غیبت کی تباہ کاریاں

اے ایمان والو! بہت زیادہ گمان سے بچو، بعض گمان گناہ ہوتے ہیں، تجسس نہ کرو اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے۔


July 02, 2021
اے ایمان والو! بہت زیادہ گمان سے بچو، بعض گمان گناہ ہوتے ہیں، تجسس نہ کرو اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے۔فوٹو : فائل

آج کل ہم اپنے آپ کو خاصی حد تک حرام کھانے سے تو بچاتے ہیں، سود کا مال کھانے سے بچتے ہیں، رشوت خوری سے پرہیز بھی کافی حد تک کرتے ہیں۔

سود، رشوت، حرام غذا اور حرام مال سے بچنے کے باوجود ہم اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ اگر کوئی اﷲ کا بندہ کہہ بھی دے کہ یہ گناہ ہے، غیبت ہے تو ہم بڑی آسانی سے ہم تو ڈسکس کر رہے ہیں یا ہم فلاں کے منہ پہ بھی یہ بات کہہ سکتے ہیں، کہہ کر اپنی جان چھڑا لیتے ہیں۔

کوئی سود خور ہو تو ہم یہ بڑی آسانی سے کہہ دیتے ہیں کہ ''سود ناجائز ہے اور سود کا مال حرام ہے'' کوئی رشوت خور ہو تو ہم بڑی آسانی سے کہہ دیتے ہیں کہ ''یہ حرام کام ہے'' کیوں کہ ہم جانتے ہیں کہ یہ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے: ''رشوت لینے والا اور دینے والا جنت میں داخل نہ ہوگا اور دوزخ کا ایندھن بنے گا۔

مگر ہمیں یہ یاد نہ رہا کہ غیبت کے بارے میں قرآن مجید کا فرمان ہے، مفہوم: ''اے ایمان والو! بہت زیادہ گمان سے بچو، بعض گمان گناہ ہوتے ہیں، تجسس نہ کرو اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے ۔ کیا تمہارے اندر کوئی ایسا ہے جو اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا۔ دیکھو! تم خود اس سے گھن کھاتے ہو، اﷲ سے ڈرو، اﷲ بڑا توبہ قبول کرنے والا اور رحیم ہے۔''

حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ''کیا تم جانتے ہو کہ غیبت کیا ہے؟ صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہ اجمعین نے کہا: اﷲ اور اس کا رسول ﷺ ہی بہتر جانتے ہیں؟ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے بھائی کے اس عیب کو بیان کرے کہ جس کو وہ ناپسند سمجھتا ہے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا: اگر وہ عیب واقعی اس بھائی میں ہو جو میں بیان کر رہا ہوں۔ تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ''اگر وہ عیب اس میں ہے جو تم کہہ رہے ہو تو وہ تبھی تو غیبت ہے اگر اس میں نہ ہو تو وہ بہتان ہے۔'' (صحیح مسلم)

اگر کوئی کسی شخص کی برائی کر رہا ہو، جو موجود نہ ہو اور کوئی کہہ دے کہ یہ بری بات ہے۔ تو جواب ملتا ہے کہ فلاں میں یہ برائی ہے، ہم جھوٹ تھوڑی بول رہے ہیں۔ اﷲ کے بندو! بے شک آپ جھوٹ نہیں بول رہے، ہے تو برائی۔ اسی ہی کو تو غیبت کہتے ہیں۔ اگر وہ بات کرو گے، جو اس شخص میں موجود نہ ہو گی وہ تہمت کہلائے گی۔

غیبت جس قدر بری بیماری ہے، اسی قدر ہمارے معاشرے میں عام ہے۔ یاد رہے انسان کی غیبت کرنا اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف ہے۔ حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے: ''بدکاری کرنے والا توبہ کر لیتا ہے مگر غیبت کرنے والا توبہ نہیں کرتا۔'' (شعب الایمان للبیہقی)

کیوں کہ بدکاری کرنے والا شخص گناہ کو گناہ سمجھ کر کرلیتا ہے مگر غیبت کرنے والا شخص گناہ کو گناہ سمجھ کر نہیں کرتا۔ اس کے نزدیک غیبت گناہ نہیں، محض گفت گو ہوتی ہے۔ یاد رہے بعض علماء نے ''نقل اتارنے اور تحقیر آمیز'' اشارے کرنے کو بھی غیبت میں شمار کیا ہے۔

جس طرح کسی کی جان اور مال کو نقصان پہچانا حرام اور گناہ ہے، اسی طرح کسی کی عزت و آبرو کو نقصان پہنچانا بھی حرام ہے۔ غیبت کو قرآن میں واضح طور پر حرام قرار دیا گیا اور اسے ایک قبیح فعل سے تشبیہ دی ہے اور اس سلسلے میں اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے کی تمثیل انتہائی بلیغ ہے۔

قرآن حکیم میں بیان کیا گیا ہے، مفہوم: ''اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے، کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے؟ دیکھو اس چیز کو تم خود بھی ناگوار سمجھتے ہو اور اﷲ سے ڈرتے رہو، بے شک اﷲ بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔''

عقبہ بن عامر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ صحابۂ کرامؓ نے پوچھا کہ اے اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم! کام یابی کیا ہے؟ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ''اپنی زبان روک لو اور چاہیے کہ تمہارا گھر تم پر کشادہ ہو (یعنی اپنی زبان کو کنٹرول کرنے کے سبب تمہارے تعلقات اپنے گھر والوں سے اچھے ہو جائیں) اور اپنی غلطیوں پر رویا کرو۔''(جامع ترمذی)

مذکورہ حدیث میں زبان کو کنٹرول کرنے کا حکم یعنی غیبت سے دور رہنے کا کہا گیا ہے۔ لایعنی گفت گو سے خاموشی بہتر ہے اور خاموشی سے ذکراﷲ بہتر ہے۔

ایک حدیث میں دوسروں کے عیوب ٹٹولنے کو ان سخت الفاظ میں تنبیہ کی ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ''لوگوں کی زبانیں تو ایمان لاچکی ہیں لیکن دل نہیں۔ تم مسلمانوں کی غیبت چھوڑ دو اور ان کے عیب نہ کریدو۔ یاد رکھو! اگر تم نے ان کے عیب ٹٹولے تو اﷲ تعالیٰ تمہاری پوشیدہ برائیوں کو ظاہر کردے گا، یہاں تک کہ تم اپنے گھر والوں میں بھی بدنام اور رسوا ہو جاؤ گے۔'' (کتاب الادب ابوداؤد )

عبرت ناک تصویر اس روایت میں پیش گئی ہے۔ حضرت انس رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ نے فرمایا، مفہوم: جب اﷲ تعالی مجھے معراج کی رات اوپر لے گیا تو عالم بالا میں میرا گزر کچھ ایسے لوگوں پر ہوا جن کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ ان ناخنوں سے اپنے چہروں کو کھرچ رہے تھے ان کی اس حالت کو دیکھ کر میں نے پوچھا کہ جبرائیل یہ کون لوگ ہیں انہوں نے جواب دیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھاتے یعنی لوگوں کی غیبت کرتے ہیں ان کی عزت و آبرو کے پیچھے پڑے رہتے ہیں۔'' (ابوداؤد)

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ غیبت سے کس طرح پرہیز کیا جائے۔ جب دل میں خوف خدا ہوگا۔ آخرت کی زندگی کا پختہ یقین ہوگا اور قبر کی زندگی ہر وقت یاد ہوگی تو یقین مانیے، یہ گناہ سرزد نہیں ہوگا۔ کوشش کیجیے کہ ہم خود کو ذکراﷲ اور اپنے ضروری کاموں میں مصروف رکھیں۔ فضول گوئی اور غیر ضروری باتوں سے پرہیز کیا جائے۔ اﷲ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو غیبت جیسی جان لیوا بیماری سے بچائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں