اردو زبان

زبان، آواز اور الفاظ کا مجموعہ ہے، زبان ہمارے احساسات و جذبات ، خیالات کو وضع کرنے کا ایک وسیلہ ہے۔


ایم قادر خان July 02, 2021

زبان، آواز اور الفاظ کا مجموعہ ہے، زبان ہمارے احساسات و جذبات ، خیالات کو وضع کرنے کا ایک وسیلہ ہے۔ الفاظ زبان کی ظاہری صورت ہیں، معنی اس کی باطنی الفاظ اور معنی میں باہمی ربط اور ہم آہنگی سے اسے ترسیل و ابلاغ میں کامیابی ملتی ہے۔

زبان ، زماں و مکاں کے اعتبار سے دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ ان کی صوتی، حرفی و نحفی بنیاد پر انھیں ماہرین لسانیات نے مختلف دو خاندانوں میں تقسیم کیا ہے ۔ اس ضمن میں تحقیق ہے کہ سامی، ہند چینی، دراوڑی، ہنڈا، افریقہ کے بانتو، مالیائی، ہندپوری بتایا گیا ہے۔

سامی خاندان میں سامی زبانیں آتی ہیں اس کی ایک شاخ عبرانی بھی ہے۔ دراوڑی ہندوستان کی اہم زبانوں کا سلسلہ ملتا ہے، یہ زبانیں جنوبی ہندوستان میں رائج ہیں۔ تامل، تلگو، انڑ اور ملیانا اسی کی مشہور شاخیں ہیں۔

اردو اور ہندی کا جس خاندان سے تعلق ہے وہ ہند پوری ہے ہندوستان آ کر یہ خاندان اپنے ارتقائی دور میں ہند سے فارس (ایران) گزر کر ہند نے آریائی شکل اختیار کی۔ ہندآریائی ، ہند آریائی وسطی، ہند آریائی اور جدید آریائی میں محققین تقسیم کرتے ہیں۔

ہند آریائی دورکو جس دور میں تقسیم کیا جاتا ہے، ہند آریائی وسطی، ہندی آریائی اور جدید ۔

1500 قبل از مسیح سے 500 قبل از مسیح ہند آریائی دور شمار کیا جاتا ہے۔ اس دور میں ہندی اور سنسکرت زبانوں کا دور رہا۔آریاؤں کے مقامی زبان کے لوگوں سے میل جول اور بولیوں سے متاثر ہوتی رہی۔ سنسکرت کے عالموں نے اس کی معیاری الفاظ لب و لہجے کو نئے سرے سے مرتب کرکے اسے سدھ اور پاک کیا۔

500 قبل از مسیح تا 1000 (سن ایک ہزار عیسوی) تک وسط آریائی دور ہے۔ جسے محققین ، مورخ اور ماہرین نے تین ادوار میں منقسم کیا ہے۔ قدیم آریائی، ہند آریائی، جدید آریائی دور 1500 قبل از مسیح سے 500 قبل مسیح تک اور وسط ریائی 500 قبل از مسیح سے 1000 (ایک ہزار عیسوی) تک کا زمانہ ہے۔

ماہر لسانیات نے وسط آریائی نسل کو تین ادوار میں منقسم کیا ہے۔

500 قبل از مسیح تا مولود حضرت عیسیٰؑ یعنی حضرت عیسیٰ کی پیدائش تک۔ اس سے پہلے دور میں جین مت اور بدھ مت کی تعلیمات رہیں۔

دوسرا دور مسیح کی پیدائش سے قبل 500 قبل از مسیح تک کا شمار کیا جاتا ہے اس میں پانچ زبانوں کو اہمیت حاصل تھی مہاشٹری ، سوشی ، مزدل۔

تیسرا دور 500 تا 1000 تک محیط ہے ، سوشی کا شمار زیادہ ہے۔ 1020 ء ہندوستان میں جیسے تبدیلی آئی اردو زبان کا آغاز ہوا۔ مذکورہ سن عیسوی میں پنجاب میں غزنوی سلطنت کا قیام عمل میں آیا۔ یہ آریاؤں کے آنے کے کافی عرصہ بعد ہندوستان میں تبدیلی آئی جس کے بعد اردو و دیگر جماعتوں کا وجود ہندوستان میں ہوا۔ غزنوی دور میں ہندوستان میں جو پہلے سے اقوام موجود تھیں۔

