اولاد بزرگوں سے بیزارضعیف والدین کو اولڈ ہوم میں داخل کرانے کا رجحان بڑھنے لگا
اولاد کی عدم توجہی اور محبت نہ ملنےپرنفسیاتی امراض میں مبتلاضعیف والدین اولڈ ہوم میں کربناک زندگی بسرکرنےپرمجبور ہوگئے
بزرگ والدین اولاد کی جانب سے عدم توجہی اور محبت نہ ملنے پر نفسیاتی امراض میں مبتلا ہوکر اہل وعیال سے دور اولڈ ہوم میںکربناک زندگی بسر کر رہے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق بنت فاطمہ اولڈ ہوم ٹرسٹ میں20 سے ضعیف خواتین سہولتوں سے آراستہ زندگی بسر کرنے کے باوجود نم اور ددر بھری آنکھیں اپنی اولاد کو دیکھنے کے لیے بے چین ہیں، بنت فاطمہ اولڈ ہوم میں داخل خواتین پوش اور تعلیم یافتہ گھرانوں سے تعلق رکھتی ہیں،ان بوڑھی خواتین کی اولاد خود تو عالی شان مکانات میں رہائش پذیر ہے لیکن بوڑھی ماؤں کے لیے ان کے پاس وقت نہیں اکثر خواتین کی اولاد کاروبار کیلیے بیرون ملک چلے جاتے ہیں اور عالی شان مکانات میں ماں باپ کو نوکروں یا پڑوسیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں جہاں عدم توجہی سے والدین نفسیا تی امراض میں مبتلا ہورہے ہیں، ضعیفی میں جسمانی طور پر کمزور اور اکیلے پن کے شکار والدین عمر کے آخری حصے میں معصوم بچوں جیسی حرکتیں کرتے ہیں اورچڑچڑے پن کا شکار ہوکر اپنوں کے پیار کو ترستے ہیں لیکن اولاد انھیں اولڈ ہوم میں رکھنے کو ترجیح دیتی ہے کیونکہ ان ضعیف والدین کے گھر میں رہنے سے ان کے رتبے میں کمی آتی ہے، اولڈ ہوم میں بدرالنسا نامی خاتون ہیں ان کے شوہر موذن تھے۔
شوہر کے انتقال پر انھوں نے اپنے دو بچوں کی پرورش کی لیکن شادی کے بعد اولاد نے ماں کا سہار بننے کے بجائے اسے اولڈ ہوم پہنچادیا، بدرالنساکی منتقلی کے وقت ان کی ٹانگوں میں فریکچر تھا لیکن اولاد کے غم نے اسے نفسیاتی بنا دیا ہے، زہرا خاتون 8 سال سے اولڈ ہوم میں مقیم ہیں، زہرا بے اولاد ہیں شوہرکے انتقال پر 3 بہنوں اور 2 بھائیوں نے انھیں تنہا چھوڑ دیا۔
مرحوم شوہر کے مالک نے مالی مدد کی اور ایدھی ہوم منتقل کیا جہاں دوسرے ذہنی مریضوں کے ساتھ اسے بھی نشے کے ٹیکے لگادیے گئے حالت زیادہ خراب ہونے پر مالک نے انھیں بنت فاطمہ اولڈ ہوم منتقل کردیا،متاثرہ خاتون عبداستار ایدھی کی سگی بھانجی ہیں، نسرین غیر شادی شدہ اور عمر رسیدہ خاتون ہے اس کے 7 بھائی اور 5 بہنیں ہیں جبکہ خاندان بھی صاحب حیثیت ہے نسرین نے تمام عمر بہن بھائیوں کی اولاد کی پرورش کی،عمر رسیدہ ہونے پر شادی نہ ہونے کے طعنے سننے اور عدم توجہی سے نفسیاتی امراض میں مبتلا ہوگئی گھر والوں نے اسے اولڈ ہوم ٹرسٹ منتقل کردیا،فہمیہ نامی خاتون بی ایڈ پاس ریٹائرڈ استانی ہیں ان کے شوہر نے پی ایچ ڈی کی تھی۔
جن انتقال کے بعد انھوں نے تینوں بیٹیوں کو تعلیم دلوائی اور بیرون ملک شادیاں کرادیں لیکن جب وہ ضعیف ہوئیں تو پڑوسیوں نے انھیں اولڈ ہوم منتقل کردیا اور ان کی بیٹیاں ماں کو بیرون ملک سے سامان بھجواکر فرض مکمل کررہی ہیں، بنت فاطمہ اولڈ ہوم ٹرسٹ کی چیف ایگزیکٹو فرزانہ شعیب نے کہا کہ میری نظر میں ضعیف العمر خواتین بد قسمت نہیں ہیں بلکہ ان کی اولاد بدقسمت ہے جو اپنے بزرگوں کی دیکھ بھال نہیں کرتے بلکہ اُن کی خدمت سے بھاگتے ہیں، بیشتر اولاد سمجھتی ہے کہ بڑھاپے میں والدین کو محبت کی بجائے صرف پیسے کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ اولڈ ہوم کو بھاری فیس ادا کرکے اپنے فرائض کو مکمل سمجھتے ہیں، نادان اولاد یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ جیسا بیج وہ آج بوئیں گے ویسا ہی کل کاٹیں گے۔
تفصیلات کے مطابق بنت فاطمہ اولڈ ہوم ٹرسٹ میں20 سے ضعیف خواتین سہولتوں سے آراستہ زندگی بسر کرنے کے باوجود نم اور ددر بھری آنکھیں اپنی اولاد کو دیکھنے کے لیے بے چین ہیں، بنت فاطمہ اولڈ ہوم میں داخل خواتین پوش اور تعلیم یافتہ گھرانوں سے تعلق رکھتی ہیں،ان بوڑھی خواتین کی اولاد خود تو عالی شان مکانات میں رہائش پذیر ہے لیکن بوڑھی ماؤں کے لیے ان کے پاس وقت نہیں اکثر خواتین کی اولاد کاروبار کیلیے بیرون ملک چلے جاتے ہیں اور عالی شان مکانات میں ماں باپ کو نوکروں یا پڑوسیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں جہاں عدم توجہی سے والدین نفسیا تی امراض میں مبتلا ہورہے ہیں، ضعیفی میں جسمانی طور پر کمزور اور اکیلے پن کے شکار والدین عمر کے آخری حصے میں معصوم بچوں جیسی حرکتیں کرتے ہیں اورچڑچڑے پن کا شکار ہوکر اپنوں کے پیار کو ترستے ہیں لیکن اولاد انھیں اولڈ ہوم میں رکھنے کو ترجیح دیتی ہے کیونکہ ان ضعیف والدین کے گھر میں رہنے سے ان کے رتبے میں کمی آتی ہے، اولڈ ہوم میں بدرالنسا نامی خاتون ہیں ان کے شوہر موذن تھے۔
شوہر کے انتقال پر انھوں نے اپنے دو بچوں کی پرورش کی لیکن شادی کے بعد اولاد نے ماں کا سہار بننے کے بجائے اسے اولڈ ہوم پہنچادیا، بدرالنساکی منتقلی کے وقت ان کی ٹانگوں میں فریکچر تھا لیکن اولاد کے غم نے اسے نفسیاتی بنا دیا ہے، زہرا خاتون 8 سال سے اولڈ ہوم میں مقیم ہیں، زہرا بے اولاد ہیں شوہرکے انتقال پر 3 بہنوں اور 2 بھائیوں نے انھیں تنہا چھوڑ دیا۔
مرحوم شوہر کے مالک نے مالی مدد کی اور ایدھی ہوم منتقل کیا جہاں دوسرے ذہنی مریضوں کے ساتھ اسے بھی نشے کے ٹیکے لگادیے گئے حالت زیادہ خراب ہونے پر مالک نے انھیں بنت فاطمہ اولڈ ہوم منتقل کردیا،متاثرہ خاتون عبداستار ایدھی کی سگی بھانجی ہیں، نسرین غیر شادی شدہ اور عمر رسیدہ خاتون ہے اس کے 7 بھائی اور 5 بہنیں ہیں جبکہ خاندان بھی صاحب حیثیت ہے نسرین نے تمام عمر بہن بھائیوں کی اولاد کی پرورش کی،عمر رسیدہ ہونے پر شادی نہ ہونے کے طعنے سننے اور عدم توجہی سے نفسیاتی امراض میں مبتلا ہوگئی گھر والوں نے اسے اولڈ ہوم ٹرسٹ منتقل کردیا،فہمیہ نامی خاتون بی ایڈ پاس ریٹائرڈ استانی ہیں ان کے شوہر نے پی ایچ ڈی کی تھی۔
جن انتقال کے بعد انھوں نے تینوں بیٹیوں کو تعلیم دلوائی اور بیرون ملک شادیاں کرادیں لیکن جب وہ ضعیف ہوئیں تو پڑوسیوں نے انھیں اولڈ ہوم منتقل کردیا اور ان کی بیٹیاں ماں کو بیرون ملک سے سامان بھجواکر فرض مکمل کررہی ہیں، بنت فاطمہ اولڈ ہوم ٹرسٹ کی چیف ایگزیکٹو فرزانہ شعیب نے کہا کہ میری نظر میں ضعیف العمر خواتین بد قسمت نہیں ہیں بلکہ ان کی اولاد بدقسمت ہے جو اپنے بزرگوں کی دیکھ بھال نہیں کرتے بلکہ اُن کی خدمت سے بھاگتے ہیں، بیشتر اولاد سمجھتی ہے کہ بڑھاپے میں والدین کو محبت کی بجائے صرف پیسے کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ اولڈ ہوم کو بھاری فیس ادا کرکے اپنے فرائض کو مکمل سمجھتے ہیں، نادان اولاد یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ جیسا بیج وہ آج بوئیں گے ویسا ہی کل کاٹیں گے۔