آلودگی میں اضافہ
سب سے زیادہ آلودگی ہوائی جہاز کے ایندھن پھیلاتے ہیں۔
شاید آپ یہ سمجھتے ہوں گے کہ کوئلہ ، صنعت، زراعت ، پلاسٹک ، آبی کچرے اور غذائی ملاوٹ سب سے زیادہ ماحول کو آلودہ کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ عوامل ماحول کو ضرور آلودہ کرتے ہیں۔ لیکن سب سے زیادہ آلودگی ہوائی جہاز کے ایندھن پھیلاتے ہیں۔ ایک تو فضا میں سب سے بلندی پر ہوائی جہاز اڑان کرتے ہیں اوربلند ترین ماحول کو آلودہ کرتے ہیں۔
اس سے اوزون کی پرتیں کمزور پڑ جاتی ہیں اور اوزون کے سوراخ میں اضافہ ہونے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ مگر دنیا میں ایسے علاقے بھی ہیں جہاں فضا میں کاربن نہیں ہے اور وہ بھوٹان۔ جنوبی امریکی ملک '' کوسٹاریکا '' میں ڈیزل اور پیٹرول کا استعمال ممنوع ہے۔ وہ شمسی اور ہوا کی توانائی سے کارہائے زندگی کو رواں رکھتے ہیں۔ کوئلہ سے آلودگی سب سے زیادہ چین پھیلاتا ہے اور صنعتی آلودگی امریکا ان سے بھی زیادہ ساری دنیا میں پلاسٹک کی آلودگی ہے جوکہ حل نہیں ہوتا۔ ڈیزل سے دنیا میں کتنی ماحول کی تباہی ہوتی ہے، صرف ایک ہی مثال کافی ہے۔
ممبئی میں روزانہ 17,000 ٹرینوں کی آمد و رفت ہوتی ہے۔ ان ساری وجوہات سے دنیا کی حرارت بڑھتی جا رہی ہے۔ انٹارکٹیکا اور آرٹیک کے برف کے پہاڑ پگھلنے شروع ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے سطح سمندر کا پانی اوپر آ رہا ہے۔ جتنی سائنسی اور تکنیکی ترقی ہوتی جا رہی ہے۔ آلودگی میں اتنا ہی زیادہ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
1906 میں معروف روسی دانشور اور روس میں کمیون نظام رائج کرنے کے خالق لیوٹالسٹائی نے کہا تھا کہ ''دنیا کی سائنسی اور تکنیکی ترقی کو روکے بغیر انسانوں کو برابری پر نہیں لایا جاسکتا ہے۔'' حال ہی میں دنیا بھر میں کورونا وائرس میں لاکھوں انسان جاں بحق ہوئے اور کروڑوں متاثر ہوئے، لیکن دنیا کے دس بڑے جنگلات میں بسنے والے قدیم انسانوں میں سے ایک بھی کورونا وائرس سے متاثر نہیں ہوا۔ نیشنل جیوگرافی کی ایک تحقیقی سروے میں جنگلات میں بسنے والے ساڑھے چارکروڑ انسانوں میں سے 100 لوگوں کا خون ٹیسٹ کیا گیا لیکن کسی کے خون میں کوئی مہلک بیماری نہیں پائی گئی۔
معدنیات کی تلاش اور اسے انسان اپنے کام میں لانے کے لیے جن عوامل سے گزرتا ہے اس سے ماحولیات صرف تباہی کی جانب نہیں جاتا بلکہ بیماریوں کے جمگھٹے میں پھنس جاتا ہے۔ دنیا بھر میں جہاں سے سونا نکالا، چھانا اور صاف کیا جاتا ہے وہاں صحت کو تباہ کرنیوالی بیماری پھیلتی ہے۔ سونے کو صاف کرنے کے لیے سائی نائیڈ اور مرکری کو استعمال میں لایا جاتا ہے ، جو دونوں زہر ہیں۔ یہ پارہ اور سائی نائیڈ پانی میں گھل کر مچھلیوں کے پیٹ میں جاتا ہے پھر جب انسان ان مچھلیوں کو کھاتا ہے تو وہ خطرناک بیماریوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
جہاں سے ایندھن کا تیل نکالا جاتا ہے وہاں کی آلودگی سے 8 اقسام کی بیماریاں پھیلتی ہیں۔ جس میں سانس، خون میں ملاوٹ بھی شامل ہیں۔ جنوبی امریکی ملک بولیویا میں جب ایک ملٹی نیشنل کمپنی نے سڑک کی تعمیر کرائی جس میں وہ سونا نکالنے کے لیے اپنی منزل تک پہنچ پائیں ، اس کے بعد وہاں کی مقامی آبادی چیچک کی بیماری میں مبتلا ہوگئی، جب کہ اس سے قبل یہاں کبھی بھی چیچک کا نام بھی لوگوں نے نہیں سنا تھا۔ بیشتر کانوں میں دھماکے کیے جاتے ہیں ، اس سے علاقے میں تابکاری، خارش اور سانس کی بیماری اور پھیپھڑوں میں پانی جمع ہو جاتا ہے۔
ابھی کورونا وائرس کو دیکھ لیں، ساری اموات شہروں میں ہوئی ہیں۔ گاؤں میں کوئی نہیں مرا۔ گاؤں میں ہوائی جہاز، ریل گاڑی، کاریں، فیکٹریاں، ملیں، کارخانے نہیں ہیں، وہاں کے انسان ان سہولتوں سے محروم تو ضرور ہیں لیکن مہلک بیماریوں اور آلودہ ماحولیات سے محفوظ ہیں۔ آلودگی کے خاتمے کے لیے سائنسی اور تکنیکی ترقی کو روکنا ہوگا اور دنیا کو جنگل میں تبدیل کرنا ہوگا۔
جنوبی امریکا کے انتہائی مغرب میں ''سوری نام'' نام کا ایک ملک ہے جہاں کی 30 فیصد آبادی انڈین ہے، یہاں جنگلات 97 فیصد ہے۔ مگر سونے کی تلاش اور کان کنی کی وجہ سے لوگ مختلف مہلک بیماریوں میں پڑ کر اس جنت نظیر ملک کو جہنم میں تبدیل کردیا ہے۔ اب یہاں 70 فیصد لوگ غربت کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ کا فیصلہ ہے کہ کسی بھی ملک کے کل رقبے کا کم ازکم 25 فیصد جنگلات ہونے چاہئیں۔ یورپ اور جنوبی امریکا کے ممالک میں 30 سے 97 فیصد تک جنگلات ہیں۔
ہندوستان میں 20 فیصد، بنگلہ دیش میں 16 فیصد جب کہ پاکستان میں 2.5 فیصد۔ ماحولیات کی بہتری کی دو مثالیں اور ہیں۔ ایک کیوبا اور دوسرا ہندوستان کا صوبہ میزورام ، جہاں کیمیکل کھاد استعمال نہیں ہوتی ، دیسی کھاد استعمال ہوتی ہے۔ جس کے نتیجے میں یہاں کینسر، ہیپاٹائٹس، ایڈز اور دیگر مہلک بیماریاں ناپید ہیں۔ پاکستان کے لیے کہا جاتا ہے کہ بنجر زمین میں درخت کہاں لگے گا۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ ایسے درخت پاکستان میں بغیر پانی کے اگتے اور بڑھتے ہیں جو اور کہیں نہیں ہوتے۔ مثال کے طور پر کیکر اور نیم وغیرہ۔ کراچی سے حیدرآباد تک اور بلدیہ ٹاؤن سے کوئٹہ تک کیکر، نیم، ناریل، ارنڈ، گھیکوار، سوجنا، پام آئل اور زیتون کے درخت لگائے جاسکتے ہیں۔
ہندوستان ارنڈ کا تیل، گھیکوارکی ادویات اور سوجنا کے سفوف برآمد کرکے اربوں روپے کماتا ہے، مگر ہمارے ہاں تو ستم ظریفی کی حد ہے کہ کیکر کی جھاڑیوں کو کاٹا جاتا ہے۔ برسات سے قبل ایسے بہت سے درخت کے بیج جنھیں ہم ہیلی کاپٹرز سے چھڑکاؤ کرکے ملک کو جنگل میں بدل سکتے ہیں۔ یہاں قدرتی طور پر پنجاب میں بھنگ کی جھاڑیاں جا بجا نظر آتی ہیں، ہم اگر انھیں باقاعدہ کاشت کریں اور دوا کے طور پر برآمد کریں تو آکسیجن میں اضافہ بھی ہوگا اور آمدن بھی ہوگی۔ ہر ایک انسان کے لیے 7 درختوں کی ضرورت پڑتی ہے۔
اگر کراچی میں 2 کروڑ لوگ رہتے ہیں تو 14 کروڑ درختوں کی ضرورت پڑے گی۔ ایک سائنسی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ نیم کا درخت سب سے زیادہ آکسیجن چھوڑتا ہے اور ناریل کا درخت فضائی آلودگی کو جذب کرتا ہے۔ پاکستان میں سب سے تندرست درخت نیم کے ہوتے ہیں، پانی کی بھی ضرورت نہیں پڑتی۔ ساحل سمندر کراچی سے بلوچستان تک لاکھوں کروڑوں ناریل کے درخت لگائے جاسکتے ہیں۔
اس سے آمدنی میں اضافہ ہوگا اور ماحول بھی بہتر ہوگا۔ اس وقت سری لنکا کی آمدنی میں ناریل کا تیل ایک اہم عنصر ہے۔ اسی طرح ہم بھی ناریل کے تیل کو برآمد کرسکتے ہیں ، مگر ہمارا نظام چونکہ سرمایہ دارانہ ہے یہاں جو کچھ کیا جاتا ہے منافع خوری کے لیے نہ کہ عوام کی بھلائی کے لیے۔ اس لیے ضروری ہے کہ پاکستان میں رائج جاگیردارانہ نظام کو ختم کرکے زمین بے زمین کسانوں میں بانٹ دی جائے، جنگلات اور زراعت سے بھر دیا جائے۔ پھر یہاں ہریالی جھوم اٹھے گی۔ بیماریاں ختم ہونے لگیں گی، بھوک، افلاس اور غذائی قلت کا خاتمہ ہو جائے گا۔ یہ تب ممکن ہے جب غیر طبقاتی نظام قائم کرکے ریاست کی عملداری کی جگہ عوام کی رضاکارانہ عمل داری کو قائم کیا جائے ۔
اس سے اوزون کی پرتیں کمزور پڑ جاتی ہیں اور اوزون کے سوراخ میں اضافہ ہونے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ مگر دنیا میں ایسے علاقے بھی ہیں جہاں فضا میں کاربن نہیں ہے اور وہ بھوٹان۔ جنوبی امریکی ملک '' کوسٹاریکا '' میں ڈیزل اور پیٹرول کا استعمال ممنوع ہے۔ وہ شمسی اور ہوا کی توانائی سے کارہائے زندگی کو رواں رکھتے ہیں۔ کوئلہ سے آلودگی سب سے زیادہ چین پھیلاتا ہے اور صنعتی آلودگی امریکا ان سے بھی زیادہ ساری دنیا میں پلاسٹک کی آلودگی ہے جوکہ حل نہیں ہوتا۔ ڈیزل سے دنیا میں کتنی ماحول کی تباہی ہوتی ہے، صرف ایک ہی مثال کافی ہے۔
ممبئی میں روزانہ 17,000 ٹرینوں کی آمد و رفت ہوتی ہے۔ ان ساری وجوہات سے دنیا کی حرارت بڑھتی جا رہی ہے۔ انٹارکٹیکا اور آرٹیک کے برف کے پہاڑ پگھلنے شروع ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے سطح سمندر کا پانی اوپر آ رہا ہے۔ جتنی سائنسی اور تکنیکی ترقی ہوتی جا رہی ہے۔ آلودگی میں اتنا ہی زیادہ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
1906 میں معروف روسی دانشور اور روس میں کمیون نظام رائج کرنے کے خالق لیوٹالسٹائی نے کہا تھا کہ ''دنیا کی سائنسی اور تکنیکی ترقی کو روکے بغیر انسانوں کو برابری پر نہیں لایا جاسکتا ہے۔'' حال ہی میں دنیا بھر میں کورونا وائرس میں لاکھوں انسان جاں بحق ہوئے اور کروڑوں متاثر ہوئے، لیکن دنیا کے دس بڑے جنگلات میں بسنے والے قدیم انسانوں میں سے ایک بھی کورونا وائرس سے متاثر نہیں ہوا۔ نیشنل جیوگرافی کی ایک تحقیقی سروے میں جنگلات میں بسنے والے ساڑھے چارکروڑ انسانوں میں سے 100 لوگوں کا خون ٹیسٹ کیا گیا لیکن کسی کے خون میں کوئی مہلک بیماری نہیں پائی گئی۔
معدنیات کی تلاش اور اسے انسان اپنے کام میں لانے کے لیے جن عوامل سے گزرتا ہے اس سے ماحولیات صرف تباہی کی جانب نہیں جاتا بلکہ بیماریوں کے جمگھٹے میں پھنس جاتا ہے۔ دنیا بھر میں جہاں سے سونا نکالا، چھانا اور صاف کیا جاتا ہے وہاں صحت کو تباہ کرنیوالی بیماری پھیلتی ہے۔ سونے کو صاف کرنے کے لیے سائی نائیڈ اور مرکری کو استعمال میں لایا جاتا ہے ، جو دونوں زہر ہیں۔ یہ پارہ اور سائی نائیڈ پانی میں گھل کر مچھلیوں کے پیٹ میں جاتا ہے پھر جب انسان ان مچھلیوں کو کھاتا ہے تو وہ خطرناک بیماریوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
جہاں سے ایندھن کا تیل نکالا جاتا ہے وہاں کی آلودگی سے 8 اقسام کی بیماریاں پھیلتی ہیں۔ جس میں سانس، خون میں ملاوٹ بھی شامل ہیں۔ جنوبی امریکی ملک بولیویا میں جب ایک ملٹی نیشنل کمپنی نے سڑک کی تعمیر کرائی جس میں وہ سونا نکالنے کے لیے اپنی منزل تک پہنچ پائیں ، اس کے بعد وہاں کی مقامی آبادی چیچک کی بیماری میں مبتلا ہوگئی، جب کہ اس سے قبل یہاں کبھی بھی چیچک کا نام بھی لوگوں نے نہیں سنا تھا۔ بیشتر کانوں میں دھماکے کیے جاتے ہیں ، اس سے علاقے میں تابکاری، خارش اور سانس کی بیماری اور پھیپھڑوں میں پانی جمع ہو جاتا ہے۔
ابھی کورونا وائرس کو دیکھ لیں، ساری اموات شہروں میں ہوئی ہیں۔ گاؤں میں کوئی نہیں مرا۔ گاؤں میں ہوائی جہاز، ریل گاڑی، کاریں، فیکٹریاں، ملیں، کارخانے نہیں ہیں، وہاں کے انسان ان سہولتوں سے محروم تو ضرور ہیں لیکن مہلک بیماریوں اور آلودہ ماحولیات سے محفوظ ہیں۔ آلودگی کے خاتمے کے لیے سائنسی اور تکنیکی ترقی کو روکنا ہوگا اور دنیا کو جنگل میں تبدیل کرنا ہوگا۔
جنوبی امریکا کے انتہائی مغرب میں ''سوری نام'' نام کا ایک ملک ہے جہاں کی 30 فیصد آبادی انڈین ہے، یہاں جنگلات 97 فیصد ہے۔ مگر سونے کی تلاش اور کان کنی کی وجہ سے لوگ مختلف مہلک بیماریوں میں پڑ کر اس جنت نظیر ملک کو جہنم میں تبدیل کردیا ہے۔ اب یہاں 70 فیصد لوگ غربت کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ کا فیصلہ ہے کہ کسی بھی ملک کے کل رقبے کا کم ازکم 25 فیصد جنگلات ہونے چاہئیں۔ یورپ اور جنوبی امریکا کے ممالک میں 30 سے 97 فیصد تک جنگلات ہیں۔
ہندوستان میں 20 فیصد، بنگلہ دیش میں 16 فیصد جب کہ پاکستان میں 2.5 فیصد۔ ماحولیات کی بہتری کی دو مثالیں اور ہیں۔ ایک کیوبا اور دوسرا ہندوستان کا صوبہ میزورام ، جہاں کیمیکل کھاد استعمال نہیں ہوتی ، دیسی کھاد استعمال ہوتی ہے۔ جس کے نتیجے میں یہاں کینسر، ہیپاٹائٹس، ایڈز اور دیگر مہلک بیماریاں ناپید ہیں۔ پاکستان کے لیے کہا جاتا ہے کہ بنجر زمین میں درخت کہاں لگے گا۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ ایسے درخت پاکستان میں بغیر پانی کے اگتے اور بڑھتے ہیں جو اور کہیں نہیں ہوتے۔ مثال کے طور پر کیکر اور نیم وغیرہ۔ کراچی سے حیدرآباد تک اور بلدیہ ٹاؤن سے کوئٹہ تک کیکر، نیم، ناریل، ارنڈ، گھیکوار، سوجنا، پام آئل اور زیتون کے درخت لگائے جاسکتے ہیں۔
ہندوستان ارنڈ کا تیل، گھیکوارکی ادویات اور سوجنا کے سفوف برآمد کرکے اربوں روپے کماتا ہے، مگر ہمارے ہاں تو ستم ظریفی کی حد ہے کہ کیکر کی جھاڑیوں کو کاٹا جاتا ہے۔ برسات سے قبل ایسے بہت سے درخت کے بیج جنھیں ہم ہیلی کاپٹرز سے چھڑکاؤ کرکے ملک کو جنگل میں بدل سکتے ہیں۔ یہاں قدرتی طور پر پنجاب میں بھنگ کی جھاڑیاں جا بجا نظر آتی ہیں، ہم اگر انھیں باقاعدہ کاشت کریں اور دوا کے طور پر برآمد کریں تو آکسیجن میں اضافہ بھی ہوگا اور آمدن بھی ہوگی۔ ہر ایک انسان کے لیے 7 درختوں کی ضرورت پڑتی ہے۔
اگر کراچی میں 2 کروڑ لوگ رہتے ہیں تو 14 کروڑ درختوں کی ضرورت پڑے گی۔ ایک سائنسی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ نیم کا درخت سب سے زیادہ آکسیجن چھوڑتا ہے اور ناریل کا درخت فضائی آلودگی کو جذب کرتا ہے۔ پاکستان میں سب سے تندرست درخت نیم کے ہوتے ہیں، پانی کی بھی ضرورت نہیں پڑتی۔ ساحل سمندر کراچی سے بلوچستان تک لاکھوں کروڑوں ناریل کے درخت لگائے جاسکتے ہیں۔
اس سے آمدنی میں اضافہ ہوگا اور ماحول بھی بہتر ہوگا۔ اس وقت سری لنکا کی آمدنی میں ناریل کا تیل ایک اہم عنصر ہے۔ اسی طرح ہم بھی ناریل کے تیل کو برآمد کرسکتے ہیں ، مگر ہمارا نظام چونکہ سرمایہ دارانہ ہے یہاں جو کچھ کیا جاتا ہے منافع خوری کے لیے نہ کہ عوام کی بھلائی کے لیے۔ اس لیے ضروری ہے کہ پاکستان میں رائج جاگیردارانہ نظام کو ختم کرکے زمین بے زمین کسانوں میں بانٹ دی جائے، جنگلات اور زراعت سے بھر دیا جائے۔ پھر یہاں ہریالی جھوم اٹھے گی۔ بیماریاں ختم ہونے لگیں گی، بھوک، افلاس اور غذائی قلت کا خاتمہ ہو جائے گا۔ یہ تب ممکن ہے جب غیر طبقاتی نظام قائم کرکے ریاست کی عملداری کی جگہ عوام کی رضاکارانہ عمل داری کو قائم کیا جائے ۔