ہماری زبان اردو ہے انگلش نہیں
موجودہ دور میں انگریزی زبان کی اہمیت و افادیت سے انکار نہیں، اس زبان میں مہارت حاصل کرنا وقت کی ایک اہم ضرورت ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ ہمارا معاشرہ انگریزی زبان و ثقافت سے مرعوبیت اور اپنی زبان اور ثقافت کے حوالے سے احساس کمتری کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔
ہم لوگ فرنگی تمدن کی پرفریب دل کشی و دل ربائی سے اس قدر متاثر ہیں کہ مغرب سے پھوٹنے والے افکار و تصورات کو نہ صرف آنکھیں بند کر کے تسلیم کرلیتے ہیں ، بلکہ ان کا پرچار کرتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں، کیونکہ اب یہی تعلیم یافتہ ہونے کی علامت سمجھا جانے لگا ہے۔
اسلامی افکار و تصورات کے ببانگ دہل اظہار کرنے کو جمود پرستی اور تاریک خیالی کا آئینہ دار سمجھا جاتاہے اور اپنی روایات پر عمل کرنے والے کو بنیاد پرست اور فرسودہ روایات کا حامل قرار دیا جاتا ہے۔ مغربی تہذیب سے مرعوبیت کی وجہ سے ہی تو انگریزی زبان میں گفتگو کرنے کو ترقی اور کامیابی کا ضامن سمجھا جاتا ہے اور انگریزی داں کو ہی مفکر و دانشور قرار دیا جاتا ہے۔
موجودہ دور میں انگریزی زبان کی اہمیت و افادیت سے انکار نہیں، اس زبان میں مہارت حاصل کرنا وقت کی ایک اہم ضرورت ہے، کیونکہ یہ ایک عالمی زبان ہے، دنیا کے بہت سے علوم و فنون اس زبان میں موجود ہیں اور دنیا میں یہ رابطے کی ایک اہم زبان بھی ہے، ضرورت کی حد تک اسے سیکھنا چاہیے، لیکن اس زبان کو ہی ساری ترقیوں کا معیار قرار دینا اور اقبال و کامرانی کا راز اسی زبان سے واقفیت حاصل کرنے میں مضمر سمجھنا مرعوبیت اور احساس کمتری کا نتیجہ ہے۔
وزیراعظم پاکستان عمران خان نے بالکل بجا کہا ہے کہ انگریزی بولنا اور مغربی لباس پہننا سافٹ امیج نہیں ہے، بلکہ احساس کمتری ہے۔ سافٹ امیج خود داری سے آتا ہے ، جس میں خود داری نہیں، دنیا اس کی عزت نہیں کرتی۔ مثبت تشخص اجاگر کرنا ہے تو پاکستانیت کو پروموٹ کیا جائے، دنیا کی نقل کرنے والے پر اعتماد نہیں ہوتے۔ وزیر اعظم کی بات سے اتفاق کیے بنا چارہ نہیں، کیونکہ انھوں نے بالکل حقیقت بیان کی ہے۔ ہمیں مغربی زبان و ثقاقت کی مرعوب سوچ سے نکلنا ہوگا اور اپنی زبان اور ثقافت اور پاکستانیت کو فروغ دینا ہوگا۔
بلاشبہ انگریزی عالمی اور اہم زبان ہے، مگر ہمارے معاشرے میں ایک بڑی تعداد اسے دوسروں پر رعب جمانے اور خود کو بہت تعلیم یافتہ باور کروانے کے لیے اسے سیکھتی ہے اور انگریزی زبان سے نابلد افراد کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے اسلام آباد کے ایک کیفے کا واقعہ تو یاد ہوگا۔
ایک کیفے کی مالکان دو خواتین نے اپنے ہی کیفے مینجر کے ساتھ تضحیک آمیز سلوک کی ویڈیو انٹر نیٹ پر ڈال دی تھی، جو خوب وائرل ہوئی۔ اس ویڈیو میں انگریزی لب و لہجے میں رعونت و نخوت کا شکار دونوں خواتین اپنے کیفے کے منتظم شخص کو اپنے پاس بلا کر اس سے انگریزی زبان میں بات کرتی ہیں اور جواب میں اس نوجوان منتظم کی انگلش بولتے ہوئے گرائمر میں اغلاط پر خوب ٹھٹھہ ، مخول اور تمسخر اڑاتی ہیں۔ جس کا مقصد اپنی علمی دھاک بٹھانا اور انگلش بول چال اور لب و لہجے میں مہارت کو تعلیم یافتہ اور پڑھا لکھا ہونے سے تعبیر کرنا تھا۔
سوشل میڈیا پر کیفے مالکان دونوں خواتین پر بہت تنقید کی گئی تھی، لیکن حقیقت مگر یہ ہے کہ اس نوع کے بہت سے واقعات ہمارے معاشرے میں آئے روز پیش آتے رہتے ہیں، جن میں انگریزی بولنے کو ہی بہت کمال سمجھا جاتا ہے۔ہم لوگ کسی انگریز کو ٹوٹی پھوٹی اردو بولتا دیکھ کر حیران ہوتے ہیں کہ وہ انگریز ہوکر اردو بول رہا ہے۔ ہو سکتا ہے وہ گرائمر کے لحاظ سے اردو کی ٹانگیں توڑ رہا ہو ، لیکن اگر ہمارے معاشرے میں کوئی آدمی انگریزی زبان میں گرائمر کی غلطی کر بیٹھے تو اس کی ہر طرح کی قابلیت ، صلاحیت ، لیاقت و استعداد کے باوجود اس کی تعلیم پر ایک سوالیہ نشان کھڑا ہو جاتا ہے۔
یہ مرعوب ذہنیت ہی تو ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ انگلش زبان سیکھنا وقت کی اہم ضرورت ہے، اسے سیکھنا بھی ضروری ہے، لیکن اس کو جنون کی حد تک اپنی سماجی و نجی زندگیوں میں حد سے زیادہ اہمیت دینا اور اس سے مرعوبیت اور احساس کمتری کا شکار ہو کر اسے اپنے سروں پر سوار کر لینا ذہنی و فکری غلامی ہے۔ہمیں اس حقیقت کا دل سے ماننا ہوگا کہ اگر ہم دنیا میں ترقی کرنا چاہتے ہیں تو دوسری اقوام کی زبان چھوڑ کر اپنی زبان کو مکمل ذریعہ تعلیم بنانا ہوگا۔
دنیاوی ترقی کے ماہرین علوم و فنون بھی اس حقیقت کو مان چکے ہیں کہ جس کی جو مادری زبان ہے، اسی زبان میں اس کی سب سے اچھی تعلیم و تربیت ہوسکتی ہے اور اسی کے ذریعے اس کے ذہن اور دماغ میں علم و شعور کی روشنی سب سے مؤثر طریقے سے پھیلائی جا سکتی ہے۔
دنیا کے کسی ملک نے بھی اپنی زبان چھوڑ کر کسی دوسری زبان کو ذریعہ تعلیم بنا کر ترقی حاصل نہیں کی۔ کوریا ، جاپان اور چین نے انگریزی ذریعہ تعلیم کے بغیر ہی ترقی کی ہے۔ سویڈن نے اپنی زبان کو دفتری اور ذریعہ تعلیم بنایا ہوا ہے اور سائنس، ٹیکنالوجی اور معاشی میدان میں عالمی سطح پر صف اول میں کھڑا ہے۔ ناروے ، ڈنمارک ، فن لینڈ ، آئس لینڈ ، ہالینڈ اور بیلجیئم نے بھی اپنی زبان کو ہی اپنایا ہوا ہے اور ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہیں۔ ہر قوم نے اپنی زبان میں تعلیم حاصل کرکے ترقی حاصل کی ہے۔
انگریزوں نے انگریزی کے ذریعے ترقی کی۔ فرانسیسیوں نے فرانسیسی زبان میں ترقی کی۔ جاپانیوں نے جاپانی زبان میں ترقی کی۔ روس نے روسی زبان میں ترقی کی۔ چین نے چینی زبان میں ترقی کی ہے۔ ہم بھی اگر دنیا کی طرح ترقی کرنا چاہتے ہیں تو اپنی اردو زبان کے ذریعے ہی ترقی کرسکتے ہیں۔ اردو ہماری قومی زبان ہے جس کی ترویج و نفاذ کا دستور پاکستان میں وعدہ کیا گیا ہے۔
ہماری اعلیٰ عدالتیں اسی دستوری فیصلے پر عملدرآمد کے لیے مختلف حوالوں سے احکامات جاری کر رہی ہیں۔ اردو زبان کا یہ جائز حق ہے کہ اسے دفتری، عدالتی اور تدریسی زبان کے طور پر ملک بھر میں ہر سطح پر رائج و نافذ کیا جائے اور حکومتی ادارے اس سلسلہ میں مؤثر کردار ادا کریں۔ وزیر اعظم عمران خان نے ہدایات جاری کی ہیں کہ ان کی تمام تقریبات اور پروگراموں میں قومی زبان اردو کا استعمال کرتے ہوئے مرتب کیے جائیں۔ وزیر اعظم عمران خان اس سے قبل سرکاری اداروں سمیت دیگر اہم امور کی انجام دہی کے لیے اردو کے بطور سرکاری زبان استعمال پر زور دیتے رہے ہیں۔
اردو کے فروغ کے لیے ان کے یہ اقدامات قابل تحسین ہیں۔ 2015 میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے اردو کو سرکاری زبان کے طور پر فوری نافذ کرنے کا حکم دیا تھا اور وفاقی کابینہ نے پاکستان کی قومی زبان اردو کو سرکاری زبان بنانے کے احکامات مئی 2014 میں جاری کیے تھے۔ اس کے باوجود ابھی تک اردو مکمل طور پر ہمارے اداروں میں نافذ نہیں ہوئی، اردو ہماری قومی زبان ہے اور قومی زبان کا یہ حق ہے کہ پوری قوم اسے ذریعہ اظہار بنائے اور سرکاری سطح سے اسے ہر شعبے میں مکمل طور پر نافذ کیا جائے۔ قومی زبان ہی ملک و قوم کی ترقی کی ضامن ہوتی ہے۔
ہم لوگ فرنگی تمدن کی پرفریب دل کشی و دل ربائی سے اس قدر متاثر ہیں کہ مغرب سے پھوٹنے والے افکار و تصورات کو نہ صرف آنکھیں بند کر کے تسلیم کرلیتے ہیں ، بلکہ ان کا پرچار کرتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں، کیونکہ اب یہی تعلیم یافتہ ہونے کی علامت سمجھا جانے لگا ہے۔
اسلامی افکار و تصورات کے ببانگ دہل اظہار کرنے کو جمود پرستی اور تاریک خیالی کا آئینہ دار سمجھا جاتاہے اور اپنی روایات پر عمل کرنے والے کو بنیاد پرست اور فرسودہ روایات کا حامل قرار دیا جاتا ہے۔ مغربی تہذیب سے مرعوبیت کی وجہ سے ہی تو انگریزی زبان میں گفتگو کرنے کو ترقی اور کامیابی کا ضامن سمجھا جاتا ہے اور انگریزی داں کو ہی مفکر و دانشور قرار دیا جاتا ہے۔
موجودہ دور میں انگریزی زبان کی اہمیت و افادیت سے انکار نہیں، اس زبان میں مہارت حاصل کرنا وقت کی ایک اہم ضرورت ہے، کیونکہ یہ ایک عالمی زبان ہے، دنیا کے بہت سے علوم و فنون اس زبان میں موجود ہیں اور دنیا میں یہ رابطے کی ایک اہم زبان بھی ہے، ضرورت کی حد تک اسے سیکھنا چاہیے، لیکن اس زبان کو ہی ساری ترقیوں کا معیار قرار دینا اور اقبال و کامرانی کا راز اسی زبان سے واقفیت حاصل کرنے میں مضمر سمجھنا مرعوبیت اور احساس کمتری کا نتیجہ ہے۔
وزیراعظم پاکستان عمران خان نے بالکل بجا کہا ہے کہ انگریزی بولنا اور مغربی لباس پہننا سافٹ امیج نہیں ہے، بلکہ احساس کمتری ہے۔ سافٹ امیج خود داری سے آتا ہے ، جس میں خود داری نہیں، دنیا اس کی عزت نہیں کرتی۔ مثبت تشخص اجاگر کرنا ہے تو پاکستانیت کو پروموٹ کیا جائے، دنیا کی نقل کرنے والے پر اعتماد نہیں ہوتے۔ وزیر اعظم کی بات سے اتفاق کیے بنا چارہ نہیں، کیونکہ انھوں نے بالکل حقیقت بیان کی ہے۔ ہمیں مغربی زبان و ثقاقت کی مرعوب سوچ سے نکلنا ہوگا اور اپنی زبان اور ثقافت اور پاکستانیت کو فروغ دینا ہوگا۔
بلاشبہ انگریزی عالمی اور اہم زبان ہے، مگر ہمارے معاشرے میں ایک بڑی تعداد اسے دوسروں پر رعب جمانے اور خود کو بہت تعلیم یافتہ باور کروانے کے لیے اسے سیکھتی ہے اور انگریزی زبان سے نابلد افراد کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے اسلام آباد کے ایک کیفے کا واقعہ تو یاد ہوگا۔
ایک کیفے کی مالکان دو خواتین نے اپنے ہی کیفے مینجر کے ساتھ تضحیک آمیز سلوک کی ویڈیو انٹر نیٹ پر ڈال دی تھی، جو خوب وائرل ہوئی۔ اس ویڈیو میں انگریزی لب و لہجے میں رعونت و نخوت کا شکار دونوں خواتین اپنے کیفے کے منتظم شخص کو اپنے پاس بلا کر اس سے انگریزی زبان میں بات کرتی ہیں اور جواب میں اس نوجوان منتظم کی انگلش بولتے ہوئے گرائمر میں اغلاط پر خوب ٹھٹھہ ، مخول اور تمسخر اڑاتی ہیں۔ جس کا مقصد اپنی علمی دھاک بٹھانا اور انگلش بول چال اور لب و لہجے میں مہارت کو تعلیم یافتہ اور پڑھا لکھا ہونے سے تعبیر کرنا تھا۔
سوشل میڈیا پر کیفے مالکان دونوں خواتین پر بہت تنقید کی گئی تھی، لیکن حقیقت مگر یہ ہے کہ اس نوع کے بہت سے واقعات ہمارے معاشرے میں آئے روز پیش آتے رہتے ہیں، جن میں انگریزی بولنے کو ہی بہت کمال سمجھا جاتا ہے۔ہم لوگ کسی انگریز کو ٹوٹی پھوٹی اردو بولتا دیکھ کر حیران ہوتے ہیں کہ وہ انگریز ہوکر اردو بول رہا ہے۔ ہو سکتا ہے وہ گرائمر کے لحاظ سے اردو کی ٹانگیں توڑ رہا ہو ، لیکن اگر ہمارے معاشرے میں کوئی آدمی انگریزی زبان میں گرائمر کی غلطی کر بیٹھے تو اس کی ہر طرح کی قابلیت ، صلاحیت ، لیاقت و استعداد کے باوجود اس کی تعلیم پر ایک سوالیہ نشان کھڑا ہو جاتا ہے۔
یہ مرعوب ذہنیت ہی تو ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ انگلش زبان سیکھنا وقت کی اہم ضرورت ہے، اسے سیکھنا بھی ضروری ہے، لیکن اس کو جنون کی حد تک اپنی سماجی و نجی زندگیوں میں حد سے زیادہ اہمیت دینا اور اس سے مرعوبیت اور احساس کمتری کا شکار ہو کر اسے اپنے سروں پر سوار کر لینا ذہنی و فکری غلامی ہے۔ہمیں اس حقیقت کا دل سے ماننا ہوگا کہ اگر ہم دنیا میں ترقی کرنا چاہتے ہیں تو دوسری اقوام کی زبان چھوڑ کر اپنی زبان کو مکمل ذریعہ تعلیم بنانا ہوگا۔
دنیاوی ترقی کے ماہرین علوم و فنون بھی اس حقیقت کو مان چکے ہیں کہ جس کی جو مادری زبان ہے، اسی زبان میں اس کی سب سے اچھی تعلیم و تربیت ہوسکتی ہے اور اسی کے ذریعے اس کے ذہن اور دماغ میں علم و شعور کی روشنی سب سے مؤثر طریقے سے پھیلائی جا سکتی ہے۔
دنیا کے کسی ملک نے بھی اپنی زبان چھوڑ کر کسی دوسری زبان کو ذریعہ تعلیم بنا کر ترقی حاصل نہیں کی۔ کوریا ، جاپان اور چین نے انگریزی ذریعہ تعلیم کے بغیر ہی ترقی کی ہے۔ سویڈن نے اپنی زبان کو دفتری اور ذریعہ تعلیم بنایا ہوا ہے اور سائنس، ٹیکنالوجی اور معاشی میدان میں عالمی سطح پر صف اول میں کھڑا ہے۔ ناروے ، ڈنمارک ، فن لینڈ ، آئس لینڈ ، ہالینڈ اور بیلجیئم نے بھی اپنی زبان کو ہی اپنایا ہوا ہے اور ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہیں۔ ہر قوم نے اپنی زبان میں تعلیم حاصل کرکے ترقی حاصل کی ہے۔
انگریزوں نے انگریزی کے ذریعے ترقی کی۔ فرانسیسیوں نے فرانسیسی زبان میں ترقی کی۔ جاپانیوں نے جاپانی زبان میں ترقی کی۔ روس نے روسی زبان میں ترقی کی۔ چین نے چینی زبان میں ترقی کی ہے۔ ہم بھی اگر دنیا کی طرح ترقی کرنا چاہتے ہیں تو اپنی اردو زبان کے ذریعے ہی ترقی کرسکتے ہیں۔ اردو ہماری قومی زبان ہے جس کی ترویج و نفاذ کا دستور پاکستان میں وعدہ کیا گیا ہے۔
ہماری اعلیٰ عدالتیں اسی دستوری فیصلے پر عملدرآمد کے لیے مختلف حوالوں سے احکامات جاری کر رہی ہیں۔ اردو زبان کا یہ جائز حق ہے کہ اسے دفتری، عدالتی اور تدریسی زبان کے طور پر ملک بھر میں ہر سطح پر رائج و نافذ کیا جائے اور حکومتی ادارے اس سلسلہ میں مؤثر کردار ادا کریں۔ وزیر اعظم عمران خان نے ہدایات جاری کی ہیں کہ ان کی تمام تقریبات اور پروگراموں میں قومی زبان اردو کا استعمال کرتے ہوئے مرتب کیے جائیں۔ وزیر اعظم عمران خان اس سے قبل سرکاری اداروں سمیت دیگر اہم امور کی انجام دہی کے لیے اردو کے بطور سرکاری زبان استعمال پر زور دیتے رہے ہیں۔
اردو کے فروغ کے لیے ان کے یہ اقدامات قابل تحسین ہیں۔ 2015 میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے اردو کو سرکاری زبان کے طور پر فوری نافذ کرنے کا حکم دیا تھا اور وفاقی کابینہ نے پاکستان کی قومی زبان اردو کو سرکاری زبان بنانے کے احکامات مئی 2014 میں جاری کیے تھے۔ اس کے باوجود ابھی تک اردو مکمل طور پر ہمارے اداروں میں نافذ نہیں ہوئی، اردو ہماری قومی زبان ہے اور قومی زبان کا یہ حق ہے کہ پوری قوم اسے ذریعہ اظہار بنائے اور سرکاری سطح سے اسے ہر شعبے میں مکمل طور پر نافذ کیا جائے۔ قومی زبان ہی ملک و قوم کی ترقی کی ضامن ہوتی ہے۔