زندگی ہے یا کوئی Typhoon ہے

جب پہلی مرتبہ ہم نے سونامی کی خبریں اور ساکت ومتحرک تصاویر دیکھیں تو دل دہل گیا تھا۔


جب پہلی مرتبہ ہم نے سونامی کی خبریں اور ساکت ومتحرک تصاویر دیکھیں تو دل دہل گیا تھا۔ فوٹو : فائل

زباں فہمی 104

ذرا سوچیں، اگر خواجہ میردردؔؔ آج کا شاعر ہوتا تو کیا یہ شعر یوں نہ کہتا:

زندگی ہے یا کوئی Typhoon ہے
ہم تو اِس جینے کے ہاتھوں مر چلے

اب آپ دریائے حیرت میں غوطہ زن ہوں گے، مطلب یہ کہ حیران پریشان ہورہے ہوں گے کہ یہ طوفان کی جگہ Typhoonکیوں آگیا، یا کیوں استعمال کیا گیا ......کیا یہ محض ازراہِ تفنن ہے یعنی مذاق ہے...یا معاملہ کچھ اور ہے۔ اس کے متعلق گفتگو بھی ہوگی، پہلے قصیدے کی تعریف میں شامل، گریز کے لازمی عنصر کی طرح ، کچھ اِدھر اُدھر کی بات کرلی جائے۔ ہوسکتا ہے کہ شاعر جاپانی لفظ سونامی [Tsunami] بھی کہیں نا کہیں استعمال کر ہی لیتا، موقع محل کی مناسبت سے۔

ویسے بات کی بات ہے کہ جب پہلی مرتبہ ہم نے سونامی کی خبریں اور ساکت ومتحرک تصاویر دیکھیں تو دل دہل گیا تھا۔ پھر ہمارے یہاں ایک صاحب آئے جنھیں یہ دہشت خیز، دہشت انگیز اور دہشت گرد منظر بہت پسند آگیا تھا، سو اُنھوں نے وطن عزیز میں بھی سونامی لانے کا وعدہ کیا۔ (معلوم نہیں کہ انھیں اَزخود پسند آیا تھا یا اُن کے لانے والوں کی پسند کا خیال کرتے ہوئے اُنھوں نے پسند کرلیا)۔ یہ اور بات ہے کہ ابھی تک وہ اصلی (یعنی سمندری) سونامی نہیں لاسکے، جس کی تباہ کاری سے ایک عالَم متأثر ہوا اور اُس کا فقط نام ہی بچے بڑوں سب کو ڈرانے کو کافی ہے، بہرحال، سونامی سے لطف اندوز ہونے والوں کے لیے، جدید غزل گو جناب معین احسن جذبیؔ بہت پہلے کہہ گئے ہیں:

اے موج ِبلا، اُن کو بھی ذرا، دوچار تھپیڑے ہلکے سے
کچھ لوگ ابھی تک ساحل سے طوفاں کا نظارہ کرتے ہیں

ناواقفین کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ جذبیؔ وہی شاعر تھے جن کی غزل کا مطلع مشہور ِزمانہ اور پوری غزل ہی مقبول ہوئی:

مرنے کی دعائیں کیوں مانگوں، جینے کی تمنا کون کرے
یہ دنیا ہو یا وہ دنیا، اب خواہشِ دنیا کون کرے

{یوں تو یہ غزل ہمارے نامور گلوکار حبیب ولی محمد کی گائی ہوئی ہی دنیا بھر میں مشہور ومقبول ہوئی، لیکن ماقبل ومابعد، دیگر کئی گلوکاروں نے بھی طبع آزمائی کی۔ ۱۹۴۸ء کی فلم ضدی میں کشورکمار نے یہی غزل قدرے فرق سے اور سہگل کے انداز میں، ناک سے آواز نکالتے ہوئے گائی، جو فلمائی گئی، دیوآنند پر... پہچاننا مشکل ہے کہ یہ کشور ہی ہے۔ علاوہ ازیں یہی غزل گانے والے جدید گلوکاروں میں حبیب ولی کے فرزند، ندیم اور شوقین گلوکارہ بھارتی وِشواناتھن بھی شامل ہیں۔ یہاں ایک اور ضمنی بات بھی بتانا ضروری ہے۔ حبیب ولی مرحوم نے یہ غزل گاتے ہوئے مقطع یوں گایا ہے: دنیا نے ہمیں چھوڑا اے دل، ہم چھوڑ نہ دیں کیوں دنیا کو... جبکہ اصل مقطع ہے: دنیا نے ہمیں چھوڑا جذبیؔ، ہم چھوڑ نہ دیں کیوں دنیا کو+دنیا کو سمجھ کر بیٹھے ہیں، اب دنیا دنیا کون کرے۔ گلوکار ایسا کرتے ہی رہتے ہیں کہ تکنیکی لحاظ سے، دُھن بناتے ہوئے فرق کا شائبہ ہو تو مصرع یا شعر میں رَدّوبدل کردیا۔ حبیب ولی نے تو اس کے علاوہ بھی ایک بہت بڑا 'کارنامہ' یہ انجام دیا کہ بہادرشاہ ظفرؔ کا کلام گاتے ہوئے سیمابؔ اکبر آباد ی کی غز ل سے ایک شعر لے کر، ترمیم کے ساتھ، اس میں شامل کردیا اور وہ ظفرؔہی کی نسبت سے مشہور ہوگیا۔ شعر تھا: عمر دراز مانگ کے لائی تھی چاردن+دو آرزو میں کٹ گئے، دو انتظار میں۔ گلوکار موصوف نے یوں گایا: عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار دن......اب یار لوگ لگے ہیں فیس بک پر بحث کرنے، خصوصاً وہ بے چارے جنھیں معلوم ہی نہیں کہ سیماب ؔ اکبر آبادی کون تھے اور فن شعر میں کتنے قدآور تھے۔ یہاں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ حبیب ولی مرحوم کی شہرت کا آغاز، ہندوستان میں، بہادرشاہ ظفرؔ کی مشہور غزل،''لگتا نہیں ہے جی میرا اُجڑے دیار میں +کس کی بنی ہے عالم ِناپائیدار میں'' سے ہوا تھا۔ پاکستان میں انھوں نے پہلے پہل ، ۱۹۷۰ء کی مشہور فلم 'بازی' میں رازؔ الہ آبادی کی غزل، ''آشیاں جل گیا، گلستاں لُٹ گیا، ہم قفس سے نکل کر کدھر جائیں گے'' اور واحد قریشی کا گیت ''راتیں تھیں چاندنی، جوبن پہ تھی بہار'' گاکر، مقبولیت کے جھنڈے گاڑے تھے۔ یہ گیت ماقبل ۱۹۴۲ء کی ہندوستانی فلم ''میرے ساجن'' میں، امیر بائی کرناٹکی اور رفیق غزنوی گاچکے تھے۔ (بحوالہ دبستان ِ فلم کے نغمہ نگار، زخمی کان پوری، مرتبہ شاہد معین فاروقی، بز م ِ فنون، کراچی : ۲۰۰۲ء) }۔

میرے کالم میں اس طرح کی وضاحت اس لیے ہوا کرتی ہے کہ ہماری نئی نسل خصوصاً اور پرانے لوگ عموماً، کسی بھی معاملے میں مطالعے اور تحقیق سے عملاً گریز کرتے ہیں، سینہ گزٹ کو سند کا دَرجہ جلد مل جاتا ہے، نیز کسی مشہور شخص کی کہی ہوئی یا لکھی ہوئی کوئی بھی بات، بلاتحقیق آگے بڑھانے کا چلن بھی عام ہے۔ آمدم برسرِمطلب! طوفان کا انگریزی لفظ ٹائی فُون سے کیا رشتہ یا کیا تعلق ہے؟ تو صاحبو! یہ ہماری اپنی پیاری، راج دُلاری اور سب سے نیاری زبان، اردو کا لفظ طوفان ہی ہے جو فرنگیوں نے Typhoon بنادیا ہے۔ تفصیل ملاحظہ فرمائیں: عربی الاصل لفظ طوفان درحقیقت عربی کے لفظ 'طافَ' (گھومنا،چکر لگانا) سے مُشتَق ہے۔ مصباح اللغات عربی، اردو سے معلوم ہوتا ہے کہ اَلطّوفان کے معانی ہیں: سخت سیلاب، سخت بارش، رات کا سخت اندھیرا، موت، تباہ کُن اور ہر شئے کا زیادہ ہونا۔ یہی لفظ اردو اور فارسی میں منتقل ہوا۔ فارسی میں ایک مصدر بھی طوفیدن کہلاتا ہے، جس کی نسبت، ظاہر ہے کہ طوفان سے ہے۔ چینی زبان میں یہ لفظ، تائی فُونگ [Tai fung] اور تائی فینگ[ Taifeng] ہوگیا، جاپانی میں گیا تو تائی فِیو [Taifuu] اور کوریائی زبان نے اپنایا تو اسے تے پُونگ ( Taepung) کردیا۔ نوبت بہ ایں جا رسید کہ یونانی زبان میں یہ لفظ 'تائی فون' ہوا تو لاطینی نے اسے 'تی فون' کردیا۔ اب چونکہ لاطینی ماں ہے، ہِسپانوی، پُرتگیز، فرینچ، جرمن اور انگریزی کی، لہٰذا، انگریزی میں اسے ٹائی فُون بناکر عام کردیا گیا۔ (یہاں ایک بات لفظ ٹائی فُون کے اصطلاحی استعمال کے متعلق کرتا چلوں: طوفان کی مختلف شکلوں کو انگریزی میں typhoon،hurricane اور cycloneکہا جاتا ہے۔ ٹائی فون محض شمال مغربی بحرالکاہل Northwestern Pacific میں رُونما ہوتا ہے اور اس سے عموماً برّاعظم ایشیا کو خطرہ لاحِق ہوتا ہے۔ بحوالہ نیویارک ٹائمز، مؤرخہ بارہ اکتوبر دو ہزار اُنیس)

{What is the difference between a typhoon, a hurricane and a cyclone? It comes down only to the storm's location. All three are tropical cyclones - circular storms that form over warm waters with very low air pressure at the center, and winds greater than 74 miles an hour. But different terms are used for such storms in different parts of the world. The word "hurricane" is used for the storms that form in the North Atlantic, the northeastern Pacific, the Caribbean Sea or the Gulf of Mexico. Typhoons develop in the northwestern Pacific and usually threaten Asia.
[https://www.nytimes.com/2019/10/12/us/
typhoon-cyclone-hurricane-difference.html]}
ڈاکٹرشان الحق حقی مرحوم کی مرتبہ آکسفرڈ انگلش اردو ڈکشنری میں بھی Typhoonکے ذیل میں لکھا ہے:
مدارینی علاقوں کی طوفانی آندھی جو بحرالکاہل کے مغربی علاقوں میں اُٹھتی ہے۔ ]ع: طوفان[ (گیارہویں اشاعت: ۲۰۱۷ء)۔

یہاں یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ فارسی میں طوفان کو ''سیل'' بھی کہا جاتا ہے، سیلِ آب یعنی پانی کے طوفان کو اردو میں سیلاب کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے۔ اسی لفظ کو اگر آنسوئوں کا طوفان یا سیلاب کہنا ہو تو ''سیلِ اشک'' کہا جاسکتا ہے۔ اشکوں کا سیل ِ رَواں تو اردو میں بھی مستعمل ہے۔ اگر طوفان میں ہوا کے جھکّڑ چلیں، آندھی آئے اور بارش برسے تو اُسے ''طوفانِ بادوباراں'' کہا جاتا ہے جو بہرحال اہل زبان، اہلِ اردو کے لیے نامانوس ترکیب نہیں، یہ اور بات کہ ہماری نئی نسل کو ایسی تراکیب سمجھنا اور سمجھانا کارے دارد ہے۔ چلیں خیر....آگے بڑھتے ہیں۔

اپنے میرؔ صاحب کے کلام میں بھی 'طوفان ' پایا جاتا ہے:
کل اِک مِژہ نچوڑے، طوفان ِ نوح آیا
فکرِفشار میں ہوں، میر ؔآج ہر پلک کے
(مِژہ : آنکھ کی پلک، جمع : مژگاں)
]منقولہ فرہنگ ِ کلام ِ میرؔ مع تنقیدی مقدمہ از شاہینہ تبسم، نئی دہلی: ۱۹۹۳ء[
یہ بات تو کہنے کی نہیں کہ دنیا کی تاریخ میں سب سے زیادہ مشہور طوفان، طوفان نوح ہے جو حضرت نوح (علیہ السلام) کے عہد میں بطور عذاب برپا ہوا تھا۔ اس طوفان کی تلمیح کا سب سے عمدہ اور معنی خیز استعمال خواجہ میردردؔ نے اپنے اس شعر میں کیا:

طوفان ِ نوح نے تو ڈبوئی زمیں فقط
میں ننگِ خلق، ساری خدائی ڈبوگیا

''مہتاب ِ داغؔ'' کی ورق گردانی کرتے ہوئے حضرت داغؔ کے یہ اشعار 'طوفان' سموئے ہوئے نظر آئے:

