مسئلہ فلسطین اور ہماری ذمے داری …

فلسطین میں اسرائیل کے نام سے ایک نظریاتی ملک بنانے کی کوشش کی گئی جو صیہونی اور یہودی نظریات کی بنیاد پر قائم کی گئی


Sabir Karbalai September 09, 2012
صابر کربلائی

مسئلہ فلسطین کی اہمیت و نوعیت کو عالمی استعمار امریکا و اسرائیل اور دیگر عالمی قوتوں نے ایک سازش کے تحت محدود کرنے اور دنیا کی توجہ فلسطین و القدس سے منحرف کرنے کی جو گھنائونی سازشیں کی ہیں ان میں سے ایک بڑی اور اہم ترین سازش مسئلہ فلسطین و القدس کی اہمیت کو کم سے کم کر کے بیان کیا جانا ہے، جب دنیا بھر سے یہودیوں کو لا کر سرزمین القدس پر جمع کیا گیا اور عربوں کی سرزمین فلسطین میں لا کر بسایا گیا اور بالآخر 1948 میں غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کا وجود عمل میں آگیا۔

اس کے بعد امریکا اور اسرائیل کی سرپرست یورپی قوتوں نے دنیا بھر کو اس مسئلے کو فقط فلسطینیوں اور یہودیوں کے مابین ایک مسئلہ قرار دیتے ہوئے کوشش کی کہ اس طرف سے دنیا کی توجہ منحرف کی جائے۔ دراصل سرزمین فلسطین پر قائم ہونے والی غیر قانونی ریاست اسرائیل کو تحفظ دینے کے لیے امریکا نے ہر ممکن کوشش کی اور جس خطے میں اسرائیل نامی ناجائز ریاست کا وجود عمل میں آیا وہاں کا جغرافیائی مطالعہ کیا جائے تو نہر سوئز جیسے اہم راستے اس کی جغرافیائی حدود کی اہمیت کو مزید بڑھاتے ہیں، اسرائیل کا قیام اسی سازش کے تحت وجود میں آیا ہے تاکہ خطے کے تمام تر معاملات کو کنٹرول کیا جاسکے۔

'گریٹر اسرائیل' کی بات منظر عام پر آنا صہیونی دہشت گردوں کے ناپاک عزائم کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس بات کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ مسئلہ صرف عرب فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کا مسئلہ ہے۔

دوسری جانب مسلم امہ کا قبلہ اول بیت المقدس (مسجد اقصیٰ) پر اسرائیلیوں کا غاصبانہ قبضہ اور مسجد اقصیٰ کی توہین اور بالخصوص 21 اگست 1969 میں یہودی انتہا پسندوں کی جانب سے مسجد اقصیٰ کو نذر آتش کیے جانے سمیت متعدد مرتبہ قبلہ اول کے تقدس کو پامال کیا جاتا رہا ہے۔ القدس (یروشلم ) میں مسلمانوں کے 3000 مقدس مقامات موجود ہیں جس کو اسرائیل نابود کرنا چاہتا ہے۔

القدس جو کہ مذہبی اہمیت کا حامل ہونے کے ساتھ ساتھ اسلامی ثقافت کا بھی ایک عظیم شاہکار ہے، کے حوالے سے روایات میں ملتا ہے کہ آخری زمانے میں پیغمر اکرم ؐ کی اولاد سے ایک فرزند جس کا نام حضرت امام مہدی ہوگا، وہ ظہور کریں گے اور قبلہ اول بیت المقدس میں امامت فرمائیں گے جبکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی ظہور کریں گے اور حضرت امام مہدی علیہ السلام کی امامت میں نماز ادا کریں گے۔ اس روایت کو پڑھنے کے بعد قبلہ اول کی مذہبی اہمیت مسلمانوں اور عیسائیوں کے نزدیک اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ ان تمام باتوں کے پیش نظر یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ القدس کی اہمیت اور مسئلہ فلسطین کی اہمیت کی نوعیت فقط فلسطینی اور اسرائیلی لوگوں کے درمیان نہیں بلکہ یہ ایک عالمی مسئلہ اور مسلم امہ کا اول ترین مسئلہ ہے۔

ایک اور بات جو عام طور پر ہمارے سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ اکثر پڑھے لکھے اور باشعور لوگ یہ سوال کرتے ہیںکہ اسرائیل کو 1967 سے پہلے کی سرحدوں پر واپس چلے جانا چاہیے تاکہ یہ مسئلہ ختم ہو جائے، لیکن یہاں بات 1967 کی سرحدوں کی نہیں ہے، یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا 1948 سے قبل یا اس سے بھی زیادہ ماضی کی تاریخ میں چلے جائیں تو فلسطین نامی خطے میں کوئی اسرائیل نامی ریاست موجود تھی؟ اگر اس کا جواب نفی میں ہے تو پھر اسرائیل نامی کسی ریاست کا وجود ہونا ہی نہیں چاہیے اور یہ ہے اس مسئلہ کا سیدھا اور آسان سا حل۔

جہاں تک مسئلہ فلسطین اور پاکستان کی بات ہے تو حکومتی سطح پر تو تاحال پاکستان نے اسرائیل کی ریاست کو تسلیم نہیں کیا جو ایک مثبت عمل ہے تاہم دوسری طرف پاکستان کے عوام ہیں جو فلسطین کے عوام سے والہانہ محبت و عشق رکھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ عوامی دبائو کے باعث پاکستان کی حکومت اسرائیل کو تسلیم نہیں کرسکتی البتہ ماضی میں چند ایک ایسے خائن حکمران بھی گزرے ہیں کہ جنہوں نے بھرپور کوشش کی ہے کہ بیک ڈور چینل کے ذریعے یا براہ راست صہیونی ریاست اسرائیل کے ساتھ تعلقات رکھے جائیں تاہم سلام ہو ملت عظیم پاکستان پر کہ جس نے ہمیشہ ایسے خائن حکمرانوں کی سرزنش کی اور فلسطین و القدس کو اپنے دلوں میں زندہ رکھنے کا عملی مظاہرہ کیا ہے۔

یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ فلسطین میں اسرائیل کے نام سے ایک نظریاتی ملک بنانے کی کوشش کی گئی ہے جو صیہونی اور یہودی نظریات کی بنیاد پر قائم کی گئی، دوسری طرف پاکستان ایک ایسا اسلامی ملک ہے جو اسلام کے نام پر وجود میں آیا۔ یہاں کی اقدار اور مذہبی رسوم و عادات دیگر اسلامی ممالک کے درمیان ایک نمایاں حیثیت کی حامل ہیں۔ یہاں کی مذہبی اقدار، لوگوں کے درمیان پائے جانے والے مذہبی جذبات، لباس، رہن سہن اور پورا کلچر مذہبی ہے۔ اس کے علاوہ خود پاکستان نے جو ترقی کی اس میں ایک اہم مسئلہ ایٹمی قوت بننا ہے۔

یہ مسئلہ امریکا کے لیے بھی انتہائی سنجیدہ نوعیت کا ہے کیونکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ جس دن سے پاکستان نے ایٹمی صلاحیت حاصل کی ہے امریکا کو کچھ زیادہ ہی تشویش ہوچلی ہے اور اسی طرح یورپ اور بالخصوص اسرائیل کو تو زیادہ ہی خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ یہ ایک طے شدہ بات ہے کہ جہاں جہاں بھی ایٹمی طاقت موجود ہے اس کو یورپ، امریکا اور صہیونی طاقتیں کسی بھی صورت برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں۔

ایسی جگہوں میں سے ایک پاکستان ہے۔ اسرائیل کو خدشہ ہے کہ پاکستان کی ایٹمی طاقت ایک نہ ایک دن اسرائیل کے خلاف استعمال ہوسکتی ہے لہٰذا امریکا اور اسرائیل نے روز اول سے ہی پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے کی ناپاک منصوبہ بندی کررکھی ہے جس کے تحت پاکستان میں دہشت گردی کو عروج پر پہنچانے میں امریکا نے اپنے ایجنٹوں کی مدد سے بھرپور کام کیا ہے اور پاکستان میں لسانی، فرقہ وارانہ اور ہر نوعیت کے اختلافات کو ہوا دی ہے تا کہ پاکستان کے لوگ اسی میں الجھے رہیں اور مسئلہ فلسطین و آزادی القدس کی طرف توجہ مبذول کرنے سے قاصر رہیں۔

فلسطین کا مسئلہ ایک ایسا بنیادی مسئلہ ہے جو تمام عالم اسلام کے مفادات کا مرکز ہے۔ اگر ہم نے فلسطین کی حفاظت کی تو عالم اسلام کے مفادات کی حفاظت کی اور اگر ہم نے فلسطین کے مسئلے سے چشم پوشی کی تو ہم نے عالم اسلام کے مفادات سے چشم پوشی کی۔ لہٰذا فلسطینی عوام کی مدد اور ان کی کمک، ان کے لیے آواز بلند کرنا ازحد ضروری ہے۔ اگر ہم یہ کر سکے تو یقیناً عالم اسلام اجتماعی لحاظ سے بہت ترقی کرے گا اور استحکام حاصل کرے گا۔ ہم سب کا شرعی اور قانونی فریضہ بنتا ہے کہ ہم فلسطین کا دفاع کریں، فلسطین کے حق میں ان کی حمایت کریں، ان کے لیے نعرے لگائیں اور اسرائیل کے قیام کے خلاف عملی جدوجہد کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں