’زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری‘
ایک قدم‘ جو ملک میں تعلیمی انقلاب کی نوید بن سکتا ہے۔
KARACHI:
صوبہ بلوچستان کے صدر مقام کوئٹہ کے شمال مغرب میں 122 کلومیٹر کی مسافت پر زیارت کا پُر فضاء پہاڑی مقام واقع ہے۔
زیارت کو اپنی صحت بخش آب و ہوا' ٹھنڈے موسم اور دنیا کے دوسرے سب سے بڑے صنوبر کے جنگلات کے علاوہ بانی پاکستان قائد اعظمؒ کے پسندیدہ مقام کے طور پر بھی شہرت حاصل ہے۔ کوئٹہ سے زیارت آئیں تو سڑک پر شہر کی حدود میں داخل ہونے کی علامت کے طور پر پشاور کے درہ خیبر سے مشابہ ایک محراب ایستادہ ہے جس سے گزر کر شہر میں داخل ہوتے ہیں اسے ''باب زیارت'' کا نام دیا گیا ہے۔
اس محراب سے چند کلومیٹر پہلے دائیں ہاتھ ایک تنہا عمارت نظر آتی ہے۔ سڑک کے کنارے پر اس عمارت کا تعارفی بورڈ نصب ہے۔ جس پر الہجرہ اسکول و کالج جناح کیمپس زیارت' تحریر ہے۔ اسکول کی حدود میں داخل ہوں تو پورے ماحول پر وہی سنجیدگی اور گہری خاموشی چھائی ہے جو زیارت کے عمومی ماحول کا خاصا ہے۔
اسکول کے اندر طلباء کی موجودگی کے باوجود پورا ماحول نظم و ضبط کے سانچے میں ڈھلا نظر آتا ہے۔ قائد اعظمؒ کو بھی زیارت شاید اسی لئے عزیز تھا کہ زیارت کا اپنا مزاج قائدؒ کی شخصیت سے موافقت رکھتا ہے۔ ہمارے ملک میں ہزاروں سرکاری' نجی اور رفاہی تعلیمی ادارے خدمات انجام دے رہے ہیں لیکن الہجرہ کی کہانی سب سے الگ اور منفرد ہے۔
یہ ادارہ بلوچستان کے ہر ضلع سے چھٹی جماعت کے مقابلے کے امتحان کی بنیاد پر دو باصلاحیت غریب طلباء کا انتخاب کرتا ہے۔ مقابلے کے امتحان کے لئے اہلیت کا معیار یہ ہے کہ امیدوار کسی سرکاری اسکول کا طالب علم ہو اور اس کے خاندان کی سالانہ آمدن بیس لاکھ روپے سے زائد نہ ہو (اب سوچ بچار کے بعد آمدن کی حد 4 لاکھ مقرر کی جارہی ہے)۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ الہجرہ انتہائی غریب لوگوں کو بہترین تعلیم کے ذریعے اوپر اُٹھانے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔
مقابلے کے امتحان میں کامیابی حاصل کرنے والے غریب اور بے وسیلہ خاندانوں کے یہ بچے اسکول ہاسٹل میں داخل کرلئے جاتے ہیں اور پھر ساتویں جماعت سے لے کر بارہویں تک ان طلباء کی تعلیم' خوراک اور دیگر تمام ضروریات زندگی اسکول کے ذمہ ہوتی ہیں۔ الہجرہ اسکول و کالج کے طالب علموں نے ہمیں بتایا کہ وہ چھٹیوں سے واپسی پر اپنے گھر سے جو چند سو روپے لاتے ہیں وہ اگلی چھٹیوں میں واپس گھر جا کر ہی خرچ کرتے ہیں کیونکہ یہاں اس کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔
اہم بات یہ ہے کہ تعلیمی اعتبار سے پاکستان کے سب سے پسماندہ صوبے میں اس اسکول کا قیام صوبائی سطح پر تعلیمی انقلاب کے امکانات کو روشن کرنے کا باعث بن رہا ہے۔ ملک کے غریب خاندانوں کو ماہانہ وظیفہ دینے کا پروگرام بھی جاری ہے لیکن اس سے کہیں بہتر یہ ہو گا کہ زیادہ سے زیادہ توجہ غریب خاندانوں کے افراد کو ہنر مند بنانے، انہیں تعلیم یافتہ بنانے اور روز گار کے مواقع پیدا کرنے پر دی جائے تاکہ یہ لوگ ماہانہ وظیفے پر انحصار کرنے کے بجائے ملکی دولت پیدا کرنے کے عمل میں شامل ہو جائیں۔
بلوچستان کے اندر یہ کام ایسی صورتحال میں ہو رہا ہے جہاں ملک کے دو پسماندہ صوبوں سندھ اور بلوچستان کے بارے میں تعلیمی معیار کے حوالے سے جاری ہونے والے حالیہ اعداد و شمار حوصلہ شکن ہیں۔ صوبہ سندھ کے سرکاری اسکولوں کے حوالے سے 2019 میں جمع کئے گئے اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو تعلیم کے شعبے کی حالت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
سندھ کے 30 ہزار سے زائد اسکولوں میں بجلی کی سہولت موجود نہیں۔ رپورٹ کے مطابق 49,103 اسکولوں میں ایک لاکھ 33 ہزار اساتذہ کا تقرر کیا گیا لیکن ان میں سے صرف 36,659 اسکولوں میں تعلیمی سرگرمیاں جاری ہیں باقی میں تعلیمی کام نہیں ہو رہا۔ 26,260 اسکولوں میں پینے کا پانی اور واش رومز موجود نہیں۔ 4700 اسکولوں میں لیبارٹری اور لائبریری کی سہولت موجود نہیں ہے جبکہ 3600 اسکول کھیل کے میدانوں سے محروم ہیں۔
بلوچستان کے بارے میں رپورٹ بتاتی ہے کہ صوبے کے کل 13000 سرکاری اسکولوں میں سے 7,900 کی چار دیواری نہیں جبکہ 5,296 اسکول ایک کمرے اور ایک ٹیچر پر مشتمل ہیں۔ صوبے کے سرکاری اسکولوں میں واش روم اور دیگر سہولتوں کی فراہمی کے لئے 2 ارب روپے فراہم کئے گئے تھے لیکن مالی سال 2016-17 اور 2017-18 کے دوران یہ رقم خرچ ہی نہیں کی گئی۔ ان اعداد و شمار کو دیکھ کر دُکھ ہوتا ہے لیکن اس پر حیرت اس لئے نہیں ہوتی کہ ہمارے ملک میں سرکاری سطح پر عوام کو فراہم کی جانے والی جن خدمات کو اس ملک کی اشرافیہ استعمال نہیں کرتی ان کی حالت کیسے درست ہوسکتی ہے۔
بالادست طبقات کی اپنی ضرورتیں اُن ذرائع سے پوری ہوجاتی ہیں جو عام لوگوں کی دسترس میں نہیں۔ مثال کے طور پر علاج معالجہ کے لئے انہیں سرکاری ہسپتالوں سے واسطہ نہیں پڑتا۔ ان کے لئے اندرون ملک بھی اعلیٰ درجے کی طبی سہولتیں موجود ہیں لیکن ان پر آنے والے اخراجات ملک کے عام شہری ادا نہیں کرسکتے۔ اگر زیادہ مسئلہ ہوتو یہ طبقہ بیرون ملک علاج کو ترجیح دیتا ہے۔ تعلیم کی مثال لے لیں تو ان کی اولادیں بیرون ملک تعلیمی اداروں میں تعلیم پاتی ہیں جبکہ ملک کے اندر اس طبقے کے لئے خصوصی ادارے موجود ہیں جنہیں برطانوی عہد میں حکمران طبقے کی ذہنی نشو و نما کے لئے قائم کیا گیا تھا۔ ملک کے عوام اور بے وسیلہ طبقات کے لئے جو تعلیمی سہولتیں موجود ہیں ان کے ذریعے معیاری تعلیم و تربیت کا حصول ممکن نہیں۔
الہجرہ اسکول کے قیام کی کہانی اس ادارے کے بانی محمد عبدالکریم ثاقب کی زندگی کی کہانی سے جُڑی ہوئی ہے۔
1947ء میں ہونے والی تقسیم ہند کے نتیجے میں ضلع قصور سے متصلہ مشرقی پنجاب کے ایک گائوں سے چند مسلم گھرانوں نے پاکستان کی طرف کوچ کیا۔ ہجرت کی صعوبتیں سہتے یہ گھرانے پہلے رائے ونڈ کے ایک قریبی گائوں کوٹ میاں بشیر اور پھر ضلع اوکاڑہ کے چک 16 گیمر والا میں ٹھہرے۔ یہاں ان گھرانوں میں سے ایک گھرانے کے ہاں 25 دسمبر 1949ء کو ایک لڑکے کی پیدائش ہوئی۔
گھر والوں نے اس بچے کا نام عبدالکریم رکھا۔ جلد ہی ان گھرانوں کو ضلع رحیم یار خان کی تحصیل لیاقت پُور میں عباسیہ کینال کے دہانے پر چک 13 میں زمین الاٹ ہوگئی۔ پانچ برس کی عمر میں عبدالکریم کو اسکول بھجوانے کے بجائے جانوروں کی دیکھ بھال پر لگادیا گیا۔
عبدالکریم کی عمر کے آٹھویں برس کچھ ایسا ہوا کہ اُسے اسکول داخل کروا دیا گیا۔ اسکول چھے میل (تقریباً دس کلومیٹر) کی پیدل مسافت پر تھا۔ عبدالکریم نے صرف تین برس میں ہی پرائمری امتیازی نمبروں سے پاس کرلی۔ اُس کے والد مزید تعلیم کے حق میں نہ تھے البتہ اسکول کے ایک استاد کے کہنے پر عبدالکریم کو جماعت ششم میں داخل کروا دیا گیا۔ اسی دوران لڑکے نے اپنے نام سے پہلے محمد اور آخر میں ثاقب کا اضافہ کیا اور اپنا نام محمد عبدالکریم ثاقب لکھنا شروع کیا۔ مزید تعلیم کی اجازت نہ ملی تو اُس نے ہجرت کا فیصلہ کرلیا۔
محمد عبدالکریم ثاقب نے گیارہ برس کی عمر میں گھر کو خیر باد کہا اور نامور دینی مدارس سے علم کی پیاس بجھائی اور نامور علماء کی صحبت پائی۔ 1967ء میں دینی مدارس سے فارغ التحصیل ہوا۔ نوجوان نے ایک برس رائے ونڈ کے قریب موضع پاجیاں میں 'جہاں اب ان کا خاندان منتقل ہو چکا تھا' کسب معاش کے کچھ تجربات کئے۔ اس دوران ایک عالم دین اُسے لاہور لے آئے۔ یہاں اس نے میٹرک کرنے کا فیصلہ کیا اور اس مقصد کے لئے رائے ونڈ منتقل ہوگیا۔ 1969ء میں میٹرک کیا۔
میٹرک میں امتیازی نمبروں کی وجہ سے اسلامیہ کالج لاہور میں وظیفے پر داخلہ ہوا لیکن نوجوان نے کسی کے مشورے پر اسلامی یونیورسٹی مدینہ میں داخلے کو ترجیح دی۔ جب لاہور کے دینی مدرسہ نے عبدالکریم ثاقب کا داخلہ اسلامی یونی ورسٹی مدینہ نہ بھیجا تو انہوں نے راولپنڈی آکر براہ راست سعودی سفارت خانے میں داخلے کی درخواست دینے کا فیصلہ کیا۔
اُس نے سفارت خانے میں داخلے کے لئے درخواست دی۔ جب سفارت خانے سے جواب نہ آیا تو ایک کرم فرما کے مشورے پر عمرہ پر جانے اور ساتھ ہی یونی ورسٹی میں اپنی درخواست کے بارے میں پیشر رفت معلوم کرنے کا فیصلہ کیا۔ بحری جہاز کے تھکا دینے والے سفر' عمرہ کی ادائیگی اور روضہ رسولﷺ پر حاضری کے بعد مدینہ یونی ورسٹی سے معلوم ہوا کہ وہاں داخلے کی درخواست موجود ہے اور چند ہی دنوں میں داخلے کا فیصلہ ہوگا۔ یونیورسٹی میں داخلہ تو ہوا لیکن پھر پے در پے ایسی رکاوٹیں آئیں کہ انہیں دور کرتے ہوئے انہیں لانے والا بحری جہاز واپس چلا گیا۔ بہت تگ و دو کے بعد یونی ورسٹی میں ایک درخواست دے کر انہوں نے واپس پلٹنے کا فیصلہ کیا۔ پنڈی واپس پہنچنے پر انہیں اپنے داخلے کی خبر ملی۔
مدینہ یونی ورسٹی میں محمد عبدالکریم ثاقب کو جہاں معیاری تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا وہیں انہیں دنیا کے تقریباً ہر خطے کے فرد کو بھی قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ امتیازی نمبروں سے یونی ورسٹی کی تعلیم کی تکمیل کے بعد ان کا داخلہ مزید اعلیٰ تعلیم کے لئے ہوگیا۔ اس کے علاوہ انہیں یونی ورسٹی کے وائس چانسلر کی طرف سے داعی بن کر کسی افریقی ملک میں جانے کی پیش کش بھی ہوئی۔ اسی عرصہ میں
یونی ورسٹی میں بطور وزیٹنگ فیکیلٹی آنے والے ایک پاکستان پروفیسر خورشید احمد نے انہیں برطانیہ میں اسلامک مشن کے عربیک ڈیسک کے ہیڈ کے طور پر ملازمت کی پیش کش کی جو انہوں نے قبول کرلی۔
اکیسیویں صدی کے اوائل میں جب وہ پاکستان آئے تو زیارت میں واقع قائد اعظم ریزیڈنسی دیکھنے گئے۔ کوئٹہ میں ان کی ملاقات چند حکومتی عہدیداروں اور سرکاری اہلکاروں سے ہوئی۔ ان سب افراد نے انہیں بلوچستان میں معیاری تعلیمی ادارہ بنانے کا کہا۔ بلوچستان حکومت نے انہیں زیارت شہر سے تین کلومیٹر فاصلہ پر بنے قائد اعظم ریزیڈنشل کالج 'جو اپنی تعمیر کے پندرہ برس کے بعد بھی فعال نہیں ہوا تھا' ان کے سپرد کرنے کا فیصلہ کیا۔ ٹرسٹ کا قیام 2002ء اور تعلیمی ادارے کا قیام 2004ء میں عمل میں آیا۔ کچھ قانونی پیچیدگیوں کی بنا پر ایک ایسا وقت بھی آیا کہ ادارے کے لئے مالی وسائل کا حصول مشکل ہوا۔ اس موقع پر عبدالکریم ثاقب نے اپنا برطانیہ والا گھر بھی بیچ دیا اور اسی گھر میں کرایہ دار کی حیثیت سے رہنے لگے۔ آج ان کا قائم کردہ ادارہ اپنی عمر کی سترھویں بہار دیکھ رہا ہے جبکہ برطانیہ میں ان کی کوششوں سے قائم ہونے والے پانچ تعلیمی ادارے پہلے سے کام کررہے ہیں ۔
الہجرہ زیارت کا موٹو 'انسانیت' اسلامیت' پاکستانیت' ہے اور ترجیحات کسی انسان کو نہ صرف اپنے ملک بلکہ پوری عالم انسانیت کے لئے مفید بنا سکتی ہیں۔ کالج چار ہائوسز میں تقسیم ہے جن کے نام بانی پاکستان ہائوس (قائد اعظم محمد علی جناحؒ) مصور پاکستان ہائوس (علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ) محسن پاکستان ہائوس (ڈاکٹر عبدالقدیر خان) اور ہمدرد پاکستان ہائوس (حکیم محمد سعید) ہیں۔ ہر ہائوس کا اپنا ایک رنگ ہے جو بالترتیب سبز' نیلا' سیاہ اور سرخ ہیں اور ان ہائوسز کے طلباء اسی رنگ کی ٹوپیاں پہنتے ہیں۔
