یہ تضاد کیوں
پاکستان کو داخلی و خارجی سطح پر بہت سے مسائل کا سامنا ہے، دہشت گرد ملک کا امن و سکون برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان کا قومی اسمبلی سے خطاب ان کی دینی حمیت اور قومی غیرت کا عکاس تھا، ہمت بہادری اور جرأت مندی کی بہترین مثال پیش کی اور امریکا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ''ڈو مور'' کے جواب میں ''نو مور'' کا نعرہ لگایا۔
یہ بھی کہا کہ پاکستان نے امریکا کی جنگ میں بہت نقصان اٹھایا اور اپنے ستر ہزار لوگوں کو داؤ پر لگایا ہے لیکن امریکا پھر بھی خوش نہیں انھوں نے صاف لفظوں میں اس بات کی بھی وضاحت کی کہ وہ امریکا کو اڈے ہرگز نہیں دیں گے اور کسی بھی خوف کے نتیجے میں اپنی خود مختاری اور سالمیت پر سمجھوتہ نہیں کریں گے۔
اس موقع پر عمران خان نے گہرے دکھ کا اظہارکیا کہ جب پاکستان ماضی میں امریکی جنگ کا حصہ بنا تو بڑی ذلت محسوس ہوئی ، انھوں نے امریکا کو دو ٹوک پیغام دیتے ہوئے کہا '' ہم امن میں تو امریکا کے شراکت دار بن سکتے ہیں اور افغانستان میں ہم امن کے خواہش مند ہیں۔
جناب وزیر اعظم کے تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کی طویل تقریر کے دوران مکمل خاموشی رہی اپوزیشن کی طرف سے کوئی ایسی بات سامنے نہیں آئی جس سے ماحول ناخوشگوار ہوتا، اس نازک موقع پر اختلاف رائے سامنے آتا۔ عمران خان کے تاریخی فیصلوں پر مبنی تقریر نے پاکستانیوں کے جھکے ہوئے سروں کو فخر سے بلند کردیا ہے۔
آج پاکستان قرضوں کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے معاشی ناہمواری نے متوسط اور افلاس زدہ طبقے کو محرومیوں اور مایوسیوں سے ہمکنارکیا ہے اگر پچھلی حکومتیں اپنی ذاتی زندگیوں کو پاکستان کے بائیس کروڑ عوام پر ترجیح نہ دیتیں تو آج حالات مختلف ہوتے۔
سابقہ تجربات نے یہ ثابت کیا ہے کہ پاکستانی معیشت کو خراب کرنے میں آئی ایم ایف کا مرکزی کردار رہا ہے یہ ادارہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کا کام غریب متوسط اور چھوٹے ممالک کو قرضہ دے کر امداد کرنا ہے ، لیکن امریکا کے ایما پر قرض دے کر ان ممالک کو محض اپنے مفاد کے لیے دیوار سے لگانے کے لیے نمایاں کردار ادا کرتا ہے۔
پاکستان کو معاشی طور پر بدحال کرنے کے لیے بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتیں بڑھانے کے لیے زور دیا جاتا ہے جب یہ چیزیں مہنگی ہوتی ہیں تو مہنگائی کا جن بے قابو ہو جاتا ہے مغرب کی یہی چال رہی ہے کہ اسلامی ممالک خصوصاً پاکستان پر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالا جائے اور اسے اشاروں سے نچایا جائے تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکے۔ اس کے ساتھ آئی ایم ایف اور امریکا کے مشورے سے اسٹیٹ بینک کو خود مختاری دے دی گئی ہے اور قرضے بھی سخت شرائط پر دیے جاتے ہیں۔
یہ بات پاکستان کے حق میں نقصان دہ ہے۔ پاکستان کی معیشت کو مزید کمزور کرنے کے لیے فیٹف کی کارکردگی بھی قابل مذمت ہے یہ ادارہ بظاہر تو مسلم ممالک کی مدد کے لیے بنا ہے کہ ضرورت پڑنے پر ایک معقول رقم دے کر حالات کو قابو میں کیا جاسکے لیکن حقیقتاً ایسا نہیں ہے۔
فنانشل اینٹی فورس ٹیررزم کا مخفف FATF ہے اس کے ذریعے پاکستان کو ملوث کرکے یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کو مالی، عسکری اور فنی امداد کرتا ہے، FATF کا کام پاکستان کے لیے مزید مشکلات پیدا کرنا اور مالی امداد کو رکوانا ہے۔ فیٹف کے ممبر ممالک میں امریکا، بھارت، فرانس، برطانیہ، چین، ملائیشیا اور ترکی شامل ہیں۔ چین، ترکی اور ملائیشیا چونکہ پاکستان سے ہمدردی رکھتے ہیں اس وجہ سے وہ پاکستان کو ہر ممکن طور پر الزامات سے بچانے اور اس کے استحکام کے لیے پیش پیش رہتے ہیں۔
قرضوں کی لعنت اور پاکستان کا گرے لسٹ سے اب تک نہ نکلنا گزشتہ حکومتوں کی دین ہے۔ سابق حکمران مذاق اڑانے اور طعنے مارنے کے لیے تو پیش پیش رہتے ہیں لیکن وہ اس بات پر غور نہیں کرتے ہیں کہ ملک کی تنزلی انھی کی دین ہے۔ پاکستان کو آج پوری دنیا میں جو وقار اور عزت حاصل ہوئی ہے وہ وزیر اعظم عمران خان کی وجہ سے کہ ان کا دامن قتل و غارت اور لوٹ مار سے پاک ہے۔ ان کی نیت نیک ہے، اگر انھیں کام کرنے دیا جائے تو انشا اللہ پاکستان ضرور ترقی کرے گا۔
پاکستان کو داخلی و خارجی سطح پر بہت سے مسائل کا سامنا ہے، دہشت گرد ملک کا امن و سکون برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں، اسلام آباد اور پھر کوئٹہ میں ہونے والے بم دھماکے اس بات کا بین ثبوت ہیں پاکستان کو خسارہ پہنچانے میں بیرونی طاقتیں پورا زور لگا رہی ہیں، چونکہ عمران خان کی حکومت ان کے لیے فائدے مند ثابت نہیں ہو رہی ہے۔ وہ دنیا کے نقشے پر پاکستان کو دیکھنے کے ہرگز خواہش مند نہیں ہیں۔
لیکن اللہ کی مہربانی ہے کہ یہ ملک معجزاتی طور پر کامیابی کی طرف گامزن ہے، جن لوگوں کو اپنی قوم اور وطن سے محبت نہیں ہوتی ہے تو وہ میر و جعفر کا کردار ادا کرکے بھاری قیمت وصول کرلیتے ہیں ۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں، غدار وطن کے لیے اللہ تعالیٰ جگہ تنگ کردیتا ہے اور وہ ذلت و رسوائی کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے کہ ''دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں '' لیکن ان لوگوں کو کوئے یار کی ہرگز طلب نہیں ہوتی ہے کہ انھیں تعیشات زندگی اور زندگی کے رنگ اور کیف پہلے ہی سے میسر ہے۔
اگر حکومت اور اپوزیشن ملک کے امن و سکون کی خاطر ایک پیج پر رہیں تو یہ اتحاد دوسروں کے ارادوں کو کمزور کرسکتا ہے ، لیکن ذاتی مفاد کے خواہش مند دشمن عناصر کے لیے سود مند ثابت ہوتے ہیں۔ محض ہوس زر کی خاطر۔ جہاں وزیر اعظم پاکستان کے دبنگ فیصلوں کی تعریف ہو رہی ہے اس کے ساتھ یہ بحث بھی چل رہی ہے کہ آخر یہ بل کیوں پاس کیا اور وہ بھی ثقیل انگریزی میں لکھا ہوا، تاکہ کوئی سمجھ نہ سکے ایک طرف وزیر اعظم پاکستان اور جج صاحبان نے اردو کی ترویج اور اس کو قومی زبان کا درجہ دینے کے لیے احکامات جاری کیے ہیں کہ تمام اداروں میں اردو زبان میں دستاویزات جاری کی جائیں، دوسری طرف یہ غلط رویہ۔
حال ہی میں والدین کے تحفظ کے لیے قانون پاس ہوا ہے کہ اولاد انھیں در بدر نہیں کرسکے گی اس قانون کے چند ہی روز بعد یہ بل پاس ہوگیا کہ اولاد اپنی آزادی میں حائل ہونے والے ماں باپ کو قانون کے حوالے کردے گی۔ قوانین کا یہ تضاد خاندانوں کا سکون عزت و وقار برباد کرنے کے مترادف ہے اور مغرب کا انداز فکر ہے جسے کیوں اپنایا گیا ہے؟ یہ سوال بہت سے خدشات کو جنم دیتا ہے بل کو پاس کرانے میں (ن) لیگ، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کا کردار سامنے آیا ہے۔
یقین نہیں آتا ہے کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے؟ حکومت کا فرض ہے اپنی ساکھ اور اسلامی قوانین کو مدنظر رکھتے ہوئے اس بل کے خاتمے کا اعلان کرے۔ اسی میں اللہ کی رضا اور معاشرتی سطح پر عافیت نظر آتی ہے۔ ورنہ یہی کہا جائے گا:
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے
یہ بھی کہا کہ پاکستان نے امریکا کی جنگ میں بہت نقصان اٹھایا اور اپنے ستر ہزار لوگوں کو داؤ پر لگایا ہے لیکن امریکا پھر بھی خوش نہیں انھوں نے صاف لفظوں میں اس بات کی بھی وضاحت کی کہ وہ امریکا کو اڈے ہرگز نہیں دیں گے اور کسی بھی خوف کے نتیجے میں اپنی خود مختاری اور سالمیت پر سمجھوتہ نہیں کریں گے۔
اس موقع پر عمران خان نے گہرے دکھ کا اظہارکیا کہ جب پاکستان ماضی میں امریکی جنگ کا حصہ بنا تو بڑی ذلت محسوس ہوئی ، انھوں نے امریکا کو دو ٹوک پیغام دیتے ہوئے کہا '' ہم امن میں تو امریکا کے شراکت دار بن سکتے ہیں اور افغانستان میں ہم امن کے خواہش مند ہیں۔
جناب وزیر اعظم کے تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کی طویل تقریر کے دوران مکمل خاموشی رہی اپوزیشن کی طرف سے کوئی ایسی بات سامنے نہیں آئی جس سے ماحول ناخوشگوار ہوتا، اس نازک موقع پر اختلاف رائے سامنے آتا۔ عمران خان کے تاریخی فیصلوں پر مبنی تقریر نے پاکستانیوں کے جھکے ہوئے سروں کو فخر سے بلند کردیا ہے۔
آج پاکستان قرضوں کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے معاشی ناہمواری نے متوسط اور افلاس زدہ طبقے کو محرومیوں اور مایوسیوں سے ہمکنارکیا ہے اگر پچھلی حکومتیں اپنی ذاتی زندگیوں کو پاکستان کے بائیس کروڑ عوام پر ترجیح نہ دیتیں تو آج حالات مختلف ہوتے۔
سابقہ تجربات نے یہ ثابت کیا ہے کہ پاکستانی معیشت کو خراب کرنے میں آئی ایم ایف کا مرکزی کردار رہا ہے یہ ادارہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کا کام غریب متوسط اور چھوٹے ممالک کو قرضہ دے کر امداد کرنا ہے ، لیکن امریکا کے ایما پر قرض دے کر ان ممالک کو محض اپنے مفاد کے لیے دیوار سے لگانے کے لیے نمایاں کردار ادا کرتا ہے۔
پاکستان کو معاشی طور پر بدحال کرنے کے لیے بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتیں بڑھانے کے لیے زور دیا جاتا ہے جب یہ چیزیں مہنگی ہوتی ہیں تو مہنگائی کا جن بے قابو ہو جاتا ہے مغرب کی یہی چال رہی ہے کہ اسلامی ممالک خصوصاً پاکستان پر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالا جائے اور اسے اشاروں سے نچایا جائے تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکے۔ اس کے ساتھ آئی ایم ایف اور امریکا کے مشورے سے اسٹیٹ بینک کو خود مختاری دے دی گئی ہے اور قرضے بھی سخت شرائط پر دیے جاتے ہیں۔
یہ بات پاکستان کے حق میں نقصان دہ ہے۔ پاکستان کی معیشت کو مزید کمزور کرنے کے لیے فیٹف کی کارکردگی بھی قابل مذمت ہے یہ ادارہ بظاہر تو مسلم ممالک کی مدد کے لیے بنا ہے کہ ضرورت پڑنے پر ایک معقول رقم دے کر حالات کو قابو میں کیا جاسکے لیکن حقیقتاً ایسا نہیں ہے۔
فنانشل اینٹی فورس ٹیررزم کا مخفف FATF ہے اس کے ذریعے پاکستان کو ملوث کرکے یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کو مالی، عسکری اور فنی امداد کرتا ہے، FATF کا کام پاکستان کے لیے مزید مشکلات پیدا کرنا اور مالی امداد کو رکوانا ہے۔ فیٹف کے ممبر ممالک میں امریکا، بھارت، فرانس، برطانیہ، چین، ملائیشیا اور ترکی شامل ہیں۔ چین، ترکی اور ملائیشیا چونکہ پاکستان سے ہمدردی رکھتے ہیں اس وجہ سے وہ پاکستان کو ہر ممکن طور پر الزامات سے بچانے اور اس کے استحکام کے لیے پیش پیش رہتے ہیں۔
قرضوں کی لعنت اور پاکستان کا گرے لسٹ سے اب تک نہ نکلنا گزشتہ حکومتوں کی دین ہے۔ سابق حکمران مذاق اڑانے اور طعنے مارنے کے لیے تو پیش پیش رہتے ہیں لیکن وہ اس بات پر غور نہیں کرتے ہیں کہ ملک کی تنزلی انھی کی دین ہے۔ پاکستان کو آج پوری دنیا میں جو وقار اور عزت حاصل ہوئی ہے وہ وزیر اعظم عمران خان کی وجہ سے کہ ان کا دامن قتل و غارت اور لوٹ مار سے پاک ہے۔ ان کی نیت نیک ہے، اگر انھیں کام کرنے دیا جائے تو انشا اللہ پاکستان ضرور ترقی کرے گا۔
پاکستان کو داخلی و خارجی سطح پر بہت سے مسائل کا سامنا ہے، دہشت گرد ملک کا امن و سکون برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں، اسلام آباد اور پھر کوئٹہ میں ہونے والے بم دھماکے اس بات کا بین ثبوت ہیں پاکستان کو خسارہ پہنچانے میں بیرونی طاقتیں پورا زور لگا رہی ہیں، چونکہ عمران خان کی حکومت ان کے لیے فائدے مند ثابت نہیں ہو رہی ہے۔ وہ دنیا کے نقشے پر پاکستان کو دیکھنے کے ہرگز خواہش مند نہیں ہیں۔
لیکن اللہ کی مہربانی ہے کہ یہ ملک معجزاتی طور پر کامیابی کی طرف گامزن ہے، جن لوگوں کو اپنی قوم اور وطن سے محبت نہیں ہوتی ہے تو وہ میر و جعفر کا کردار ادا کرکے بھاری قیمت وصول کرلیتے ہیں ۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں، غدار وطن کے لیے اللہ تعالیٰ جگہ تنگ کردیتا ہے اور وہ ذلت و رسوائی کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے کہ ''دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں '' لیکن ان لوگوں کو کوئے یار کی ہرگز طلب نہیں ہوتی ہے کہ انھیں تعیشات زندگی اور زندگی کے رنگ اور کیف پہلے ہی سے میسر ہے۔
اگر حکومت اور اپوزیشن ملک کے امن و سکون کی خاطر ایک پیج پر رہیں تو یہ اتحاد دوسروں کے ارادوں کو کمزور کرسکتا ہے ، لیکن ذاتی مفاد کے خواہش مند دشمن عناصر کے لیے سود مند ثابت ہوتے ہیں۔ محض ہوس زر کی خاطر۔ جہاں وزیر اعظم پاکستان کے دبنگ فیصلوں کی تعریف ہو رہی ہے اس کے ساتھ یہ بحث بھی چل رہی ہے کہ آخر یہ بل کیوں پاس کیا اور وہ بھی ثقیل انگریزی میں لکھا ہوا، تاکہ کوئی سمجھ نہ سکے ایک طرف وزیر اعظم پاکستان اور جج صاحبان نے اردو کی ترویج اور اس کو قومی زبان کا درجہ دینے کے لیے احکامات جاری کیے ہیں کہ تمام اداروں میں اردو زبان میں دستاویزات جاری کی جائیں، دوسری طرف یہ غلط رویہ۔
حال ہی میں والدین کے تحفظ کے لیے قانون پاس ہوا ہے کہ اولاد انھیں در بدر نہیں کرسکے گی اس قانون کے چند ہی روز بعد یہ بل پاس ہوگیا کہ اولاد اپنی آزادی میں حائل ہونے والے ماں باپ کو قانون کے حوالے کردے گی۔ قوانین کا یہ تضاد خاندانوں کا سکون عزت و وقار برباد کرنے کے مترادف ہے اور مغرب کا انداز فکر ہے جسے کیوں اپنایا گیا ہے؟ یہ سوال بہت سے خدشات کو جنم دیتا ہے بل کو پاس کرانے میں (ن) لیگ، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کا کردار سامنے آیا ہے۔
یقین نہیں آتا ہے کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے؟ حکومت کا فرض ہے اپنی ساکھ اور اسلامی قوانین کو مدنظر رکھتے ہوئے اس بل کے خاتمے کا اعلان کرے۔ اسی میں اللہ کی رضا اور معاشرتی سطح پر عافیت نظر آتی ہے۔ ورنہ یہی کہا جائے گا:
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے