ٹارگٹڈ آپریشن اب حیدرآباد میں بھی
کراچی ٹارگٹڈ آپریشن اپنے منطقی انجام تک پہنچانے کے بعد اب حیدرآباد میں بھی ٹارگٹڈ آپریشن شروع کر دیا گیا
کراچی ٹارگٹڈ آپریشن اپنے منطقی انجام تک پہنچانے کے بعد اب حکومت سندھ کی جانب سے حیدرآباد میں بھی ٹارگٹڈ آپریشن شروع کر دیا گیا۔ حیدرآباد کے علاقے صدر کے ''خرم پلازہ'' نامی ایک رہائشی پلازہ میں پولیس و رینجرز کی بھاری نفری نے گھر گھر تلاشی لی۔ آپریشن کے اختتام پر سیکڑوں لوگ اپنے علاقوں سے باہر آئے اور انھوں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی گاڑیوں کو گھیر لیا۔ اخباری اطلاعات کے مطابق چھاپہ ایک سیاسی جماعت کے رہنما کی گرفتاری کے لیے مارا گیا تھا۔
کراچی میں عرصہ تین ماہ سے زاید جاری ٹارگٹڈ آپریشن کے خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آ سکے ہیں۔ اس ضمن میں پیپلز پارٹی کے رہنما اور وزیر اطلاعات شرجیل میمن کے دو بیانات بڑے اہم ہیں۔ ٹارگٹڈ آپریشن کے حوالے سے انھوں نے چند روز قبل ایک بیان دیا کہ بلدیاتی انتخابات تک آپریشن جاری رہے گا۔ انتخابات کے حوالے سے آپریشن نہیں روکا جائے گا۔ دوسرا بیان سندھ اسمبلی اپوزیشن جماعتوں کے ''بلدیاتی کالا قانون 2013'' کے حوالے سے احتجاج پر تھا کہ ''اپوزیشن جماعتیں، کراچی آپریشن سے توجہ ہٹانا چاہتی ہیں''۔ جب کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے متعدد رہنما کھلا اظہار کر چکے ہیں کہ کراچی و حیدر آباد میں ''جیالا میئر'' آئے گا۔ بدقسمتی سے ماضی میں ہونے والے حادثات و سانحات سے ہم نے کوئی سبق حاصل نہیں کیا ہے جس کی وجہ سے کراچی مسلسل تختہ مشق بنا ہوا ہے۔
کراچی و حیدر آباد میں رہنے والی اکثریتی مہاجر آبادیوں اور مقامی پختونوں کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے کہ ان کے جینے مرنے، رہنے سہنے کے باوجود ان کی سرزمین میں ان کا کچھ بھی نہیں ہے۔ خاص طور پر اردو بولنے والوں کو تو آج تک مقامی ہی نہیں سمجھا جاتا۔ قیام پاکستان سے لے کر آج تک ان کے مینڈیٹ کو کسی نے بھی تسلیم نہیں کیا۔ اگر اردو بولنے والے مہاجر، کراچی میں تن، من دھن سے کام نہیں کرتے اور پختون ان کے شانہ بہ شانہ نہ ہوتے تو کیا صدیوں سے آباد ''کلاچی'' جو کراچی بن کر 70 فیصد ریونیو دے کر پورے پاکستان کو پال رہا ہے، کیا وہ جو سندھ دھرتی کے وارث ہونے کا دعویٰ کرتے نہیں تھکتے، کراچی کو بین الاقوامی شہر بنا سکتے تھے؟
یقینی طور پر ایسا نہیں ہوتا۔ کیونکہ کراچی کی حالت مہاجرین کے آنے کے بعد ہی بدلی ہے۔ ورنہ کراچی تو پہلے سے آباد ہے۔ چند لاکھ نفوس کی آبادی اب کروڑوں تک جا پہنچی ہے۔ پاکستان کی معاشی شہ رگ ہے۔ لیکن کراچی کے مینڈیٹ کو تسلیم نہ کرنے کے رجحان نے کراچی کو کرم خوردہ بنا دیا ہے۔ کراچی کے عوام پڑھے لکھے، باشعور اور ترقی یافتہ سوچ رکھنے والے ہیں۔ کراچی مختلف قومیتوں کا ایک خوب صورت گلدستہ ہے۔ لیکن کراچی کے وسائل پر بزور طاقت قبضے کی خواہش نے کراچی کو روشنیوں کے شہر کی بجائے مقتل بنا دیا ہے۔ کراچی میں اردو بولنے والے یہاں کے مقامی ہیں، انھوں نے اپنا مینڈیٹ مختلف اوقات میں مختلف سیاسی جماعتوں کو دیا۔ اگر ان کے معاشی و سماجی مسائل کو کوئی جماعت حل کرنے میں ناکام رہی ہے تو انھوں نے اپنا مینڈیٹ دوسری سیاسی جماعت کی گود میں ڈالا تو اس میں کون سا قصور ہے۔
پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کی خواہش ہے کہ کراچی اور حیدر آباد میں جیالا میئر ہو گا، کوئی غلط خواہش نہ ہوتی، اگر ان کا مینڈیٹ کراچی و حیدر آباد میں ہوتا لیکن ساری دنیا جانتی ہے کہ پی پی پی کا مینڈیٹ تو اب لیاری میں بھی نہیں رہا، جہاں ان کی لیڈر جیتتی رہی ہیں۔ لیاری امن کمیٹی (کالعدم) نے پی پی پی کو مکمل طور پر لیاری سے آؤٹ کلاس کر دیا اور وہاں سے جیتنے والے بھی لیاری امن کمیٹی کے نامزد افراد تھے۔ سابق بلدیاتی نظام میں چار ٹاؤن حاصل کرنے والی پی پی پی 13 ٹاؤن کے چننے والی جماعت ایم کیو ایم کے مینڈیٹ کو تسلیم کرنے سے کیوں گریزاں ہے۔
پی پی پی کی تمام چالیں الٹ پڑ رہی ہیں۔ ماضی میں ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے کندھے پر بندوق رکھ کر کراچی میں بدامنی کا بھونچال پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن اس کے نتائج خود پی پی پی کے لیے سازگار ثابت نہیں ہوئے اور گینگ وار کی سرپرستی کرنے سے جرائم پیشہ عناصر مضبوط ہوئے اور خود پی پی پی کا لیاری سے صفایا ہو گیا۔ ضلع ملیر سے انھیں شکست کا سامنا کرنا پڑا اور قومی اسمبلی کی نشست پر مسلم لیگ (ن) کو کامیابی ملی تو پہلی بار ایم کیو ایم بھی نواحی علاقوں سے کامیاب ہوئی۔ کیماڑی اور پختون آبادیوں سے بھی جہاں پی پی پی کا صفایا ہوا تو ایک طرف تحریک انصاف کامیاب ہوئی تو دوسری جانب پہلی بار ایم کیو ایم پختون آبادیوں میں کامیاب ہوئی۔
سندھ کو دو طبقاتی لسانی تقسیم میں خود پی پی پی نے کیا۔ دیہی اور شہری آبادی کی تفریق کی بنا پر بلدیات کے متنازعہ بل منظور کیے جاتے رہے تو انھیں ہمیشہ سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔ ایم کیو ایم اپنا اثر و رسوخ رکھتی ہے۔ اسی طرح اے این پی پر پختون عوام نے اعتماد کیا تھا، لیکن ان کی سیاست کراچی کے مردان ہاؤس سے پشاور کے مردان ہاؤس تک محدود رہی اور کراچی سمیت خیبر پختونخوا میں اپنی پالیسیوں کی بنا پر ان کا صفایا ہو گیا۔ لسانی سیاست کبھی دیرپا نہیں ہوتی اور اسے بہت جلد اپنے منطقی انجام تک پہنچنا ہوتا ہے اور لسانی سیاست کرنے والے بھی بخوبی جانتے ہیں۔
کراچی کے حالات و بدامنی، پی پی پی کے سابق دور حکومت میں اس سے بھی زیادہ شدید تر تھے۔ لیکن کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن کے نام پر قبضے کی جنگ میں حوصلوں کی کمی کی وجہ سے پی پی پی کو شرمندگی کا سامنا رہا اور ڈاکٹر ذوالفقار مرزا جیسے لیڈروں کی کراچی کو جل تھل کرنے کی تمام کوششیں ناکام ہوئیں۔ پی پی کے وزیر اپنے مشیروں کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش میں ایک بار پھر کراچی میں مینڈیٹ تسلیم نہ کرنے کی اہم سازش کو بے نقاب کر چکے ہیں۔ کراچی ٹارگٹڈ آپریشن میں گرفتار کیے جانے والے ملزمان کی سب سے زیادہ تعداد ایم کیو ایم کی بتائی جاتی ہے۔ خود شرجیل میمن تسلیم کر چکے ہیں کہ دس ہزار سے زاید ملزمان میں پی پی پی کا ایک کارکن بھی نہیں ہے۔ جب کہ ایم کیو ایم متعدد بار اپنی پریس کانفرنسوں اور بیانات میں کراچی ٹارگٹڈ آپریشن پر اپنے تحفظات کا اظہار کر چکی ہے جب کہ اے این پی تو اب قصہ پارینہ بن چکی ہے۔
کراچی میں امن کے حوالے سے حوصلہ افزا صورت حال یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ایم کیو ایم بھی بلدیاتی نظام کے حوالے سے مشترکہ احتجاج کرتے نظر آئے ہیں۔ خاص طور پر دلچسپ صورت حال یہ ہے کہ عرفان اللہ مروت جیسے ایم کیو ایم مخالفین بھی بلدیات کے کالے قانون کے خلاف ایم کیو ایم کے شانہ بہ شانہ نظر آئے جو مثبت سوچ کی جانب اہم قدم ہے۔
لہٰذا اس صورت حال میں پی پی پی کی جانب سے یہ رائے زنی مضحکہ خیز ہے کہ اپوزیشن جماعتیں کراچی کے ٹارگٹڈ آپریشن سے توجہ ہٹانے کے لیے احتجاج کر رہی ہیں۔ جب کہ پی پی پی کی ناقص پالیسی سے صاف عیاں ہے کہ وہ ٹارگٹڈ آپریشن کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ ورنہ جہاں ایک طرف تسلیم کیا جاتا ہے کہ کراچی میں اب کوئی نو گو ایریا نہیں ہے اور وزیر اعلیٰ سندھ کے دعوے کے مطابق کراچی میں 25 فیصد جرائم میں کمی واقع ہوئی ہے تو پھر شہر میں بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے واقعات میں کمی نہ ہونے کو کیا نام دیا جائے۔ جرائم پیشہ عناصر کا جب چاہے، جہاں چاہے حملہ آور ہونے کو کیا کہا جائے؟
اب کراچی کے بعد حیدرآباد کو غیر مستحکم کرنے کی تمام منصوبہ بندی کو ملک کی ترقی اور معاشی صورت حال سے سبب درست رکھنے کی ضرورت ہے۔ جو سندھ میں رہتے، جیتے، کھاتے اور یہیں مرتے ہیں، وہ پہلے پاکستانی اور پھر سندھی ہیں۔ دیہی سندھی اور شہری سندھی میں، اردو، پشتو، پنجابی و دیگر زبانیں بولنے والے بھی ہیں اس لیے تمام جماعتوں کو ایک دوسرے کا مینڈیٹ تسلیم کرنا چاہیے۔