انتخابی اصلاحات
انتخابی اصلاحات کے حوالے سے وزیراعظم کا اپوزیشن کو مذاکرات کی دعوت دینا، ایک صائب عمل ہے اور یہی جمہوریت کا حسن ہے۔
اپوزیشن کو انتخابی اصلاحات کے لیے مذاکرات کی دعوت دیتے ہیں، انتخابی اصلاحات حکومت یا اپوزیشن کی نہیں ، جمہوریت کے مستقبل کی بات ہے ، انتخابی دھاندلی روکنے کا طریقہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین ہے ۔ ان خیالات کا اظہار وزیراعظم عمران نے گزشتہ روز قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
انتخابی اصلاحات کے حوالے سے وزیراعظم کا اپوزیشن کو مذاکرات کی دعوت دینا، ایک صائب عمل ہے اور یہی جمہوریت کا حسن ہے کہ جہاں مخالف سیاسی جماعتوں کی رائے کو بھی سناجاتا ہے ، بحث ومباحثے کی بنیاد پر پائیدار اور مثبت حل تلاش کیا جاتا ہے جو جمہوری عمل کو رواں ، دواں رکھنے کے لیے انتہائی ضروری ہے ۔تقریبا تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابات کی شفافیت کے حوالے سے بہت سے تحفظات رہے ہیں اور کم و بیش ہر الیکشن ہارنے والی جماعت یہ شکایت کرتی رہی ہے کہ مذکورہ الیکشن شفاف نہیں تھے بلکہ دھاندلی زدہ تھے۔
اس حوالے سے یہ بات بھی خاصی اہم ہے کہ وطن عزیز میںپہلے انتخابات دسمبر1970میں منعقد ہوئے تھے اور بالعموم اس امر پر اتفاق رائے پایا جا تا ہے کہ یہ الیکشن پاکستان کی انتخابی تاریخ کے شفاف ترین الیکشن تھے۔یہ ایک الگ امر ہے کہ اسی انتخاب کے نتائج نہ تسلیم کرنے کے نتیجے میں پاکستان دو لخت ہوا تھا۔ایک بڑے حلقے کی رائے میں اگر 1970کے انتخابی نتائج مان لیے جاتے تو شاید پاکستان دو لخت نہ ہوتا۔
بہرحال اس وقت صورتحال انتہائی دلچسپ ہے کہ وزیراعظم عمران خان اور ان کی جماعت انتخابی اصلاحات کے حوالے سے جو ذہن بنا چکے ہیں، وہ اسے ہی درست سمجھتے ہیں اور بظاہر وہ اپوزیشن کو مذاکرات کی دعوت بھی دیتے ہیں لیکن اس ضمن میں کوئی مثبت پیش رفت تاحال سامنے نہیں آسکی ہے ، کیونکہ اپوزیشن ان کی رائے اور اقدامات سے قطعی طور پر متفق نظر نہیں آرہی ہے ۔
حکومت نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو انتخابی دھاندلی کے سدباب اور نئے طریقہ کار کے تحت انتخابات کے لیے پیش کیا تھا، مگر اپوزیشن جماعتوں نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ دنیا بھر میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین ناکام ہو چکی ہے۔
دوسری جانب الیکشن کمیشن آف پاکستان نے بھی اس حوالے سے کسی حد تک اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔الیکشن کمیشن آف پاکستان نے انتخابات سے متعلق قانون الیکشنزایکٹ 2017 میں حال ہی میں قومی اسمبلی سے منظور ہونے والے بعض آئینی ترامیم پر تنقید کرتے ہوئے انھیں ملکی آئین سے متصادم قرار دے دیا ہے۔ جن میں سرفہرست انتخابی فہرستوں کی تیاری اور ان پر نظرثانی کے اختیارات ہیں۔حالیہ دنوں میں قومی اسمبلی میں منظور ہونے والے بل کو وفاقی حکومت کی ملک کے انتخابی نظام میں وسیع پیمانے پر اصلاحات کی یکطرفہ کوشش قرار دیا جارہا ہے، جب کہ اپوزیشن نے اس بل کو قانون سازی بلڈوز کرنا قرار دیا تھا۔
یہاں پہلا سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال شفاف انتخابات کی ضمانت ہے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے مختلف آراء کو سامنے رکھا جائے جیسا کہ اس بارے میں مسلم لیگ نواز کا کہنا ہے ''پاکستان میں شرح خواندگی تسلی بخش نہیں اور جس ملک کی اکثریت کو بذریعہ اے ٹی ایم پیسے نکلوانے نہ آتے ہوں وہاں ووٹنگ مشین کا درست استعمال کیسے ممکن ہو پائے گا؟'' دوسرا نکتہ یہ ہے کہ جن ممالک میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا استعمال کیا جاتا ہے وہاں بھی یہ خاطرخواہ کامیاب ثابت نہیں ہوا اور اِس کی شفافیت پر شکوک و شہبات کا اظہار کیا جاتا ہے۔
مثال موجود ہے کہ دوہزاراٹھارہ کے عام انتخابات میں 'آر ٹی ایس سسٹم' کا تجربہ کیا گیا جو اس وقت خراب ہو گیا، جب نتائج کا اعلان ہونا تھا اور اگر آیندہ عام انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں استعمال ہوئیں، اور اس وقت کوئی خرابی پیدا ہوئی تو معاملہ پھر دھاندلی دھاندلی کے الزامات پر ختم ہوگا۔ پیپلز پارٹی کا مؤقف ہے کہ الیکشن اصلاحات کے نام سے متنازعہ قانون سازی 'ملک کے بااثر اداروں' کو جمہوری اداروں میں مداخلت کے زیادہ مواقعے فراہم کرتی ہے۔
الیکشن ایکٹ 2017 میں جس جلد بازی میں ترامیم متعارف کروائی ہیں اس سے یہی لگ رہا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔'' تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ ''حکومت حزب مخالف کی جماعتوں کے ساتھ الیکشن اصلاحات سمیت تمام اہم امور پر بات چیت کے لیے آمادہ ہے۔
جہاں تک الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے رائے دہی اور رائے شماری کا تعلق ہے تو یہ شفاف ترین اور موثر طریقہ ہے اور عوام کا بھی اِس نظام پر دیگر طریقوں کے مقابلے زیادہ اعتبار ہے '' الیکشن اصلاحات کے مجوزہ بل میں ایک شق بیرون ممالک مقیم پاکستانیوں کو حق رائے دہی دینا ہے۔ اِس بارے میں مسلم لیگ نواز کا کہنا ہے کہ '' ترمیمی قانون میں یہ نہیں بتایا گیا کہ بیرون ممالک میں مقیم پاکستانیوں کے ووٹ کی تصدیق کا عمل کیسے مکمل ہو گا؟
حکومت کو یہ واضح کرنا ہوگا کہ اگر بیرون ممالک میں مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینا ہے تو پھر انتخابات میں حصہ لینے کا حق بھی ان کے پاس ہوگا' تو ایسے حالات میں کیا قومی اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ کیا جائے گا اور کیا دوبارہ حلقہ بندیاں کی جائیں گی؟ تحریک انصاف کا مؤقف ہے کہ ''اگر ہم ملکی ترقی میں دیار غیر میں کام کرنے والے پاکستانیوں کے کردار کو تسلیم کرتے ہیں تو پھر اُن کو ووٹ کا حق دینے اور عام انتخابات میں حصہ لینے سے بھی نہیں روکنا چاہیے۔''
انتخابی اصلاحات کے حوالے سے تیسری اہم بات یہ ہے کہ الیکشن ایکٹ 2017 میں متعدد ترامیم کے ذریعے انتخابی فہرستوں کی تیاری اور اندراج کی ذمے داری شہریوں کی شناخت کے اعداد و شمار مرتب کرنے والے ادارے نادرا (نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی) کے حوالے کی گئی ہے، جب کہ اس ضمن میں ای سی پی کا اعتراض سامنے آیا ہے کہ انتخابی فہرستوں کی تیاری اور نظرثانی کے اختیارات آئین کے آرٹیکل 219 کے تحت الیکشن کمیشن کے بنیادی فرائض میں شامل ہے۔
آئین کے آرٹیکل 222 کے تحت ان اختیارات کو کم یا ختم نہیں کیا جا سکتا، ان تمام نکات کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ا لیکشن اصلاحات کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ حکومت ایسی قانون سازی کرے جس پر اعتراضات اٹھیںبلکہ یہ معاملہ دیگر سیاسی جماعتوں اور جمہوری روایت کو سامنے رکھتے ہوئے حل کیا جانا چاہیے۔
اگرہم پاکستان میں انتخابی اصلاحات کے خواہاں ہیں تو ضرورت اس امرکی ہے کہ حقیقی معنوں میں انتخابی عمل اور اس کی ساکھ کو بحال کیاجائے ، سوال یہ ہے کہ ایساکیونکر ممکن ہے ؟ جواب بھی سادہ ہے کہ بھارت میں اس بابت ہونے والی انتخابی اصلاحات کو بھی پیش نظر رکھا جائے کیوں کہ وہاں بھی انتخابی اصلاحات کے حوالے سے گزشتہ برسوں میں خاصاکام ہوا ہے اور اس ضمن میں بھارت کے ایک سابقہ چیف الیکشن کمشنر 'ٹی این سیشن' کا کردار انتہائی نمایاں رہا ہے۔
سیشن نے جو اصلاحات نافذ کیں ان میں انتخابی ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد، تمام اہل ووٹرز کے لیے ووٹر آئی ڈی، انتخابی امیدواروں کے اخراجات کی ایک حد، انتخابات کا سامنا کرنے والی ریاستوں کے علاوہ دیگر صوبوں سے انتخابی عہدیداروں کی تقرری شامل ہیں۔ علاوہ ازیں موصوف نے ووٹرز کو رشوت دینے یا دھمکانے، انتخابی مہم کے لیے سرکاری فنڈز اور مشینری کا استعمال، ووٹروں کی ذات یا فرقہ وارانہ جذبات کی اپیل جیسے متعدد بدعنوانیوں پر موثرطور پر پابندی عائد کی۔1999کے ہندوستانی عام انتخابات کے دوران، ان کی اصلاحات کی وجہ سے، 1488 امیدواروں کو اپنے اخراجات کے حسابات پیش کرنے میں ناکام ہونے پر تین سال کے لیے نااہل کردیا گیا تھا۔
انتخابی اصلاحات کے عملی نفاذ کے لیے ضروری ہے کہ بھارت کی طرح پاکستان کے الیکشن کمیشن کو مکمل طور پر آزاد اور خود مختار بنایا جائے ، الیکشن کمیشن کو مکمل انتظامی اختیارات دیے جائیں، جیسا کہ بھارت میںہوتا ہے ۔مثال کے طور پر جیسے ہی حکومت اپنی مدت پورے کرے ، اس کے تمام انتظامی اختیارات آئین کے تحت الیکشن کمیشن کو منتقل ہوجائیں ، الیکشن کمیشن کی سربراہی حاضر سروس بائیس گریڈ کے ڈی ایم جی آفیسر کو دیے جائیں ، اس طرح اپنی آئینی مدت پوری کرنے والی حکومت کے پاس انتخابی افسران اور عملے کی تعیناتی کے اختیارات ختم ہوجائیں گے، کیونکہ سارے انتظامی اختیارات، الیکشن کمشنر کو آئین کے تحت منتقل ہوجائیں گے۔
یوں ہر الیکشن کے موقعے پر نگران وزیراعظم کے نام پر متفق نہ ہونے کا جھگڑا بھی ختم ہوجائے گا ،چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کے لیے مشورہ کرنے کے لیے حکومت اور اپوزیشن کے متعدد اجلاسوں کی ضرورت بھی باقی نہیں رہے گی، مزید برآں الیکشن کمیشن کو عدالتی اختیارات بھی دیے جائیں، جو انتخابی قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے کو فوری سزا بھی سنا سکے ، ملک میں عام اور شفاف انتخابات الیکٹرانگ ووٹنگ مشین نہیں کرا سکتی بلکہ اس کے لیے لازمی ہے کہ عام انتخابات، الیکشن کمیشن کو وسیع اختیارات دے کر منعقد کرائے جائیں تاکہ انتخابی اصلاحات اور شفاف انتخابات کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکے۔
انتخابی اصلاحات کے حوالے سے وزیراعظم کا اپوزیشن کو مذاکرات کی دعوت دینا، ایک صائب عمل ہے اور یہی جمہوریت کا حسن ہے کہ جہاں مخالف سیاسی جماعتوں کی رائے کو بھی سناجاتا ہے ، بحث ومباحثے کی بنیاد پر پائیدار اور مثبت حل تلاش کیا جاتا ہے جو جمہوری عمل کو رواں ، دواں رکھنے کے لیے انتہائی ضروری ہے ۔تقریبا تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابات کی شفافیت کے حوالے سے بہت سے تحفظات رہے ہیں اور کم و بیش ہر الیکشن ہارنے والی جماعت یہ شکایت کرتی رہی ہے کہ مذکورہ الیکشن شفاف نہیں تھے بلکہ دھاندلی زدہ تھے۔
اس حوالے سے یہ بات بھی خاصی اہم ہے کہ وطن عزیز میںپہلے انتخابات دسمبر1970میں منعقد ہوئے تھے اور بالعموم اس امر پر اتفاق رائے پایا جا تا ہے کہ یہ الیکشن پاکستان کی انتخابی تاریخ کے شفاف ترین الیکشن تھے۔یہ ایک الگ امر ہے کہ اسی انتخاب کے نتائج نہ تسلیم کرنے کے نتیجے میں پاکستان دو لخت ہوا تھا۔ایک بڑے حلقے کی رائے میں اگر 1970کے انتخابی نتائج مان لیے جاتے تو شاید پاکستان دو لخت نہ ہوتا۔
بہرحال اس وقت صورتحال انتہائی دلچسپ ہے کہ وزیراعظم عمران خان اور ان کی جماعت انتخابی اصلاحات کے حوالے سے جو ذہن بنا چکے ہیں، وہ اسے ہی درست سمجھتے ہیں اور بظاہر وہ اپوزیشن کو مذاکرات کی دعوت بھی دیتے ہیں لیکن اس ضمن میں کوئی مثبت پیش رفت تاحال سامنے نہیں آسکی ہے ، کیونکہ اپوزیشن ان کی رائے اور اقدامات سے قطعی طور پر متفق نظر نہیں آرہی ہے ۔
حکومت نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو انتخابی دھاندلی کے سدباب اور نئے طریقہ کار کے تحت انتخابات کے لیے پیش کیا تھا، مگر اپوزیشن جماعتوں نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ دنیا بھر میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین ناکام ہو چکی ہے۔
دوسری جانب الیکشن کمیشن آف پاکستان نے بھی اس حوالے سے کسی حد تک اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔الیکشن کمیشن آف پاکستان نے انتخابات سے متعلق قانون الیکشنزایکٹ 2017 میں حال ہی میں قومی اسمبلی سے منظور ہونے والے بعض آئینی ترامیم پر تنقید کرتے ہوئے انھیں ملکی آئین سے متصادم قرار دے دیا ہے۔ جن میں سرفہرست انتخابی فہرستوں کی تیاری اور ان پر نظرثانی کے اختیارات ہیں۔حالیہ دنوں میں قومی اسمبلی میں منظور ہونے والے بل کو وفاقی حکومت کی ملک کے انتخابی نظام میں وسیع پیمانے پر اصلاحات کی یکطرفہ کوشش قرار دیا جارہا ہے، جب کہ اپوزیشن نے اس بل کو قانون سازی بلڈوز کرنا قرار دیا تھا۔
یہاں پہلا سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال شفاف انتخابات کی ضمانت ہے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے مختلف آراء کو سامنے رکھا جائے جیسا کہ اس بارے میں مسلم لیگ نواز کا کہنا ہے ''پاکستان میں شرح خواندگی تسلی بخش نہیں اور جس ملک کی اکثریت کو بذریعہ اے ٹی ایم پیسے نکلوانے نہ آتے ہوں وہاں ووٹنگ مشین کا درست استعمال کیسے ممکن ہو پائے گا؟'' دوسرا نکتہ یہ ہے کہ جن ممالک میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا استعمال کیا جاتا ہے وہاں بھی یہ خاطرخواہ کامیاب ثابت نہیں ہوا اور اِس کی شفافیت پر شکوک و شہبات کا اظہار کیا جاتا ہے۔
مثال موجود ہے کہ دوہزاراٹھارہ کے عام انتخابات میں 'آر ٹی ایس سسٹم' کا تجربہ کیا گیا جو اس وقت خراب ہو گیا، جب نتائج کا اعلان ہونا تھا اور اگر آیندہ عام انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں استعمال ہوئیں، اور اس وقت کوئی خرابی پیدا ہوئی تو معاملہ پھر دھاندلی دھاندلی کے الزامات پر ختم ہوگا۔ پیپلز پارٹی کا مؤقف ہے کہ الیکشن اصلاحات کے نام سے متنازعہ قانون سازی 'ملک کے بااثر اداروں' کو جمہوری اداروں میں مداخلت کے زیادہ مواقعے فراہم کرتی ہے۔
الیکشن ایکٹ 2017 میں جس جلد بازی میں ترامیم متعارف کروائی ہیں اس سے یہی لگ رہا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔'' تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ ''حکومت حزب مخالف کی جماعتوں کے ساتھ الیکشن اصلاحات سمیت تمام اہم امور پر بات چیت کے لیے آمادہ ہے۔
جہاں تک الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے رائے دہی اور رائے شماری کا تعلق ہے تو یہ شفاف ترین اور موثر طریقہ ہے اور عوام کا بھی اِس نظام پر دیگر طریقوں کے مقابلے زیادہ اعتبار ہے '' الیکشن اصلاحات کے مجوزہ بل میں ایک شق بیرون ممالک مقیم پاکستانیوں کو حق رائے دہی دینا ہے۔ اِس بارے میں مسلم لیگ نواز کا کہنا ہے کہ '' ترمیمی قانون میں یہ نہیں بتایا گیا کہ بیرون ممالک میں مقیم پاکستانیوں کے ووٹ کی تصدیق کا عمل کیسے مکمل ہو گا؟
حکومت کو یہ واضح کرنا ہوگا کہ اگر بیرون ممالک میں مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینا ہے تو پھر انتخابات میں حصہ لینے کا حق بھی ان کے پاس ہوگا' تو ایسے حالات میں کیا قومی اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ کیا جائے گا اور کیا دوبارہ حلقہ بندیاں کی جائیں گی؟ تحریک انصاف کا مؤقف ہے کہ ''اگر ہم ملکی ترقی میں دیار غیر میں کام کرنے والے پاکستانیوں کے کردار کو تسلیم کرتے ہیں تو پھر اُن کو ووٹ کا حق دینے اور عام انتخابات میں حصہ لینے سے بھی نہیں روکنا چاہیے۔''
انتخابی اصلاحات کے حوالے سے تیسری اہم بات یہ ہے کہ الیکشن ایکٹ 2017 میں متعدد ترامیم کے ذریعے انتخابی فہرستوں کی تیاری اور اندراج کی ذمے داری شہریوں کی شناخت کے اعداد و شمار مرتب کرنے والے ادارے نادرا (نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی) کے حوالے کی گئی ہے، جب کہ اس ضمن میں ای سی پی کا اعتراض سامنے آیا ہے کہ انتخابی فہرستوں کی تیاری اور نظرثانی کے اختیارات آئین کے آرٹیکل 219 کے تحت الیکشن کمیشن کے بنیادی فرائض میں شامل ہے۔
آئین کے آرٹیکل 222 کے تحت ان اختیارات کو کم یا ختم نہیں کیا جا سکتا، ان تمام نکات کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ا لیکشن اصلاحات کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ حکومت ایسی قانون سازی کرے جس پر اعتراضات اٹھیںبلکہ یہ معاملہ دیگر سیاسی جماعتوں اور جمہوری روایت کو سامنے رکھتے ہوئے حل کیا جانا چاہیے۔
اگرہم پاکستان میں انتخابی اصلاحات کے خواہاں ہیں تو ضرورت اس امرکی ہے کہ حقیقی معنوں میں انتخابی عمل اور اس کی ساکھ کو بحال کیاجائے ، سوال یہ ہے کہ ایساکیونکر ممکن ہے ؟ جواب بھی سادہ ہے کہ بھارت میں اس بابت ہونے والی انتخابی اصلاحات کو بھی پیش نظر رکھا جائے کیوں کہ وہاں بھی انتخابی اصلاحات کے حوالے سے گزشتہ برسوں میں خاصاکام ہوا ہے اور اس ضمن میں بھارت کے ایک سابقہ چیف الیکشن کمشنر 'ٹی این سیشن' کا کردار انتہائی نمایاں رہا ہے۔
سیشن نے جو اصلاحات نافذ کیں ان میں انتخابی ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد، تمام اہل ووٹرز کے لیے ووٹر آئی ڈی، انتخابی امیدواروں کے اخراجات کی ایک حد، انتخابات کا سامنا کرنے والی ریاستوں کے علاوہ دیگر صوبوں سے انتخابی عہدیداروں کی تقرری شامل ہیں۔ علاوہ ازیں موصوف نے ووٹرز کو رشوت دینے یا دھمکانے، انتخابی مہم کے لیے سرکاری فنڈز اور مشینری کا استعمال، ووٹروں کی ذات یا فرقہ وارانہ جذبات کی اپیل جیسے متعدد بدعنوانیوں پر موثرطور پر پابندی عائد کی۔1999کے ہندوستانی عام انتخابات کے دوران، ان کی اصلاحات کی وجہ سے، 1488 امیدواروں کو اپنے اخراجات کے حسابات پیش کرنے میں ناکام ہونے پر تین سال کے لیے نااہل کردیا گیا تھا۔
انتخابی اصلاحات کے عملی نفاذ کے لیے ضروری ہے کہ بھارت کی طرح پاکستان کے الیکشن کمیشن کو مکمل طور پر آزاد اور خود مختار بنایا جائے ، الیکشن کمیشن کو مکمل انتظامی اختیارات دیے جائیں، جیسا کہ بھارت میںہوتا ہے ۔مثال کے طور پر جیسے ہی حکومت اپنی مدت پورے کرے ، اس کے تمام انتظامی اختیارات آئین کے تحت الیکشن کمیشن کو منتقل ہوجائیں ، الیکشن کمیشن کی سربراہی حاضر سروس بائیس گریڈ کے ڈی ایم جی آفیسر کو دیے جائیں ، اس طرح اپنی آئینی مدت پوری کرنے والی حکومت کے پاس انتخابی افسران اور عملے کی تعیناتی کے اختیارات ختم ہوجائیں گے، کیونکہ سارے انتظامی اختیارات، الیکشن کمشنر کو آئین کے تحت منتقل ہوجائیں گے۔
یوں ہر الیکشن کے موقعے پر نگران وزیراعظم کے نام پر متفق نہ ہونے کا جھگڑا بھی ختم ہوجائے گا ،چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کے لیے مشورہ کرنے کے لیے حکومت اور اپوزیشن کے متعدد اجلاسوں کی ضرورت بھی باقی نہیں رہے گی، مزید برآں الیکشن کمیشن کو عدالتی اختیارات بھی دیے جائیں، جو انتخابی قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے کو فوری سزا بھی سنا سکے ، ملک میں عام اور شفاف انتخابات الیکٹرانگ ووٹنگ مشین نہیں کرا سکتی بلکہ اس کے لیے لازمی ہے کہ عام انتخابات، الیکشن کمیشن کو وسیع اختیارات دے کر منعقد کرائے جائیں تاکہ انتخابی اصلاحات اور شفاف انتخابات کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکے۔