افغانستان اور خوش فہم دنیا
طالبان نے ایک بار پھر کابل پر قبضہ کرنے کی تیاریاں مکمل کرلی ہیں اور اس مرتبہ معاملات بہت سنجیدہ معلوم ہوتے ہیں
وائٹ ہاؤس میں جو بائیڈن اور امریکی وزیر خارجہ کے ساتھ افغان صدر اشرف غنی اور سینئر سیاستدان عبداللہ عبداللہ کی حالیہ ملاقات نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ کیا افغان طالبان امن عمل کے بارے میں سنجیدہ ہیں؟ نیز یہ اس بات کی بھی نشاندہی کرتی ہے کہ افغانستان سے امریکا کی واپسی کے بعد ابھرتے ہوئے منظرنامے کےلیے ایک گیم پلان کی تیز رفتار کوششیں آگے بڑھنے کےلیے اب مکمل تیار ہیں۔
صدر بائیڈن کا پیغام واضح تھا کہ ''افغانیوں کو اب اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہوگا۔'' تاہم یہ بھی قابل تحریر ہے کہ امریکی تاحال افغانستان کو سمجھنے میں ناکام رہے ہیں، اور ان کی افغانستان کے بارے میں پالیسیاں مثبت نتائج حاصل نہیں کرسکی ہیں، جو کہ ان امریکیوں کےلیے بظاہر پریشان کن صورت حال ہے۔ اب تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کابل پر طالبان کے قبضے کی گنتی شروع ہوچکی ہے، اور امریکی ابھی تک اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ افغانستان میں امریکا کی کئی دہائیوں کی شمولیت کے بعد بھی اور ہزاروں جانوں اور اربوں ڈالر کی لاگت کے باوجود بھی اس کی حکمت عملی کیوں ناکام ہوئی؟
افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ چند دہائیوں کے دوران، افغانستان میں کبھی بھی اقتدار کی پُرامن منتقلی کےلیے بات چیت نہیں کی گئی۔ 1973 میں افغان بادشاہ ظاہر شاہ کا تختہ اس کے رشتے دار داؤد خان نے الٹ دیا اور تب سے اقتدار پارٹیوں نے اپنے قبضے میں لے لیا، جنھوں نے بعد ازاں طاقت کے بل بوتے پر کابل پر قبضہ کیا۔ لہٰذا جب طالبان کو امن کی تجویز کا جواب دینا چاہیے، ایسے میں توقع کرنا کہ وہ اس مذکورہ بالا 'افغان سیاسی روایت' کے ساتھ ٹوٹ جائیں گے، صریحاً غلط ہے۔ اس تلخ حقیقت کے پیش نظر امریکیوں کو افغانستان میں ابھرتے ہوئے منظرنامے میں اپنی طویل المیعاد شمولیت کو یقینی بنانے کےلیے ان زمینی حقائق پر بھی غور کرنا چاہیے۔ لیکن ایسا معلوم ہورہا ہے کہ ممکنات اس کے بالکل برعکس ہیں۔ درحقیقت، افغانستان میں امریکی غلطیوں کی جڑیں سوویت یلغار سے جڑی ہیں۔ جب سرد جنگ کا بیانیہ تھوڑا ٹھنڈا پڑا تو واشنگٹن نے ''مذہبی کارڈ'' کھیل کر اور ''مجاہدین'' تشکیل دے کر کابل میں کمیونسٹ حکومت کی مخالفت کرکے اپنا نیا کھیل رچایا۔
مزید برآں، اس وقت پاکستان اور سعودی عرب اس امریکی منصوبے میں عظیم شراکت دار تھے۔ بدقسمتی سے اس تنازعے سے ہی اسامہ بن لادن نکل کر دنیا میں ابھرا اور یوں بین الاقوامی 'جہاد' کے فلسفے نے ایک اور ٹھوس شکل اختیار کرلی۔ بلاشبہ دنیا اب انہی امریکی تجربات و مشغلات کی قیمت ادا کر رہی ہے۔ بعد ازاں، سوویت کے انخلا کے بعد اور مجاہدین کی لڑائی کے دوران امریکیوں کی دلچسپی بتدریج ختم ہوگئی۔ اور جب طالبان نے اس افراتفری کے دوران اقتدار سنبھالا تو امریکا اور دیگر مغربی طاقتوں نے انہیں تسلیم نہ کرنے کی غلطی سرزد کی، اور جس نے انہیں فنڈز کےلیے بن لادن کی طرف دیکھنے پر مجبور کردیا۔ اب مسٹر غنی کے ان دعوؤں کے باوجود کہ ان کی فوج نے ''نمایاں پیشرفت'' کی ہے، طالبان نے ایک بار پھر کابل پر قبضہ کرنے کی تیاریاں مکمل کرلی ہیں اور اب کی بار معاملات کافی سنجیدہ معلوم ہوتے ہیں۔
اس لیے جب تک کسی بھی ناممکنہ معجزے کے ذریعے تمام افغان اسٹیک ہولڈرز پرامن طریقے سے اقتدار کی منتقلی پر راضی نہیں ہوجاتے، امریکا، پاکستان اور دیگر علاقائی ریاستوں کو افغانستان میں ایک اور طالبان حکومت کےلیے خود کو تیار کرنا ہوگا۔ نیز اب کی بار بین الاقوامی برادری کو اپنی ماضی کی غلطیوں کے برعکس ان کے ساتھ مشغول ہونے پر راضی بھی ہونا چاہیے، بشرطیکہ انہیں افغان طالبان کی جانب سے یہ یقین دہانی کرائی جائے کہ بنیادی حقوق کا احترام کیا جائے گا اور ہرگز ان کی جانب سے افغانستان میں انتہاپسند گروپوں کو پناہ نہیں دی جائے گی۔ بصورت دیگر اور اس طرح کے وعدوں کے بغیر یقین مانیے ایک اور بھیانک خواب پاکستان اور پوری دنیا کا مستقبل قریب میں استقبال کرے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
صدر بائیڈن کا پیغام واضح تھا کہ ''افغانیوں کو اب اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہوگا۔'' تاہم یہ بھی قابل تحریر ہے کہ امریکی تاحال افغانستان کو سمجھنے میں ناکام رہے ہیں، اور ان کی افغانستان کے بارے میں پالیسیاں مثبت نتائج حاصل نہیں کرسکی ہیں، جو کہ ان امریکیوں کےلیے بظاہر پریشان کن صورت حال ہے۔ اب تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کابل پر طالبان کے قبضے کی گنتی شروع ہوچکی ہے، اور امریکی ابھی تک اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ افغانستان میں امریکا کی کئی دہائیوں کی شمولیت کے بعد بھی اور ہزاروں جانوں اور اربوں ڈالر کی لاگت کے باوجود بھی اس کی حکمت عملی کیوں ناکام ہوئی؟
افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ چند دہائیوں کے دوران، افغانستان میں کبھی بھی اقتدار کی پُرامن منتقلی کےلیے بات چیت نہیں کی گئی۔ 1973 میں افغان بادشاہ ظاہر شاہ کا تختہ اس کے رشتے دار داؤد خان نے الٹ دیا اور تب سے اقتدار پارٹیوں نے اپنے قبضے میں لے لیا، جنھوں نے بعد ازاں طاقت کے بل بوتے پر کابل پر قبضہ کیا۔ لہٰذا جب طالبان کو امن کی تجویز کا جواب دینا چاہیے، ایسے میں توقع کرنا کہ وہ اس مذکورہ بالا 'افغان سیاسی روایت' کے ساتھ ٹوٹ جائیں گے، صریحاً غلط ہے۔ اس تلخ حقیقت کے پیش نظر امریکیوں کو افغانستان میں ابھرتے ہوئے منظرنامے میں اپنی طویل المیعاد شمولیت کو یقینی بنانے کےلیے ان زمینی حقائق پر بھی غور کرنا چاہیے۔ لیکن ایسا معلوم ہورہا ہے کہ ممکنات اس کے بالکل برعکس ہیں۔ درحقیقت، افغانستان میں امریکی غلطیوں کی جڑیں سوویت یلغار سے جڑی ہیں۔ جب سرد جنگ کا بیانیہ تھوڑا ٹھنڈا پڑا تو واشنگٹن نے ''مذہبی کارڈ'' کھیل کر اور ''مجاہدین'' تشکیل دے کر کابل میں کمیونسٹ حکومت کی مخالفت کرکے اپنا نیا کھیل رچایا۔
مزید برآں، اس وقت پاکستان اور سعودی عرب اس امریکی منصوبے میں عظیم شراکت دار تھے۔ بدقسمتی سے اس تنازعے سے ہی اسامہ بن لادن نکل کر دنیا میں ابھرا اور یوں بین الاقوامی 'جہاد' کے فلسفے نے ایک اور ٹھوس شکل اختیار کرلی۔ بلاشبہ دنیا اب انہی امریکی تجربات و مشغلات کی قیمت ادا کر رہی ہے۔ بعد ازاں، سوویت کے انخلا کے بعد اور مجاہدین کی لڑائی کے دوران امریکیوں کی دلچسپی بتدریج ختم ہوگئی۔ اور جب طالبان نے اس افراتفری کے دوران اقتدار سنبھالا تو امریکا اور دیگر مغربی طاقتوں نے انہیں تسلیم نہ کرنے کی غلطی سرزد کی، اور جس نے انہیں فنڈز کےلیے بن لادن کی طرف دیکھنے پر مجبور کردیا۔ اب مسٹر غنی کے ان دعوؤں کے باوجود کہ ان کی فوج نے ''نمایاں پیشرفت'' کی ہے، طالبان نے ایک بار پھر کابل پر قبضہ کرنے کی تیاریاں مکمل کرلی ہیں اور اب کی بار معاملات کافی سنجیدہ معلوم ہوتے ہیں۔
اس لیے جب تک کسی بھی ناممکنہ معجزے کے ذریعے تمام افغان اسٹیک ہولڈرز پرامن طریقے سے اقتدار کی منتقلی پر راضی نہیں ہوجاتے، امریکا، پاکستان اور دیگر علاقائی ریاستوں کو افغانستان میں ایک اور طالبان حکومت کےلیے خود کو تیار کرنا ہوگا۔ نیز اب کی بار بین الاقوامی برادری کو اپنی ماضی کی غلطیوں کے برعکس ان کے ساتھ مشغول ہونے پر راضی بھی ہونا چاہیے، بشرطیکہ انہیں افغان طالبان کی جانب سے یہ یقین دہانی کرائی جائے کہ بنیادی حقوق کا احترام کیا جائے گا اور ہرگز ان کی جانب سے افغانستان میں انتہاپسند گروپوں کو پناہ نہیں دی جائے گی۔ بصورت دیگر اور اس طرح کے وعدوں کے بغیر یقین مانیے ایک اور بھیانک خواب پاکستان اور پوری دنیا کا مستقبل قریب میں استقبال کرے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