لاہور میں جانوروں کے نجی شیلٹر ہوم میں بھوک پیاس سے بڑی تعداد میں بلیاں ہلاک

شیلٹر ہوم کی مالک خاتون کو انسداد بے رحمی برائے حیوانات ایکٹ 1890 کے تحت8700 روپے جرمانہ

محکمہ انسدادبے رحمی حیوانات بچ جانیوالی 87 بلیوں کو ریسکیوکرکے تحویل میں لے لیا فوٹو: ایکسپریس

جانوروں کے ایک نجی شیلٹرہوم میں بھوک پیاس اورمناسب دیکھ بھال نہ ہونے سے بڑی تعداد میں بلیاں ہلاک ہوگئی ہیں، محکمہ انسدادبے رحمی حیوانات نے بچ جانے والی 87 بلیوں کو ریسکیوکرکے اپنی تحویل میں لے لیا ہےاور اب ان کی دیکھ بھال کی جارہی ہے،نجی شیلٹرہوم کی مالک خاتون کو 130 سال پرانے قانون کے تحت صرف اٹھ ہزار سات سو روپے جرمانہ کیاگیاہے,

یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنسز لاہور میں قائم محکمہ انسدادبے رحمی حیوانات کے شیلٹرہوم میں موجود مختلف رنگ ونسل کی یہ بلیاں ملتان روڈ لاہور کے علاقے میں بنائے گئے ایک نجی شیلٹرہوم سے 87 بلیاں ریسکیو کی گئی ہیں، یہاں اب ناصرف ان کا علاج معالجہ کیاجارہا ہے بلکہ ان کی خوراک اورآرام کا بھی خیال رکھاجارہا ہے،حکام کے مطابق شیلٹرہوم میں کئی بلیاں مردہ حالت میں پائی گئیں۔



محکمہ انسدادبے رحمی حیوانات کے شیلٹرہوم کے ویٹرنری آفیسر ڈاکٹرمحمد طلحہ نے بتایا کہ جب ان کی ٹیم نے ملتان روڈ پرشیلٹرہوم کو چیک کیا توایک کمرے میں بلیاں موجود تھیں جوانتہائی بری حالت میں تھیں، کمرے کے اندر کئی بلیاں مردہ حالت میں پائی گئیں جبکہ ان کے لئے جوپانی اورخوراک رکھی گئی تھی اس میں بھی بلیوں کی گندگی شامل تھی۔ ڈاکٹر محمد طلحہ کے مطابق نجی شیلٹر ہوم کی مالک خاتون کو انسداد بے رحمی برائے حیوانات ایکٹ 1890 کے تحت آٹھ ہزارسات سو روپے جرمانہ کیا گیا ہے جب کہ بلیوں کو تحویل میں لے کراب ان کا خیال رکھا جارہا ہے۔

ڈاکٹر محمد طلحعہ کہتے ہیں انسداد بے رحمی حیوانات کا محکمہ قیام پاکستان سے بھی پہلے سے موجود ہے اورابھی تک وہی پرانے قوانین چل رہے ،موجود حکومت ان قوانین کوتبدیل کرنے جارہی ہے جس کے تحت جانوروں پرتشدد اورانہیں بلاوجہ قید کرنیوالوں کیخلاف سزائیں اورجرمانوں کی شرح بڑھائی جائیگی۔ یہ محکمہ مال برداری کے جانوروں پر زیادہ وزن ڈالنے، زخمی اور بیمار جانوروں کو مال برداری کے لئے استعمال کرنے، مادہ گائے، بھینس، بکری اوربھیڑ کی سلاٹرنگ، کتے ،بلیوں کومارنے ،انہیں قید کرنے اس کے علاوہ پرندوں کو قید کرنے کے خلاف کارروائی کا اختیار رکھتا ہے۔

جانوروں کے حقوق کے لئے کام کرنیوالی عنیزہ خان کہتی ہیں ایسے افراد اور اداروں کی محکمہ انسدادبے رحمی حیوانات سے رجسٹریشن اوران کے کام کی مانیٹرنگ ہونی چاہیے۔انہوں نے بتایا کہ وفاقی سطح پر جانوروں پرظلم اورانہیں قید رکھنے کے خلاف جرمانوں اورسزاؤں میں اضافہ کیاگیا ہے لیکن صوبائی سطح پرابھی یہ قانون سازی نہیں ہوسکی ہے جس کی اشد ضرورت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ایک جانوروں پرتشدد اورظلم کرنے والے کو پچاس روپے سے ڈیڑھ سوروپے تک جرمانہ ہوسکتا ہے۔ 130 سال پہلے جب یہ قانون بنایاگیا اس وقت یہ بہت بڑی رقم تھی۔ عنیزہ خان کہتی ہیں آوارہ کتوں اوربلیوں کو پنجروں یاپھر چھوٹے کمروں میں رکھنے کی بجائے کھلے ماحول میں رکھاجائے تویہ ان کے لئے زیادہ اچھاہوتاہے۔




محکمہ انسداد بے رحمی حیوانات نے پہلی بارکسی شیلٹرہوم کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے اتنی تعداد میں بلیوں کو ریسکیو کیا ہے۔ جن شہریوں نے اپنی بلیاں نجی شیلٹرہوم میں عارضی طور پر جمع کروائی تھیں وہ ان کو واپس لیناچاہتے ہیں۔

ایک شہری محمدعلی کاکہنا تھا وہ کتوں کی بریڈکرواتے ہیں ،ان کے گھرمیں موجود بلی کے ہاں بچے پیداہوئے تو انہیں خطرہ تھا کہ کہیں گھرمیں موجود کتے ان بچوں کو نقصان نہ پہنچائیں اس لئے انہوں نے ملتان روڈ پر واقع شیلٹر ہوم سے رابطہ کرکے بلی اور اس کے بچے وہاں جمع کروادیئے،شیلٹر ہوم کی مالک خاتون نے ناصرف ان سے ڈونیشن لی بلکہ وہ وقتا فوقتا بلیوں کی خوراک اور علاج معالجے کے لئے پیسے بھی لیتی رہی ہیں۔



شہری محمدعلی کہتے ہیں انہوں نے جب بھی اس خاتون سے شیلٹرہوم دیکھنے کی بات کی تو وہ کوئی نہ کوئی بہانہ بنالیتی تھیں۔ اب جب کہ محکمہ انسدادبے رحمی حیوانات نے ریسکیو آپریشن کرکے بلیاں تحویل میں لے لی ہیں تو وہ اپنی بلی واپس لینے آئے ہیں۔ انہیں بلی کے بچے نظرنہیں آرہے ہیں وہ شاید مرچکے ہیں تاہم بلی یہاں موجود ہے۔

ڈاکٹرطلحہ کہتے ہیں محمدعلی کی طرح کئی شہریوں نے یہاں رابطہ کیا ہے،کچھ لوگ اپنی بلیاں واپس لینا چاہتے ہیں جبکہ بعض انہیں گود لینا چاہتے ہیں تاہم اس کا فیصلہ عدالت ہی کرسکتی ہے۔ اسپیشل مجسٹریٹ کے حکم پر ہی کسی شہری کواس کی بلی واپس دی جاسکتی ہے۔

Load Next Story