انسانی اسمگلنگ آخر کب تک
ہر سال ہزاروں نوجوان غیر قانونی طریقوں سے ایران، ترکی اور یورپ جانے کی کوشش میں جان اور مال سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں
آنکھوں میں سنہرے مستقبل کے خواب سجائے شاہ صاحب نے جہلم سے کوئٹہ کےلیے ڈائیوو میں سفر شروع کیا تو انہیں یہ تو معلوم تھا کہ یہ سفر مشکل ہوگا، لیکن یہ ہرگز امید نہیں تھی کہ یہ سفر مشکل ترین نہیں بلکہ ناممکن ہوگا اور یورپ جانے کا جو خواب انہیں دکھایا گیا ہے اس کی تعبیر اس قدر بھیانک ہوگی۔
کوئٹہ سے پنجگور تک سب کچھ ٹھیک تھا۔ پنجگور سے ماشکیل تک انہیں نہ صرف سفری مشکلات بلکہ بھوک پیاس کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ ماشکیل سے ایران کے بارڈر اور ایران سے ترکی تک انہیں نہ صرف گھنٹوں پیدل چلنا پڑا بلکہ کئی بار سرحدی سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں بدترین تشدد کا بھی سامنا بھی کرنا پڑا۔ انہوں نے اپنے ساتھیوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے تشدد کی وجہ سے جان کی بازی ہارتے بھی دیکھا۔ ان کی آنکھوں کے سامنے گجرات کے ایک ایسے نوجوان نے بھی دم توڑا جو پانچ بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا۔ مرتے وقت اس نے اپنی تصویر ان کے حوالے کرتے ہوئے درخواست کی کہ ہوسکے تو یہ تصویر میری ماں کو دے دینا۔ شاہ صاحب نے بدترین تشدد کے باوجود یورپ جانے کی کوشش میں سات مرتبہ ایران اور ترکی کا بارڈر کراس کرنے کی کوشش کی، مگر کامیاب نہ ہوسکے اور مایوس ہوکر واپس لوٹ آئے۔
یہ صرف ایک شاہ صاحب کی کہانی نہیں ہے، گجرات، جہلم اور اس سے متصل علاقے ایسی کہانیوں سے بھرے پڑے ہیں۔ ہر سال ہزاروں نوجوان وطن عزیز کے معاشی حالات سے دل برداشتہ ہوکر غیر قانونی طریقوں سے ایران، ترکی اور دیگر راستوں سے یورپ جانے کی کوشش میں جان اور مال سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق 2013 میں جرائم پیشہ افراد نے اس مکروہ دھندے سے 927 ملین ڈالر کمائے۔ اقوام متحدہ کے ماہرین کا یہ دعویٰ ہے کہ پاکستانی حکام کے مطابق اس دھندے میں ایک ہزار سے زائد گروہ ملوث ہیں۔ اقوام متحدہ کی ایک دوسری رپورٹ کے مطابق 2007 سے 2013 تک پاکستان میں اس غلیظ کاروبار میں بے پناہ ترقی ہوئی۔ تازہ ترین صورتحال پر نظر ڈالیں تو وفاقی تحقیقاتی ادارے کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں میں ایران سے 86000 پاکستانیوں کو بے دخل کیا گیا۔
غور طلب امر یہ ہے کہ انسداد مہاجرین ایکٹ اور انسداد انسانی اسمگلنگ ایکٹ 2018، پاسپورٹ ایکٹ 1974، امیگریشن آرڈیننس 1979، فارنرز ایکٹ 1946، انسداد اسمگلنگ ایکٹ 2002 اور دیگر قوانین کے ہوتے ہوئے انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کیوں ممکن نہ ہوسکی؟ غیر ملکی نشریاتی ادارے کا سابق پاکستانی سیکیورٹی حکام کے حوالے سے دعویٰ ہے کہ یہ صورت حال اس وقت تک درست نہیں ہوگی جب تک قوانین پر 100 فیصد عملدرآمد ممکن نہیں ہوگا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پی ٹی آئی سرکار مسئلے کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے نہ صرف قوانین پر عملدرآمد کو یقینی بنائے، بلکہ اپوزیشن کے ساتھ مل کر ملک کے وسیع تر مفاد میں معاشی حالت کی بہتری کی فکر بھی کرے۔ کیونکہ جب تک ملک میں غربت، بھوک اور افلاس کے سائے رہیں گے، اور لاکھوں روپے تنخواہ پانے والے کبھی سیٹیاں، تالیاں، دھینگامشتی، تو کبھی جمہوریت کا جنازہ نکالنے میں مصروف رہیں گے تو عام آدمی اپنے معاشی مستقبل کے تحفظ کی خاطر غیر قانونی طور پر یورپ جانے کی کوشش میں ملک و قوم کی بدنامی کا باعث بنتا رہے گا۔ کیونکہ اس سفر میں جان کی بازی ہارنے والے بھی ملک کےلیے بدنامی کا باعث بنتے ہیں اور اگر ہزاروں میں سے کوئی ایک بچ کر یورپ پہنچ جائے تو وہ سیاسی پناہ حاصل کرنے کےلیے وطن عزیز کے بارے میں ایسی ایسی ہرزہ سرائی کرتا ہے جس سے اپنے شرمندہ اور غیر خوشیاں مناتے ہیں۔
