خیبر پختونخوا پر اندرونی و بیرونی قرضوں کا حجم 256 ارب روپے سے زائد ہوگیا
گزشتہ مالی سال کی نسبت خیبر پختونخوا پر قرضوں کے حجم میں 12 ارب 30 کروڑ روپے کی کمی آئی ہے
خیبر پختونخوا پر اندرونی و بیرونی قرضوں کا حجم 256 ارب روپے سے زائد ہوگیا ہے۔
مالی سال 08-2007 کے لئے خیبر پختونخوا میں متحدہ مجلس عمل کی صوبائی حکومت نے اپنے آخری بجٹ میں 85 ارب 17 کروڑ روپے کا قرض چھوڑا تھا جو مالی سال 21-2020 میں 256 ارب 70 کروڑ روپے تک پہنچ گیا ہے۔
متحدہ مجلس عمل کی حکومت نے اپنے آخری سال 08-2007 کے لیے صوبے کا 114ارب50 کروڑ روپے کا بجٹ دیا تھا جس میں 5 ارب 48 کروڑ کا خسارہ بھی شامل تھا جب کہ اس سال کے لیے سالانہ ترقیاتی پروگرام کا حجم 39 ارب 46 کروڑ تھا، ایم ایم اے حکومت کے اس آخری سال صوبہ پر واجب الادا قرضوں کا مجموعی حجم 85 ارب 17 کروڑ 89لاکھ تھا جس میں 18 ارب4 کروڑ کے وفاقی حکومت اور 66 ارب 74 کروڑ کے غیرملکی قرضے شامل تھے۔
اے این پی کی حکومت نے اپنا پانچ سالہ دور اقتدار پورا کرنے کے بعد اپنے اقتدار کے آخری سال 13-2021 کے لیے 303 ارب روپے کا بجٹ دیا جس میں 97 ارب 45 کروڑ روپے ترقیاتی کاموں کے لیے مختص کیے گئے جبکہ اے این پی دور حکومت کے اختتام پر یکم جولائی 2013 کو صوبہ پر واجب الادا مجموعی قرضہ 130 ارب 53 کروڑ روپے تھا جس میں 121 ارب 37 کروڑ کا غیر ملکی جب کہ 9 ارب 16 کروڑ کا اندرونی قرض شامل تھا۔
تحریک انصاف حکومت نے مالی سال 14-2013 میں اپنا پہلا بجٹ پیش کیا جو 344ارب کا تھا جب کہ اس میں 118ارب ترقیاتی کاموں کے لیے مختص کیے گئے تھے جبکہ اس سال صوبہ پر واجب الادا قرضے میں 123 ارب 8 کروڑ غیر ملکی اور 8 ارب 60کروڑ کا اندرونی قرضہ تھا۔ 15-2014 کے لیے پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے 404 ارب 80کروڑ کا بجٹ اور 139 ارب 80 کروڑ کا سالانہ ترقیاتی پروگرام دیا گیا جب کہ واجب الادا قرض 128 ارب 3 کروڑ تھا جن میں 120 ارب 5 کروڑ کا غیر ملکی اور 7 ارب 98کروڑ کا اندرونی قرض تھا، 16-2015 کے لیے پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے487 ارب 88کروڑ کا بجٹ اور 174 ارب 88 کروڑ مالیت کا سالانہ ترقیاتی پروگرام دیا تھا جب کہ اس وقت یکم جولائی 2015 کو صوبے پر مجموعی قرضہ 121 ارب 17 کروڑ تھا جن میں 116 ارب 7 کروڑ غیر ملکی اور 5 ارب 10 کروڑ کا اندرونی قرضہ تھا۔
مالی سال 16-2017 کے لیے پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے صوبے کے لیے 505 ارب کا بجٹ اور 161 ارب کا سالانہ ترقیاتی پروگرام دیا گیا جب کہ صوبے پر قرضوں کا حجم120 ارب 61 کروڑ رہا جن میں 115 ارب 96 کروڑ کا غیر ملکی اور 4 ارب 64 کروڑ کا اندرونی قرض تھا، مالی سال18-2017 کے لیے حکومت کی جانب سے 603 ارب کا بجٹ دیا گیا جس میں 208 ارب کا سالانہ ترقیاتی پروگرام شامل تھا جبکہ یکم جولائی 2017ئ کو قرضوں کا بوجھ 115 ارب 53 کروڑ تھا جو صرف غیرملکی قرض تھا۔ پی ٹی آئی حکومت نے اپنے آخری سال جو قرضہ لیا اس سے قرضوں کا مجموعی حجم بڑھ کر یکم جولائی 2018 کو 160 ارب 70 کروڑ روپے پر پہنچ گیا۔
پاکستان تحریک انصاف کی موجودہ محمود خان حکومت کی جانب سے سال 20-2019 کے لیے اپنا پہلا بجٹ 900 ارب روپے کا پیش کیا گیا اور یکم جولائی 2019 کو صوبے پر قرضوں کا بوجھ 193.7 ارب روپے پر پہنچ گیا، مالی سال کے لیے صوبائی حکومت نے 923 ارب کا بجٹ پیش کیا جب کہ صوبے پر قرضوں کا حجم 269 ارب ہوگیا جب کہ آج سے شروع ہونے والے نئے مالی سال 22-2021 کے لیے محمود خان حکومت نے 1118.3 ارب روپے مالیت کا بجٹ پیش کیا ہے جب کہ صوبہ پر قرضوں کا بوجھ 256.7ارب روپے ہے جس میں گزشتہ مالی سال کی نسبت 12 ارب 30 کروڑ روپے کی کمی آئی ہے۔
مالی سال 08-2007 کے لئے خیبر پختونخوا میں متحدہ مجلس عمل کی صوبائی حکومت نے اپنے آخری بجٹ میں 85 ارب 17 کروڑ روپے کا قرض چھوڑا تھا جو مالی سال 21-2020 میں 256 ارب 70 کروڑ روپے تک پہنچ گیا ہے۔
متحدہ مجلس عمل کی حکومت نے اپنے آخری سال 08-2007 کے لیے صوبے کا 114ارب50 کروڑ روپے کا بجٹ دیا تھا جس میں 5 ارب 48 کروڑ کا خسارہ بھی شامل تھا جب کہ اس سال کے لیے سالانہ ترقیاتی پروگرام کا حجم 39 ارب 46 کروڑ تھا، ایم ایم اے حکومت کے اس آخری سال صوبہ پر واجب الادا قرضوں کا مجموعی حجم 85 ارب 17 کروڑ 89لاکھ تھا جس میں 18 ارب4 کروڑ کے وفاقی حکومت اور 66 ارب 74 کروڑ کے غیرملکی قرضے شامل تھے۔
اے این پی کی حکومت نے اپنا پانچ سالہ دور اقتدار پورا کرنے کے بعد اپنے اقتدار کے آخری سال 13-2021 کے لیے 303 ارب روپے کا بجٹ دیا جس میں 97 ارب 45 کروڑ روپے ترقیاتی کاموں کے لیے مختص کیے گئے جبکہ اے این پی دور حکومت کے اختتام پر یکم جولائی 2013 کو صوبہ پر واجب الادا مجموعی قرضہ 130 ارب 53 کروڑ روپے تھا جس میں 121 ارب 37 کروڑ کا غیر ملکی جب کہ 9 ارب 16 کروڑ کا اندرونی قرض شامل تھا۔
تحریک انصاف حکومت نے مالی سال 14-2013 میں اپنا پہلا بجٹ پیش کیا جو 344ارب کا تھا جب کہ اس میں 118ارب ترقیاتی کاموں کے لیے مختص کیے گئے تھے جبکہ اس سال صوبہ پر واجب الادا قرضے میں 123 ارب 8 کروڑ غیر ملکی اور 8 ارب 60کروڑ کا اندرونی قرضہ تھا۔ 15-2014 کے لیے پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے 404 ارب 80کروڑ کا بجٹ اور 139 ارب 80 کروڑ کا سالانہ ترقیاتی پروگرام دیا گیا جب کہ واجب الادا قرض 128 ارب 3 کروڑ تھا جن میں 120 ارب 5 کروڑ کا غیر ملکی اور 7 ارب 98کروڑ کا اندرونی قرض تھا، 16-2015 کے لیے پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے487 ارب 88کروڑ کا بجٹ اور 174 ارب 88 کروڑ مالیت کا سالانہ ترقیاتی پروگرام دیا تھا جب کہ اس وقت یکم جولائی 2015 کو صوبے پر مجموعی قرضہ 121 ارب 17 کروڑ تھا جن میں 116 ارب 7 کروڑ غیر ملکی اور 5 ارب 10 کروڑ کا اندرونی قرضہ تھا۔
مالی سال 16-2017 کے لیے پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے صوبے کے لیے 505 ارب کا بجٹ اور 161 ارب کا سالانہ ترقیاتی پروگرام دیا گیا جب کہ صوبے پر قرضوں کا حجم120 ارب 61 کروڑ رہا جن میں 115 ارب 96 کروڑ کا غیر ملکی اور 4 ارب 64 کروڑ کا اندرونی قرض تھا، مالی سال18-2017 کے لیے حکومت کی جانب سے 603 ارب کا بجٹ دیا گیا جس میں 208 ارب کا سالانہ ترقیاتی پروگرام شامل تھا جبکہ یکم جولائی 2017ئ کو قرضوں کا بوجھ 115 ارب 53 کروڑ تھا جو صرف غیرملکی قرض تھا۔ پی ٹی آئی حکومت نے اپنے آخری سال جو قرضہ لیا اس سے قرضوں کا مجموعی حجم بڑھ کر یکم جولائی 2018 کو 160 ارب 70 کروڑ روپے پر پہنچ گیا۔
پاکستان تحریک انصاف کی موجودہ محمود خان حکومت کی جانب سے سال 20-2019 کے لیے اپنا پہلا بجٹ 900 ارب روپے کا پیش کیا گیا اور یکم جولائی 2019 کو صوبے پر قرضوں کا بوجھ 193.7 ارب روپے پر پہنچ گیا، مالی سال کے لیے صوبائی حکومت نے 923 ارب کا بجٹ پیش کیا جب کہ صوبے پر قرضوں کا حجم 269 ارب ہوگیا جب کہ آج سے شروع ہونے والے نئے مالی سال 22-2021 کے لیے محمود خان حکومت نے 1118.3 ارب روپے مالیت کا بجٹ پیش کیا ہے جب کہ صوبہ پر قرضوں کا بوجھ 256.7ارب روپے ہے جس میں گزشتہ مالی سال کی نسبت 12 ارب 30 کروڑ روپے کی کمی آئی ہے۔