بھدرکالی مندر
کیا تھی یہ عمارت اور اب کس حال میں ہے؟
1992 میں بھارت میں سولہویں صدی کی عظیم الشان بابری مسجد کی ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھوں شہادت اور بے حرمتی نے پورے برصغیر پر دوررس اثرات مرتب کیے۔ اس مسجد کی شہادت کے بعد اٹھنے والی لہر ہندوستان کی سرحدوں تک محدود نہ رہ سکی اور اس کے پیچھے پیچھے بھارتی سیماؤں کے باہر بہت سے مندر گرے جن میں زیادہ تر پاکستان میں واقع تھے۔
لاہور میں واقع کئی قدیم مندر بھی اس کی زد میں آئے جن میں سے ایک نیاز بیگ کا بھدرکالی مندر بھی تھا۔
ہندو دھرم کی درگا دیوی سے منسوب یہ بھدرکالی مندر، انیسویں صدی کا ایک قدیم مندر تھا جو ٹھوکر نیاز بیگ کی گلزار کالونی میں واقع لاہور کی اہم ہندو عبادت گاہوں میں سے ایک تھا۔یہ مندر اصل میں ایک تالاب جو اشنان کے لیے بنایا گیا تھا ، گھنے برگد کے درخت، کچھ سمادھ ، مندر کی مرکزی عمارت اور ایک پرانے کنویں یا باؤلی پر مشتمل کمپلیکس تھا جو ایک دبیز دیوار کے اندر واقع تھا۔
کنہیا لال کے مطابق؛
''لاہور اور گرد و نواح میں ہندوؤں کا سب سے بڑا میلہ یہیں لگتا تھا جہاں ہندو مرد و زن ماتھا ٹیکنے کو آتے تھے۔ یہ مکان بہت پرانا ہے جس کی تشریح کسی کی زبان سے سننے میں نہیں آتی سب یہی کہتے ہیں کہ پرانا مقام ہی خاص دیوی کی پوجا کا استھان تھا۔ اس مقام پر کوئی تصویر نہیں رکھی گئی۔ اس مکان پر پہلے کچھ عمارت نہ تھی اب دن بدن رونق بڑھتی جاتی ہے۔ تالاب ، باغیچہ اور عمارت رفاہ عامہ بنتی جاتی ہیں۔ مندر پر اتنا چڑھاوا چڑھ جاتا ہے جو پُجاریوں کی گزر بسر کو کافی ہوتا ہے۔''
مندر کی مرکزی عمارت کا کوئی اتا پتا نہیں البتہ مہاراجا رنجیت سنگھ نے اپنے دور میں ایک بڑے گنبد والی عمارت بنوائی تھی جو اصل مندر کے طور پر تو استعمال نہیں ہوتی تھی لیکن اس کمپلیکس کا حصہ تھی۔
تقسیم کے بعد؛
تقسیم کے بعد اس خالی عمارت کو کمیونٹی سینٹر کے طور پہ استعمال کیا جاتا تھا۔ علاقے کے ایک عمررسیدہ و محبِ وطن فرد ''بشیر احمد میو''، جنہیں اس جگہ سے خاص لگاؤ تھا، کا کہنا تھا کہ یہ جگہ اب پاکستان کا حصہ ہے اس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ یہ ہندوؤں کے لیے ہو یا مسلمانوں کے، ہم سب اب پاکستانی ہیں۔
قبضہ مافیا کے لیے یہ جگہ سونے کی چڑیا تھی جسے محسوس کرتے ہوئے 1970 میں بشیر احمد صاحب کی تحریک پر علاقے کے لوگوں کی باہمی رضامندی سے اسے مسجد میں تبدیل کردیا گیا تاکہ یہ عمارت قبضہ مافیا سے محفوظ رہے۔ دیوی کی پوجا کے کمرے کو نہ چھیڑتے ہوئے باقی عمارت میں پنج وقتہ نماز کی ادائیگی شروع کردی گئی۔
1980 میں قریبی اسکول کے زیرآب آنے کے بعد بشیر صاحب نے اسے بچوں کا اسکول بنانے کی تجویز دے ڈالی تاکہ سرکاری اسکول کو سرکار کی سرپرستی حاصل ہو اور یہ قیمتی جگہ سرکار کی دیکھ بھال میں آ جائے۔مافیا کی سرتوڑ کوششوں کے باوجود اس جگہ اسکول قائم ہوگیا۔اور آج یہ گورنمنٹ بوائز پرائمری اسکول احمد آباد، نیاز بیگ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
1992 کے دنگے؛
یہاں کا ایک واقعہ بہت مشہور ہوا تھا جسے مشہور عرب چینل الجزیرہ نے بھی رپورٹ کیا تھا۔