آخر میں اقوام متحدہ سے بھی ایک گزارش ہے کہ بین الاقوامی سیکیورٹی اداروں کی مدد سے انسانی اسمگلنگ کے اس مکروہ دھندے میں ملوث افراد کے خلاف گھیرا تنگ کیا جائے۔ کیونکہ یہ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ اقوم عالم کا مسئلہ بن چکا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یہ کاروبار جرائم کی دنیا کا تیسرا بڑا کاروبار ہے اور اس کا حجم 32 سے 40 کھرب ڈالر تک پھیل چکا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کوئٹہ سے پنجگور تک سب کچھ ٹھیک تھا۔ پنجگور سے ماشکیل تک انہیں نہ صرف سفری مشکلات بلکہ بھوک پیاس کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ ماشکیل سے ایران کے بارڈر اور ایران سے ترکی تک انہیں نہ صرف گھنٹوں پیدل چلنا پڑا بلکہ کئی بار سرحدی سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں بدترین تشدد کا بھی سامنا بھی کرنا پڑا۔ انہوں نے اپنے ساتھیوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے تشدد کی وجہ سے جان کی بازی ہارتے بھی دیکھا۔ ان کی آنکھوں کے سامنے گجرات کے ایک ایسے نوجوان نے بھی دم توڑا جو پانچ بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا۔ مرتے وقت اس نے اپنی تصویر ان کے حوالے کرتے ہوئے درخواست کی کہ ہوسکے تو یہ تصویر میری ماں کو دے دینا۔ شاہ صاحب نے بدترین تشدد کے باوجود یورپ جانے کی کوشش میں سات مرتبہ ایران اور ترکی کا بارڈر کراس کرنے کی کوشش کی، مگر کامیاب نہ ہوسکے اور مایوس ہوکر واپس لوٹ آئے۔
یہ صرف ایک شاہ صاحب کی کہانی نہیں ہے، گجرات، جہلم اور اس سے متصل علاقے ایسی کہانیوں سے بھرے پڑے ہیں۔ ہر سال ہزاروں نوجوان وطن عزیز کے معاشی حالات سے دل برداشتہ ہوکر غیر قانونی طریقوں سے ایران، ترکی اور دیگر راستوں سے یورپ جانے کی کوشش میں جان اور مال سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق 2013 میں جرائم پیشہ افراد نے اس مکروہ دھندے سے 927 ملین ڈالر کمائے۔ اقوام متحدہ کے ماہرین کا یہ دعویٰ ہے کہ پاکستانی حکام کے مطابق اس دھندے میں ایک ہزار سے زائد گروہ ملوث ہیں۔ اقوام متحدہ کی ایک دوسری رپورٹ کے مطابق 2007 سے 2013 تک پاکستان میں اس غلیظ کاروبار میں بے پناہ ترقی ہوئی۔ تازہ ترین صورتحال پر نظر ڈالیں تو وفاقی تحقیقاتی ادارے کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں میں ایران سے 86000 پاکستانیوں کو بے دخل کیا گیا۔
غور طلب امر یہ ہے کہ انسداد مہاجرین ایکٹ اور انسداد انسانی اسمگلنگ ایکٹ 2018، پاسپورٹ ایکٹ 1974، امیگریشن آرڈیننس 1979، فارنرز ایکٹ 1946، انسداد اسمگلنگ ایکٹ 2002 اور دیگر قوانین کے ہوتے ہوئے انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کیوں ممکن نہ ہوسکی؟ غیر ملکی نشریاتی ادارے کا سابق پاکستانی سیکیورٹی حکام کے حوالے سے دعویٰ ہے کہ یہ صورت حال اس وقت تک درست نہیں ہوگی جب تک قوانین پر 100 فیصد عملدرآمد ممکن نہیں ہوگا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پی ٹی آئی سرکار مسئلے کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے نہ صرف قوانین پر عملدرآمد کو یقینی بنائے، بلکہ اپوزیشن کے ساتھ مل کر ملک کے وسیع تر مفاد میں معاشی حالت کی بہتری کی فکر بھی کرے۔ کیونکہ جب تک ملک میں غربت، بھوک اور افلاس کے سائے رہیں گے، اور لاکھوں روپے تنخواہ پانے والے کبھی سیٹیاں، تالیاں، دھینگامشتی، تو کبھی جمہوریت کا جنازہ نکالنے میں مصروف رہیں گے تو عام آدمی اپنے معاشی مستقبل کے تحفظ کی خاطر غیر قانونی طور پر یورپ جانے کی کوشش میں ملک و قوم کی بدنامی کا باعث بنتا رہے گا۔ کیونکہ اس سفر میں جان کی بازی ہارنے والے بھی ملک کےلیے بدنامی کا باعث بنتے ہیں اور اگر ہزاروں میں سے کوئی ایک بچ کر یورپ پہنچ جائے تو وہ سیاسی پناہ حاصل کرنے کےلیے وطن عزیز کے بارے میں ایسی ایسی ہرزہ سرائی کرتا ہے جس سے اپنے شرمندہ اور غیر خوشیاں مناتے ہیں۔
آخر میں اقوام متحدہ سے بھی ایک گزارش ہے کہ بین الاقوامی سیکیورٹی اداروں کی مدد سے انسانی اسمگلنگ کے اس مکروہ دھندے میں ملوث افراد کے خلاف گھیرا تنگ کیا جائے۔ کیونکہ یہ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ اقوم عالم کا مسئلہ بن چکا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یہ کاروبار جرائم کی دنیا کا تیسرا بڑا کاروبار ہے اور اس کا حجم 32 سے 40 کھرب ڈالر تک پھیل چکا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