خواتین ہراساں ایکٹ میں ترمیم سینیٹ کمیٹی میں پیش

ایکٹ یونیورسٹی،کالجوں کی طالبات پربھی لاگو ہوتا ہے یا نہیں ؟ ترمیم میں استفسار

سینیٹ میں قائد ایوان نے ابتدا میں اس کی مخالفت کی لیکن بعد میں وہ یہ ترمیم پیش کرنے پر تیارہوگئے۔ فوٹو: فائل

خواتین کوملازمت کی جگہ پرہراساں کرنے کے خلاف ایکٹ 2010 میں منظورہوا تھاجس میں ابہام دورکرنے کے لیے سینیٹر فرحت اللہ بابرنے اس ایکٹ میں ترمیم پیش کی ہے۔

ترمیم میں کہاگیاہے کہ یونیورسٹی اورکالجوں میں پڑھنے والی ہزاروں،لاکھوں طالبات کے متعلق بھی یہ ایکٹ لاگو ہوتا ہے کہ نھیں،اس ترمیم کوسینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے سامنے پیش کر دیا گیا حالانکہ سینیٹ میں قائد ایوان نے ابتدا میں اس کی مخالفت کی لیکن بعد میں وہ یہ ترمیم پیش کرنے پر تیارہوگئے،قائدِ ایوان کاموقف یہ تھاکہ اس مسئلے کوقانون بناتے وقت دیکھناچاہیے تھاکہ اس مرحلے پر اسے پیش نہیں کرناچاہیے اس پر سینیٹ رفرحت اللہ بابرنے حال ہی میں قائداعظم یونیورسٹی میں پیش آنے والے ایک واقعے کاحوالہ دیاجس میں یونیورسٹی کی انتظامیہ کے ایک سینئر ممبر کو صرف اس لیے چھوڑ دیا گیاکہ انھوں نے یہ معروضات پیش کیں کہ طالبہ یونیورسٹی کی ملازم نہیں تھی۔




فرحت اللہ بابرنے کہا کہ ترمیم کی مخالفت ایک ایساسیاسی بیان ہوگاجس میں ہزاروں،لاکھوں طالبات کوقانون کاتحفظ نہیں مل سکے گااوریہ انتہائی خطرناک سیاسی بیان ہوگا،انھوںنے کہاکہ قانون میںسقم اس وقت ظاہر ہوتاہے جب وہ نافذالعمل ہواب جبکہ ایک انتہائی سنجیدہ سقم سامنے آیاہے توپھرحکومت کواسے دور کرنے میں ہچکچانا نہیں چاہیے،پیپلز پارٹی کے سینیٹررضاربانی نے بھی اس بات کی حمایت کی کہ اس بل کوقائمہ کمیٹی کے روبرو پیش کردیاجائے۔
Load Next Story