ایک افواہ اور بس

زلفی بخاری کا کسی اعلیٰ پاکستانی شخصیت کا پیغام لے کر اسرائیل جانا اور وہاں ملاقاتیں کرنا، بعید از عقل ہے

زلفی بخاری نے اس خبر کی اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ سے تردید بھی کردی ہے۔ (فوٹو: فائل)

میڈیا کا یہی کمال ہے، ایک خبر چلتی ہے اور وہ پھر پورا دن موضوع بحث ہوتی ہے۔ اس بحث میں دیگر اہم معاملات اور خبریں کہیں پس پشت چلی جاتی ہیں اور جب گرد چھٹتی ہے تو معلوم ہوتا ہے اس خبر میں صداقت نہ تھی، بلکہ ہم نے اپنا وقت ضائع کیا ہے۔

زلفی بخاری کے حوالے سے ایک اسرائیلی اخبار نے خبر شائع کی، جو کہ اُن کی اپنی ہیبرو زبان میں تھی۔ اس خبر کے مطابق زلفی بخاری نے گزشتہ سال نومبر میں اسرائیل کا خفیہ دورہ کیا۔ اسرائیل آمد کےلیے انہوں نے برطانوی پاسپورٹ کا استعمال کیا۔ اسرائیل کے دورے میں ان کی ملاقات اس وقت کے موساد کے چیف اور دیگر اہم عہدیداران سے ہوئی۔ خبر میں یہ بھی تھا کہ یہ ملاقات متحدہ عرب امارات کے پریشر کی وجہ سے ہوئی تھی۔ خبر کے مطابق وہ پاکستان کی اعلیٰ شخصیت کا پیغام موساد چیف کےلیے لائے تھے اور موساد چیف کی جانب سے دیا جانے والا پیغام انہوں نے پاکستان کی اس اعلیٰ شخصیت کو پہنچایا تھا۔

یہ خبر پاکستان کے میڈیا میں ڈسکس ہوئی۔ اس خبر کی صداقت اور جھوٹے ہونے پر بھی بات ہوئی۔ زلفی بخاری نے اس خبر کی اپنے ویریفائیڈ ٹویٹر اکاؤنٹ سے تردید بھی کردی۔ لیکن گرد ابھی بھی باقی ہے۔ اگر بادی النظر میں دیکھیں تو اس خبر کی صداقت پر یقین کرنا مشکل ہے۔ زلفی بخاری فی الحال تو رنگ روڈ راولپنڈی اسکینڈل کی وجہ سے اپنے عہدے سے مستعفی ہیں، لہٰذا ابھی ہم زلفی بخاری کو ڈسکس نہیں کریں گے۔ ہم خبر کی بنیاد کی طرف چلتے ہیں کہ پاکستان اور اسرائیل کے تعلقات کیا رہے ہیں۔

پاکستان اسرائیل کو بطور ملک تسلیم نہیں کرتا۔ یہ بات پاکستان کے پاسپورٹ پر بھی درج ہے۔ اس کے باوجود غیر سرکاری اور خفیہ سفارتکاری اسرائیل کے ساتھ وقتاً فوقتاً جاری رہتی ہے۔ ماضی میں ایسی خبریں آتی رہی ہیں جن کی پہلے تردید ہوتی تھی اور بعد میں جب ٹھوس ثبوت سامنے آتے تھے تو خاموشی طاری ہوجاتی تھی۔ ابھی اس خبر کی تصدیق نہیں ہوسکتی ہے کیونکہ اس کے ساتھ کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں ہے اور زلفی بخاری کے انکار کے بعد ہم اس کو ''کچی خبر'' ہی تسلیم کریں گے۔ اس خبر کو تجزیے کے پیمانے پر اتاریں تو کچھ سوالات سامنے آتے ہیں۔

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اسرائیل کیوں گزشتہ سال کے نومبر میں پاکستان سے رابطہ کرے گا؟ اس وقت تو غزہ کے معاملات بھی شروع نہیں ہوئے تھے۔ وہ تو اس سال میں جنگ ہوئی ہے۔ نیتن یاہو اس وقت کرپشن الزامات کا سامنا کررہا تھا۔ لیکن ظاہر ہے پاکستان اسرائیل کے داخلی معاملات میں تو موثر نہیں ہے۔ عالمی فرنٹ پر بھی دونوں ممالک کو ایک دوسرے کی کوئی ضرورت نہیں تھی اور دنیا اس وقت کورونا وائرس کی غالباً دوسری یا تیسری لہر سے نمٹ رہی تھی۔ ایسے میں اسرائیل کو کیا پڑی کہ وہ پاکستان سے کوئی بھی رابطہ کرتا۔ اگر پاکستان نے یہ رابطہ کیا ہے تو پاکستان کو پھر عالمی سطح پر کوئی آسانی یا فیور ملی ہوتی، ایسا بھی نہیں ہے۔ بلکہ بغور دیکھیں تو پاکستان کے کئی معاملات میں نٹ کسنے کی کوشش کی گئی ہے۔


دوسری جانب جب پرویز مشرف دور میں پاکستان کی اسرائیل کے ساتھ روابط کی خبریں آتی تھیں تو یہ بات سامنے آتی تھی کہ اسرائیل مڈل ایسٹ کے معاملات کی وجہ سے پاکستان سے رابطہ کررہا ہے۔ جبکہ گزشتہ سال تک تو اسرائیل مڈل ایسٹ میں اپنے قدم جما ہی چکا تھا، لہٰذا اس کام کےلیے بھی اسرائیل کو پاکستان کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

تیسری جانب خبر کے مطابق برطانوی پاسپورٹ سفر کےلیے استعمال ہوا تھا۔ اب ظاہر ہے اس کے ساتھ کوئی فلائٹ بھی استعمال ہوئی ہوگی، کوئی ٹکٹ بھی استعمال ہوا ہوگا۔ زلفی بخاری نے اسرائیل میں کہیں قیام بھی کیا ہوگا۔ لیکن رپورٹر کے پاس اس حوالے سے کوئی ثبوت نہیں ہیں اور تادم تحریر اس حوالے سے کوئی بھی اعداد و شمار نہیں ہیں جو اس خبر کی صداقت پر مہر لگا سکیں۔

چوتھی جانب دیکھیں تو جس نے یہ خبر فائل کی ہے اس کو پاکستان کے داخلی اور خارجی معاملات کا علم ہی ںہیں ہے۔ اگر پاکستان کی اعلیٰ شخصیت نے اسرائیل سے رابطہ کرنا ہوتا تو وہ زلفی بخاری کو ہرگز بھی منتخب نہ کرتے۔ وہ اس کےلیے کسی اور گمنام شخص کو منتخب کرسکتے تھے۔ یہ رابطے بچوں کا کھیل نہیں ہیں بلکہ انتہائی سنجیدہ معاملات ہیں۔ وہ کیوں زلفی بخاری کا انتخاب کریں گے؟ ان کے پاس رابطوں کےلیے بےشمار دیگر ذرائع بھی موجود ہیں۔

یہ خبر غلط فائل ہوئی ہے، جس میں مصالحہ ہے۔ لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ اس حوالے سے ہم یہ سوچ سکتے ہیں کہ شاید اسرائیل یہاں پر پاکستان کی اندرونی سیاسی صورتحال کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایسا ہوتا ہے کہ فریق مخالف خوامخواہ چھیڑ چھاڑ کرکے صورتحال کا مزہ لیتا ہے۔ ایک خبر چلانے میں کتنا خرچ آیا ہوگا؟ چند ہزار ڈالر اور بس۔ لیکن خبر بہرحال موضوع بحث بنی ہے۔ اس خبر کے بعد یہ بھی دیکھیں کہ کیسے اسرائیل سے تعلقات کی حمایت اور مخالفت میں پاکستان میں ایک دم ہی میدان سجا ہے۔ کالم اور وی لاگس سامنے آرہے ہیں۔ اب جو ابلاغیات کی سائنس کو سمجھتے ہیں وہ یہ جانتے ہیں کہ اسرائیل نے ایک افواہ کو خبر بنا کر پاکستان میں رائے عامہ جانچ لی ہے۔ حکومتی و دیگر حلقوں کی جانب سے اس کی تردید سامنے آنی چاہیے تھی، وہ ابھی تک نہیں آئی ہے۔ یہ خبر تکنیکی طور پر غلط ہے، افواہ ہے اور اس کو ثابت کرنا قریب قریب ناممکن ہے۔

یہ انہونی نہیں ہے کہ پاکستان کے اسرائیل سے بیک ڈور تعلقات ہوں۔ یہ بالکل ہوسکتے ہیں۔ لیکن زلفی بخاری کا کسی اعلیٰ پاکستانی شخصیت کا پیغام لے کر اسرائیل جانا اور وہاں ملاقاتیں کرنا، بعید از عقل ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story