سیاسی میدان میں احتجاجی مظاہرے اور مذمتی بیانات کی گونج
شہر میں ٹارگیٹڈ آپریشن کے باوجود قتل و غارت گری کا سلسلہ جاری
ISLAMABAD:
دہشت گردی کے واقعے کے بعد وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے اعلی عہدے داروں اور منتخب عوامی نمایندوں کے مذمتی بیانات اور تعزیتی پیغامات، جب کہ حزبِ اختلاف کی جماعتوں کی طرف سے کراچی میں بدامنی پر تشویش اور دہشت گردی کے نتیجے میں ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار کرنے کے ساتھ احتجاج اور ہڑتال کا اعلان بھی کیا جاتا ہے، مگر ان جماعتوں نے اکٹھا ہو کر اس سنگین مسئلے کا حل تلاش کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔
امن و امان کی صورت حال بہتر بنانے اور دہشت گردی کے عفریت سے نجات کے لیے تجاویز دینے اور اس سلسلے میں عملی کردار ادا کرنے کے بجائے سیاسی جماعتوں کی طرف سے حکومت پر تنقید کا سلسلہ زور پکڑ جاتا ہے۔ کراچی میں زندگی کا ہر لمحہ خوف کے سائے میں بیت رہا ہے اور عوام عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ وہ یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ حکومت اور اس کی مخالف سیاسی جماعتیں مفادات کی جنگ لڑ رہی ہیں، اور ان کے لیے عوام کے مسائل اور مشکلات پر غور کرنے کا وقت ہی نہیں ہے۔ ملک کے سیاسی اسٹیج پر مفادات، اختیارات اور مراعات کا کھیل جاری ہے، جس میں عوام کا کوئی حصّہ نہیں ہے۔
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں دہشت گردوں کے آگے ریاستی ڈھانچا اور سیاسی جماعتیں بے بس نظر آتی ہیں۔ شہر میں جرائم پیشہ افراد اور دہشت گردوں کا نام و نشان مٹا دینے کے دعووں کے ساتھ جاری ٹارگیٹڈ آپریشن کا کوئی نتیجہ برآمد ہوتا نظر نہیں آرہا۔ رینجرز اور پولیس کی کارروائیوں کے دوران روزانہ درجنوں افراد کی گرفتاریاں اور ان کے قبضے سے جدید اسلحہ برآمد کیا جارہا ہے، مگر سڑکوں پر خون برابر بہہ رہا ہے۔ پچھلے دنوں کراچی آپریشن سے متعلق وفاق اور سندھ کی حکومتوں کے درمیان مکمل اتفاق اور ہم آہنگی کے تأثر پر بھی ضرب پڑی، جس کا سبب پولیس افسران کے متوقع تبادلے تھے۔
اس پر ڈی جی رینجرز نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسے کسی بھی فیصلے سے شہر میں جاری ٹارگیٹڈ آپریشن متاثر ہو سکتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اب تک صوبائی حکومت نے دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف جاری آپریشن میں وفاقی حکومت اور متعلقہ اداروں سے بھرپور تعاون کیا ہے، مگر یہ معاملہ مختلف حلقوں میں زیر بحث ضرور ہے۔ مختلف حلقوں کا کہنا ہے کہ حالات کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر کوئی بھی فیصلہ کیا جائے۔ امن و امان اور شہریوں کے جان و مال کے تحفظ جیسے اہم اور حساس نوعیت کے معاملات پر حکومتوں کے مابین اختلافات سے ملک دشمن عناصر اور کراچی کا امن تباہ کرنے والوں کو مضبوط ہونے کا موقع ملے گا۔
کراچی کی سڑکیں معمول کے مطابق ڈرے سہمے انسانوں کا بوجھ اٹھا رہی ہیں، جو روزی روٹی کی خاطر گھروں سے باہر نکلتے ہیں، مگر سماجی اور ثقافتی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ خوف اور وحشت نے شہر کی رونقوں کو نگل لیا ہے۔ دوسری طرف سیاسی جماعتوں کی سرگرمیاں بھی محدود ہیں۔ پچھلے ہفتے سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے عہدے داروں اور کارکنان کے ہدفی قتل کے ساتھ ذرایع ابلاغ کے نمایندے بھی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، جس کے خلاف ملک بھر میں صحافیوں نے احتجاجی مظاہرے کیے۔
ایکسپریس نیوز کے دفتر پر دو مرتبہ دہشت گرد حملہ کر چکے ہیں، جب کہ پچھلے دنوں تیسری مرتبہ میٹرک بورڈ آفس کے قریب ایکسپریس نیوز چینل کی وین پر فائرنگ کی گئی، جس کے نتیجے میں سیکیورٹی گارڈ، ڈرائیور اور ٹیکنیشن جاں بحق ہوگئے۔ اس افسوس ناک واقعے کے بعد ہفتے کو کراچی پریس کلب کے باہر پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس، کراچی یونین آف جرنلسٹس، کراچی پریس کلب، آل پاکستان نیوز پیپرز ایمپلائز کنفیڈریشن (ایپنک)، پاکستان ایسوسی ایشن آف فوٹو گرافرز اور مختلف سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی جانب سے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔
احتجاجی مظاہرے میں صحافی راہ نماؤں کے علاوہ تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی، ڈاکٹر عارف علوی، حفیظ الدین، متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی کے واسع جلیل، امین الحق، پیپلزپارٹی کراچی ڈویژن کے صدر قادر پٹیل، سیکرٹری جنرل نجمی عالم، مسلم لیگ (فنکشنل) کے ڈاکٹر تاج اور مختلف تنظیموں کے کارکنان شریک تھے۔ اس موقع پر صحافیوں کا قتل عام بند کرنے اور قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا گیا۔ پی ایف یو جے کے سیکریٹری جنرل امین یوسف نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہم ظلم کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں اور سچ کے سپاہی ہیں۔ صحافیوں کی سیکیورٹی اور دیگر مسائل کے حل کے لیے صحافتی تنظیموں کو مل کر لائحہ عمل طے کرنا ہوگا۔
کے یو جے کے صدر جی ایم جمالی نے کہا کہ ہم کب تک اپنے ساتھیوں کے جنازے اٹھاتے رہیں گے، عوام کی حفاظت کرنا حکومت وقت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کام ہے۔ حکومت وقت عوام کے جان و مال کے تحفظ میں ناکام نظرآتی ہے۔ انہوں نے سیاسی جماعتوں سے اپیل کی کہ وہ اپنے اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوجائیں اور حکومت کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے خلاف اپنا کردار ادا کریں۔ اس موقع پر تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہم صحافیوں کی جدوجہد میں ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں، دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مؤثر حکمت عملی کی ضرورت ہے۔
ایم کیو ایم کے راہ نما واسع جلیل نے کہا کہ اب ایکشن کا وقت ہے، وفاقی حکومت اور پاک فوج مل کر طے کریں کہ دہشت گردوں، خصوصاً طالبان کے خلاف مؤثر آپریشن کرنا ہے اور کراچی کو بھی ان دہشت گردوں سے آزاد کرانا ہے۔ پیپلز پارٹی کے قادر پٹیل نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ساز و سامان سے نہیں بلکہ جذبے سے لڑنی ہوگی۔ اس جنگ کے لیے متحد ہو کر دہشت گردی کو ختم کرنا ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ دکھ کی اس گھڑی میں ہم صحافیوں کے ساتھ ہیں، صوفیوں کی دھرتی سندھ واحد صوبہ ہے، جو دہشت گردی کے خلاف لڑ رہا ہے۔ مظاہرے میں شریک تمام راہ نماؤں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ایکسپریس میڈیا گروپ کے تین کارکنان سمیت دیگر صحافیوں کے قتل میں ملوث ملزمان کو فوری گرفتار کیا جائے اور صحافیوں کو تحفظ فراہم کیا جائے۔
کراچی میں شارع فیصل پر عوامی مرکزکے قریب جمعیت علمائے اسلام (سمیع الحق)کے جنرل سیکریٹری مفتی عثمان یار کی گاڑی پر فائرنگ کی گئی، جس میں وہ جان کی بازی ہار گئے۔ اس واقعے میں مزید تین افراد بھی جاں بحق ہوئے۔ مفتی عثمان یارخان کو نماز جنازہ کے بعد سپرد خاک کر دیا گیا۔ ان کی تدفین کے موقع پر مولانا سمیع الحق، اسد اللہ بھٹو، مولانا اورنگزیب فاروقی اور سوگواروں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ اس موقع پر مولانا سمیع الحق نے کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں امن وامان کے قیام اور عوام کے جان و مال کی حفاظت میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہیں، کراچی میں جاری آپریشن کے الٹے نتائج سامنے آر ہے ہیں، مولانا سمیع الحق نے مزید کہا کہ قتل و غارت گری کی روک تھام میں ناکامی پر حکومت سندھ مستعفی ہوجائے، انہیں حکومت کرنے کا کوئی حق نہیں۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ مفتی عثمان یارخان کے قاتلوں کو گرفتار کرکے عبرت ناک سزا دی جائے۔
صوبۂ سندھ اور پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کی تاریخ میں توسیع کی درخواست منظور ہوئی اور صوبائی حکومتوں کو ایک مرتبہ پھر کچھ وقت مل گیا۔ کراچی کے عوام بلدیاتی اداروں میں منتخب نمایندے نہ ہونے کی وجہ سے بے شمار مسائل کا سامنا کررہے ہیں۔ شہر میں جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر لگے ہیں۔ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، نکاسی آب کے مسائل کے ساتھ کئی ترقیاتی منصوبے التواء میں ہیں، جب کہ سرکاری مراکزِ صحت میں علاج معالجے کی غرض سے جانے والے مریضوں کو شدید پریشانی کا سامنا ہے۔
عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے نمایندے ہی بلدیاتی اداروں کے قیام اور انہیں مضبوط کرنے کے بجائے الیکشن سے فرار کا راستہ اپنا رہے ہیں۔ سیاسی حربے استعمال کر کے شہریوں کو اپنے مسائل دہلیز پر حل کرنے والے نظام سے دور رکھا جارہا ہے، جو جمہوریت کے دعوے داروں کو زیب نہیں دیتا۔ مقامی حکومتوں کی اہمیت اور افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا، اور اس سلسلے میں مسلسلہ ٹال مٹول اور حیلے بہانوں سے کام لینے سے عوام میں شدید بے چینی اور اضطراب پیدا ہوا ہے۔ اس سلسلے میں حکومتیں اور الیکشن کمیشن عوام کے مفاد میں جلد از جلد کوئی قدم اٹھائے تاکہ صوبے اور کراچی کی تعمیر وترقی کا سلسلہ شروع ہو سکے۔
دہشت گردی کے واقعے کے بعد وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے اعلی عہدے داروں اور منتخب عوامی نمایندوں کے مذمتی بیانات اور تعزیتی پیغامات، جب کہ حزبِ اختلاف کی جماعتوں کی طرف سے کراچی میں بدامنی پر تشویش اور دہشت گردی کے نتیجے میں ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار کرنے کے ساتھ احتجاج اور ہڑتال کا اعلان بھی کیا جاتا ہے، مگر ان جماعتوں نے اکٹھا ہو کر اس سنگین مسئلے کا حل تلاش کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔
امن و امان کی صورت حال بہتر بنانے اور دہشت گردی کے عفریت سے نجات کے لیے تجاویز دینے اور اس سلسلے میں عملی کردار ادا کرنے کے بجائے سیاسی جماعتوں کی طرف سے حکومت پر تنقید کا سلسلہ زور پکڑ جاتا ہے۔ کراچی میں زندگی کا ہر لمحہ خوف کے سائے میں بیت رہا ہے اور عوام عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ وہ یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ حکومت اور اس کی مخالف سیاسی جماعتیں مفادات کی جنگ لڑ رہی ہیں، اور ان کے لیے عوام کے مسائل اور مشکلات پر غور کرنے کا وقت ہی نہیں ہے۔ ملک کے سیاسی اسٹیج پر مفادات، اختیارات اور مراعات کا کھیل جاری ہے، جس میں عوام کا کوئی حصّہ نہیں ہے۔
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں دہشت گردوں کے آگے ریاستی ڈھانچا اور سیاسی جماعتیں بے بس نظر آتی ہیں۔ شہر میں جرائم پیشہ افراد اور دہشت گردوں کا نام و نشان مٹا دینے کے دعووں کے ساتھ جاری ٹارگیٹڈ آپریشن کا کوئی نتیجہ برآمد ہوتا نظر نہیں آرہا۔ رینجرز اور پولیس کی کارروائیوں کے دوران روزانہ درجنوں افراد کی گرفتاریاں اور ان کے قبضے سے جدید اسلحہ برآمد کیا جارہا ہے، مگر سڑکوں پر خون برابر بہہ رہا ہے۔ پچھلے دنوں کراچی آپریشن سے متعلق وفاق اور سندھ کی حکومتوں کے درمیان مکمل اتفاق اور ہم آہنگی کے تأثر پر بھی ضرب پڑی، جس کا سبب پولیس افسران کے متوقع تبادلے تھے۔
اس پر ڈی جی رینجرز نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسے کسی بھی فیصلے سے شہر میں جاری ٹارگیٹڈ آپریشن متاثر ہو سکتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اب تک صوبائی حکومت نے دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف جاری آپریشن میں وفاقی حکومت اور متعلقہ اداروں سے بھرپور تعاون کیا ہے، مگر یہ معاملہ مختلف حلقوں میں زیر بحث ضرور ہے۔ مختلف حلقوں کا کہنا ہے کہ حالات کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر کوئی بھی فیصلہ کیا جائے۔ امن و امان اور شہریوں کے جان و مال کے تحفظ جیسے اہم اور حساس نوعیت کے معاملات پر حکومتوں کے مابین اختلافات سے ملک دشمن عناصر اور کراچی کا امن تباہ کرنے والوں کو مضبوط ہونے کا موقع ملے گا۔
کراچی کی سڑکیں معمول کے مطابق ڈرے سہمے انسانوں کا بوجھ اٹھا رہی ہیں، جو روزی روٹی کی خاطر گھروں سے باہر نکلتے ہیں، مگر سماجی اور ثقافتی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ خوف اور وحشت نے شہر کی رونقوں کو نگل لیا ہے۔ دوسری طرف سیاسی جماعتوں کی سرگرمیاں بھی محدود ہیں۔ پچھلے ہفتے سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے عہدے داروں اور کارکنان کے ہدفی قتل کے ساتھ ذرایع ابلاغ کے نمایندے بھی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، جس کے خلاف ملک بھر میں صحافیوں نے احتجاجی مظاہرے کیے۔
ایکسپریس نیوز کے دفتر پر دو مرتبہ دہشت گرد حملہ کر چکے ہیں، جب کہ پچھلے دنوں تیسری مرتبہ میٹرک بورڈ آفس کے قریب ایکسپریس نیوز چینل کی وین پر فائرنگ کی گئی، جس کے نتیجے میں سیکیورٹی گارڈ، ڈرائیور اور ٹیکنیشن جاں بحق ہوگئے۔ اس افسوس ناک واقعے کے بعد ہفتے کو کراچی پریس کلب کے باہر پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس، کراچی یونین آف جرنلسٹس، کراچی پریس کلب، آل پاکستان نیوز پیپرز ایمپلائز کنفیڈریشن (ایپنک)، پاکستان ایسوسی ایشن آف فوٹو گرافرز اور مختلف سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی جانب سے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔
احتجاجی مظاہرے میں صحافی راہ نماؤں کے علاوہ تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی، ڈاکٹر عارف علوی، حفیظ الدین، متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی کے واسع جلیل، امین الحق، پیپلزپارٹی کراچی ڈویژن کے صدر قادر پٹیل، سیکرٹری جنرل نجمی عالم، مسلم لیگ (فنکشنل) کے ڈاکٹر تاج اور مختلف تنظیموں کے کارکنان شریک تھے۔ اس موقع پر صحافیوں کا قتل عام بند کرنے اور قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا گیا۔ پی ایف یو جے کے سیکریٹری جنرل امین یوسف نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہم ظلم کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں اور سچ کے سپاہی ہیں۔ صحافیوں کی سیکیورٹی اور دیگر مسائل کے حل کے لیے صحافتی تنظیموں کو مل کر لائحہ عمل طے کرنا ہوگا۔
کے یو جے کے صدر جی ایم جمالی نے کہا کہ ہم کب تک اپنے ساتھیوں کے جنازے اٹھاتے رہیں گے، عوام کی حفاظت کرنا حکومت وقت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کام ہے۔ حکومت وقت عوام کے جان و مال کے تحفظ میں ناکام نظرآتی ہے۔ انہوں نے سیاسی جماعتوں سے اپیل کی کہ وہ اپنے اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوجائیں اور حکومت کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے خلاف اپنا کردار ادا کریں۔ اس موقع پر تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہم صحافیوں کی جدوجہد میں ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں، دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مؤثر حکمت عملی کی ضرورت ہے۔
ایم کیو ایم کے راہ نما واسع جلیل نے کہا کہ اب ایکشن کا وقت ہے، وفاقی حکومت اور پاک فوج مل کر طے کریں کہ دہشت گردوں، خصوصاً طالبان کے خلاف مؤثر آپریشن کرنا ہے اور کراچی کو بھی ان دہشت گردوں سے آزاد کرانا ہے۔ پیپلز پارٹی کے قادر پٹیل نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ساز و سامان سے نہیں بلکہ جذبے سے لڑنی ہوگی۔ اس جنگ کے لیے متحد ہو کر دہشت گردی کو ختم کرنا ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ دکھ کی اس گھڑی میں ہم صحافیوں کے ساتھ ہیں، صوفیوں کی دھرتی سندھ واحد صوبہ ہے، جو دہشت گردی کے خلاف لڑ رہا ہے۔ مظاہرے میں شریک تمام راہ نماؤں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ایکسپریس میڈیا گروپ کے تین کارکنان سمیت دیگر صحافیوں کے قتل میں ملوث ملزمان کو فوری گرفتار کیا جائے اور صحافیوں کو تحفظ فراہم کیا جائے۔
کراچی میں شارع فیصل پر عوامی مرکزکے قریب جمعیت علمائے اسلام (سمیع الحق)کے جنرل سیکریٹری مفتی عثمان یار کی گاڑی پر فائرنگ کی گئی، جس میں وہ جان کی بازی ہار گئے۔ اس واقعے میں مزید تین افراد بھی جاں بحق ہوئے۔ مفتی عثمان یارخان کو نماز جنازہ کے بعد سپرد خاک کر دیا گیا۔ ان کی تدفین کے موقع پر مولانا سمیع الحق، اسد اللہ بھٹو، مولانا اورنگزیب فاروقی اور سوگواروں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ اس موقع پر مولانا سمیع الحق نے کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں امن وامان کے قیام اور عوام کے جان و مال کی حفاظت میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہیں، کراچی میں جاری آپریشن کے الٹے نتائج سامنے آر ہے ہیں، مولانا سمیع الحق نے مزید کہا کہ قتل و غارت گری کی روک تھام میں ناکامی پر حکومت سندھ مستعفی ہوجائے، انہیں حکومت کرنے کا کوئی حق نہیں۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ مفتی عثمان یارخان کے قاتلوں کو گرفتار کرکے عبرت ناک سزا دی جائے۔
صوبۂ سندھ اور پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کی تاریخ میں توسیع کی درخواست منظور ہوئی اور صوبائی حکومتوں کو ایک مرتبہ پھر کچھ وقت مل گیا۔ کراچی کے عوام بلدیاتی اداروں میں منتخب نمایندے نہ ہونے کی وجہ سے بے شمار مسائل کا سامنا کررہے ہیں۔ شہر میں جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر لگے ہیں۔ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، نکاسی آب کے مسائل کے ساتھ کئی ترقیاتی منصوبے التواء میں ہیں، جب کہ سرکاری مراکزِ صحت میں علاج معالجے کی غرض سے جانے والے مریضوں کو شدید پریشانی کا سامنا ہے۔
عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے نمایندے ہی بلدیاتی اداروں کے قیام اور انہیں مضبوط کرنے کے بجائے الیکشن سے فرار کا راستہ اپنا رہے ہیں۔ سیاسی حربے استعمال کر کے شہریوں کو اپنے مسائل دہلیز پر حل کرنے والے نظام سے دور رکھا جارہا ہے، جو جمہوریت کے دعوے داروں کو زیب نہیں دیتا۔ مقامی حکومتوں کی اہمیت اور افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا، اور اس سلسلے میں مسلسلہ ٹال مٹول اور حیلے بہانوں سے کام لینے سے عوام میں شدید بے چینی اور اضطراب پیدا ہوا ہے۔ اس سلسلے میں حکومتیں اور الیکشن کمیشن عوام کے مفاد میں جلد از جلد کوئی قدم اٹھائے تاکہ صوبے اور کراچی کی تعمیر وترقی کا سلسلہ شروع ہو سکے۔