بجٹ منظور حکومت کی طرف سے انقلابی اقدامات کا اعلان خوش آئند

خیبرپختونخوا اسمبلی نے اگلے مالی سال کے بجٹ کی منظوری دے دی ہے اور یہ منظوری بڑے پرسکون انداز میں ہوئی ہے۔

خیبرپختونخوا اسمبلی نے اگلے مالی سال کے بجٹ کی منظوری دے دی ہے اور یہ منظوری بڑے پرسکون انداز میں ہوئی ہے۔

خیبرپختونخوا اسمبلی نے اگلے مالی سال کے بجٹ کی منظوری دے دی ہے اور یہ منظوری بڑے پرسکون انداز میں ہوئی ہے۔

صوبائی اسمبلی میں بجٹ کے موقع پر جو سکون اور پرامن ماحول دکھائی دیا اسے اب بھلے صوبہ کی روایات سے جوڑا جائے یا حکومت واپوزیشن کے درمیان مفاہمت سے تاہم حقیقت یہ ہے کہ وزیراعلیٰ نے اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات میں انھیں یقین دہانی کرائی کہ اگلے مالی سال کے دوران ان کے حلقوں کا خیال رکھا جائے گا اور اسی لیے اگلے مالی سال کے لیے وزیراعلیٰ نے ڈسٹرکٹ ڈیویلپمنٹ فنڈ کے نام سے 61 ارب روپے اپنے ہاتھ میں رکھے ہیں جنھیں وہ اپنی صوابدید کے مطابق مختلف اضلاع اور حلقوں میں استعمال کریں گے۔

گو کہ عدالت کے حکم پر امبریلا اے ڈی پی اور مجموعی تخصیص کا معاملہ تو ختم ہوا تاہم حکومت نے نیا طریقہ اختیار کرتے ہوئے وزیراعلیٰ کو 61 ارب روپے کا یہ ہتھیار فراہم کیا ہے جسے وہ حکومت واپوزیشن دونوں کے لیے استعمال کریں گے ۔

تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ فنڈز انہی اراکین اسمبلی کو مل پائیں گے کہ جن کے تعلقات وزیراعلیٰ اور صوبائی حکومت کے ساتھ خوشگوار ہوں گے۔ وزیراعلیٰ کے ساتھ کمٹمنٹ کا بعض اراکین اسمبلی نے حقیقی معنوں میں پاس رکھتے ہوئے بجٹ سے متعلق مطالبات زر کی منظوری کے عمل کے دوران لاتعلقی اختیار کیے رکھی جبکہ بعض ارکان نے کچھ محکموں کے حوالے سے اظہار خیال کیا جس کا بنیادی مقصد وزیراعلیٰ یا حکومت کو تنگ کرنا نہیں بلکہ سرکاری محکموں کو اپنی موجودگی کا احساس دلانا تھا کیونکہ بجٹ کے بعد جب انہی محکموں سے ارکان کو واسطہ پڑے گا تو ان کی تقاریر کی وجہ سے ان کی مشکلات سہل ہو سکتی ہیں۔ خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ محمود خان جو کم گو مشہور ہیں۔

انہوں نے ایوان سے بجٹ کی منظوری کے بعد لمبی چوڑی تقریر کی جس میں نہ صرف یہ کہ انہوں نے اپنی حکومت کی تین سالہ کارکردگی بیان کی بلکہ ساتھ ہی اگلے مالی سال کے بجٹ میں شامل اقدامات بھی انگلیوں پر گنوا دیئے ، وزیراعلیٰ نے کئی امور پر اظہار خیال کیا تاہم ان میں چار اقدامات حقیقی معنوں میں اہمیت کے حامل ہیں ، وزیراعلیٰ نے اپنی تقریر میں کہا کہ اگلے مالی سال کے دوران صوبہ کے بے روزگار نوجوانوں کو دس ارب روپے کے قرضے فراہم کیے جائیں گے۔ یقینی طور پر یہ بڑا اقدام ہے کیونکہ ان دس ارب روپے سے نوجوانوں کو پانچ سے بیس لاکھ روپے تک کے قرضے فراہم کیے جائیں گے تاکہ غربت اور بے روزگاری کا خاتمہ ممکن بنایا جا سکے جس کے ساتھ ہی انہوں نے غرباء کے لیے راشن کارڈ جاری کرنے کا بھی اعلان کیا۔

مذکورہ راشن کارڈز کے ذریعے غرباء کو آٹا اور دیگر خوراک کی اشیاء فراہم کی جائیں گی، راشن کارڈ کا تصور نیا نہیں بلکہ تین، چار دہائیاں قبل بھی عوام راشن کارڈ کے ذریعے ہی آٹا اور چینی حاصل کیا کرتے تھے اور ہر جگہ پر اس مقصد کے لیے ڈپو قائم تھے۔

جہاں رجسٹرڈ لوگوں کو ان کے اہل خانہ کی ضروریات کی بنیاد پر آٹا اور چینی فراہم کیے جاتے تھے تاہم بدلتے ہوئے وقت کے ساتھ راشن کارڈ کا یہ نظام ختم ہوکر رہ گیا جسے اب دوبارہ متعارف کرایا جا رہا ہے تاہم اب یہ مخصوص لوگوں کے لیے ہوگا اور ممکنہ طور پراس کے لیے احساس پروگرام کا ڈیٹا استعمال کیا جا سکتا ہے جس کے حوالے سے ایسا نظام وضع کیا جا رہا ہے کہ لوگوں کو خود راشن لینے کے لیے نہ جانا پڑے بلکہ انھیں ان کی گھر کی دہلیز پر ہی راشن کارڈ کے ذریعے ضرورت کی اشیاء فراہم کی جائیں ۔


راشن کارڈ کے ساتھ کسان کارڈ بھی متعارف کرانے کا اعلان کیاگیاہے جن کے ذریعے کسانوں کوسستے داموں بیج اور کھاد وغیرہ فراہم کیے جائیں گے جو یقینی طور پر زراعت سے وابستہ افراد کے لیے اہم اعلان ہے تاہم سب سے اہم اور بنیادی نوعیت کا اعلان ایجوکیشن کارڈ کا اجراء ہے ،یہ خیبرپختونخوا حکومت ہی ہے جس نے صحت سہولت کارڈ متعارف کرائے جس کی بدولت صوبہ میں بسنے والے ہر ایک خاندان کو سالانہ بنیادوں پر دس لاکھ روپے تک علاج معالجے کی سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں جس میں اب جگر کی پیوند کاری کو بھی شامل کر لیا گیا ہے جبکہ اس کے بعد دیگر امور بھی اس میں شامل کیے جائیں گے اور صحت کارڈ کے تحت ملنے والی صحت سے متعلق سہولیات میں اضافہ ہوتا چلاجائے گا۔

صحت سہولت کارڈ یقینی طور پر صوبائی حکومت کی ایک بڑی کامیابی ہے کہ جس کی بدولت وہ آئندہ انتخابات میں اپنی کامیابی کے لیے راہ ہموار کر سکتی ہے اور اب اسی تسلسل میں ایجوکیشن کارڈ کے اجراء کا اعلان کیا گیا ہے، یقینی طور پر دن بدن اعلیٰ تعلیم مہنگی ہوتی چلی جا رہی ہے اور ایسے میں اگر اعلیٰ تعلیم کے اخراجات حکومت اٹھانا شروع کردے تو اس سے صوبہ میں بسنے والوں کو بڑی سہولت ملے گی۔ ایجوکیشن کارڈ کے تحت طلبہ کے اعلیٰ تعلیم کے اخراجات اٹھانے کا کیا طریقہ کار وضع کیا جاتا ہے۔

یہ تو ابھی واضح نہیں اور اس سلسلے میں ہوم ورک جاری ہے تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ صوبائی حکومت جس ٹریک پر چل رہی ہے اس پر دیگر جماعتوں کے لیے پی ٹی آئی کو پکڑنا مشکل ہوتا چلا جا رہاہے اور اگر ان حالات میں وزیراعلیٰ کے اعلان کے مطابق سوات موٹر وے فیز ٹو ،دیر ایکسپریس وے ،پشاور ،ڈی آئی خان موٹر وے اور چشمہ رائٹ بنک لفٹ کنال منصوبوں پر کام کا آغاز ہو جاتا ہے تو اس سے پی ٹی آئی کو اگلے الیکشن کے لیے اچھا خاصا مواد مل جائے گا جس کے بل بوتے پر وہ اپنی کامیابی کی راہ ہموار کرتی چلی جائے گی اور یہ بھی واضح رہے کہ ابھی موجودہ حکومتیں مزید دو بجٹ دیں گی اور اگلے دوبجٹس میں صوبائی حکومت نے جاری منصوبوں کو پختگی دینے کے ساتھ نئے منصوبوں کا بھی اعلان کرنا ہے جن کی وجہ سے اپوزیشن جماعتوں کے لیے یقینی طور پر مشکلات بڑھیں گی کیونکہ صحت کارڈ ہو یا ایجوکیشن کارڈ ، یہ ایسے منصوبے ہیں جن کا فائدہ ہر شخص کو پہنچ رہا ہے اور پہنچے گا ایسے میں عوام کی ہمدردیاں بھی پی ٹی آئی کے لیے بڑھیں گی ۔

ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپوزیشن جماعتیں اگلے عام انتخابات کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کرتی ہیں؟ یہ تو ابھی دور کی بات ہے تاہم پہلا مرحلہ بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہے جس پر پی ٹی آئی پورے طریقے سے نظریں جمائے ہوئے ہے کیونکہ اس سال منتخب ہونے والے بلدیاتی نمائندے اگلے چار سالوں کے لیے اپنے عہدوں پر رہیں گے اور جس بھی پارٹی نے بلدیاتی انتخابات میں بڑی کامیابی حاصل کی اس کا فائدہ وہ اگلے عام انتخابات میں اٹھائے گی۔

اس بات کو مد نظررکھتے ہوئے اپوزیشن جماعتوں کو مشترکہ امیدواروں کے ساتھ میدان میں اترنا ہوگا تاکہ پی ٹی آئی کو نقصان پہنچا سکیں لیکن اگر اپوزیشن جماعتوں نے تنہا پرواز کی تو اس کا فائدہ اور کوئی نہیں بلکہ پی ٹی آئی ہی اٹھائے گی ۔ عام انتخابات اور بلدیاتی انتخابات کے لیے حکمت عملی مناسب وقت پر ہی سامنے آئے گی لیکن اس وقت تک کی صورت حال یہ ہے کہ پی ڈی ایم ایک مرتبہ پھر حکومت کے خلاف میدان میں اترنے کے لیے تیار ہو چکی ہے اور 4 جولائی کو سوات سے اس کا آغاز کیا جا رہا ہے، سوات جلسہ میں مسلم لیگ ن کے مرکزی صدر شہباز شریف بھی شرکت کریں گے ۔

جمعیت علماء اسلام ف کے سربراہ مولانافضل الرحمٰن علیل اور کراچی میں زیر علاج ہیں تاہم امکان یہی ہے کہ وہ سوات جلسے کے لیے فٹ ہوکر میدان میں واپس آجائیں گے کیونکہ مولانا فضل الرحمٰن کے بغیر مذکورہ جلسہ مسلم لیگ ن کے شو میں تبدیل ہوکر رہ جائے گا۔

سوات کے بعد پی ڈی ایم کے زیر اہتمام کراچی اور اسلام آباد میں بھی جلسے منعقد ہونگے تاہم قرائن بتا رہے ہیں کہ ان جلسوں سے عمران خان حکومت کو شاید ہی کوئی نقصان پہنچے، پی ٹی آئی کی حکومت اپنے چوتھے سال میں داخل ہونے کے لیے تیار ہے جس کے بعد ویسے ہی سب کی نظریں اگلے عام انتخابات پر لگ جاتی ہیں اور امیدواروں کی تلاش شروع کر دی جاتی ہے اس لیے پی ڈی ایم کی حکومت مخالف تحریک اب حکومت کے لیے کسی ٹف ٹائم کا سبب بننے کی بجائے اگلے عام انتخابات کی تیاری ہی قرار دی جا سکتی ہے جس کے لیے اس میں شامل ہر پارٹی کی کوشش یہی ہوگی کہ وہ ان جلسوں اور احتجاجی پروگراموں کو اگلے عام انتخابات میں کیش کرائے کیونکہ اس تحریک سے فوری طور پر اور موجودہ حکومت کے لیے کسی قسم کی خطرے کی کوئی گھنٹی بجتی سنائی نہیں دے رہی۔
Load Next Story