اسلام اور جدت کی ہم آہنگی
اپنی زندگی کو طرز معاشرت کو ، ملک کو ایک جدید دنیا کے اُصولوں سے ہم آہنگ کرلینے میں ہی عافیت اور بھلائی ہے۔
میں نے جب سے ہوش سنبھالا یا ہوش نے مجھے سنبھالا، ہر دن ایک نئی کہانی وجود میں آتے دیکھی ، سنی ، جس کی خوبی یہ تھی کہ وہ ہر بار پہلے سے مختلف تھی۔ آج میں ان وجوہات پر بحث کرنا چاہتا ہوں جو ہمارے دن بہ دن کمزور ہوتے ہوئے سماجی نظام ، ٹوٹتی ہوئی معاشرتی اکائیوں کی وجہ بن رہی ہیں۔
پہلے میں خاص و عام پر اپنے فہم کے مطابق بات کرنے کی کوشش کرتا ہوں کہ کوئی شخص عام یا خاص کیونکر بن جاتا ہے ، اگر علم و فضل موضوع ہو تو میرے نزدیک عالم وہ ہوتا ہے جو اول تو طالبِ علم رہے ، دوئم وہ خود سے کوئی علم خلق کرے یعنی کسی مسئلے کو ، کسی چیز کو ایک نئی فلاسفی کے ساتھ پیش کرے اسکو نئے پہلوؤں سے اُجاگر کرے اور زندگی بھر علم اس کا موضوع ہو تلاش ہو ، لیکن کسی لکھی لکھائی چیز کو پڑھنے والا ، حفظ کرنے والا ، دہرا دینے والا عالم نہیں ہوتا بلکہ وہ بھی کم و بیش ایک عام تعلیم رکھنے والے فرد جیسا ہی ہوتا ہے، جیسا کہ موجودہ صورتحال میں ہے۔
لہٰذا جو حضرات حالیہ پیش آنے والی ایک جنسی بے راہ روی کو بہت دکھ اور رنج سے دیکھ ، سن رہے ہیں وہ جان لیں کہ تاریخِ عالم میں تو اہل علم اور منصفین سے بھی نا قابلِ تلافی غلطیاں ہوئی ہیں لیکن تب بھی عقلمند معاشروں نے اس بگاڑ کی وجہ کو جاننے کی کوشش کی۔
سزا ایک حل ہے لیکن کلی حل نہیں ، اگر ہوتا تو سزا یافتگان کے بعد جرم کا راستہ بند ہوجاتا مجرم اپنے پیشروؤں کا انجام دیکھ کر باز آجاتے، ہمیں اہلِ یورپ کی حکمتِ عملی کو بھی دیکھنا ہوگا ، اس معاملے سمیت اور معاملوں میں اور اس میں کوئی حرج نہیں ، کیونکہ انھوں نے ایسے غیر فطری راستوں کو ایک مخصوص حکمت عملی سے بہت حد تک کنٹرول کیا ہے، لہٰذا گر وہ (اہل یورپ) ہمارے مسلم سائنسدانوں کو 13صدی عیسوی سے 16صدی عیسوی تک اپنی درسگاہوں میں پڑھا سکتے ہیں تو ہمیں ان کے نظامِ انصاف یا اصلاح سے مدد لینے میں تامل کیوں؟ بلکہ اچھی چیز کہیں سے بھی ملے ،
حدیثِ پاک ہے کہ '' علم مومن کی کھوئی ہوئی میراث ہے'' زینب قتل کیس کے ملزم کی گرفتاری بھی ہوئی اور پھانسی کی سزا بھی لیکن کیا اس کے اگلے ہی ماہ اُسی طرح کے اور اُسی نوعیت کے جرائم نہیں ہوئے ؟ اور پھر آج تک ہورہے ہیں جو پوری طرح سے میڈیا میں رپورٹ بھی نہیں ہورہے۔ قارئینِ کرام ! جرم کوئی دینی شخص کرے یا عام آدمی اس میں تخصیص کیسی دونوں انسان ہیں۔ میں ملک میں تیزی سے بڑھتے ہوئے جنسی جرائم کے خاتمے کے لیے کچھ تجاویز ضرور دینا چاہتا ہوں کیونکہ یہ ایک نہایت سنگین معاملہ ہے۔
محترم وزیرِ اعظم کا کہنا ہے کہ ہمارے ملک میں خواتین ایسا لباس زیبِ تن کرتی ہیں جس سے مردوں کو تحریک ملتی ہے اور زنا جیسا جرم ہوجاتا ہے لیکن میں محترم سوال کرنا چاہتا ہوں کہ کیا ان معصوم بچیوں کا لباس بھی ایسا تھا جنھیں سفاکی سے روند دیا گیا ،قتل کردیا گیا !