ان کے ساتھ آپس کے میل جول کے لیے ایک زبان کی ضرورت تھی جو سب سمجھ سکیں اور بول سکیں۔ 1186ء میں غزنوی کی سلطنت ختم ہوئی اور غوری حکومت کا آغاز ہوا۔ 1192 ء میں پرتھوی راج چوہان جوکہ راجپوتوں کا رہنما تھا اس وقت راجپوت بڑی طاقت مانے جاتے تھے۔ ہندوستان کے بڑے حصے پر ان کا راج تھا۔

1192 میں پرتھوی راج چوہان کی سلطان محمد غوری سے جنگ ہوئی جس میں پرتھوی راج چوہان نے شکست کھائی اور راجپوت طاقت بکھر گئی۔ لہٰذا یہاں سلطان محمد غوری کی حکومت قائم ہوئی۔

1193 میں سلطان محمد غزنوی کا عظیم سپہ سالار قطب الدین ایبک ہندوستان میں مزید فتوحات، چونکہ غوری واپس چلا گیا تھا لہٰذا اس کے خواب ہندوستان میں قطب الدین ایبک نے پورے کیے۔ ہندوستان میں بادشاہوں ، حکمرانوں کی تبدیلیوں ، دیگر لوگوں کی آمد سے نئی زبان کو ترقی حاصل ہوئی۔ آنے والے لوگوں اور بادشاہوں کی زبان کے اثرات سامنے آئے یہ حقیقت ہے جو قوم فاتح ہوتی ہے اس کی زبان لوگوں کے قلب پر چھا گئی۔

1206ء میں باضابطہ و باقاعدہ قطب الدین ایبک نے دہلی میں بادشاہت کا اعلان کیا۔ 1290 تک اس کی حکومت قائم رہی۔

1290 میں فیروز شاہ جلال الدین خلجی دہلی پر حکمران ہوا اس وقت اس کی عمر 70 سال تھی یہ خاندان کا دوسرا دور تھا۔ امیر خسرو اسی کے دور میں تھے جن کا تعلق دربار سے تھا جلال الدین خلجی کا داماد علاؤالدین خلجی اس کی موت کا نتظار نہ کرسکا۔ اسی دوران دیوگری میں اسے شاہی خزانہ کا معلوم ہوا اس نے حملہ کرکے بڑا خزانہ لوٹ لیا۔ بڑی تعداد میں جواہرات شامل تھے ، اس کو یہ بڑی کامیابی حاصل ہوئی۔ اس کے پاس اس قدر مال و زر تھا۔ اس نے سلطان جلال الدین خلجی کو قتل کردیا۔

1296 میں علاؤ الدین خلجی بادشاہ بن گیا۔ 1308 سے 1314 تک ملک کا خود سپہ سالار رہا اس نے دوبارہ دیوگری کو فتح کرلیا پورے جنوب میں فوجی چھاؤنیاں قائم کردیں جن سے دکن میں نئی زبان کو فروغ ملا۔ اس حملے کے بعد اردو کی شروعات ہوئی ایک نئی تہذیب نئے رسم و رواج والے لوگ دکن میں جا کر بس گئے۔ وہاں کے مقامی لوگوں سے میل جول ہوتا رہا وہاں ایک نئی تہذیب اور نئی زبان پروان چڑھی۔

1321 میں برسر اقتدار خاندان سلطان مبارک شاہ کو بھی قتل کردیا پنجاب کا حکمران غازی ملک خلجی خاندان کی تباہی کا بدلہ لینے کے لیے دہلی کے حکمران کو شکست دی۔ امرا کی فرمائش پر دہلی کے تحت پر براجمان ہوا اور تاریخ میں غیاث الدین تغلق کے نام سے مشہور ہوا۔ دکن میں جو خلجی کے دور میں تبدیلی آئی وہ غیاث الدین تغلق کے دور میں نئی زبان کے فروغ کا سلسلہ ملک کافور کے حملے کے بعد سے شروع ہوا۔ نام امین اللہ ابوالحسن انھوں نے امیر خسرو سے شہرت پائی۔ 1253 میں آگرہ میں پیدا ہوئے۔

دہلی سکونت اختیار کی۔ شاہی دربار سے تعلق رہا۔ انھوں نے ہر صنف سخن میں شاعری کی اردو میں غزلیات، مثنوی، قصائد وغیرہ ان کے دیوان میں ہیں۔ اردو کی خدمات سرفہرست ہیں علاوہ ازیں موسیقی کے میدان میں بھی اپنے کمالات دکھائے کئی ایجادات ان کے نام میں موسیقی کے تار میں تیراتا، امیر خسرو موجود ہیں۔ دکن میں بہمی دور میں 1090ء سے دکنی اردو کا قیام عمل میں آیا۔ تاریخ کے اوراق میں دکن اردو زبان کا موجود بتایا جاتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں