقے اقتدار پر براجمان ہو جاتے ہیں اس وقت اقتدار کی مہک انھیں ''عوامی عبادت'' سے بیگانہ کر دیتی ہے، من پسند اور انتقامی جذبات ان پر غالب آ جا تے ہیں۔ وہ لوگ خوش نصیب ہیں جن کی آواز میڈیا تک رسائی حاصل کر لیتی ہے اور عدلیہ بھی ان کے معاملات میں نو ٹس لے لیتی ہے لیکن کیڑے مکوڑوں کی طرح وہ لاکھوں اہلکار کیا کریں، جن کی روزی روٹی پر ناروا طریقے سے لات ماری جا رہی ہے اور وہ اتنے بے بس اور بے کس ہیں، نہ میڈیا تک اپنی آواز پہنچا سکتے ہیں اور نہ لاکھوں کروڑوں دے کر عدلیہ کے دروازے پر دستک دے سکتے ہیں۔
کاش! حکمران طبقہ یہ سادہ سا نکتہ سمجھ لے کہ سدا بادشاہی صرف رب کائنات کی ہے، باقی ہر ایک نے جانا ہے، خواہ وہ صاحب اختیار ہے یا ''صاحب بے اختیار'' سو ''ٹر جانے'' کے عمل کو سامنے رکھ کر حکمران ایسے فیصلے کریں جن سے صرف عوام کے مفاد کی ''دھونی'' کی مہک آئے۔