موجِ طوفاں خیز و صَرصَرِ تُندوتیز
کرسکے اس جوش میں تیراک کیا
٭٭٭
ایک طوفاں ہے، غم ِ عشق میں رونا کیا ہے
نہیں معلوم کہ انجام کو ہونا کیا ہے
٭٭٭
نہیں ہے تشنگی ِحشر کا کچھ اندیشہ
ہم اشکِ شرم کا طوفان لے کے جائیں گے
داغ ؔ کے مشہور شاگرد اور جانشین، نوح ؔ ناروی نے اپنے اصل نام ہی کو تخلص بنا تے ہوئے ناصرف اشعار میں بہت سے دل چسپ مضامین نظم کیے، بلکہ ایک پورے دیوان کا نام ہی ''طوفان ِنوح'' رکھا۔ اس سے قبل اُن کا اولین دیوان ''سفینہ نوح'' کے عنوان سے شایع ہوا تھا۔
اُن کے عقیدت مند احباب نے انھیں ''ناخدائے سخن''، تاج الشعراء اور فصیح العصر کے القاب سے ملقب کیا۔ اُن کا نمونہ کلام ملاحظہ فرمائیے:
جنابِ نوحؔ کی مشق ِ سخن تحسیں کے قابل ہے
سفینہ پہلے شایع ہوچکا، طوفان اب ہوگا
٭٭٭
نوح ؔ محبت کی دنیا میں
ہے طوفان اٹھانے والا
٭٭٭
دُرِمقصد ملے گا تو ملے گا تہ نشیں ہوکر
ڈبودے جو ہمیں اے نوحؔ، وہ طوفان ِغم اچھا
٭٭٭
جنابِ نوح ؔ کے رونے پہ یہ ارشاد ہوتا ہے
نہ آیا کچھ اِنھیں، آیا تو ہاں طوفاں اٹھا دینا
آن لائن تلاش وجستجو میں ہمیں بعض دیگر شعراء کے یہ اشعار 'طوفان' کا پتا دیتے ہوئے دکھائی دیے:
خود پر کوئی طوفان گزر جانے کے ڈر سے
میں بند ہوں کمرے میں بکھر جانے کے ڈر سے
(حسن عزیز)
طوفان کر رہا تھا میرے عزم کا طواف
دنیا سمجھ رہی تھی کہ کشتی بھنور میں ہے
(نامعلوم)
مٹّی کے گھر ہی صرف نہیں باعث ملال
طوفان کی حدوں میں ہیں پکّے مکان بھی
(عزیزخیر آبادی)
ایک ندی ہے کہ رکتی ہی نہیں
ایک طوفان اترتا جائے
(شین کاف نظامؔ)
کوئی سناٹا سا سناٹا ہے
کاش طوفان اٹھادے کوئی
(ناصرؔ زیدی)
وہ نہیں دیکھتے ساحل کی طرف
جن کو طوفان صدا دیتا ہے
(سیف الدین سیفؔ)
ویسے ہمارے فلمی شعراء نے بھی اپنے کلام میں خوب خوب ''طوفان اٹھایا'' ہے۔ ایک گانا بہت مشہور، مہدی حسن کی آواز میں یاد آرہا ہے:
؎ دل میں طوفاں چھُپائے بیٹھا ہوں+یہ نہ سمجھو کہ مجھ کو پیار نہیں

اپنے وقت کی نہایت کامیاب فلم ''سمندر'' میں شامل، جناب صہبا اختر کا مقبول نغمہ ''ساتھی ...تیرا میرا ساتھی ہے، لہراتا سمندر'' ایک صاحب کو اتنا پسند آیا کہ انھوں نے اسے دوبارہ گوا کر، بولوں میں تبدیلی کرتے ہوئے اپنا نام شامل کرادیا۔ یہ اور بات کہ جب مزاج برہم ہوا تو اُسی گلوکار کا ''حشر'' بھی کرادیا تاکہ تاج محل کے معماروں کے ہاتھ قلم کرنے کی مکذوبہ روایت کو حقیقی صورت ملے۔ اس گانے میں ایک بول ہے ، ''ہم بیٹے ہیں سمندر کے، ہم طوفانوں کے پالے ہیں''۔ (خاکسار نے دو سال پہلے پاک بحریہ کے لیے تشہیری نغمہ تحریر کیا تو اس کا ایک ٹکڑا مستعار لیا ...ہم طوفانوں کے پالے ہیں)۔ صہبا اختر کی شاعری میں فلمی نغمہ نگاری کم کم شامل ہے، مگر ہمارے بعض شعراء نے فلمی دنیا میں خوب نام کمایا۔

معروف شاعر شکیل بدایونی کی فلمی شاعری کی شہرت کے آگے، اُن کی ادبی شاعری ماند پڑگئی، ورنہ تلامذہ ٔ جگر ؔ مرادآبادی میں وہ بہت ممتا ز اور بھرپور غزل گو تھے۔ اُن کی کہی ہوئی نعت رسول مقبول (ﷺ) بے کس پہ کرم کیجئے سرکارِ مدینہ ، فلم ''مغل اعظم'' میں شامل ہوکر مشہور ہوئی، مگر کہا جاتا ہے کہ یہ نعت پہلے پہل، گلوکارہ شمشادبیگم کی آواز میں آل انڈیا ریڈیو، پشاور اسٹیشن سے نشر ہوئی تھی۔ اسی نعت کا ایک شعر ہے: طوفان کے آثار ہیں، دشوار ہے جینا+بے کس پہ کرم کیجئے سرکارِ مدینہ (بحوالہ دبستان ِ فلم کے نغمہ نگار، زخمی کان پوری)۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں