پنجاب میں سیکڑوں قدیم اورتاریخی مقامات خستہ حالی کا شکار

پنجاب میں اس وقت 412 تحفظ شدہ تاریخی اور مذہبی قدیم مقامات ہیں


آصف محمود July 01, 2021
پنجاب مختلف تہذیبوں کے مذہبی اور ثقافتی ورثے کا امین ہے فوٹو: پی ٹی ڈی سی

محکمہ سیاحت پنجاب اورآرکیالوجی قدیم تاریخی مقامات کی بحالی کے لئے سرگرم ہے تاہم پنجاب میں آج بھی درجنوں ایسی تاریخی جگہیں ہیں جن کی خستہ حالی اوریونیسکو کے معیار پر پورا نہ اترنے کی وجہ سے عالمی ثقافتی ورثے کا درجہ نہیں مل سکا۔

پنجاب میں اس وقت 412 تحفظ شدہ تاریخی اور مذہبی قدیم مقامات ہیں، ان میں سے 3 قدیم تاریخی اور سیاحتی مقامات ایسے ہیں جن کو عالمی ثقافتی ورثے کا درجہ حاصل ہیں۔ ان میں شالامارباغ وشاہی قلعہ ، قلعہ روہتاس اور ٹیکسلا کے قدیم کھنڈرات شامل ہیں۔اسی طرح پنجاب میں چار مقامات کو قومی ورثے کا درجہ حاصل ہے جبکہ 11 مقامات ایسے ہیں جن کو عالمی ثقافتی ورثے کا حصہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے ان میں مقبرہ جہانگیر،مقبرہ آصف جاہ، اکبری سرائے، بادشاہی مسجد، مسجدوزیرخان،دراوڑفورٹ، ہرن مینار،مقبرہ رکن عالم اورہڑپہ کے قدیم آثارشامل ہیں۔



پنجاب مختلف تہذیبوں کے مذہبی اور ثقافتی ورثے کا امین ہے، یہاں ہندو،سکھ اوربدھ ازم کے قدیم آثارموجود ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے تحفظ شدہ قدیم ورثے میں سے زیادہ ترجائیدادیں نجی ملکیت میں ہیں، سکھوں اورہندوؤں کے مقدس مقامات متروکہ وقف املاک بورڈ، مزارات اورقدیم مساجد پنجاب اوقاف ،شاہی قلعہ اوراندرون شہرمیں موجود تحفظ شدہ عمارتیں والڈسٹی آف لاہور اتھارٹی کے پاس ہیں

مشیرسیاحت پنجاب آصف محمود کہتے ہیں آثارقدیمہ کی بحالی میں سب سے بڑامسلہ فنڈزکا ہوتا ہے ،پنجاب میں پہلی بار 231 فیصد اضافے کے ساتھ 2 ہزار ملین روپے آثارقدیمہ کی بحالی اورسیاحت کے فروغ کے لئے رکھے گئے اس کے علاوہ ورلڈبنک کے اشتراک سے 50 ملین ڈالرکا ایک منصوبہ سال 2017 سے جاری ہے ۔ ہمارافوکس پنجاب میں تاریخی مذہبی اورسیاحتی مقامات کی بحالی ہے جس میں ناصرف مسلم شرائنز بلکہ سکھوں ، ہندوؤں ،بدھ مت اورمسیحی برادی کے مقدس مقامات کی بحالی بھی شامل ہے تاکہ صوبے میں مذہبی سیاحت کوفروغ دیاجاسکے۔ اس سے ملک میں بین المذاہب ہم آہنگی میں بھی بہتری آئیگی.



پنجاب آرکیالوجی کے ڈائریکٹرملک مقصود نے بتایا پنجاب میں گزشتہ کئی تاریخی اور سیاحتی مقامات پر بحالی اورآرائش وتزئین مکمل کروائی گئی ان میں ہرن مینار،موسٰی پاک شہید کا مقبرہ،علامہ اقبال میوزیم (جاوید منزل) لاہور کا تحفظ اور اپ گریڈیشن ، جام پور،ضلع ڈیرہ غازی خان کے قریب ٹیلے دیلو رائے میں آثار قدیمہ کی کھدائی۔ تاریخی یادگاروں پر عوامی سہولیات کی فراہمی،ٹی ڈی سی پی کے اشتراک سے ہیریٹیج سائٹ کے بزنس پلان کی تیاری، ٹیکسلا میں آڈیٹوریم کی تعمیر،ہڑپہ میں آڈیٹوریم کی تعمیر، صوبہ کے 8 کلیدی ثقافتی ورثہ جات کی دستاویزی فلموں کی تیاری، تاریخی ورثہ پر چراغاں، یونیسکو کے اشتراک سے ٹیکسلا میوزیم کے مینجمنٹ پلان کی تیاری، یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثہ کی فہرست میں شامل کرنے کےلیے ہڑپہ میں آثار قدیمہ اور میوزیم کے ماسٹر ، مینجمنٹ پلان کی تیاری۔اس کے علاوہ بدھا ٹریل کی تیاری،ٹیکسلا میں میوزیم کی نئی گیلری کا قیام، اہم یادگاروں کی جیو ٹیگنگ کی گئی

اسی طرح جومنصوبے زیرتکیمل ہیں ان میں ملتان میں شاہ حسین صدو زئی کے مزار کی تحفظ اور بحالی کا منصوبہ (لاگت 8.338 ملین)، اُچ شریف ضلع بہاولپور میں مقبرہ ابو حنیفہ کے تحفظ ،بحالی (لاگت 7.987 ملین)، نادرہ بیگم کے مقبرے کا تحفظ اور بحالی (لاگت 10.238 ملین)، باغبانی کی تزئین و آرائش، آثار قدیمہ کی یادگاروں کے باغیچوں کی ترقی، لاہور (شالامار باغ ، مقبرہ جہانگیر) وغیرہ (لاگت 210.218 ملین)، لوسر باؤلی،واہ کینٹ ضلع راولپنڈی کے تحفظ اور بحالی لاگت 21.00 ملین روپے، یونیسکوکی سفارشات پرعمل درآمد شالامارباغ کی آرائش وتزئین پی سی ٹو، ملتان میں واقع مزارشاہ علی اکبر کی بحالی اورتحفظ لاگت تقریبا 30 ملین روپے، رحیم یارخان میں چٹی مسجد کی بحالی اورتحفظ لاگت تقریبا29 ملین روپے، پنجاب کےتاریخی مقامات پر یادگاروں پر چراغاں کرنے کےلئے 79.199 ملین روپے رکھے گئے ہیں.



آغا خان کلچرسروس پاکستان اور والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی کی شراکت سے شاہ برج کمپلیکس کی بحالی کا کام 2017 میں شروع ہوا تھا اور 2021 میں مکمل ہوا۔اس کی ڈیجیٹل ڈاکومنٹیشن پر 41 ملین روپے لاگت آئی۔اور شاہ برج کمپلیکس کی بحالی پر 147 ملین روپے لاگت آئی جس کو رائل نارویجین سفارتخانے نے سپورٹ کیا۔اس کام میں پکچر وال کی بحالی کا کام 2019 میں مکمل ہواتھااور اب پکچر وال کی شمالی جانب کام جاری ہے۔اسی طرح شاہ برج دروازے کی بحالی کا کام مکمل ہو چکا ہے۔ یہ قلعہ کا داخلی دروازہ ہے۔ نولکھا پویلین خستہ حالی کا شکار تھا۔جس پر بحالی کا کام ماہ جون2021 میں مکمل ہو گیا ہے۔ شیش محل کی چھتوں اور اس کے کمروں کا کام بھی مکمل ہو گیا ہے، یہ چھت خستہ حالی کا شکار تھی ان میں بارش کے پانی کا رساؤ جاری تھا جس سے پوری عمارت کو خطرہ تھا۔آغا خان کلچر سروس پاکستان نے چھتوں اور کمروں کو بحال کیا ہے۔اور اس میں مکمل واٹر پروفنگ کی ہے۔اس منصوبے میں لاہور شاہی قلعہ کے بارشی پانی کے نکاس اور نکاس آب کو بھی درست کیا گیا ہے۔ اور یہ دسمبر 2020 میں مکمل ہو گیا تھا۔ یہ ڈرینج سسٹم شاہ برج کمپلیکس کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔

مریم زمانی مسجد منصوبے کی بحالی پر 12ملین روپے کی لاگت آئے گی۔ کیتھڈرل چرچ منصوبے کی بحالی پر 30 ملین روپے کی لاگت آئے گی۔ سینٹ انتھونی چرچ منصوبے کی بحالی پر 22 ملین روپے کی لاگت آئے گی، میر چاکر رند کے مزار جو ست گڑہ کے مقام پر( اوکاڑہ) واقع ہے۔ اس منصوبے کی بحالی پر 114 ملین روپے کی لاگت آئے گی۔ ڈی سی آفس سرگودھا کی بحالی اور مرمت کا کام جاری ہے۔ اس منصوبے کی بحالی پر 129.23 ملین روپے کی لاگت آئے گی اور مشہور لال قلعہ مظفر آباد آزاد کشمیر کے تحفظ و بحالی کے منصوبے کا آغاز کیا۔ اس منصوبے کی بحالی پر 124ملین روپے کی لاگت آئے گی۔ والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی نے کامیابی کے ساتھ سندیمان قلعہ ژوب (بلوچستان) اور علی مردان کی حویلی (پشاور) کے تحفظ و بحالی کا منصوبہ مکمل کیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں