گھروں میں جنگ بندی

ہمارے یہاں سے کون جاتا ہے اورکتنے بلند بانگ وعدے اور دعوے کرتا ہے۔

zahedahina@gmail.com

اب سے لگ بھگ 50 برس پرانی بات ہے، جب مرحوم قیصر ابن حسن نے مجھے لیاقت نیشنل لائبریری سے ایک نادرکتاب فوٹواسٹیٹ کروا کردی تھی۔ وہ اس وقت لیاقت نیشنل لائبریری کے چیف لائبریرین تھے اور سیفی صاحب ان کے نائب تھے۔ اس کتاب کو نایاب تو نہیں ہونا چاہیے تھا اس لیے کہ وہ کتاب 40 کی دہائی کی ابتدا میں لاہور یا الہ آباد سے شایع ہوئی تھی اور نام اس کا '' وولگا سے گنگا '' تھا۔

ہندی کے مشہور ادیب راہل سنکراتائین کا یہ ناول جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے 20 حصوں یا یوں کہہ لیجیے کہ ابواب پرمشتمل تھا۔ راہل جی نے دریائے وولگا کے کنارے رہنے والے آریائوں کا سرسبز چراگاہوں کے اجڑ جانے پر وولگا سے دریائے گنگا تک کا سفر بیان کیا تھا۔

ایک نہایت دلچسپ تاریخی سفر نامہ جو ہمیں یہ بھی دکھاتا تھا کہ ہزاروں برس پر پھیلے ہوئے اسی سفرکے دوران مادر سری سماج نے کن وجوہ کی بنا پر اور آلات پیداوار کی تبدیلی کے ساتھ کس طرح پدری سماج کا رنگ اختیارکیا۔ یہی وجہ ہے کہ راہل جی کا یہ ناول بہت اہمیت رکھتا ہے اور عورتوں کی تاریخ میں اس کے جابجا حوالے آتے ہیں۔

میں نے اپنی کتاب ''عورت: زندگی کا زنداں'' میں راہل جی کے ناول ''وولگا سے کنگا'' کا حوالے دیتے ہوئے لکھا ہے کہ:

وولگا کے کناروں سے خیمے سمیٹ کر ہزاروں میل لمبے سفر پر نکلنے والوں کی کہانی آگے بڑھتی ہے: ایک بہت بڑے جھونپڑے میں نشا خاندان کی اولاد رہتی ہے۔ یہ ایک بوڑھی دادی کا نام ہے۔ یہ قبیلہ ایک ساتھ شکارکرتا ہے، ایک ساتھ پھل اور شہد جمع کرتا ہے۔ سارے قبیلے کی ایک مالکہ ہے اور سارے قبیلے کا گزارا ایک سنچالن کرتی ہے۔ اس سنچالن سے قبیلے کے آدمیوں کی زندگی کا کوئی حصہ چھوٹا ہوا نہیں ہے۔ شکار ، ناچ ، محبت ، گھر بنانا ، چمڑے کا لباس تیارکرنا۔ سبھی کام سنچالن یا قبیلے کی کمیٹی کرتی ہے جس میں قبیلے کی ماں کے مخصوص کام ہیں۔ نشا قبیلے کے اس جھونپڑے میں 15 مرد اور عورتیں رہتے ہیں۔

توکیا یہ سب ایک ہی خاندان ہیں؟ نہیں ان کو بہت سے خاندان بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ ماں کی زندگی ہی میں اولادیں چھوٹے چھوٹے خاندانوں میں تقسیم ہوجاتی ہیں۔ زیادہ تر اس مفہوم میں کہ اس کے سب آدمی اس ماں کے نام سے پکارے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر دیوا کی ماں نہ رہے اور وہ کئی بچوں کی ماں ہوجائے تو انھیں دیوا کے لڑکے اور دیوا کی لڑکی کے نام سے پکارا جائے گا۔ لیکن اس کے باوجود دیوا کی اولاد جو شکارکرے گی اس کا گوشت ، درختوں سے جو پھل اور میوہ حاصل کرے گی وہ سب ان کی ملکیت ہوگا۔

''سارے قبیلے کی عورتیں اور مرد مل کر دولت جمع کرتے ہیں اور مل کر ہی اسے ایک ساتھ خرچ کرتے ہیں۔ شکار نہ ملے یا پھل اکٹھے نہ کیے جاسکیں تو کوئی ایک شخص نہیں سارا قبیلہ فاقہ کرتا ہے اور جب کھانا ملتا ہے تو سب کو برابر ملتا ہے۔ کوئی بھی آدمی قبیلے سے الگ اپنی کوئی ملکیت نہیں رکھتا۔ قبیلہ کا حکم اور رواج ماننا ان کے لیے اتنا ہی آسان ہے جس قدر اپنی خواہش کے مطابق چلنا۔

(سوا دو سو نسل پہلے کے آریا قبیلے کی کہانی)

''... اس زندہ دل زمانے میں عورت نے ابھی مرد کی مکمل غلامی نہیں تسلیم کی تھی اس لیے اسے بیشمار چاہنے والوں سے ملنے کا حق حاصل تھا۔ مہمانوں اور دوستوں کے پاس خاطر اور تواضع کے طور پر اپنی بیوی کو بھیجنا، اس عہد میں سب سے بڑی عزت خیال کیا جاتا تھا۔''


(دو سو نسل پہلے کے ایک آریا قبیلے کی کہانی)

دریائے وولگا کے کنارے عورت خاندان کی سربراہ اور دیوی تھی ، وولگا کے کناروں کو چھوڑ کر نئی چراگاہوں اور نئے جنگلوں کی تلاش میں نکلنے کا فیصلہ اس کا تھا لیکن سیکڑوں برس کے اس سفر کے دوران وہ رفتہ رفتہ اپنی بالادستی سے محروم ہوئی۔ آریا قبیلے لگ بھگ دو ہزار سال قبل مسیح ہندوستان میں داخل ہونا شروع ہوئے اور یہ سلسلہ پانچ چھ سو برس تک جاری رہا۔ وادئ سندھ میں مادرسری نظام رائج تھا ، یہاں کے باشندوں کے پاس وہ بہتر اور برترہتھیار اور اوزار نہیں تھے جو صدیوں پر پھیلے ہوئے سفر کے دوران آریاؤں نے ایجاد کرلیے تھے، وادئ سندھ کے لوگوں کے پاس آریاؤں جیسے برق رفتارگھوڑے بھی نہ تھے، ہوتے بھی کیسے، آریا سیکڑوں برس سے سفر میں تھے، مختلف زمینوں سے گزرنے کی مشکلات نے انھیں زیادہ جفاکش اور زیادہ طاقتور بنادیا تھا۔

اس سفرکے دوران آریاؤں نے صرف نئے ہتھیار ہی نہیں بنائے تھے اور جانور ہی نہیں سدھائے تھے، انھوں نے عورت کو قبیلے کی سرداری سے بھی سبکدوش کردیا تھا۔ وہ وادئ سندھ میں داخل ہوئے تو آریا مرد قبیلے کا سردار تھا ، ماں اور بیوی کا احترام قائم تھا لیکن وہ پس منظر میں چلی گئی تھی اور یک زوجگی رائج ہوچکی تھی۔

''وولگا سے گنگا'' ایک دلچسپ اور چشم کشا ناول ہے۔ یہ عورتوں کی تاریخ اور مرد سری سماج کے سامنے عورتوں کی پسپائی کو بہت تفصیل سے بیان کرتا ہے۔ راہل جی نے یہ ناول ایک دانشور اور عمرانی ماہر کے طور پر لکھا تھا۔ 20 برس کی عمر میں اس کے بعض حصے سمجھ میں آئے اور بعض نہ آئے۔ پھر وہ مجھ سے کھوگیا۔ گزشتہ برس ہماری ایک ممتاز ادیبہ ذکیہ مشہدی نے مجھے اس کا انگریزی ورژن بھیجا۔ یہ ان کی عنایت کہ انھوں نے میری یہ فرمائش پوری کی۔

آج یہ سب باتیں اس لیے یاد آئیں کہ اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری انتونیو گتریس نے عورتوں کے خلاف تشدد کے مسئلے کو عالمی سطح پر حل کرنے اور اس کے لیے ایک ماڈل بنانے کی تجویز پیش کی ہے۔ انتونیو ایک عالم اور دانشور ہیں۔ وہ گزشتہ پانچ برس سے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل تھے اور اب ایک بار پھر اس عہدے کے لیے منتخب ہوئے ہیں۔

دنیا بھر کی عورتوں اور بچوں کی زبوں حالی پر وہ کڑھتے ہیں اور اس کے خاتمے کے لیے اپنے ادارے اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر جدوجہد کرتے رہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں مل کر صنفی مساوات کو آگے بڑھانا چاہیے اور اس کے ساتھ ہی عورتوں اور لڑکیوں کی عزت نفس، ان کی صحت ، ا ن کی تعلیم اور ان کی ہنرمندی کے لیے ان تھک محنت کرنی چاہیے۔

ان کا کہنا ہے کہ گھریلو تشدد ، کم عمری کی شادی، بعض علاقوں بہ طور خاص افریقاکے متعدد ملکوں میں عورتوں اور لڑکیوں کا ختنہ وہ معاملات ہیں جن کے بچیوں اور عورتوں کی صحت اور عزت نفس پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ کووڈ 19کی وبا کے دوران عورتوں کے خلاف گھریلو تشدد میں پچھلے برس نسبتاً دہرا اضافہ ہوا۔ انھوں نے دو برس پہلے جنگ زدہ علاقوں اور گھروں میں جنگ بندی کی اپیل کی تھی۔

ان کی اس اپیل کے نتیجے میں 140 ملکوں نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنے ملکوں میں بچیوں اور عورتوں کے خلاف تشدد کی روک تھام کریں گے لیکن یہ وعدے محض وعدے رہے۔ اسی کے ساتھ وہ ہمیں یہ بھی بتاتے ہیں کہ کن ملکوں نے عورتوں کے حق میں قوانین منظورکیے ہیں اور کن ملکوں نے اس حوالے سے وعدے کیے ہیں۔

سیکریٹری جنرل نے عنقریب پیرس میں ہونے والی اس عالمی کانفرنس سے بہت امیدیں وابستہ کی ہیں۔ جس میں دنیا کے بہت سے ملکوں کے سربراہ اور وزیر شرکت کریں گے۔ ہمارے یہاں سے کون جاتا ہے اورکتنے بلند بانگ وعدے اور دعوے کرتا ہے لیکن دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ان وعدوں پر ہمارے رہنما کس قدر سچے اتریں گے۔
Load Next Story