طالبان کا بدخشاں کے متعدد اضلاع پر قبضہ افغان فوجی تاجکستان فرار
الجزیرہ کے مطابق افغانستان کے شمالی صوبہ بدخشاں میں طالبان تیزی سے پیش قدمی کرتے ہوئے سرحد کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ تاجکستان کی قومی سلامتی کمیٹی نے بتایا ہے کہ مزید 300 سے زائد افغان فوجی سرحد عبور کرکے تاجکستان میں داخل ہوگئے ہیں، جنہیں انسانیت کے ناطے پناہ دی گئی ہے۔
اپریل کے وسط میں جب سے امریکی صدر جوبائیڈن نے افغانستان کو 'ہمیشہ کی جنگ' قرار دیتے ہوئے وہاں سے واپسی کا اعلان کیا ہے تب سے طالبان تیزی سے ملک میں غالب آتے جارہے ہیں۔ تاہم بدخشاں میں فتوحات اس لیے غیر معمولی نوعیت کی حامل ہیں کہ یہ امریکا کے اتحادی سرداروں کا ہمیشہ سے مضبوط گڑھ رہا ہے، جنہوں نے 2001 میں طالبان کو شکست دینے میں امریکا کی مدد کی تھی۔ اب طالبان کا ملک کے 421 اضلاع میں سے ایک تہائی پر قبضہ ہوچکا ہے۔
بدخشاں کونسل کے رکن محب الرحمن نے افغان فوج پر افسوس کرتے ہوئے کہا کہ طالبان بغیر لڑے ہی جنگ جیت رہے ہیں، کیونکہ افغان فوج بددلی اور مایوسی کا شکار ہے اور بغیر لڑے ہتھیار ڈال کر راہ فرار اختیار کررہی ہے، گزشتہ 3 روز میں طالبان نے 10 اضلاع پر قبضہ کیا جن میں سے 8 اضلاع بغیر لڑے ہی فتح کرلیے۔
یہ بھی پڑھیں: طالبان نے قندھار کے اہم ضلع پنجوائی سمیت 14 اضلاع کا کنٹرول حاصل کرلیا
سیکڑوں افغان فوجی، پولیس اہلکار اور خفیہ ایجنسیوں کے افسران اپنی فوجی چوکیاں چھوڑ کر تاجکستان یا بدخشاں کے صوبائی دارالحکومت فیض آباد فرار ہوگئے ہیں، بلکہ اب فیض آباد بھی چھوڑ کر کابل جارہے ہیں۔
دوسری جانب افغان میڈیا کے مطابق قندھار شہر میں صوبائی گورنر کے گھر کے احاطے میں مقناطیسی بم کا دھماکا ہوا جس کے نتیجے میں گورنر کا سیکرٹری اور ایک سیکیورٹی گارڈ ہلاک ہوگیا۔ دھماکا اس وقت ہوا جب گورنر کا سیکرٹری منصور احمد پارکنگ میں کھڑی اپنی گاڑی میں بیٹھ رہا تھا۔
علاوہ ازیں برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق طالبان نے امریکا اور نیٹو کو خبردار کیا ہے کہ ستمبر میں انخلا کی حتمی مدت کے بعد کوئی غیرملکی فوجی افغانستان میں نہیں رہنا چاہیے وگرنہ اس کی جان محفوظ نہیں ہوگی۔
طالبان نے یہ بیان ان خبروں پر دیا ہے جن میں بتایا گیا کہ سفارت کاروں اور کابل بین الاقوامی ایئرپورٹ کی حفاظت کے لیے ایک ہزار امریکی فوجی افغانستان میں باقی رہ سکتے ہیں۔
یہ خبر پڑھیں : افغانستان ؛ امریکا کے بعد بھارتی اہلکاروں نے بھی بگرام ایئر بیس خالی کردیا
طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے کہا کہ انخلا کے بعد کوئی غیر ملکی فوجی افغانستان میں نہیں رہنے چاہئیں کیونکہ یہ دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی ہوگی، اگر انہوں نے ایسا کیا تو ہم اس کا جواب دیں گے، جہاں تک سفارت کاروں، این جی اوز اور عام غیر ملکیوں کا تعلق ہے تو وہ محفوظ ہیں اور انہیں نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔
علاوہ ازیں امریکی فوجی انخلا کے بعد اس کی سیکڑوں فوجی گاڑیاں، ٹینکس، ہموی اور بھاری اسلحہ طالبان کے ہاتھ آگیا ہے۔ اسی حوالے سے سوشل میڈیا پر افغانستان کی ایک تصویر تیزی سے وائرل ہوئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ طالبان نے امریکی فوجی گاڑی کو اب مقامی افراد کی آمد و رفت میں سہولت کے لیے ٹرانسپورٹ کے طور پر استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔
[ytembed videoid="aYVlD6NF7dc"]