جنابِ عالیٰ ،یہ بات جزوی طور پر درست ہوسکتی ہے کلی طور پر اس میں اور بہت سے عوامل شریک کار ہیں مثلاً ہمارے پولیس اسٹیشنز کی رشوت زدہ کارکردگی ، انتہائی کمزور تفتیش ، سوشل میڈیا پر پورن مویز کی بہتات اور بہت کچھ ایسا ہے جو جنسی بے راہ روی سبب بن رہا ہے اور اُس میں ایک عام آدمی سے لے کر عالم و فاضل تک سب شریک ہیں۔ لہٰذا ہمیں نئے سرے سے جائزہ لینا ہوگا اپنے پورے نظام کا ، ہمیں مدارس کا بھی ایک vegelence system قائم کرنا ہوگا۔ نمازِ جمعہ میں جو خطبہ ہو وہ حکومت وقت کی جانب سے ہو ، کسی مسجد یا مدرسے پر کسی مخصوص فرقے کا قبضہ نہ ہو۔
تقریبًا ہر مسجد کے دروازے پر آویزاں دکھائی دیتا ہے کہ یہ مسجد فلاں فرقے کی ! کیا اس کے بعد بھی اسلام میں کسی نئے آنے والے کی گنجائش موجود رہتی ہے؟ میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ جنس پر مبنی ایسا نصاب درسگاہوں میں پڑھانا چاہیے محتاط طریقے سے جو کسی لڑکے یا لڑکی کو باشعور کرنے کا ذریعہ بنے ۔ یہ غیر اسلامی فعل نہ ہوگا بلکہ بہت سارے معصوم بچے اس عمل سے محفوظ ہوجائیں گے۔ میرے کہنے کا ایک سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ ایسا عمل جو دین کی بنیاد ، اساس سے متصادم نہ ہو اور عالمِ انسانی کو اُس سے خاطر خواہ فائدہ ہوتو اسے اپنانے میں حرج نہیں ۔
اپنی زندگی کو طرز معاشرت کو ، ملک کو ایک جدید دنیا کے اُصولوں سے ہم آہنگ کرلینے میں ہی عافیت اور بھلائی ہے اور یہی وہ نیک عمل ہے جو قدرت آپ سے چاہتی ہے ، ورنہ دنیا بھر میں جہاں بھی کرپشن ہوئی ، کرپشن کرنے والے اس کی منصوبہ بندی کرنے والے لوگ تعلیم یافتہ تھے۔
ان میں سے ایک بھی ان پڑھ نہیں تھا ! جن عالمی جنگوں میں کروڑوں انسانی جانوں کو اتلاف ہوا وہ قومیں اور ممالک بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے اور ایٹمی ہتھیار بھی انھوں نے ہی ایجاد کیے تھے تو ثابت ہوا کہ انسان کے لیے انسانیت پر قائم رہنا ہی اسے دیگر مخلوقات سے افضل کرسکتا ہے اور انسانیت صرف تعلیم سے نہیں آتی بلکہ اس کے لیے تربیت بھی اُتنی ہی ضروری ہے اور اچھی تربیت ، قدریں دین کی مرہونِ منت ہوتی ہیں۔ جرائم پر جو بحث میں کر رہا ہوں۔
اس میں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ مشرق اور مغرب کے ماحول میں ایک بہت بڑا فرق ہے ، یہاں بھی دین ایک بنیادی عمل ہے ، مغرب میں دین کی کتاب ایک ایسی کتاب ہے جسے بس اتنا ہی حق حاصل ہے کہ اسے کسی مخصوص دن پڑھ لیا جائے اور پھر کسی طاق یا الماری کی زینت بنا دیا جائے ۔
ایک دفعہ میں امارات میں تھا تو میری ایک امریکی شہری سے بات ہو رہی تھی وہ اسلامی معاشرے کوrigid قرار دے رہا تھا اور اپنے ممالک کی ترقی کی مثالیں دے رہا تھا ، میں نے اسے بالکل یہی حوالہ دیا تھا کہ آپ نے اپنی کتاب اور مذہب کو بہت محدود کرلیا ہے اور اپنے نظام کو دو علیحدہ حصوں میں تقسیم کرلیا ہے ، معیشت ، حکومت ، ریاست الگ اور دین الگ یا اس کا ان معاملات سے کئی تعلق نہیں ہوگا یہ آپ کا موجودہ ریاستی ڈھانچہ ہے جب کہ ہم اہلِ مشرق اپنی کتاب کو اور اللہ کے احکامات کو اپنی زندگی کا کل حاصل سمجھتے ہیں۔
گفتگو اسلام اور عیسائیت دو بڑے مذاہب پر مبنی تھی ، میں نے مزید کہا کہ ہم اپنی الہامی کتاب کے الٰہی احکامات کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بناتے ہیں اور سمجھتے ہیں اور اسی پر ہم اپنی معیشت و کاروبار زندگی کی بنیاد رکھتے ہیں لہٰذا ہمارے اور آپ کے ماحول میں ایک بڑا فرق دکھائی دیتا ہے۔
میں دوبارہ اپنے موضوع کی طرف لوٹتا ہوں جسے میں نے ایک مثال دے کر ثابت بھی کیا ہے کہ جب ہمارے لیے ہمارا دین ہی زندہ رہنے اور زندگی گزارنے کا کل ذریعہ ہے تو پھر ہمیں یہ معلوم ہونا بہت ضروری ہوجاتا ہے کہ آخر اللہ ہم سے چاہتا کیا ہے؟ اور یہ جاننے کے لیے ہمیں اپنی کتاب قرآن کریم کو ایک واضح ترجمے کے ساتھ پڑھنا چاہیے صرف حفظ سے وہ بہتری آنا ممکن نہیں جس کی ہم توقع کر رہے ہیں۔
دوسرا اہم مسئلہ آج کی جدید دنیا کے قوانین اور ترقی کی تقلید کرنا ہے اور دین کے بنیادی ڈھانچے کو بدلے بغیر جس قدر بھی ممکن ہوسکے اسلام کو جدید سائنس ،technology سے ہم آہنگ کیا جائے۔ دیکھیے مجھے یقین کامل ہے کہ ایسا کرکے ہم اپنی تعلیمی درسگاہوں ، مدرسوں ، اداروں سمیت ہر شعبہ زندگی میں جرم اور مجرم کا خاتمہ کرلیں گے۔