پاکستان چین اور انگریزی بخار

جس طرح کا انگریزی بخار ہم پاکستانیوں کو چڑھا ہوا ہے، چینی اس سے سو فی صد محفوظ ہیں


چینی سمجھتے ہیں کہ ترقی کا پہلا پائیدان ہر سطح پر اپنی قومی زبان کا نفاذ ہے۔ (فوٹو: فائل)

MOSCOW: چند روز قبل ایک معروف روزنامے میں شایع ہونے والا کالم نظر سے گزرا۔ کالم میں لکھا گیا تھا کہ کس طرح چینی قوم انگریزی سیکھنے کے جنون میں مبتلا ہے۔ تحریر پڑھ کر یوں محسوس ہوا جیسے آئندہ پانچ دس سال تک چین میں بھی اسی طرح انگریزی زبان کا راج ہوگا جیسے برطانیہ اور امریکا میں ہے۔ یہ کالم دراصل وزیراعظم عمران خان کے اس بیان کے حوالے سے لکھا گیا تھا جس میں انہوں نے انگریزی زبان و لباس کو احساس کمتری کے ساتھ جوڑا تھا۔ کالم نگار کا مطمع نظر یہ تھا کہ چین میں تو انگریزی پاکستان سے بھی زیادہ اپنائی جارہی ہے، لہٰذا انگریزی کی وجہ سے نہ تو وہاں ترقی میں رکاوٹ پیدا ہوئی ہے اور نہ ہی چینی لوگ احساس کمتری میں مبتلا ہوئے ہیں۔

میرے خیال میں کالم نگار نے تصویر کا ایک خاص حصہ دکھا کر الٹی تصویر پیش کی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ مکمل تصویر آپ کے سامنے پیش کی جائے۔ تو آئیے سب سے پہلے چین میں تعلیم کی بات کرتے ہیں۔

چین میں پہلی کلاس سے لے کر یونیورسٹی کی سولہ سالہ تعلیم تک تمام مضامین چینی زبان میں پڑھائے جاتے ہیں۔ ریاضی، سائنس، معاشرتی علوم، تاریخ، جغرافیہ، میڈیکل، انجینئرنگ، انفارمیشن ٹیکنالوجی، سب کتابیں چینی زبان میں ہیں۔ اساتذہ یہ کتابیں چینی زبان میں پڑھاتے ہیں اور امتحانات بھی چینی زبان میں ہی لیے جاتے ہیں۔ چین کے تعلیمی نظام میں انگریزی ذریعہ تعلیم نہیں بلکہ ایک مضمون کی حیثیت سے پڑھائی جاتی ہے۔ چینی نظام تعلیم میں سب سے زیادہ اہمیت جن مضامین کو دی جاتی ہے وہ چینی اور ریاضی ہیں۔ چین میں کالجوں و یونیورسٹیوں میں داخلے کے معروف امتحان میں جو دو مضامین لازمی حیثیت رکھتے ہیں وہ یہی دونوں مضامین ہیں۔ تیسرا لازمی مضمون غیر ملکی زبان سے متعلق ہے، جس میں آپ انگریزی سمیت چھ غیر ملکی زبانوں جیسے فرانسیسی، جاپانی، روسی، جرمنی اور ہسپانوی زبان میں سے کسی کا بھی انتخاب کرسکتے ہیں۔ البتہ یہ بات درست ہے کہ زیادہ تر چینی طلبا انگریزی کا ہی انتخاب کرتے ہیں۔ اس انتخاب کی وجوہ بہت واضح ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ چین ایک برآمدی معیشت ہے۔ لہٰذا غیر ملکی گاہکوں کو سودا بیچنے کےلیے انگریزی زبان کی شدھ بدھ چینیوں کی ترجیحات میں شامل ہے۔

اگر آپ علی بابا ویب سائٹ پر کسی چینی کمپنی سے رابطہ کریں تو آپ کو ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں جواب آئے گا۔ بس اسی کام کےلیے وہاں انگریزی کی شدھ بدھ بڑھ رہی ہے۔

چین میں غیرملکی طالب علموں کےلیے بھی انگریزی میں تعلیم حاصل کرنے کی کوئی سہولت نہیں ہے۔ اگر آپ ایم اے تک کی ڈگری میں داخلہ لینا چاہتے ہیں تو اس کےلیے آپ کو چینی زبان سیکھنا ہوگی۔ ایم اے تک کے طالب علم کےلیے لیکچر اور امتحانات بھی چینی زبان میں ہی ہوں گے۔ البتہ چین کی چند یونیورسٹیاں بیرون ملک سے آنے والے پی ایچ ڈی طلبا کو انگریزی میں پڑھنے پڑھانے کی سہولت ضرور دیتی ہیں۔ اس پالیسی سے چین دنیا میں پڑھے لکھے لوگوں کی ایک ایسی افرادی قوت تیار کررہا ہے جو سی پیک جیسے منصوبوں میں چین کےلیے سہولت کار ثابت ہوسکیں۔ جو چینی کلچر کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ کسی نہ کسی حد تک چینی زبان سے بھی واقف ہوں۔ جو چینیوں اور دیگر اقوم کے درمیان پل کا کردار ادا کرسکیں۔ دوسرا مقصد تعلیمی کاروبار ہوسکتا ہے۔ میرے خیال کے مطابق تو انگریزی میں غیر طلبا کو ڈگریوں کی پیشکش کرنے میں چین کے پیش نظر یہی مقاصد ہیں۔ ہوسکتا ہے آپ کا نقطہ نظر مختلف ہو۔

اگر سوشل میڈیا کے حوالے سے بات کریں تو وہاں صورت حال اور بھی زیادہ دلچسپ ہے۔ آپ کےلیے یہ بات حیرانی کا باعث ہوگی اگر میں کہوں کہ چین میں واٹس ایپ، یو ٹیوب، ٹویٹر، گوگل سرچ، گوگل میپ، فیس بک، یاہو میل، جی میل وغیرہ کا کوئی وجود نہیں ہے۔ چین کے تمام تر لوگ چینی زبان میں تیار کیے گئے، چینی ساختہ سوشل میڈیا سافٹ ویئر اور ویب سائٹس استعمال کرتے ہیں۔ چین میں واٹس ایپ اور فیس بک کی جگہ وی چیٹ (wechat)، ٹویٹر کی جگہ ویبو (weibo)، یو ٹیوب کی جگہ یوکو اور بلی بلی (youko/bilibili)، گوگل کی جگہ بیدو (Baidu)، گوگل میپ کی جگہ (Baidu map)، اور یاہو میل یا جی میل کی جگہ کیو کیو میسنجر (qq messenger) استعمال ہوتا ہے۔

یہ بات درست ہے کہ وہاں انگریزی اخبار بھی شائع ہوتے ہیں لیکن وہ سرکاری سطح پر مغربی پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنے کےلیے چھاپے جاتے ہیں۔ چین کا سرکاری انگریزی چینل سی جی ٹی این چین کی زبردست پروپیگنڈا مشین کے طور پر کام کرتا ہے۔ یہ چینل خاص طور پر مغربی حکومتوں کو ردعمل دینے اور انگریزی بولنے والے ممالک کے عوام میں چین کے خلاف ہونے والے منفی پروپیگنڈے کے حوالے سے چین کا مثبت چہرہ سامنے لانے کےلیے کام کرتا ہے۔

سرکاری امور کی طرف دیکھیں تو چین میں ہر طرح کے سرکاری معاملات کی انجام دہی صرف اور صرف چینی زبان میں ہوتی ہے۔ چین کی دفتری، عدالتی اور کاروباری زبان محض چینی ہے۔ وہاں حکومت اپنے مراسلے و احکامات چینی زبان میں جاری کرتی ہے۔ 'الف' سے لے کر 'ے' تک تمام عدالتی کارروائیاں چینی زبان میں ہوتی ہیں۔ وکیل چینی زبان میں بحث کرتے ہیں اور جج اپنے فیصلے چینی زبان میں لکھتے ہیں۔ یونیورسٹیوں سمیت تمام تعلیمی ادارے اپنی خط و کتاب چینی زبان میں کرتے ہیں۔ حد یہ ہے کہ یونیورسٹیاں غیر ملکی طلبا کو ڈگریاں بھی چینی زبان میں جاری کرتی ہیں۔ البتہ یونیورسٹیوں کے انٹرنیشنل دفتروں میں یہ استعداد ضرور ہوتی ہے کہ وہ غیر ملکی طلبا سے دیگر زبانوں میں خط و کتابت یا ابلاغ کرسکیں۔

بازار اور مارکیٹیوں کو دیکھیں تو آپ کو تمام بل بورڈ، دکانوں کے بورڈ وغیرہ چینی زبان میں لکھے ہوئے نظر آئیں گے۔ چینی لوگ تو پاکستان میں بھی اپنے بورڈ چینی زبان میں لکھتے ہیں، وہ بھلا چین میں کسی دوسری زبان کا سہارا کیوں لیں گے؟ صورت حال یہ ہے کہ بہت سے انٹرنیشنل برانڈ بھی چین میں اپنے پروڈکٹ چینی ناموں کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر میکڈونلڈ، پاکستان کی طرح چین میں بھی کاروبار کرتا ہے لیکن چین میں اس کا بورڈ انگریزی میں نہیں بلکہ چینی زبان میں لکھا جاتا ہے۔ چینی زبان میں اس کا نام میکڈونلڈ سے مختلف ہے۔ اسی طرح چینی ہمارے دانشوروں کی طرح ریسٹ ایریا کو قیام و طعام گاہ اور اسپیڈ بریکر کو رفتار شکن وغیرہ کہتے ہوئے شرماتے نہیں ہیں۔ وہ تو کمپیوٹر کو بھی کمپیوٹر نہیں کہتے۔ چینیوں نے ہر شے کو چینی نام دے رکھے ہیں۔ حد یہ ہے کہ وہاں جانے والے غیر ملکی طالب علموں کو بھی انگریزی کے ساتھ ساتھ چینی نام دیے جاتے ہیں۔

لہٰذا یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ جس طرح کا انگریزی بخار ہم پاکستانیوں کو چڑھا ہوا ہے، چینی اس سے سو فی صد محفوظ ہیں۔ چینی سمجھتے ہیں کہ ترقی کا پہلا پائیدان ہر سطح پر چینی زبان کا نفاذ ہے۔ چینی خود دار قوم ہیں اور زبان سے محبت قومی خودمختاری کا پہلا سبق ہے۔ لہٰذا چین کی آڑ لے کر اگر آپ پاکستان پر انگریزی کے جبر اور تسلط کا دفاع کریں گے تو یہ سخت ناانصافی ہوگی۔ ہاں، انگریزی بطور اختیاری مضمون پڑھائیں اور دیگر زبانیں بھی پڑھائیں، ہر ذی شعور اس بات کی تحسین کرے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

سول نافرمانی ؟

Dec 17, 2024 01:47 AM |

بھارت کی شامت

Dec 17, 2024 01:27 AM |