کالج میں قیام کے عرصہ کے دوران ہر طالب علم کے لئے تین زبانیں سیکھنا لازم ہے جو عربی' اُردو اور انگریزی ہیں۔ یہی تین زبانیں کالج میں بول چال کے لئے استعمال ہوتی ہیں اور انہی زبانوں کو روزانہ ہونے والی اسمبلی کی کارروائی اور دیگر پرواگرموں میں استعمال کیا جاتا ہے۔
طالب علموں کی تربیت کے کچھ بنیادی نقاط طے کئے گئے ہیں جن میں باہمی احترام' ثابت قدمی' عاجزی' دیانت داری' ضبط نفس' خود اعتمادی' ایمان داری' کسب کمال' احساس ذمہ داری' رضاکارانہ پہل کاری' پیشہ وارانہ دیانت اور عزم صمیم شامل ہیں اور انہی اوصاف کو طالب علموں میں پروان چڑھانے کی سعی کی جاتی ہے۔
اس ادارے کے تعلیمی معیار اور انتظامی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے تُرکی کی دیانت فائونڈیشن سمیت ملکی اور بین الاقوامی سطح پر الہجرہ کے کام کو زبردست پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ ملک بھر کے بڑے تعلیمی ادارے الہجرہ کے طلباء کو اہمیت دیتے ہیں۔ ادارے سے فارخ التحصیل ہونے والے پہلے بیچ کے 75 فی صد طالب علموں نے اعلیٰ تعلیمی وظائف پر داخلہ حاصل کیا۔ بلوچستان یونیورسٹی میں ادارے کے ہر طالب علم کو میرٹ پر آنے کی صورت میں داخلہ دینے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی اسلام آباد نے پانچ نشستیں الہجرہ کے لئے رکھی ہیں۔
گیریژن یونیورسٹی لاہور نے دو مرتبہ الہجرہ کے دو دو طالب علموں کو اسکالر شپ پر داخلہ دیا ہے۔ اس کے علاوہ ملک بھر کے اعلیٰ تعلیم دینے والے صف اول کے اداروں میں الہجرہ سے فارغ التحصیل ہونے والے نوجوان اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ کالج میں دن کا آغاز نماز فجر کے ساتھ ہوتا ہے اور رات 11 بجے لائٹس آف ہوجاتی ہیں۔ کالج میں جو کھانا بنتا ہے طلباء سے لے کر پرنسپل تک سب وہی کھانا کھاتے ہیں۔منصوبے کے سی ای او عبدالرحمن عثمانی نے بتایا کہ مستقبل قریب میں کالج سے فارغ التحصیل ہونے والے طالب علموں کے لئے اسلام آباد میں انٹرنشپ کی سہولیات کا بندوبست کیا جا رہا ہے تاکہ انہیں اعلیٰ ملازمتوں کے حصول کے لئے پوری طرح تیار کرکے میدان میں اتارا جا سکے۔ اس مقصد کے لئے انتظامات کو حتمی شکل دی جارہی ہے۔
یہ شروعات ہے۔ ادارے کے ذمہ داران اس مشن کو پورے پاکستان کے پسماندہ علاقوں تک وسعت دینے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ کمزور لوگوں کو با وسیلہ بنانے کا کام یکساں طور پر پورے ملک پر اثر انداز ہو سکے۔ لیکن یہ مقصد پوری قوم کی مدد و اعانت کے بغیر ممکن نہیں۔ دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی مثبت تبدیلیاں آئی ہیں وہ محض سرکاری وسائل اور حکومتی مشنری کے ذریعے نہیں آئیں بلکہ ایسے انقلابی اہداف کو ہمیشہ عوامی سطح پر پیدا ہونے والے تحرک نے قوت فراہم کی ہے۔
سرکاری سطح پر میسر آنے والی اعانت یقیناً بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہے اور اس ادارے کو بھی بلوچستان کے تین گورنروں، امیرالملک مینگل، اویس غنی اور عبدالقادر بلوچ کی غیر معمولی سر پرستی حاصل رہی لیکن پاکستان اور بیرون ملک سے اس کار خیر میں ہاتھ بٹانے والوں کا جذبہ ایسے کاموں کو آگے بڑھانے کے لئے ناگزیر ہوتا ہے۔
بہن بھائیوں کے لئے سیب
الحجرہ کیمپس کی حدود کے اندر پھلدار درخت بھی موجود ہیں۔ علاقے کی آب و ہوا اور مٹی کی تاثیر چیری' سیب اور دیگر پہاڑی پھلوں کی پیداوار کے لئے نہایت موزوں ہے۔ الحجرہ کی انتظامیہ نے اِن پھلدار درختوں کی پیداوار کو یوں استعمال کیا کہ چیری کے موسم میں طلباء کو ہر روز ایک مخصوص مقدار میں ان کے اپنے ادارہ میں پیدا ہونے والی چیری فراہم کی جاتی ہے اور اسی طرح سیب کے موسم میں ہر طالب علم کو ہر روز دو سیب ملتے ہیں۔ اس بارے میں اصول یہ ہے کہ کالج کی انتظامیہ میں شامل تمام افراد، کالج کے اساتذہ' پرنسپل اور دیگر عملے کو بھی اُسی مقدار میں پھل فراہم کیا جاتا ہے جو طلباء کے لئے طے ہے۔ اس بارے میں معلومات فراہم کرتے ہوئے ادارے کے سی ای او عبدالرحمن عثمانی نے ہمیں بتایا کہ وقتاً فوقتاً کالج کا عملہ طلباء کے کمروں کی تلاشی بھی لیتا ہے۔
ایسے ہی ایک موقع پر ایک طالب علم کی الماری سے کافی تعداد میں سیب برآمد ہوگئے۔ ظاہر ہے اس بات پر طالب علم کو جوابدہی کے لئے طلب کرلیا گیا۔ پوچھنے پر اُس نے بتایا کہ اُس نے چوری ہرگز نہیں کی، بلکہ وہ روزانہ ملنے والے سیبوں کو اپنے بھائی بہنوں کے لئے سنبھال کر رکھ رہا تھا تاکہ چھٹی پر جب گھر جائے تو اُن کے لئے ساتھ لے جائے۔ اس واقعہ کے بعد کالج انتظامیہ نے فیصلہ کیا کہ کالج کی حدود میں پیدا ہونے والے پھل کا تھوڑاسا حصہ طلباء کو اُس وقت فراہم کیا جائے جب وہ چُھٹی پر گھر جا رہے ہوں۔
ماں کے آنسو
الحجرہ کالج میں آنے والے طلباء سے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے انتخاب اور کالج پہنچنے کا سارا احوال تحریر کریں۔ یہ دراصل طلباء کو Creative Writing کی جانب مائل کرنے کی ایک سرگرمی ہے تاکہ طلباء میں اپنے خیالات اور احساسات کے اظہار کی صلاحیت پیدا ہو جائے۔ ایسے ہی ایک موقع پر ایک طالبعلم اپنی روداد لکھتے لکھتے اچانک اُٹھا اور کمرے سے باہر چلاگیا۔ یہ ایک غیر معمولی بات تھی لہذا اُس بچے کا ایک ساتھی صورتحال معلوم کرنے کے لئے اُس کے پیچھے گیا، دیکھا تو وہ رو رہا تھا۔
اُسے تسلی دے کر اندر لایا گیا۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ جب وہ بلوچستان کے انتہائی دور افتادہ گائوں سے کالج ہوسٹل کے لئے روانہ ہو رہا تھا تو اُس کی ماں کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ اُس نے اپنے بیٹے سے کہا ''دیکھو تم اتنی دور پڑھنے کے لئے جارہے ہو لیکن میں اتنی تہی دامن ہوں کہ تمہیں رخصت کرتے ہوئے کچھ بھی دینے کے قابل نہیں''۔ وہ بچہ جب اپنی کہانی لکھتے ہوئے ماں سے رخصت ہونے کے مرحلے پر پہنچا تو خود پر قابو نہ رکھ پایا۔
ملازمتیں حاصل کرنے کا تناسب
اس ادارے سے تعلیم پانے والے طلباء کے معیار کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کے فارغ التحصیل طلباء میں ملازمت حاصل کرنے والوں کا تناسب 71% ہے۔ کل طلباء میں سے 22 فی صد یعنی 70 طالب علموں نے میڈیکل کے مختلف شعبوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے داخلے حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی۔
جن میں سے 40 ایم بی بی ایس کررہے ہیں۔ گیارہ فی صد فارغ التحصیل طالب علم انجینئرنگ کے شعبے میں اعلیٰ تعلیم پارہے ہیں جن کی تعداد 39 بنتی ہے۔ دیکھا جائے تو پاکستان میں والدین کی اکثریت اپنے بچوں کو ان دو شعبوں میں کامیابی حاصل کرتا دیکھنے کی خواہش رکھتی ہے۔ الہجرہ اس بات کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ اس سے تعلیم پانے والے طلباء عملی زندگی کے مختلف شعبوں میں خدمات انجام دیں۔
اس مقصد کے لئے ہر برس الہجرہ سے فارغ التحصیل ہونے والے سابق طالب علموں کا کنونشن منعقد کیا جاتا ہے۔ جس کے ذریعے ان کا آپس میں اور اسکول میں زیر تعلیم طلباء کے ساتھ رابطہ استوار رہتا ہے۔ اس سرگرمی کے ذریعے اعلیٰ تعلیم کے حصول اور ملازمتوں کے سلسلے میں طلباء کو مدد اور رہنمائی ملتی رہتی ہے۔
گزشتہ دہائی کے دوران پاکستان کو عمومی طور پر معاشی مسائل اور بے روزگاری کا سامنا رہا لیکن ملک میں جاری اس بحرآنی صورتحال کے برعکس الہجرہ کے طلباء سرکاری' نیم سرکاری شعبوں میں اعلیٰ ملازمتوں کے حصول میں کامیاب رہے۔ الہجرہ سے فارغ التحصیل ہونے والے 71 فی صد نوجوان تعلیم و تحقیق' مسلح افواج' طب' ایجوکیشن اور سول انتظامیہ میں قائدانہ حیثیت میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ رواں برس الہجرہ کے دس طالب علموں نے بلوچستان پبلک سروس کمیشن کے ذریعے میڈیکل آفیسر کے طور پر اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں۔
الہجرہ سے نکل کر اہم عہدوں پر فائز ہونے والوں کا مختصراً ذکر کیا جائے تو یاسر اقبال اور شعیب احمد اسسٹنٹ کمشنر' فدا احمد سیکشن آفیسر' اورنگ زیب اسسٹنٹ ڈائریکٹر صوبائی محتسب آفس' ظہیر الدین ایگریکلچر آفیسر ڈیرہ بگٹی' محمد اعجاز سیکنڈ لیفٹننٹ، اسرار احمد میجر پاک فوج' اعجاز احمد اے ایس آئی' شبیر احمد ایچ او ڈی شعبہ کامرس یونیورسٹی آف لورا لائی' عمران انور فیلڈ انجینئر سوئی سدرن' کفایت اللہ ایس ڈی او لوکل گورنمنٹ' محمد حسین جونیئر انجینئر سوئی سدرن' صفدر علی اور ہدایت اللہ اسسٹنٹ انجینئرز جبکہ عبدالصمد' اشفاق احمد' محمد اشرف' آصف علی' سرور خان' محمد ناصر' محمد انور' عرفان خیر' عبدالوکیل' فدا حسین' مبارک خان' عطا محمد' علی حسن' قدرت اللہ' محمد ادریس' ذکاء اللہ' محمد قاسم' امان اللہ' عبدالحمید اور دائود جان مختلف ہسپتالوں میں میڈیکل آفیسر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔
تعلیم و تربیت کا معجزہ
الحجرہ اسکول سے فارغ التحصیل ہونے والے پہلے بیچ میں شامل ایک نوجوان اب پاک فوج میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے اِسی برس میجر کے رینک پر ترقی پائی ہے۔ میجر اسرار احمد نے الحجرہ میں اپنی سلیکشن کے بارے میں حیران کردینے والی روداد بیان کی۔ ان کا تعلق ضلع پشین کے ایک پسماندہ گائوں سے ہے۔ انہوں نے بھی اسکول میں داخلے کے لئے مقابلے کا امتحان دیا تھا۔ اس ضلع سے ایک سیٹ کے لئے ایک طالب علم کا انتخاب پہلے ہی ہوچکا تھا جبکہ ایک سیٹ کے لئے مقابلہ تھا جس میں اُس وقت حکومت بلوچستان کی کابینہ کے ایک رُکن کا بھتیجا کامیاب قرار پایا۔ اُن دنوں صوبے میں ایم ایم اے کی حکومت تھی۔ کامیاب ہونے والا بچہ اسکول پہنچ گیا اور تعلیمی سیشن کا آغاز ہوگیا۔
اسکول کی جانب سے کی جانے والی اخلاقی تربیت کے موثر ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ محض تین ہفتے بعد یہ بچہ ایک روز پرنسپل آفس پہنچ گیا اور انہیں بتا دیا کہ اسکول میں داخلے کی خاطر اُس کے والد نے اپنی آمدن کا جعلی سرٹیفکیٹ جمع کرایا تھا۔ یعنی اُس کا خاندان مالی اعتبار سے اسکول میں داخلے کے قواعد و ضوابط کے دائرے میں نہیں آتا تھا۔
ایسا قدم اُٹھانے کے لئے پہاڑ جیسی اخلاقی جرات درکار ہوتی ہے، جس کا مظاہرہ اس نوجوان نے کر دکھایا۔ اسے گھر واپس بھیج دیاگیا اور اس کی جگہ مقابلے کے امتحان میں دوسرے نمبر پر آنے والے اسرار احمد کو اس ادارے میں داخلہ مل گیا۔ جو آج مادر وطن کے دفاع کی قابل فخر ذمہ داری نبھانے پر مامور ہیں۔ اس واقعے کے بعد اسکول پر بے تحاشہ دباوء آیا ، الزامات لگے لیکن اسکول انتظامیہ نے اس مخالفانہ مہم کا کوئی اثر قبول نہ کرتے ہوئے میرٹ کی پاسداری کی اپنی پالیسی پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا۔
صوبہ بلوچستان کے صدر مقام کوئٹہ کے شمال مغرب میں 122 کلومیٹر کی مسافت پر زیارت کا پُر فضاء پہاڑی مقام واقع ہے۔
زیارت کو اپنی صحت بخش آب و ہوا' ٹھنڈے موسم اور دنیا کے دوسرے سب سے بڑے صنوبر کے جنگلات کے علاوہ بانی پاکستان قائد اعظمؒ کے پسندیدہ مقام کے طور پر بھی شہرت حاصل ہے۔ کوئٹہ سے زیارت آئیں تو سڑک پر شہر کی حدود میں داخل ہونے کی علامت کے طور پر پشاور کے درہ خیبر سے مشابہ ایک محراب ایستادہ ہے جس سے گزر کر شہر میں داخل ہوتے ہیں اسے ''باب زیارت'' کا نام دیا گیا ہے۔
اس محراب سے چند کلومیٹر پہلے دائیں ہاتھ ایک تنہا عمارت نظر آتی ہے۔ سڑک کے کنارے پر اس عمارت کا تعارفی بورڈ نصب ہے۔ جس پر الہجرہ اسکول و کالج جناح کیمپس زیارت' تحریر ہے۔ اسکول کی حدود میں داخل ہوں تو پورے ماحول پر وہی سنجیدگی اور گہری خاموشی چھائی ہے جو زیارت کے عمومی ماحول کا خاصا ہے۔
اسکول کے اندر طلباء کی موجودگی کے باوجود پورا ماحول نظم و ضبط کے سانچے میں ڈھلا نظر آتا ہے۔ قائد اعظمؒ کو بھی زیارت شاید اسی لئے عزیز تھا کہ زیارت کا اپنا مزاج قائدؒ کی شخصیت سے موافقت رکھتا ہے۔ ہمارے ملک میں ہزاروں سرکاری' نجی اور رفاہی تعلیمی ادارے خدمات انجام دے رہے ہیں لیکن الہجرہ کی کہانی سب سے الگ اور منفرد ہے۔
یہ ادارہ بلوچستان کے ہر ضلع سے چھٹی جماعت کے مقابلے کے امتحان کی بنیاد پر دو باصلاحیت غریب طلباء کا انتخاب کرتا ہے۔ مقابلے کے امتحان کے لئے اہلیت کا معیار یہ ہے کہ امیدوار کسی سرکاری اسکول کا طالب علم ہو اور اس کے خاندان کی سالانہ آمدن بیس لاکھ روپے سے زائد نہ ہو (اب سوچ بچار کے بعد آمدن کی حد 4 لاکھ مقرر کی جارہی ہے)۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ الہجرہ انتہائی غریب لوگوں کو بہترین تعلیم کے ذریعے اوپر اُٹھانے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔
مقابلے کے امتحان میں کامیابی حاصل کرنے والے غریب اور بے وسیلہ خاندانوں کے یہ بچے اسکول ہاسٹل میں داخل کرلئے جاتے ہیں اور پھر ساتویں جماعت سے لے کر بارہویں تک ان طلباء کی تعلیم' خوراک اور دیگر تمام ضروریات زندگی اسکول کے ذمہ ہوتی ہیں۔ الہجرہ اسکول و کالج کے طالب علموں نے ہمیں بتایا کہ وہ چھٹیوں سے واپسی پر اپنے گھر سے جو چند سو روپے لاتے ہیں وہ اگلی چھٹیوں میں واپس گھر جا کر ہی خرچ کرتے ہیں کیونکہ یہاں اس کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔
اہم بات یہ ہے کہ تعلیمی اعتبار سے پاکستان کے سب سے پسماندہ صوبے میں اس اسکول کا قیام صوبائی سطح پر تعلیمی انقلاب کے امکانات کو روشن کرنے کا باعث بن رہا ہے۔ ملک کے غریب خاندانوں کو ماہانہ وظیفہ دینے کا پروگرام بھی جاری ہے لیکن اس سے کہیں بہتر یہ ہو گا کہ زیادہ سے زیادہ توجہ غریب خاندانوں کے افراد کو ہنر مند بنانے، انہیں تعلیم یافتہ بنانے اور روز گار کے مواقع پیدا کرنے پر دی جائے تاکہ یہ لوگ ماہانہ وظیفے پر انحصار کرنے کے بجائے ملکی دولت پیدا کرنے کے عمل میں شامل ہو جائیں۔
بلوچستان کے اندر یہ کام ایسی صورتحال میں ہو رہا ہے جہاں ملک کے دو پسماندہ صوبوں سندھ اور بلوچستان کے بارے میں تعلیمی معیار کے حوالے سے جاری ہونے والے حالیہ اعداد و شمار حوصلہ شکن ہیں۔ صوبہ سندھ کے سرکاری اسکولوں کے حوالے سے 2019 میں جمع کئے گئے اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو تعلیم کے شعبے کی حالت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
سندھ کے 30 ہزار سے زائد اسکولوں میں بجلی کی سہولت موجود نہیں۔ رپورٹ کے مطابق 49,103 اسکولوں میں ایک لاکھ 33 ہزار اساتذہ کا تقرر کیا گیا لیکن ان میں سے صرف 36,659 اسکولوں میں تعلیمی سرگرمیاں جاری ہیں باقی میں تعلیمی کام نہیں ہو رہا۔ 26,260 اسکولوں میں پینے کا پانی اور واش رومز موجود نہیں۔ 4700 اسکولوں میں لیبارٹری اور لائبریری کی سہولت موجود نہیں ہے جبکہ 3600 اسکول کھیل کے میدانوں سے محروم ہیں۔
بلوچستان کے بارے میں رپورٹ بتاتی ہے کہ صوبے کے کل 13000 سرکاری اسکولوں میں سے 7,900 کی چار دیواری نہیں جبکہ 5,296 اسکول ایک کمرے اور ایک ٹیچر پر مشتمل ہیں۔ صوبے کے سرکاری اسکولوں میں واش روم اور دیگر سہولتوں کی فراہمی کے لئے 2 ارب روپے فراہم کئے گئے تھے لیکن مالی سال 2016-17 اور 2017-18 کے دوران یہ رقم خرچ ہی نہیں کی گئی۔ ان اعداد و شمار کو دیکھ کر دُکھ ہوتا ہے لیکن اس پر حیرت اس لئے نہیں ہوتی کہ ہمارے ملک میں سرکاری سطح پر عوام کو فراہم کی جانے والی جن خدمات کو اس ملک کی اشرافیہ استعمال نہیں کرتی ان کی حالت کیسے درست ہوسکتی ہے۔
بالادست طبقات کی اپنی ضرورتیں اُن ذرائع سے پوری ہوجاتی ہیں جو عام لوگوں کی دسترس میں نہیں۔ مثال کے طور پر علاج معالجہ کے لئے انہیں سرکاری ہسپتالوں سے واسطہ نہیں پڑتا۔ ان کے لئے اندرون ملک بھی اعلیٰ درجے کی طبی سہولتیں موجود ہیں لیکن ان پر آنے والے اخراجات ملک کے عام شہری ادا نہیں کرسکتے۔ اگر زیادہ مسئلہ ہوتو یہ طبقہ بیرون ملک علاج کو ترجیح دیتا ہے۔ تعلیم کی مثال لے لیں تو ان کی اولادیں بیرون ملک تعلیمی اداروں میں تعلیم پاتی ہیں جبکہ ملک کے اندر اس طبقے کے لئے خصوصی ادارے موجود ہیں جنہیں برطانوی عہد میں حکمران طبقے کی ذہنی نشو و نما کے لئے قائم کیا گیا تھا۔ ملک کے عوام اور بے وسیلہ طبقات کے لئے جو تعلیمی سہولتیں موجود ہیں ان کے ذریعے معیاری تعلیم و تربیت کا حصول ممکن نہیں۔
الہجرہ اسکول کے قیام کی کہانی اس ادارے کے بانی محمد عبدالکریم ثاقب کی زندگی کی کہانی سے جُڑی ہوئی ہے۔
1947ء میں ہونے والی تقسیم ہند کے نتیجے میں ضلع قصور سے متصلہ مشرقی پنجاب کے ایک گائوں سے چند مسلم گھرانوں نے پاکستان کی طرف کوچ کیا۔ ہجرت کی صعوبتیں سہتے یہ گھرانے پہلے رائے ونڈ کے ایک قریبی گائوں کوٹ میاں بشیر اور پھر ضلع اوکاڑہ کے چک 16 گیمر والا میں ٹھہرے۔ یہاں ان گھرانوں میں سے ایک گھرانے کے ہاں 25 دسمبر 1949ء کو ایک لڑکے کی پیدائش ہوئی۔
گھر والوں نے اس بچے کا نام عبدالکریم رکھا۔ جلد ہی ان گھرانوں کو ضلع رحیم یار خان کی تحصیل لیاقت پُور میں عباسیہ کینال کے دہانے پر چک 13 میں زمین الاٹ ہوگئی۔ پانچ برس کی عمر میں عبدالکریم کو اسکول بھجوانے کے بجائے جانوروں کی دیکھ بھال پر لگادیا گیا۔
عبدالکریم کی عمر کے آٹھویں برس کچھ ایسا ہوا کہ اُسے اسکول داخل کروا دیا گیا۔ اسکول چھے میل (تقریباً دس کلومیٹر) کی پیدل مسافت پر تھا۔ عبدالکریم نے صرف تین برس میں ہی پرائمری امتیازی نمبروں سے پاس کرلی۔ اُس کے والد مزید تعلیم کے حق میں نہ تھے البتہ اسکول کے ایک استاد کے کہنے پر عبدالکریم کو جماعت ششم میں داخل کروا دیا گیا۔ اسی دوران لڑکے نے اپنے نام سے پہلے محمد اور آخر میں ثاقب کا اضافہ کیا اور اپنا نام محمد عبدالکریم ثاقب لکھنا شروع کیا۔ مزید تعلیم کی اجازت نہ ملی تو اُس نے ہجرت کا فیصلہ کرلیا۔
محمد عبدالکریم ثاقب نے گیارہ برس کی عمر میں گھر کو خیر باد کہا اور نامور دینی مدارس سے علم کی پیاس بجھائی اور نامور علماء کی صحبت پائی۔ 1967ء میں دینی مدارس سے فارغ التحصیل ہوا۔ نوجوان نے ایک برس رائے ونڈ کے قریب موضع پاجیاں میں 'جہاں اب ان کا خاندان منتقل ہو چکا تھا' کسب معاش کے کچھ تجربات کئے۔ اس دوران ایک عالم دین اُسے لاہور لے آئے۔ یہاں اس نے میٹرک کرنے کا فیصلہ کیا اور اس مقصد کے لئے رائے ونڈ منتقل ہوگیا۔ 1969ء میں میٹرک کیا۔
میٹرک میں امتیازی نمبروں کی وجہ سے اسلامیہ کالج لاہور میں وظیفے پر داخلہ ہوا لیکن نوجوان نے کسی کے مشورے پر اسلامی یونیورسٹی مدینہ میں داخلے کو ترجیح دی۔ جب لاہور کے دینی مدرسہ نے عبدالکریم ثاقب کا داخلہ اسلامی یونی ورسٹی مدینہ نہ بھیجا تو انہوں نے راولپنڈی آکر براہ راست سعودی سفارت خانے میں داخلے کی درخواست دینے کا فیصلہ کیا۔
اُس نے سفارت خانے میں داخلے کے لئے درخواست دی۔ جب سفارت خانے سے جواب نہ آیا تو ایک کرم فرما کے مشورے پر عمرہ پر جانے اور ساتھ ہی یونی ورسٹی میں اپنی درخواست کے بارے میں پیشر رفت معلوم کرنے کا فیصلہ کیا۔ بحری جہاز کے تھکا دینے والے سفر' عمرہ کی ادائیگی اور روضہ رسولﷺ پر حاضری کے بعد مدینہ یونی ورسٹی سے معلوم ہوا کہ وہاں داخلے کی درخواست موجود ہے اور چند ہی دنوں میں داخلے کا فیصلہ ہوگا۔ یونیورسٹی میں داخلہ تو ہوا لیکن پھر پے در پے ایسی رکاوٹیں آئیں کہ انہیں دور کرتے ہوئے انہیں لانے والا بحری جہاز واپس چلا گیا۔ بہت تگ و دو کے بعد یونی ورسٹی میں ایک درخواست دے کر انہوں نے واپس پلٹنے کا فیصلہ کیا۔ پنڈی واپس پہنچنے پر انہیں اپنے داخلے کی خبر ملی۔
مدینہ یونی ورسٹی میں محمد عبدالکریم ثاقب کو جہاں معیاری تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا وہیں انہیں دنیا کے تقریباً ہر خطے کے فرد کو بھی قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ امتیازی نمبروں سے یونی ورسٹی کی تعلیم کی تکمیل کے بعد ان کا داخلہ مزید اعلیٰ تعلیم کے لئے ہوگیا۔ اس کے علاوہ انہیں یونی ورسٹی کے وائس چانسلر کی طرف سے داعی بن کر کسی افریقی ملک میں جانے کی پیش کش بھی ہوئی۔ اسی عرصہ میں
یونی ورسٹی میں بطور وزیٹنگ فیکیلٹی آنے والے ایک پاکستان پروفیسر خورشید احمد نے انہیں برطانیہ میں اسلامک مشن کے عربیک ڈیسک کے ہیڈ کے طور پر ملازمت کی پیش کش کی جو انہوں نے قبول کرلی۔
اکیسیویں صدی کے اوائل میں جب وہ پاکستان آئے تو زیارت میں واقع قائد اعظم ریزیڈنسی دیکھنے گئے۔ کوئٹہ میں ان کی ملاقات چند حکومتی عہدیداروں اور سرکاری اہلکاروں سے ہوئی۔ ان سب افراد نے انہیں بلوچستان میں معیاری تعلیمی ادارہ بنانے کا کہا۔ بلوچستان حکومت نے انہیں زیارت شہر سے تین کلومیٹر فاصلہ پر بنے قائد اعظم ریزیڈنشل کالج 'جو اپنی تعمیر کے پندرہ برس کے بعد بھی فعال نہیں ہوا تھا' ان کے سپرد کرنے کا فیصلہ کیا۔ ٹرسٹ کا قیام 2002ء اور تعلیمی ادارے کا قیام 2004ء میں عمل میں آیا۔ کچھ قانونی پیچیدگیوں کی بنا پر ایک ایسا وقت بھی آیا کہ ادارے کے لئے مالی وسائل کا حصول مشکل ہوا۔ اس موقع پر عبدالکریم ثاقب نے اپنا برطانیہ والا گھر بھی بیچ دیا اور اسی گھر میں کرایہ دار کی حیثیت سے رہنے لگے۔ آج ان کا قائم کردہ ادارہ اپنی عمر کی سترھویں بہار دیکھ رہا ہے جبکہ برطانیہ میں ان کی کوششوں سے قائم ہونے والے پانچ تعلیمی ادارے پہلے سے کام کررہے ہیں ۔
الہجرہ زیارت کا موٹو 'انسانیت' اسلامیت' پاکستانیت' ہے اور ترجیحات کسی انسان کو نہ صرف اپنے ملک بلکہ پوری عالم انسانیت کے لئے مفید بنا سکتی ہیں۔ کالج چار ہائوسز میں تقسیم ہے جن کے نام بانی پاکستان ہائوس (قائد اعظم محمد علی جناحؒ) مصور پاکستان ہائوس (علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ) محسن پاکستان ہائوس (ڈاکٹر عبدالقدیر خان) اور ہمدرد پاکستان ہائوس (حکیم محمد سعید) ہیں۔ ہر ہائوس کا اپنا ایک رنگ ہے جو بالترتیب سبز' نیلا' سیاہ اور سرخ ہیں اور ان ہائوسز کے طلباء اسی رنگ کی ٹوپیاں پہنتے ہیں۔
کالج میں قیام کے عرصہ کے دوران ہر طالب علم کے لئے تین زبانیں سیکھنا لازم ہے جو عربی' اُردو اور انگریزی ہیں۔ یہی تین زبانیں کالج میں بول چال کے لئے استعمال ہوتی ہیں اور انہی زبانوں کو روزانہ ہونے والی اسمبلی کی کارروائی اور دیگر پرواگرموں میں استعمال کیا جاتا ہے۔
طالب علموں کی تربیت کے کچھ بنیادی نقاط طے کئے گئے ہیں جن میں باہمی احترام' ثابت قدمی' عاجزی' دیانت داری' ضبط نفس' خود اعتمادی' ایمان داری' کسب کمال' احساس ذمہ داری' رضاکارانہ پہل کاری' پیشہ وارانہ دیانت اور عزم صمیم شامل ہیں اور انہی اوصاف کو طالب علموں میں پروان چڑھانے کی سعی کی جاتی ہے۔
اس ادارے کے تعلیمی معیار اور انتظامی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے تُرکی کی دیانت فائونڈیشن سمیت ملکی اور بین الاقوامی سطح پر الہجرہ کے کام کو زبردست پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ ملک بھر کے بڑے تعلیمی ادارے الہجرہ کے طلباء کو اہمیت دیتے ہیں۔ ادارے سے فارخ التحصیل ہونے والے پہلے بیچ کے 75 فی صد طالب علموں نے اعلیٰ تعلیمی وظائف پر داخلہ حاصل کیا۔ بلوچستان یونیورسٹی میں ادارے کے ہر طالب علم کو میرٹ پر آنے کی صورت میں داخلہ دینے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی اسلام آباد نے پانچ نشستیں الہجرہ کے لئے رکھی ہیں۔
گیریژن یونیورسٹی لاہور نے دو مرتبہ الہجرہ کے دو دو طالب علموں کو اسکالر شپ پر داخلہ دیا ہے۔ اس کے علاوہ ملک بھر کے اعلیٰ تعلیم دینے والے صف اول کے اداروں میں الہجرہ سے فارغ التحصیل ہونے والے نوجوان اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ کالج میں دن کا آغاز نماز فجر کے ساتھ ہوتا ہے اور رات 11 بجے لائٹس آف ہوجاتی ہیں۔ کالج میں جو کھانا بنتا ہے طلباء سے لے کر پرنسپل تک سب وہی کھانا کھاتے ہیں۔منصوبے کے سی ای او عبدالرحمن عثمانی نے بتایا کہ مستقبل قریب میں کالج سے فارغ التحصیل ہونے والے طالب علموں کے لئے اسلام آباد میں انٹرنشپ کی سہولیات کا بندوبست کیا جا رہا ہے تاکہ انہیں اعلیٰ ملازمتوں کے حصول کے لئے پوری طرح تیار کرکے میدان میں اتارا جا سکے۔ اس مقصد کے لئے انتظامات کو حتمی شکل دی جارہی ہے۔
یہ شروعات ہے۔ ادارے کے ذمہ داران اس مشن کو پورے پاکستان کے پسماندہ علاقوں تک وسعت دینے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ کمزور لوگوں کو با وسیلہ بنانے کا کام یکساں طور پر پورے ملک پر اثر انداز ہو سکے۔ لیکن یہ مقصد پوری قوم کی مدد و اعانت کے بغیر ممکن نہیں۔ دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی مثبت تبدیلیاں آئی ہیں وہ محض سرکاری وسائل اور حکومتی مشنری کے ذریعے نہیں آئیں بلکہ ایسے انقلابی اہداف کو ہمیشہ عوامی سطح پر پیدا ہونے والے تحرک نے قوت فراہم کی ہے۔
سرکاری سطح پر میسر آنے والی اعانت یقیناً بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہے اور اس ادارے کو بھی بلوچستان کے تین گورنروں، امیرالملک مینگل، اویس غنی اور عبدالقادر بلوچ کی غیر معمولی سر پرستی حاصل رہی لیکن پاکستان اور بیرون ملک سے اس کار خیر میں ہاتھ بٹانے والوں کا جذبہ ایسے کاموں کو آگے بڑھانے کے لئے ناگزیر ہوتا ہے۔
بہن بھائیوں کے لئے سیب
الحجرہ کیمپس کی حدود کے اندر پھلدار درخت بھی موجود ہیں۔ علاقے کی آب و ہوا اور مٹی کی تاثیر چیری' سیب اور دیگر پہاڑی پھلوں کی پیداوار کے لئے نہایت موزوں ہے۔ الحجرہ کی انتظامیہ نے اِن پھلدار درختوں کی پیداوار کو یوں استعمال کیا کہ چیری کے موسم میں طلباء کو ہر روز ایک مخصوص مقدار میں ان کے اپنے ادارہ میں پیدا ہونے والی چیری فراہم کی جاتی ہے اور اسی طرح سیب کے موسم میں ہر طالب علم کو ہر روز دو سیب ملتے ہیں۔ اس بارے میں اصول یہ ہے کہ کالج کی انتظامیہ میں شامل تمام افراد، کالج کے اساتذہ' پرنسپل اور دیگر عملے کو بھی اُسی مقدار میں پھل فراہم کیا جاتا ہے جو طلباء کے لئے طے ہے۔ اس بارے میں معلومات فراہم کرتے ہوئے ادارے کے سی ای او عبدالرحمن عثمانی نے ہمیں بتایا کہ وقتاً فوقتاً کالج کا عملہ طلباء کے کمروں کی تلاشی بھی لیتا ہے۔
ایسے ہی ایک موقع پر ایک طالب علم کی الماری سے کافی تعداد میں سیب برآمد ہوگئے۔ ظاہر ہے اس بات پر طالب علم کو جوابدہی کے لئے طلب کرلیا گیا۔ پوچھنے پر اُس نے بتایا کہ اُس نے چوری ہرگز نہیں کی، بلکہ وہ روزانہ ملنے والے سیبوں کو اپنے بھائی بہنوں کے لئے سنبھال کر رکھ رہا تھا تاکہ چھٹی پر جب گھر جائے تو اُن کے لئے ساتھ لے جائے۔ اس واقعہ کے بعد کالج انتظامیہ نے فیصلہ کیا کہ کالج کی حدود میں پیدا ہونے والے پھل کا تھوڑاسا حصہ طلباء کو اُس وقت فراہم کیا جائے جب وہ چُھٹی پر گھر جا رہے ہوں۔
ماں کے آنسو
الحجرہ کالج میں آنے والے طلباء سے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے انتخاب اور کالج پہنچنے کا سارا احوال تحریر کریں۔ یہ دراصل طلباء کو Creative Writing کی جانب مائل کرنے کی ایک سرگرمی ہے تاکہ طلباء میں اپنے خیالات اور احساسات کے اظہار کی صلاحیت پیدا ہو جائے۔ ایسے ہی ایک موقع پر ایک طالبعلم اپنی روداد لکھتے لکھتے اچانک اُٹھا اور کمرے سے باہر چلاگیا۔ یہ ایک غیر معمولی بات تھی لہذا اُس بچے کا ایک ساتھی صورتحال معلوم کرنے کے لئے اُس کے پیچھے گیا، دیکھا تو وہ رو رہا تھا۔
اُسے تسلی دے کر اندر لایا گیا۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ جب وہ بلوچستان کے انتہائی دور افتادہ گائوں سے کالج ہوسٹل کے لئے روانہ ہو رہا تھا تو اُس کی ماں کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ اُس نے اپنے بیٹے سے کہا ''دیکھو تم اتنی دور پڑھنے کے لئے جارہے ہو لیکن میں اتنی تہی دامن ہوں کہ تمہیں رخصت کرتے ہوئے کچھ بھی دینے کے قابل نہیں''۔ وہ بچہ جب اپنی کہانی لکھتے ہوئے ماں سے رخصت ہونے کے مرحلے پر پہنچا تو خود پر قابو نہ رکھ پایا۔
ملازمتیں حاصل کرنے کا تناسب
اس ادارے سے تعلیم پانے والے طلباء کے معیار کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کے فارغ التحصیل طلباء میں ملازمت حاصل کرنے والوں کا تناسب 71% ہے۔ کل طلباء میں سے 22 فی صد یعنی 70 طالب علموں نے میڈیکل کے مختلف شعبوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے داخلے حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی۔
جن میں سے 40 ایم بی بی ایس کررہے ہیں۔ گیارہ فی صد فارغ التحصیل طالب علم انجینئرنگ کے شعبے میں اعلیٰ تعلیم پارہے ہیں جن کی تعداد 39 بنتی ہے۔ دیکھا جائے تو پاکستان میں والدین کی اکثریت اپنے بچوں کو ان دو شعبوں میں کامیابی حاصل کرتا دیکھنے کی خواہش رکھتی ہے۔ الہجرہ اس بات کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ اس سے تعلیم پانے والے طلباء عملی زندگی کے مختلف شعبوں میں خدمات انجام دیں۔
اس مقصد کے لئے ہر برس الہجرہ سے فارغ التحصیل ہونے والے سابق طالب علموں کا کنونشن منعقد کیا جاتا ہے۔ جس کے ذریعے ان کا آپس میں اور اسکول میں زیر تعلیم طلباء کے ساتھ رابطہ استوار رہتا ہے۔ اس سرگرمی کے ذریعے اعلیٰ تعلیم کے حصول اور ملازمتوں کے سلسلے میں طلباء کو مدد اور رہنمائی ملتی رہتی ہے۔
گزشتہ دہائی کے دوران پاکستان کو عمومی طور پر معاشی مسائل اور بے روزگاری کا سامنا رہا لیکن ملک میں جاری اس بحرآنی صورتحال کے برعکس الہجرہ کے طلباء سرکاری' نیم سرکاری شعبوں میں اعلیٰ ملازمتوں کے حصول میں کامیاب رہے۔ الہجرہ سے فارغ التحصیل ہونے والے 71 فی صد نوجوان تعلیم و تحقیق' مسلح افواج' طب' ایجوکیشن اور سول انتظامیہ میں قائدانہ حیثیت میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ رواں برس الہجرہ کے دس طالب علموں نے بلوچستان پبلک سروس کمیشن کے ذریعے میڈیکل آفیسر کے طور پر اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں۔
الہجرہ سے نکل کر اہم عہدوں پر فائز ہونے والوں کا مختصراً ذکر کیا جائے تو یاسر اقبال اور شعیب احمد اسسٹنٹ کمشنر' فدا احمد سیکشن آفیسر' اورنگ زیب اسسٹنٹ ڈائریکٹر صوبائی محتسب آفس' ظہیر الدین ایگریکلچر آفیسر ڈیرہ بگٹی' محمد اعجاز سیکنڈ لیفٹننٹ، اسرار احمد میجر پاک فوج' اعجاز احمد اے ایس آئی' شبیر احمد ایچ او ڈی شعبہ کامرس یونیورسٹی آف لورا لائی' عمران انور فیلڈ انجینئر سوئی سدرن' کفایت اللہ ایس ڈی او لوکل گورنمنٹ' محمد حسین جونیئر انجینئر سوئی سدرن' صفدر علی اور ہدایت اللہ اسسٹنٹ انجینئرز جبکہ عبدالصمد' اشفاق احمد' محمد اشرف' آصف علی' سرور خان' محمد ناصر' محمد انور' عرفان خیر' عبدالوکیل' فدا حسین' مبارک خان' عطا محمد' علی حسن' قدرت اللہ' محمد ادریس' ذکاء اللہ' محمد قاسم' امان اللہ' عبدالحمید اور دائود جان مختلف ہسپتالوں میں میڈیکل آفیسر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔
تعلیم و تربیت کا معجزہ
الحجرہ اسکول سے فارغ التحصیل ہونے والے پہلے بیچ میں شامل ایک نوجوان اب پاک فوج میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے اِسی برس میجر کے رینک پر ترقی پائی ہے۔ میجر اسرار احمد نے الحجرہ میں اپنی سلیکشن کے بارے میں حیران کردینے والی روداد بیان کی۔ ان کا تعلق ضلع پشین کے ایک پسماندہ گائوں سے ہے۔ انہوں نے بھی اسکول میں داخلے کے لئے مقابلے کا امتحان دیا تھا۔ اس ضلع سے ایک سیٹ کے لئے ایک طالب علم کا انتخاب پہلے ہی ہوچکا تھا جبکہ ایک سیٹ کے لئے مقابلہ تھا جس میں اُس وقت حکومت بلوچستان کی کابینہ کے ایک رُکن کا بھتیجا کامیاب قرار پایا۔ اُن دنوں صوبے میں ایم ایم اے کی حکومت تھی۔ کامیاب ہونے والا بچہ اسکول پہنچ گیا اور تعلیمی سیشن کا آغاز ہوگیا۔
اسکول کی جانب سے کی جانے والی اخلاقی تربیت کے موثر ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ محض تین ہفتے بعد یہ بچہ ایک روز پرنسپل آفس پہنچ گیا اور انہیں بتا دیا کہ اسکول میں داخلے کی خاطر اُس کے والد نے اپنی آمدن کا جعلی سرٹیفکیٹ جمع کرایا تھا۔ یعنی اُس کا خاندان مالی اعتبار سے اسکول میں داخلے کے قواعد و ضوابط کے دائرے میں نہیں آتا تھا۔
ایسا قدم اُٹھانے کے لئے پہاڑ جیسی اخلاقی جرات درکار ہوتی ہے، جس کا مظاہرہ اس نوجوان نے کر دکھایا۔ اسے گھر واپس بھیج دیاگیا اور اس کی جگہ مقابلے کے امتحان میں دوسرے نمبر پر آنے والے اسرار احمد کو اس ادارے میں داخلہ مل گیا۔ جو آج مادر وطن کے دفاع کی قابل فخر ذمہ داری نبھانے پر مامور ہیں۔ اس واقعے کے بعد اسکول پر بے تحاشہ دباوء آیا ، الزامات لگے لیکن اسکول انتظامیہ نے اس مخالفانہ مہم کا کوئی اثر قبول نہ کرتے ہوئے میرٹ کی پاسداری کی اپنی پالیسی پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا۔