ہرن مینار اور شیخوپورہ
تاریخ گواہ ہے مغل بادشاہ جہاں سے گزرے یا جس مقام پر قیام کیا اپنے نشان چھوڑتے چلے گئے۔
پاکستان کے مشہور شہروں میں شیخوپورہ بھی اپنی تاریخ رکھتا ہے۔ شیخوپورہ جسے کلا شیخوپورہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، یہ صوبہ پنجاب کا ایک تاریخی اور صنعتی شہر ہے۔
یہ لاہور سے تقریباً 38 کلومیٹر، فیصل آباد سے 95 کلومیٹر دور گوجرانوالہ سے 56 کلو میٹر کے فاصلے پر موجود ہے۔ یہاں سے کراچی، فیصل آباد، ملتان، رحیم یار خان، راولپنڈی، جہلم، گوجرانوالہ، گجرات، نارروال، سرگودھا، میاں والی، سیالکوٹ، گوجر خان، لاہور اور پاکستان کے دیگر مشہور شہروں کے لیے گاڑیاں جاتی ہیں۔
یہاں کے زیادہ تر بس اڈے سگنل چوک جسے بتی چوک بھی کہا جاتا ہے یہاں پر موجود ہیں۔ یہاں سے موٹر وے بھی گزرتی ہے جو اسے پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سے جوڑتی ہے۔ یہاں موٹروے پولیس کا ایک ٹریننگ سینٹر اورکالج بھی موجود ہے۔
پہلے شیخوپورہ گوجرانوالہ کی ایک تحصیل ہوا کرتا تھا بعد میں ضلع کا درجہ حاصل کرنے کے بعد لاہور ڈویژن میں شامل ہوگیا۔ کچھ عرصہ قبل شیخوپورہ کو ڈویژن کا درجہ دیا گیا جس میں انتظامی طور پر دو اضلاع شامل ہیں۔
ضلع شیخوپورہ اور ضلع ننکانہ صاحب، شیخوپورہ کو مزید پانچ تحصیلوں میں تقسیم کیا گیا ہے جن میں تحصیل شیخوپورہ، تحصیل فیروز والا، تحصیل مریدکے، تحصیل شرق پور اور تحصیل صفدر آباد شامل ہیں۔ 2017 کی مردم شماری کے مطابق شیخوپورہ کی آبادی 36 لاکھ 60 ہزار نفوس پر مشتمل ہے جب کہ ضلع کا کل رقبہ 2 ہزار تیس مربع کلومیٹر ہے۔
شیخوپورہ کی تاریخ حضرت عیسیٰ ؑ سے سیکڑوں سال پہلے سے شروع ہوتی ہے، کہا جاتا ہے کہ جہاں آج سانگلا پہاڑی کا علاقہ موجود ہے یہ موجودہ پنجاب کا اس دور میں مرکزی علاقہ ہوا کرتا تھا۔ سکندر جب ہندوستان آیا تو اسی علاقے میں اس نے اپنی زندگی کی اہم ترین جنگیں لڑیں۔ ساتویں صدی عیسوی میں ایک چین کا سیاح اور ماہر آثار قدیمہ کے سفر ناموں میں بھی اس علاقے کا ذکر ملتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ شیخوپورہ اور اس کے آس پاس کا علاقہ جٹ قوم کی وجہ سے مغلوں کے دور سے ''درک گڑھ'' کے نام سے جانا جاتا تھا بعد میں مغل شہنشاہ جہانگیر کے حوالے سے '' جہانگیر آباد '' اور پھر شیخوپورہ کے نام سے لکھا اور پکارا جانے لگا۔ شیخو دراصل مغل شہنشاہ اکبر کے بیٹے جہانگیر کا لقب تھا یہ لقب اسے اس کی والدہ نے دیا تھا۔ وہ اپنے بیٹے کو '' شیخو بابا '' کے نام سے پکارا کرتی تھیں۔
تاریخ گواہ ہے مغل بادشاہ جہاں سے گزرے یا جس مقام پر قیام کیا اپنے نشان چھوڑتے چلے گئے۔ عدل انصاف کا معاملہ ہو یا جنگ و جدل کا ، عشق و محبت ہو یا سیاست ، سیر و سیاحت ہو یا شکاریات ، فن دستکاری ہو یا فن تعمیراتی الغرض مغلوں نے ہر میدان میں اپنی محنت، کاریگری، حسن نظر اور انفرادیت کا لوہا منوایا۔ مغلوں نے تعمیر میں اپنا انداز اپنایا۔ کہیں اس میں مقامی رنگ کی اس خوبصورتی سے آمیزش کی اس دلکش امتزاج سے تاج محل، شاہی قلعہ، بادشاہ مسجد، شاہ جہانی مسجد، جامعہ مسجد، مقبرہ جہانگیر، شالیمار باغ، لال قلعہ اور ''ہرن مینار'' جیسے متعدد شاہکار وجود میں آئے۔ آج مغلوں کی حکومت نہیں لیکن ان کی دیدہ زیب، پختہ، خوبصورت عمارات آج موجود ہیں۔
دراصل مغلیہ دور میں شہنشاہ جہانگیر اور شاہی خاندان کے افراد کے لیے یہ علاقہ ''شکارگاہ'' کا درجہ رکھتا تھا۔ جہانگیر نے اپنی کتاب تزک جہانگیری میں بھی اس کا ذکرکیا ہے۔ روایت کے مطابق مغلیہ بادشاہ جہانگیر اپنے ساتھیوں کے ہمراہ شکار کے لیے اس جنگل میں جایا کرتا تھا جہاں آج کل ''ہرن مینار'' واقع ہے۔
دوران شکار اسے نہایت خوبصورت ایک ہرن نظر آیا جس کی عادات و اطوار سے متاثر ہوتے ہوئے جہانگیر نے اسے اپنا پالتو ہرن بنا لیا اور اس ہرن کو اس نے ''منی راج'' کا نام دیا جو تمام جانوروں میں شہزادے کی حیثیت رکھتا تھا۔ لیکن بدقسمتی سے ایک شکار کے دوران جہانگیر کے اپنے تیر کا نشانہ بنا اور ہلاک ہو گیا۔
ہرن کی اس ہلاکت پر بادشاہ بے حد پریشان اور دکھی ہوا۔ اس ہرن کی یاد میں جہانگیر نے ہرن مینار تعمیر کروایا اور کچھ عرصے بعد ہی مینار کے ساتھ پانی کا بڑا تالاب اور اس کے وسط میں ایک چوکور گنبد والی عمارت اور بارہ دری تعمیر کروائی، یہ بارہ دری عزت خان نے تعمیر کی۔ اس مرکزی عمارت سے کافی چوڑا راستہ ہرن مینار کی طرف آتا ہے۔ اس وقت ہرن مینار کی بلندی 130 فٹ بتائی جاتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ زلزلے کی وجہ سے ہرن مینار کی عمارت کا تیس فٹ ٹکڑا گر گیا جس کے بعد اس کی دوبارہ مرمت کی گئی۔
آج اس کی بلندی 110 فٹ ہے۔ مینار کے اندر بنائی گئی گول سیڑھیاں بس اوپر تک جاتی ہیں۔ اس مینار پر چڑھ کر پورا علاقہ دیکھا جاسکتا ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق کئی لوگوں نے خودکشیاں کیں جس کی وجہ سے مینار سے اوپر جانے کا راستہ بند کردیا گیا ہے یہ سرخ پتھروں سے تعمیر کیا گیا ہے۔ منی راج ہرن کی قبر اسی مینار کے پاس موجود ہے۔
بلاشبہ مغلیہ دور کی فن تعمیر بڑی عمدہ مثال ہے۔ سیاحوں کے لیے زبردست تاریخی اور سیاحی مقام ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور تاریخی عمارت ''کلہ شیخوپورہ'' جسے حرف عام میں ''قلعہ شیخوپورہ'' کہا جاتا ہے۔ قلعہ شیخوپورہ مغل شہنشاہ جہانگیر نے تعمیر کروایا تھا یہ قلعہ پرانے شہر کے جنوب مشرق میں واقع ہے۔
مغلوں کے زوال کے بعد یہ علاقہ کئی سلطنتوں میں تباہ و برباد ہوتا رہا یہاں کچھ عرصے کے لیے نادر شاہ اور احمد شاہ ابدالی نے بھی اپنی حکومتوں کے عارضی جھنڈے گاڑے۔ کچھ عرصہ بھٹی بادشاہوں کے زیر تسلط بھی رہا۔ بھٹی خاندان کے بعد اس علاقے پر اٹھارہویں صدی کے وسط میں کئی لٹیرے حکمران بھی قابض رہے۔ انھی لٹیروں میں سے ایک اربیل سنگھ کا نام بھی ہے جس نے قلعہ شیخوپورہ کو اپنا مرکز بنا کر پورے علاقے میں لوٹ مار شروع کی۔
رنجیت سنگھ نے اربیل سنگھ کو شکست دے کر یہ علاقہ اس سے چھین لیا اور کاکڑ سنگھ کو دے دیا۔ بعدازاں یہ علاقہ رنجیت سنگھ کی بیوی کے ہاتھ آیا جو انگریزوں کے یہاں قابض ہونے تک حکمران رہی۔
1881یہاں ایک ڈاک خانہ قائم کیا گیا۔ 1907 میں ریل کے ذریعے اس شہر کو شادرہ سے جوڑا گیا۔ 1920 میں اس شہر کو تحصیل سے ضلع کا درجہ دے دیا اور عدالتیں قائم ہوئیں۔ 1922 میں سرگنگا رام کی زیر نگرانی کئی شفاخانے تعمیر کیے گئے۔ 1924 میں سول اسپتال اور سول کوارٹرز کے مابین ایک نیا شہر تعمیر کیا گیا۔