ہوا کچھ یوں کہ بابری مسجد کی شہادت کے بعد حکومت پاکستان نے پورے ملک میں عام تعطیل کا اعلان کردیا۔ عوام غم و غصے سے بھرے بیٹھے تھے اور جس کو جہاں موقع ملا وہ مندروں پر چڑھ دوڑا۔ اس دن اسکول کی بھی چھٹی تھی۔ پرنسپل کچھ اساتذہ اور محلے کے لوگ وہاں موجود تھے کہ قریبی علاقوں سے عوام کا ایک ہجوم اس عمارت کے باہر جمع ہو گیا جو اسے توڑنا یا گرانا چاہتے تھے۔ ان کے نزدیک جو بھی ہو یہ عمارت ہندوؤں کے مندر کا حصہ رہ چکی تھی۔بشیر احمد اس دن وہاں موجود تھے۔
انہوں نے ہاتھ اٹھا کر مجمع کو وہیں روک دیا اور دوسروں کی عبادت گاہوں کو نقصان نہ پہنچانے کے حوالے سے ایک تقریر کی۔ بزرگ سمجھ کر سب نے ان کی بات غور سے سنی۔ انہوں نے کہا کہ یہ اب غریب بچوں کا اسکول ہے کوئی مندر نہیں اس لیے اسے کچھ نہ کہا جائے۔
ہجوم میں شامل زیادہ تر افراد ان کی بات سے قائل ہوگئے اور واپس چل دیے جب کہ کچھ شرپسندوں نے ایک دروازہ جلایا اور بیرونی دیوار کو نقصان پہنچایا۔ یوں ایک مسلمان کی کوششوں نے مندر کی عمارت کو بچالیا۔ بشیر صاحب 83 سال کی عمر میں 2018 میں انتقال کرگئے لیکن ان کی کوششیں آج اس اسکول کی صورت میں قائم و دائم ہیں۔
موجودہ حالت ؛
بھدرکالی کمپلیکس اب گم نام ہو چکا ہے۔
تالاب پاٹ دیے گئے ہیں، برگد کا پیڑ کاٹ دیا گیا، باؤلی یا کنواں گم گیا اور سمادھ توڑ دیے گئے، ایک حصے میں دکان بنالی گئی۔
تقسیم کے بعد پاکستان میں موجود بہت سے مندروں کو بھارت سے آئے مہاجرین کو الاٹ کیا گیا جن میں سے یہ بھی ایک تھا۔
اس کا ایک حصہ جہاں پوتر استھان یعنی مقدس کمرے اور باغات واقع تھے، کچھ میواتی خاندانوں کو الاٹ کر دیا گیا جنہوں نے اپنے حساب سے اس میں تبدیلیاں کر لیں اور اب بھی وہاں رہ رہے ہیں۔ مندر کے قریب ہی ایک اور پرانی عمارت تھی جہاں ایک دکان بنی ہوئی تھی اب اسے بھی گرا دیا گیا ہے۔
جب کہ اسکول کے اندر موجود مندر کا حصہ اب بھی بہتر حالت میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کا گنبد دور سے ہی نظر آ جاتا ہے۔ بقیہ اسکول کی عمارت نئی تعمیر کی گئی ہے۔
لاہور میں واقع کئی قدیم مندر بھی اس کی زد میں آئے جن میں سے ایک نیاز بیگ کا بھدرکالی مندر بھی تھا۔
ہندو دھرم کی درگا دیوی سے منسوب یہ بھدرکالی مندر، انیسویں صدی کا ایک قدیم مندر تھا جو ٹھوکر نیاز بیگ کی گلزار کالونی میں واقع لاہور کی اہم ہندو عبادت گاہوں میں سے ایک تھا۔یہ مندر اصل میں ایک تالاب جو اشنان کے لیے بنایا گیا تھا ، گھنے برگد کے درخت، کچھ سمادھ ، مندر کی مرکزی عمارت اور ایک پرانے کنویں یا باؤلی پر مشتمل کمپلیکس تھا جو ایک دبیز دیوار کے اندر واقع تھا۔
کنہیا لال کے مطابق؛
''لاہور اور گرد و نواح میں ہندوؤں کا سب سے بڑا میلہ یہیں لگتا تھا جہاں ہندو مرد و زن ماتھا ٹیکنے کو آتے تھے۔ یہ مکان بہت پرانا ہے جس کی تشریح کسی کی زبان سے سننے میں نہیں آتی سب یہی کہتے ہیں کہ پرانا مقام ہی خاص دیوی کی پوجا کا استھان تھا۔ اس مقام پر کوئی تصویر نہیں رکھی گئی۔ اس مکان پر پہلے کچھ عمارت نہ تھی اب دن بدن رونق بڑھتی جاتی ہے۔ تالاب ، باغیچہ اور عمارت رفاہ عامہ بنتی جاتی ہیں۔ مندر پر اتنا چڑھاوا چڑھ جاتا ہے جو پُجاریوں کی گزر بسر کو کافی ہوتا ہے۔''
مندر کی مرکزی عمارت کا کوئی اتا پتا نہیں البتہ مہاراجا رنجیت سنگھ نے اپنے دور میں ایک بڑے گنبد والی عمارت بنوائی تھی جو اصل مندر کے طور پر تو استعمال نہیں ہوتی تھی لیکن اس کمپلیکس کا حصہ تھی۔
تقسیم کے بعد؛
تقسیم کے بعد اس خالی عمارت کو کمیونٹی سینٹر کے طور پہ استعمال کیا جاتا تھا۔ علاقے کے ایک عمررسیدہ و محبِ وطن فرد ''بشیر احمد میو''، جنہیں اس جگہ سے خاص لگاؤ تھا، کا کہنا تھا کہ یہ جگہ اب پاکستان کا حصہ ہے اس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ یہ ہندوؤں کے لیے ہو یا مسلمانوں کے، ہم سب اب پاکستانی ہیں۔
قبضہ مافیا کے لیے یہ جگہ سونے کی چڑیا تھی جسے محسوس کرتے ہوئے 1970 میں بشیر احمد صاحب کی تحریک پر علاقے کے لوگوں کی باہمی رضامندی سے اسے مسجد میں تبدیل کردیا گیا تاکہ یہ عمارت قبضہ مافیا سے محفوظ رہے۔ دیوی کی پوجا کے کمرے کو نہ چھیڑتے ہوئے باقی عمارت میں پنج وقتہ نماز کی ادائیگی شروع کردی گئی۔
1980 میں قریبی اسکول کے زیرآب آنے کے بعد بشیر صاحب نے اسے بچوں کا اسکول بنانے کی تجویز دے ڈالی تاکہ سرکاری اسکول کو سرکار کی سرپرستی حاصل ہو اور یہ قیمتی جگہ سرکار کی دیکھ بھال میں آ جائے۔مافیا کی سرتوڑ کوششوں کے باوجود اس جگہ اسکول قائم ہوگیا۔اور آج یہ گورنمنٹ بوائز پرائمری اسکول احمد آباد، نیاز بیگ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
1992 کے دنگے؛
یہاں کا ایک واقعہ بہت مشہور ہوا تھا جسے مشہور عرب چینل الجزیرہ نے بھی رپورٹ کیا تھا۔
ہوا کچھ یوں کہ بابری مسجد کی شہادت کے بعد حکومت پاکستان نے پورے ملک میں عام تعطیل کا اعلان کردیا۔ عوام غم و غصے سے بھرے بیٹھے تھے اور جس کو جہاں موقع ملا وہ مندروں پر چڑھ دوڑا۔ اس دن اسکول کی بھی چھٹی تھی۔ پرنسپل کچھ اساتذہ اور محلے کے لوگ وہاں موجود تھے کہ قریبی علاقوں سے عوام کا ایک ہجوم اس عمارت کے باہر جمع ہو گیا جو اسے توڑنا یا گرانا چاہتے تھے۔ ان کے نزدیک جو بھی ہو یہ عمارت ہندوؤں کے مندر کا حصہ رہ چکی تھی۔بشیر احمد اس دن وہاں موجود تھے۔
انہوں نے ہاتھ اٹھا کر مجمع کو وہیں روک دیا اور دوسروں کی عبادت گاہوں کو نقصان نہ پہنچانے کے حوالے سے ایک تقریر کی۔ بزرگ سمجھ کر سب نے ان کی بات غور سے سنی۔ انہوں نے کہا کہ یہ اب غریب بچوں کا اسکول ہے کوئی مندر نہیں اس لیے اسے کچھ نہ کہا جائے۔
ہجوم میں شامل زیادہ تر افراد ان کی بات سے قائل ہوگئے اور واپس چل دیے جب کہ کچھ شرپسندوں نے ایک دروازہ جلایا اور بیرونی دیوار کو نقصان پہنچایا۔ یوں ایک مسلمان کی کوششوں نے مندر کی عمارت کو بچالیا۔ بشیر صاحب 83 سال کی عمر میں 2018 میں انتقال کرگئے لیکن ان کی کوششیں آج اس اسکول کی صورت میں قائم و دائم ہیں۔
موجودہ حالت ؛
بھدرکالی کمپلیکس اب گم نام ہو چکا ہے۔
تالاب پاٹ دیے گئے ہیں، برگد کا پیڑ کاٹ دیا گیا، باؤلی یا کنواں گم گیا اور سمادھ توڑ دیے گئے، ایک حصے میں دکان بنالی گئی۔
تقسیم کے بعد پاکستان میں موجود بہت سے مندروں کو بھارت سے آئے مہاجرین کو الاٹ کیا گیا جن میں سے یہ بھی ایک تھا۔
اس کا ایک حصہ جہاں پوتر استھان یعنی مقدس کمرے اور باغات واقع تھے، کچھ میواتی خاندانوں کو الاٹ کر دیا گیا جنہوں نے اپنے حساب سے اس میں تبدیلیاں کر لیں اور اب بھی وہاں رہ رہے ہیں۔ مندر کے قریب ہی ایک اور پرانی عمارت تھی جہاں ایک دکان بنی ہوئی تھی اب اسے بھی گرا دیا گیا ہے۔
جب کہ اسکول کے اندر موجود مندر کا حصہ اب بھی بہتر حالت میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کا گنبد دور سے ہی نظر آ جاتا ہے۔ بقیہ اسکول کی عمارت نئی تعمیر کی گئی ہے۔