پاک چین دوستی اور عالمی منظرنامہ
پاکستان مسلم دنیا کا پہلا ملک تھا جس نے چین کو تسلیم کیا، اس سفارتی پیش قدم کو چین نے کبھی نہیں بھلایا۔
چین کے سرکاری ٹی وی ''گلوبل ٹیلی ویژن نیٹ ورک '' سے خصوصی انٹرویو میں وزیر اعظم نے کہا کہ اگر پاکستان پر دباؤڈالا جاتا ہے کہ وہ اپنے تعلقات میں تبدیلی لائے یا چین کے ساتھ اپنے تعلقات کوڈاؤن گریڈ کرے تو ایسا نہیں ہوگا۔ پاکستان اور چین کے مابین تعلقات بہت گہرے ہیں اور یہ تعلقات نہ صرف حکومتوں بلکہ دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان قائم ہیں۔
وزیراعظم پاکستان نے انٹرویو میں جن صائب خیالات کا اظہار کیا ہے ، وہ قومی امنگوں کے عین مطابق ہے ۔چین نے ہمیشہ پاکستان کے ساتھ دوستی بھرپور طریقے سے نبھائی ہے اور پاکستان کو ٹیکنالوجی ، ہتھیار اور سرمایہ کاری کی فراہمی اور مختلف بحرانوں میں نکلنے میں انتہائی خلوص سے مدد کی ہے ، اور اب سی پیک کا منصوبہ ہمارے اور خطے کے لیے گیم چینجر ثابت ہونے جارہا ہے۔
پاکستان مسلم دنیا کا پہلا ملک تھا جس نے چین کو تسلیم کیا، اس سفارتی پیش قدم کو چین نے کبھی نہیں بھلایا ، باضابطہ سفارتی تعلقات قائم ہونے کے بعد دوطرفہ تعلقات کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا جو تمام موسموں اور حالات کے اتار،چڑھاؤ کے باوجود قائم ودائم ہے ۔پاکستان اور چین کی دوستی دنیا میں ایک مثال بن چکی ہے ۔
دوسری جانب امریکی صدر جو بائیڈن نے پاکستان کے ساتھ واشنگٹن کی پارٹنرشپ بہتر کرنے کا اعادہ کیا ہے۔ پاکستان میں ماہرین کے مطابق اس کی گنجائش تو ہے لیکن شاید بہت زیادہ نہیں۔ امریکااور یورپی ممالک چین کے گرد گھیرا تنگ کرنا چاہ رہے ہیں ، جب کہ پاکستان اس وقت ایک آزادانہ خارجہ پالیسی پر عمل پیرا ہے جس میں چین اس کا ایک بہت بڑا اتحادی ہے۔
خطے کی صورتحال پرایک نظر ڈالیں تومنظرنامہ کچھ یوں نظر آرہا ہے کہ امریکی افواج کے مکمل انخلا کے بعد بھی افغانستان میں شورش جاری رہی تو اس سے دہشت گردی پروان چڑھے گی، یہ دہشت گردی ناصرف افغانستان کی سلامتی کے لیے خطرہ ہوگی بلکہ اس سے پاکستان میں بھی دہشت گردی کو ہوا ملے گی اور یوں ایک ایٹمی ملک عدم استحکام کا شکار ہوسکتا ہے۔ دوسری جانب بھارت کو بھی جہادیوں سے خطرہ ہے اور اس کا اثر امریکا کی چین کے حوالے سے پالیسی پر پڑسکتا ہے۔ یہی شعبے دونوں ممالک کے درمیان تاثر، پالیسی اور مفادات کے تصادم کا باعث بھی ہیں۔
امریکا ان مسائل کو کس طرح حل کرے گا اس کا دار و مدار امریکا کی چین اور افغان پالیسوں پر تو ہوگا ہی کہ جن پر اس وقت نظرثانی جاری ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ امریکا کی جانب سے یہ بھی دیکھا جائے گا کہ پاکستان کی پالیسیاں امریکی مفادات سے کس حد تک مطابقت رکھتی ہیں،تاہم اس کام کے لیے اسے پاکستان کی مدد ضرور درکار ہوگی، لیکن اس وقت افغانستان کے حوالے سے پاکستان کی کوئی واضح پالیسی نظر نہیں آرہی ہے۔
امریکی پالیسیوں میں تواتر کے ساتھ اعتماد کا فقدان نظر آرہا ہے،جو لوگ ایک اتحادی کی حیثیت سے امریکا کے حوالے سے شبہات کا شکار ہیں انھیں پاکستان کی تاریخ پر بھی نظر ڈالنی چاہیے۔پاکستان بھارت کے ساتھ بھی تعلقات کی بہتری چاہتا ہے جس میں امریکا کا اہم کردار ہے۔ افغان صدر اشرف غنی اور بھارت امن مذاکرات کو خراب کرنا چاہتے ہیں۔
ایسا لگ رہا ہے کہ امریکا افغانستان میں امن معاہدے کے حوالے سے اپنے وعدوں سے پِھر رہا ہے جس سے یقینا طالبان اور اسلام آباد کو دھچکا لگے گا۔ ایسا ہوا تو افغان طالبان پاکستان پر بھروسہ نہیں کریں گے اور دوبارہ ان کو مذاکرات کی میز پر لانا مشکل ہو جائے گااور افغانستان ایک بار پھر خانہ جنگی کا شکار ہوجائے گا۔
اس وقت عالمی سیاسی منظرنامہ تیزی سے تبدیل ہورہا ہے ، دنیا ایک بار پھر سرد جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے ، پرانے اتحاد ختم ہونے جارہے ہیں جب کہ نئے اتحاد اور بلاگس بننے جارہے ہیں ،لہذا ہم تاریخ کے ایک نازک موڑ پر کھڑے ہیں ، اگرہم چین کی طرف مکمل طور گئے تو پھر یورپی ممالک اور خلیجی ریاستوں میں کام کرنے والے لاکھوں پاکستانیوں کے لیے روزگارکے مواقعے محدود ہوسکتے ہیں ،لہذا ہمیں آنیوالے وقت میں تمام پالیسیاں بناتے وقت ملکی مفادات کو مقدم رکھنا ہوگا، ہر پالیسی کے مضمرات اور فوائد کومدنظر رکھ کرہی فیصلہ کیا جائے تاکہ پاکستان دنیا میں مستحکم بنیادوں پر قائم ودائم رہے اور اپنا عالمی کردار بھی احسن طریقے پر ادا کرتا رہے ۔
وزیراعظم پاکستان نے انٹرویو میں جن صائب خیالات کا اظہار کیا ہے ، وہ قومی امنگوں کے عین مطابق ہے ۔چین نے ہمیشہ پاکستان کے ساتھ دوستی بھرپور طریقے سے نبھائی ہے اور پاکستان کو ٹیکنالوجی ، ہتھیار اور سرمایہ کاری کی فراہمی اور مختلف بحرانوں میں نکلنے میں انتہائی خلوص سے مدد کی ہے ، اور اب سی پیک کا منصوبہ ہمارے اور خطے کے لیے گیم چینجر ثابت ہونے جارہا ہے۔
پاکستان مسلم دنیا کا پہلا ملک تھا جس نے چین کو تسلیم کیا، اس سفارتی پیش قدم کو چین نے کبھی نہیں بھلایا ، باضابطہ سفارتی تعلقات قائم ہونے کے بعد دوطرفہ تعلقات کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا جو تمام موسموں اور حالات کے اتار،چڑھاؤ کے باوجود قائم ودائم ہے ۔پاکستان اور چین کی دوستی دنیا میں ایک مثال بن چکی ہے ۔
دوسری جانب امریکی صدر جو بائیڈن نے پاکستان کے ساتھ واشنگٹن کی پارٹنرشپ بہتر کرنے کا اعادہ کیا ہے۔ پاکستان میں ماہرین کے مطابق اس کی گنجائش تو ہے لیکن شاید بہت زیادہ نہیں۔ امریکااور یورپی ممالک چین کے گرد گھیرا تنگ کرنا چاہ رہے ہیں ، جب کہ پاکستان اس وقت ایک آزادانہ خارجہ پالیسی پر عمل پیرا ہے جس میں چین اس کا ایک بہت بڑا اتحادی ہے۔
خطے کی صورتحال پرایک نظر ڈالیں تومنظرنامہ کچھ یوں نظر آرہا ہے کہ امریکی افواج کے مکمل انخلا کے بعد بھی افغانستان میں شورش جاری رہی تو اس سے دہشت گردی پروان چڑھے گی، یہ دہشت گردی ناصرف افغانستان کی سلامتی کے لیے خطرہ ہوگی بلکہ اس سے پاکستان میں بھی دہشت گردی کو ہوا ملے گی اور یوں ایک ایٹمی ملک عدم استحکام کا شکار ہوسکتا ہے۔ دوسری جانب بھارت کو بھی جہادیوں سے خطرہ ہے اور اس کا اثر امریکا کی چین کے حوالے سے پالیسی پر پڑسکتا ہے۔ یہی شعبے دونوں ممالک کے درمیان تاثر، پالیسی اور مفادات کے تصادم کا باعث بھی ہیں۔
امریکا ان مسائل کو کس طرح حل کرے گا اس کا دار و مدار امریکا کی چین اور افغان پالیسوں پر تو ہوگا ہی کہ جن پر اس وقت نظرثانی جاری ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ امریکا کی جانب سے یہ بھی دیکھا جائے گا کہ پاکستان کی پالیسیاں امریکی مفادات سے کس حد تک مطابقت رکھتی ہیں،تاہم اس کام کے لیے اسے پاکستان کی مدد ضرور درکار ہوگی، لیکن اس وقت افغانستان کے حوالے سے پاکستان کی کوئی واضح پالیسی نظر نہیں آرہی ہے۔
امریکی پالیسیوں میں تواتر کے ساتھ اعتماد کا فقدان نظر آرہا ہے،جو لوگ ایک اتحادی کی حیثیت سے امریکا کے حوالے سے شبہات کا شکار ہیں انھیں پاکستان کی تاریخ پر بھی نظر ڈالنی چاہیے۔پاکستان بھارت کے ساتھ بھی تعلقات کی بہتری چاہتا ہے جس میں امریکا کا اہم کردار ہے۔ افغان صدر اشرف غنی اور بھارت امن مذاکرات کو خراب کرنا چاہتے ہیں۔
ایسا لگ رہا ہے کہ امریکا افغانستان میں امن معاہدے کے حوالے سے اپنے وعدوں سے پِھر رہا ہے جس سے یقینا طالبان اور اسلام آباد کو دھچکا لگے گا۔ ایسا ہوا تو افغان طالبان پاکستان پر بھروسہ نہیں کریں گے اور دوبارہ ان کو مذاکرات کی میز پر لانا مشکل ہو جائے گااور افغانستان ایک بار پھر خانہ جنگی کا شکار ہوجائے گا۔
اس وقت عالمی سیاسی منظرنامہ تیزی سے تبدیل ہورہا ہے ، دنیا ایک بار پھر سرد جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے ، پرانے اتحاد ختم ہونے جارہے ہیں جب کہ نئے اتحاد اور بلاگس بننے جارہے ہیں ،لہذا ہم تاریخ کے ایک نازک موڑ پر کھڑے ہیں ، اگرہم چین کی طرف مکمل طور گئے تو پھر یورپی ممالک اور خلیجی ریاستوں میں کام کرنے والے لاکھوں پاکستانیوں کے لیے روزگارکے مواقعے محدود ہوسکتے ہیں ،لہذا ہمیں آنیوالے وقت میں تمام پالیسیاں بناتے وقت ملکی مفادات کو مقدم رکھنا ہوگا، ہر پالیسی کے مضمرات اور فوائد کومدنظر رکھ کرہی فیصلہ کیا جائے تاکہ پاکستان دنیا میں مستحکم بنیادوں پر قائم ودائم رہے اور اپنا عالمی کردار بھی احسن طریقے پر ادا کرتا رہے ۔