ن لیگ کی قیادت سے ناراضی
سردار ممتاز بھٹو کے حامیوں نے پارٹی عہدے چھوڑ دیے
KARACHI:
ن لیگ کی صوبائی قیادت وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف سے خفا نظر آتی ہے۔ عام انتخابات سے قبل نواز شریف کی لاڑکانہ آمد پر سردار ممتاز علی خان بھٹو نے سندھ نیشنل فرنٹ کو ن لیگ میں ضم کرنے کا اعلان کیا تھا اور سیاسی وفاداریاں ن لیگ کے پلڑے میں ڈال دی تھیں لیکن اب انہیں سندھ کے مسائل حل نہ ہونے اور پارٹی کی مرکزی قیادت کی جانب سے نظر انداز کیے جانے کی شکایت ہو گئی ہے۔
دو روز قبل قوم پرست پارٹی سندھ نیشنل فرنٹ کی ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس مسلم لیگ ن کے راہ نما سردار ممتاز علی خان بھٹو کے صدارت ہوا جس میں مسلم لیگ ن کے صوبائی راہ نماؤں اور لاڑکانہ، حیدرآباد، سکھر ڈویژن کے عہدے داروں نے شرکت کی۔ اجلاس میں پیپلز پارٹی کی حکومت کی سندھ میں کارکردگی کے علاوہ مسلم لیگ ن کی قیادت کی جانب سے سندھ کو اس کے حقوق دینے سے متعلق وعدوں کو نہ نبھائے جانے اور کارکنان سے نامناسب رویے کی شکایت کرتے ہوئے تشویش کا اظہار کیا گیا۔
اجلاس میں وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے مشیر سردار ممتاز بھٹو کے بیٹے امیر بخش خان بھٹو کی جانب سے وفاقی مشیر کے عہدے سمیت ن لیگ کے پارٹی عہدے سے بھی استعفیٰ جمع کروا دیا گیا۔ جب کہ پارٹی کے سندھ کے نائب صدور انجنیئر ایوب شر، سید حسن محمود شاہ امروٹی، فقیر عنایت ہیسبانی، میر ملوک ٹالپر، ڈاکٹر روشن علی کے علاوہ سندھ بھر سے پچیس عہدے داروں نے بھی اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا۔
اجلاس میں وفاقی مشیر امیر بخش بھٹو کسی وجہ سے شرکت نہ کر سکے، لیکن انہوں نے اپنا استعفیٰ فیکس کے ذریعے منعقدہ اجلاس میں بھیج دیا۔ میڈیا کو اجلاس کی کوریج نہیں کرنے دی گئی۔ تاہم مسلم لیگ ن میڈیا سیل اور سردار ممتاز بھٹو کے پریس ترجمان ابراہیم ابڑو کے جاری کردہ علامیے کے مطابق سردار ممتاز بھٹو کی سربراہی میں چھے گھنٹے جاری رہنے والے اجلاس میں سندھ کی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا گیا، جس میں پیپلز پارٹی اور صوبائی حکومت کی مایوس کن کارکردگی پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔
اجلاس میں مسلم لیگ کی قیادت پر لٹیروں کا احتساب کرنے کے علاوہ ایم کیو ایم سے مفاہمت نہ کرنے کا وعدہ پورا نہ کرنے پر تنقید کی گئی۔ اجلاس میں شریک راہ نماؤں نے وفاقی حکومت کی جانب سے مسلم لیگ ن کے کارکنوں کو حکومت سندھ کے رحم و کرم پر چھوڑ دینے کی سخت الفاظ میں مذمت کی۔ انہوں نے ان تحفظات کا اظہار بھی کیا کہ مسلم لیگ ن کے مرکزی وزراء، مشیر اور دیگر راہ نما پارٹی عہدے داروں کی پہنچ سے دور ہیں، وہ سندھ میں آکر پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے راہ نماؤں سے تو ملتے ہیں۔ تاہم پارٹی راہ نماؤں کا نظر انداز کیا جاتا ہے۔
انہی وجوہات کی بنا پر وزیر اعظم کے مشیر کے علاوہ ن لیگ کے صوبائی عہدے داروں نے پارٹی عہدوں سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ سردار ممتاز بھٹو کا کہنا ہے کہ اگر پارٹی قیادت میں معاملات کا نوٹس نہ لیا، تو سندھ نیشنل فرنٹ کا اجلاس دوبارہ بلوا کر اہم فیصلے کیے جائیں گے۔ دوسری جانب مسلم لیگ ن کے ہی ایک اہم راہ نما، ن لیگ سندھ کے کوآرڈی نیٹر لیاقت جتوئی نے بھی پارٹی قیادت کے ناروا سلوک کے باعث کئی سال بعد پیپلز پارٹی سے مذاکرات کے لیے رضامندی ظاہر کردی۔ وہ اپنے اختلافات ختم کر کے گاؤں گاہی مہیسر پہنچے، جہاں انہوں نے پیپلز پارٹی کے ڈاکٹر طلعت مہیسر سے ان کے عزیز کی وفات پر تعزیت کی۔
اس موقع پر انہوں نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کا پیپلز پارٹی سے پرانا تعلق ہے۔ سیاست میں ذاتی دشمنیاں نہیں بلکہ سیاسی اختلافات ہوتے ہیں، مذاکرات کے دروازے بند نہیں ہوتے، انہوں نے اعتراف کیا کہ ان کی پیپلز پارٹی میں شمولیت کے لیے قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ، آغا سراج درانی، نادر مگسی سے بھی ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ وہ پیپلز پارٹی سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے ن لیگ کی قیادت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
ادھر کراچی میں ایکسپریس نیوز کی گاڑی پر دہشت گردوں کے حملے میں شہید تین کارکنوں کے قاتلوں کی گرفتاری اور انہیں عبرت ناک سزا دینے کا مطالبہ لے کر سینئر صحافی محمود پٹھان کی قیادت میں لاڑکانہ پریس کلب سے احتجاجی ریلی نکالی گئی۔ اس میں شریک صحافیوں نے بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے، جن پر دہشت گردوں کی بزدلانہ کارروائی کے خلاف اور حکومت سے صحافیوں کو تحفظ دینے کا مطالبہ اور نعرے درج تھے۔
احتجاج میں سیاسی، سماجی، مذہبی جماعتوں کے راہ نماؤں حاجی نثار شیخ، خالد محمود سومرو، مسلم لیگ ن کے ذوالفقار سہتو، پیپلز پارٹی کے خیر محمد شیخ، ڈاکٹر اکرام تنیو، شاہی خان جاگیرانی، غلام حسین جلبانی، نظیر جتوئی، محمود چانڈیو، سنی تحریک کے مولانا علی نواز قاسمی، مولانا احمد نواز میمن، مولانا افضل طاہری اور صحافیوں کے علاوہ شہریوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔
پچھلے دنوں قتل کیے گئے سینئر صحافی شان ڈہر کے قاتلوں کی گرفتاری اور وزیراعلی سندھ کی طرف سے لواحقین کے لیے اعلان کردہ امدادی رقم کی فوری فراہمی کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ اس ریلی سے خطاب کرتے ہوئے راقم الحروف نے کہا کہ حکومت ایکسپریس نیوز سمیت ملک بھر میں کام کرنے والے صحافیوں کو تحفظ فراہم کرے، چھے ماہ کے دوران ایکسپریس نیوز کے دفتر پر تین حملے حکومت کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہیں، صحافیوں کے مسائل حل ہونے تک ہمارا احتجاج جاری رہے گا۔
ن لیگ کی صوبائی قیادت وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف سے خفا نظر آتی ہے۔ عام انتخابات سے قبل نواز شریف کی لاڑکانہ آمد پر سردار ممتاز علی خان بھٹو نے سندھ نیشنل فرنٹ کو ن لیگ میں ضم کرنے کا اعلان کیا تھا اور سیاسی وفاداریاں ن لیگ کے پلڑے میں ڈال دی تھیں لیکن اب انہیں سندھ کے مسائل حل نہ ہونے اور پارٹی کی مرکزی قیادت کی جانب سے نظر انداز کیے جانے کی شکایت ہو گئی ہے۔
دو روز قبل قوم پرست پارٹی سندھ نیشنل فرنٹ کی ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس مسلم لیگ ن کے راہ نما سردار ممتاز علی خان بھٹو کے صدارت ہوا جس میں مسلم لیگ ن کے صوبائی راہ نماؤں اور لاڑکانہ، حیدرآباد، سکھر ڈویژن کے عہدے داروں نے شرکت کی۔ اجلاس میں پیپلز پارٹی کی حکومت کی سندھ میں کارکردگی کے علاوہ مسلم لیگ ن کی قیادت کی جانب سے سندھ کو اس کے حقوق دینے سے متعلق وعدوں کو نہ نبھائے جانے اور کارکنان سے نامناسب رویے کی شکایت کرتے ہوئے تشویش کا اظہار کیا گیا۔
اجلاس میں وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے مشیر سردار ممتاز بھٹو کے بیٹے امیر بخش خان بھٹو کی جانب سے وفاقی مشیر کے عہدے سمیت ن لیگ کے پارٹی عہدے سے بھی استعفیٰ جمع کروا دیا گیا۔ جب کہ پارٹی کے سندھ کے نائب صدور انجنیئر ایوب شر، سید حسن محمود شاہ امروٹی، فقیر عنایت ہیسبانی، میر ملوک ٹالپر، ڈاکٹر روشن علی کے علاوہ سندھ بھر سے پچیس عہدے داروں نے بھی اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا۔
اجلاس میں وفاقی مشیر امیر بخش بھٹو کسی وجہ سے شرکت نہ کر سکے، لیکن انہوں نے اپنا استعفیٰ فیکس کے ذریعے منعقدہ اجلاس میں بھیج دیا۔ میڈیا کو اجلاس کی کوریج نہیں کرنے دی گئی۔ تاہم مسلم لیگ ن میڈیا سیل اور سردار ممتاز بھٹو کے پریس ترجمان ابراہیم ابڑو کے جاری کردہ علامیے کے مطابق سردار ممتاز بھٹو کی سربراہی میں چھے گھنٹے جاری رہنے والے اجلاس میں سندھ کی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا گیا، جس میں پیپلز پارٹی اور صوبائی حکومت کی مایوس کن کارکردگی پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔
اجلاس میں مسلم لیگ کی قیادت پر لٹیروں کا احتساب کرنے کے علاوہ ایم کیو ایم سے مفاہمت نہ کرنے کا وعدہ پورا نہ کرنے پر تنقید کی گئی۔ اجلاس میں شریک راہ نماؤں نے وفاقی حکومت کی جانب سے مسلم لیگ ن کے کارکنوں کو حکومت سندھ کے رحم و کرم پر چھوڑ دینے کی سخت الفاظ میں مذمت کی۔ انہوں نے ان تحفظات کا اظہار بھی کیا کہ مسلم لیگ ن کے مرکزی وزراء، مشیر اور دیگر راہ نما پارٹی عہدے داروں کی پہنچ سے دور ہیں، وہ سندھ میں آکر پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے راہ نماؤں سے تو ملتے ہیں۔ تاہم پارٹی راہ نماؤں کا نظر انداز کیا جاتا ہے۔
انہی وجوہات کی بنا پر وزیر اعظم کے مشیر کے علاوہ ن لیگ کے صوبائی عہدے داروں نے پارٹی عہدوں سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ سردار ممتاز بھٹو کا کہنا ہے کہ اگر پارٹی قیادت میں معاملات کا نوٹس نہ لیا، تو سندھ نیشنل فرنٹ کا اجلاس دوبارہ بلوا کر اہم فیصلے کیے جائیں گے۔ دوسری جانب مسلم لیگ ن کے ہی ایک اہم راہ نما، ن لیگ سندھ کے کوآرڈی نیٹر لیاقت جتوئی نے بھی پارٹی قیادت کے ناروا سلوک کے باعث کئی سال بعد پیپلز پارٹی سے مذاکرات کے لیے رضامندی ظاہر کردی۔ وہ اپنے اختلافات ختم کر کے گاؤں گاہی مہیسر پہنچے، جہاں انہوں نے پیپلز پارٹی کے ڈاکٹر طلعت مہیسر سے ان کے عزیز کی وفات پر تعزیت کی۔
اس موقع پر انہوں نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کا پیپلز پارٹی سے پرانا تعلق ہے۔ سیاست میں ذاتی دشمنیاں نہیں بلکہ سیاسی اختلافات ہوتے ہیں، مذاکرات کے دروازے بند نہیں ہوتے، انہوں نے اعتراف کیا کہ ان کی پیپلز پارٹی میں شمولیت کے لیے قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ، آغا سراج درانی، نادر مگسی سے بھی ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ وہ پیپلز پارٹی سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے ن لیگ کی قیادت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
ادھر کراچی میں ایکسپریس نیوز کی گاڑی پر دہشت گردوں کے حملے میں شہید تین کارکنوں کے قاتلوں کی گرفتاری اور انہیں عبرت ناک سزا دینے کا مطالبہ لے کر سینئر صحافی محمود پٹھان کی قیادت میں لاڑکانہ پریس کلب سے احتجاجی ریلی نکالی گئی۔ اس میں شریک صحافیوں نے بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے، جن پر دہشت گردوں کی بزدلانہ کارروائی کے خلاف اور حکومت سے صحافیوں کو تحفظ دینے کا مطالبہ اور نعرے درج تھے۔
احتجاج میں سیاسی، سماجی، مذہبی جماعتوں کے راہ نماؤں حاجی نثار شیخ، خالد محمود سومرو، مسلم لیگ ن کے ذوالفقار سہتو، پیپلز پارٹی کے خیر محمد شیخ، ڈاکٹر اکرام تنیو، شاہی خان جاگیرانی، غلام حسین جلبانی، نظیر جتوئی، محمود چانڈیو، سنی تحریک کے مولانا علی نواز قاسمی، مولانا احمد نواز میمن، مولانا افضل طاہری اور صحافیوں کے علاوہ شہریوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔
پچھلے دنوں قتل کیے گئے سینئر صحافی شان ڈہر کے قاتلوں کی گرفتاری اور وزیراعلی سندھ کی طرف سے لواحقین کے لیے اعلان کردہ امدادی رقم کی فوری فراہمی کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ اس ریلی سے خطاب کرتے ہوئے راقم الحروف نے کہا کہ حکومت ایکسپریس نیوز سمیت ملک بھر میں کام کرنے والے صحافیوں کو تحفظ فراہم کرے، چھے ماہ کے دوران ایکسپریس نیوز کے دفتر پر تین حملے حکومت کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہیں، صحافیوں کے مسائل حل ہونے تک ہمارا احتجاج جاری رہے گا۔